چاند

ایک ضروری بات پہلے کر لی جائے۔ چاند زمین اور سورج عام طور پر ایک سیدھ میں نہیں ہوتے، ایسا کم کم ہی ہوتا ہے۔
اور جب ہوتا ہے تو کچھ ایسے کہ ۔۔۔۔۔
چاند آ گیا زمین اور سورج کے درمیان! سورج اس کی اوٹ میں ہو گیا (یا تو پورے کا پورا، یا پھر اس کا کچھ حصہ)۔ یہ کچھ منٹوں کی بات ہوتی ہے کہ سورج گہنا جاتا ہے۔ اس صورت کو سورج گرہن کہتے ہیں۔ سورج گرہن کی صورت پورے گلوب پر یکساں نہیں ہوتی۔ ایک تو یہ کہ سورج گرہن ہوتا ہی زمین کے اس حصے میں ہے جہاں دن ہو۔ اور جوں جوں ہم سورج چاند اور زمین کو ملانے والے خط سے ہٹتے جاتے ہیں (سورج گرہن میں) توں توں ہم چاند کی اوٹ سے سورج کا زیادہ حصہ دیکھ سکتے ہیں۔ حاصل یہ ہے کہ سورج گرہن جن علاقوں میں ہوتا ہے وہاں بھی ان کے محلِ وقوع کے مطابق کم زیادہ ہوتا ہے۔

سورج تو بہت دور ہے، وہ تو چاند اور زمین کے بیچ نہ آ سکتا ہے نہ سما سکتا ہے۔
 
یا پھر جناب، ایسا ہوا کہ ۔۔۔۔۔۔
زمین آ گئی چاند اور سورج کے درمیان۔ زمین کا سایہ چاند پر پڑنے لگا۔ کبھی تو اس سائے نے پورے بدر کو ڈھانپ لیا کبھی اس کے کچھ حصے کو، اور کبھی ایسے کہ بدر بھی ہمیں ہلال جیسا دکھائی دینے لگا۔ یہ چاند گرہن ہے۔ یہ بھی منٹوں کی بات ہوا کرتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔
 
سورج گرہن دن کے وقت ہوا کرتا ہے اور یا تو قمری مہینے شروع کے ایک دو دن میں یا پھر آخری ایک دو دن میں۔
چاند گرہن رات کے وقت ہوا کرتا ہے اور قمری مہینے کے وسط (لیالِ ابیض) میں ہوتا ہے۔ 13، 14، 15 تاریخ کہہ لیجئے۔ ان کو لیالِ ابیض (سفید تر راتیں؛ زیادہ چاندنی راتیں) اس لئے کہتے ہیں کہ ان راتوں میں چاند ایک گول ٹکیہ کی صورت دکھائی دیتا ہے۔ زیادہ باریکی میں جائیے تو مکمل بدر کی صورت چودھویں رات کو چند گھنٹوں کے لئے ہوتی ہے اور ایسی ہوتی ہے کہ چاند کی ٹکیہ کے کنارے زیادہ چمکدار دکھائی دیتے ہیں۔
 
یہ تو واضح ہو گیا کہ معمول میں چاند کی شکلیں زمین کے سائے کی وجہ سے نہیں بدلتیں کہ وہ تو چاند گرہن ہوتا ہے۔

اس کا معاملہ تھوڑا سا مختلف ہے۔
 
سورج بھی ساکن نہیں ہے (یہ بات پہلے بیان ہو چکی)، تاہم زمین اور چاند کے حوالے سے یہ اس لئے ساکن ٹھہرا کہ زمین اس کے گرد گھومتی ہے، اور چاند زمین کے گرد۔ ہمیں یہ مشرق سے مغرب کو بھاگتا دکھائی دیتا ہے تو یہ زمین کی محوری گردش کی وجہ سے ہے۔

اب ہم اپنی بات چیت کی حد تک سورج کو ساکن سمجھ لیتے ہیں۔ چاند زمین کے گرد گھومتا ہے تو زمین چاند اور سورج کے مابین ایک (ہمہ وقت بدلتا رہنے والا) زاویہ بنتا ہے جس کا نقطہء راس چاند کو جانئے (زاویہ ’’زچ س‘‘ یا ’’س چ ز‘‘) ہم اپنی سہولت کے لئے اسے ’’قمری زاویہ‘‘ کہے لیتے ہیں۔

سورج کی روشنی چاند اور زمین دونوں پر ایک ہی سمت سے پڑتی ہے۔

ہم مزید فرض کر لیتے ہیں کہ گرہن جیسی کوئی صورتَ حال نہیں اورقمری مہینے کے لمحہء آغاز میں (جب چاند کا زمین کے گرد اٹھائیس، ساڑھے اٹھائیس دن والا سفر شروع ہوتا ہے) قمری زاویہ ایک سو اسی درجے کا ہے۔
 
ہم مزید فرض کر لیتے ہیں کہ گرہن جیسی کوئی صورتَ حال نہیں اورقمری مہینے کے لمحہء آغاز میں (جب چاند کا زمین کے گرد اٹھائیس، ساڑھے اٹھائیس دن والا سفر شروع ہوتا ہے) قمری زاویہ ایک سو اسی درجے کا ہے۔

اس لمحہ میں ہمیں چاند دکھائی نہیں دیتا کیوں کہ اس کا روشن رُخ زمین سے پرلی طرف ہوتا ہے۔ چاند کا سفر شروع ہوتا ہے (جو در اصل جاری ہے: شروع ہونا ہم نے فرض کیا ہے) اور یہ سورج۔چاند۔زمین کے خطِ مستقیم سے پرے ہٹنے لگتا ہے۔ قمری زاویہ 168 ڈگری کے قریب ہوتا ہے تو چاند کے روشن رُخ یا 12 ڈگری کا حصہ ہمیں کمان کی سی صورت میں دکھائی دینے لگتا ہے۔ یہ پہلی رات کا چاند یا ’’ہلال ہے‘‘۔ اوپر بیان کی گئی اور آگے بیان ہونے والی ڈگریوں کو ’’تقریباً‘‘ کے زمرے میں رکھئے گا۔

چاند مذکورہ خطِ مستقیم سے مزید پڑے ہٹتا جاتا ہے اس کے رُخِ روشن کا مزید حصہ ہمیں نظر آنے لگتا ہے۔ چاند ہر شب واضح سے واضح تر ہوتا جاتا ہے۔
 
چاند مذکورہ خطِ مستقیم سے مزید پڑے ہٹتا جاتا ہے اس کے رُخِ روشن کا مزید حصہ ہمیں نظر آنے لگتا ہے۔ چاند ہر شب واضح سے واضح تر ہوتا جاتا ہے۔

حتٰی کہ ساتویں شب قمری زاویہ قائمہ (90 درجے کا) ہو جاتا ہے اور ہم چاند کے روشن حصے کا نصف دیکھنے لگتے ہیں جیسے ’’آدھی روٹی‘‘۔ یہ سات دن کا چاند ہے، یا سات رات کا چاند ہے، بات ایک ہی ہے۔ اس مقام پر چاند کے مہینہ بھر کے سفر کا بھی ایک چوتھائی طے ہو جاتا ہے۔ اور چاند کی دَوری (زمین کے گرد) گردش اس کو نقطہء آغاز والے خطِ مستقیم کی طرف موڑ دیتی ہے۔ اور قمری زاویہ گھٹنے لگتا ہے۔
تب ہمارے سامنے چاند کا روشن رُخ ہوتا ہے۔ لہٰذا جوں جوں قمری زاویہ گھٹتا ہے ہم اس روشن رخ کا زیادہ حصہ دیکھنے لگتے ہیں، یعنی نصف ٹکیہ سے زیادہ۔ یہاں تک کہ یہ زاویہ گھٹتے گھٹتے صِفر ہو جاتا ہے اور ہم اُس وقت چاند کی پوری ٹکیہ دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ یہ بدر ہے۔ یہاں چاند کا آدھا چکر اور قمری مہینے کا نصف ہو جاتا ہے۔

۔۔
 
ہم نے مہینے کے شروع میں دیکھا کہ چاند (ہمارے رُخ سے) دائیں طرف سے دکھائی دینا شروع ہوا تھا اور جوں جوں چاند ’’بڑا‘‘ ہوتا گیا، ہمیں اُس کا دایاں گول کنارہ نسبتاً زیادہ چمک دار کروی خط کی صورت دکھائی دیتا رہا، جب کہ چاند کی کمان کے اندر کی طرف ویسی ’’شارپ لائن‘‘ نہیں رہی۔ ٹھیک بدر بن جانے کی صورت میں یہ شارپ لائن پوری ٹکیہ کے گرد دکھائی دے گئی۔

بدر ہو کر بھی چاند کا سفر جاری ہے۔
 
بدر ہو کر بھی چاند کا سفر جاری ہے۔

مذکورہ خطِ مستقیم سے جب یہ آگے نکل گیا تو دائیں طرف کی شارپ لائن مدھم ہو گئی اور چاند کی ٹکیہ کا اسی طرف کا کچھ حصہ ہماری نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ کیوں؟ کہ اب ہم چاند کا تاریک حصہ بھی ’’دیکھ‘‘ رہے ہیں۔ کبھی یہ دکھائی دے بھی جاتا ہے پر عام طور پر نہیں۔

قمری زاویہ صفر سے بڑھ کر 12 ڈگری کا ہوا تو ہم نے واضح طور پر دیکھا کہ چاند کی ٹکیہ گول نہیں رہی۔ یہ چاند کے ’’گھٹنے کا عمل‘‘ ہے۔

چلئے صاحب، آدھا سفرتو طے ہوا بقیہ آدھے کے لئے کچھ تیزگامی سے کام لیں، یعنی تفصیلات میں جانے کی اب ویسی ضرورت نہیں رہی۔ چاند کی 21، 22 تاریخ کو ہم چاند کی ٹکیہ کو پھر آدھا دیکھتے ہیں، مگر اس کا رُخ 7 تاریخ والی ’’آدھی روٹی‘‘ کے الٹ ہے۔ 27، 28، 29 تاریخ تک ہمارے سامنے چاند کا تاریک رخ رہ جاتا ہے یعنی چاند دکھائی ہی نہیں دیتا۔ ان راتوں (27ویں، 28ویں، 29ویں شب) کو لیالِ اسود یعنی کالی راتیں بھی کہتے ہیں کہ ان میں چاند ہوتا تو ہے دکھائی نہیں دیتا۔

یہاں چاند کا چکر پورا ہوتا ہے اور وہ پھر اس خط پر زمین نے ساتھ 180 ڈگری کا زاویہ بناتا ہے اور پھر ۔۔۔

نئے قمری مہینے کا آغاز ہوتا ہے۔

سب کو ہر نیا چاند مبارک ہو!
 

عزیزامین

محفلین
سائے تو کب کے عنقا ہو چکے محترمی قیصرانی صاحب! سکائی سکریپرز کے اس دور میں دھوپ چھاؤں اب کہاں رہ گئی! ادھر فلیٹوں کے اندر تو ہوتی ہی مصنوعی روشنی ہے۔

ایک شعر جناب عزیزامین سے معذرت کے ساتھ:
لوگ قد آور ہو جائیں تو​
عنقا ہو جاتے ہیں سائے​
۔۔۔ زیادہ آداب۔
ایسی کوئی بات نہیں ہر شخص کو اپنی پسند کے بارے میں حق ہے
 

عزیزامین

محفلین
سب کو ٹیگ کر دیں شکریہ اور ایک قانون بنا دیں بلی کا اوتار یا تصاویر سخت منع ہے

آپ اس قانون کا مسودہ لکھئے۔ ہم اس کو uncles' and aunties' forum پر پیش کرتے ہیں۔
اس فورم کی صرف ایک شرط ہے کہ وہاں ہر مرد انکل اور ہر خاتون آنٹی ہے۔
 
Top