کہاوتوں کی کہانیاں (رؤف پاریکھ)

کہاوتوں کی کہانیاں
رؤف پاریکھ
ہمدرد نونہال ۱۹۹۰
یک نہ شد دو شد
اس کہاوت کے لفظی معنی تو یہ ہیں، "ایک نہ ہوا دو ہوئے۔" اور یہ اس وقت بولی جاتی ہے جب ایک مصیبت کے ساتھ دوسری مصیبت بھی سر پر آ پڑے۔
اس کہاوت کی کہانی یوں ہے کہ ایک شخص منتر پڑھ کر مردوں کو زندہ کرنے اور دوسرا منتر پڑھ کر انہیں دوبارہ مارنے کا جادو جانتا تھا۔ وہ مردوں کو زندہ کر کے ان سے باتیں کرتا اور پھر انہیں دوبارہ جادو کے زور سے قبر میں داخل کر دیتا۔ وہ شخص جب مرنے لگا تھ اس نے اپنے ایک شاگرد کو یہ جادو سکھا دیا۔ اس کے مرنے کے کچھ عرصے بعد شاگرد نے ایک قبر پر جا کر یہ منتر پڑھا اور مردے سے باتیں کیں، لیکن مردے کو دوبارہ قبر میں داخل کرنے کا منتر بھول گیا۔ شاگرد بہت گھبرایا اور جب گھبرا کر بھاگنے لگا تو وہ مردہ بھی اس کے پیچھے پیچھے آیا۔ اب وہ جہاں بھی جاتا مردہ اس کے پیچھے آتا۔ بہت کوشش پر بھی جب اسے منتر یاد نہ آیا تو اسے ایک ترکیب سوجھی۔ وہ استاد کی قبر پر پہنچا اور مردے کو زندہ کرنے کا منتر پڑھا اور استاد کے قبر سے نکلنے پر اس سے دوسرا منتر پوچھنے لگا، لیکن استاد صاحب ایسی دنیا میں پہنچ چکے تھے جہاں انہیں کوئی پچھلی بات یاد نہ تھی اور اب استاد کا مردہ بھی پہلے مردے کے ساتھ اس کے پیچھے پیچھے ہو لیا۔ نتیجہ یہ کہ شاگرد وہاں سے یہ کہہ کر بھاگا کہ، "یک نہ شد دو شد۔"

دودھ کا دودھ پانی کا پانی
اس کہاوت کا مطلب ہے انصاف ہونا اور یہ ایسے موقع پر بولی جاتی ہے جب سچ اور جھوٹ الگ ہوجائیں اور کسی کو اس کے اچھے یا برے کام کا بدلا ملے۔
اس کا قصہ یوں ہے کہ ایک گوالا بڑا بے ایمان تھا اور دودھ میں پانی ملا کر بیچا کرتا تھا۔ بہت جلد اس نے اچھے خاصے پیسے جمع کر لئے۔ ایک روز اس نے ساری رقم ایک تھیلی میں ڈالی اور اپنے گاؤں کی طرف چلا۔ گرمی کا موسم تھا۔ پسینہ چوٹی سے ایڑی تک بہہ رہا تھا۔ گوالے کے راستے میں ایک دریا پڑا۔ اس نے سوچا چلو نہا لیتے ہیں۔ رپوں کی تھیلی اس نے ایک درخت کے نیچے رکھی۔ تھیلی پر کپڑے ڈال دئیے اور لنگوٹ کس کر پانی میں کود پڑا۔ اس علاقے میں بندر بہت پائے جاتے تھے۔ اتفاق کی بات ایک بندر درخت پر چڑھا یہ ماجرا دیکھ رہا تھا۔ گوالے کے پانی میں اترتے ہی بندر درخت سے اترا اور رپوں کی تھیلی لے کر درخت کی ایک اونچی شاخ پر جا بیٹھا۔ گوالا پانی سے نکلا اور بندر کو ڈرانے لگا، لیکن بندر نے تھیلی کھولی اور رپے ایک ایک کر کے ہوا میں اڑانے لگا۔ درخت دریا کے کنارے سے بہت قریب تھا اور رپے اڑا اڑا کر پانی میں گرنے لگے۔ گوالے نے رپوں کو پکڑنے کی بہت کوشش کی، لیکن پھر بھی آدھے رپے پانی میں جا گرے۔ راستہ چلتے لوگ جو گوالے کی بے ایمانی سے واقف تھے اور یہ تماشہ دیکھنےجمع ہوگئے تھے گوالے کی چیخ و پکار سن کر کہنے لگے، "دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوگیا۔" یعنی گوالے نے جو آدھے پیسے دودھ میں پانی ملا کر بے ایمانی سے کمائے تھے وہ پانی میں مل گئے۔

بخشو بی بلی چوہا لنڈورا ہی بھلا
لنڈورا یعنی دم کٹا۔ مطلب یہ کہ کسی کام میں نقصان ہو جائے تو مزید نقصان سے بچنے کے لئے اس کام کو چھوڑ دینا چاہئے۔ یہ کہاوت اس وقت بولی جاتی ہے جب کوئی چالاک شخص اپنی چکنی چپڑی باتوں سے کسی کو دھوکا دینا چاہے اور وہ اس سے ایک دفعہ نقصان اٹھا چکنے کی وجہ سے دوبارہ اس کی باتوں میں نہ آئے۔
اس کا قصہ یہ ہے کہ ایک دفعہ ایک بلی نے ایک چوہے کو پکڑنے کے لئے چھلانگ لگائی۔ چوہا جھکائی دے کر بچ نکلا مگر پھر بھی بلی نے جاتے جاتے ایک پنجہ مار کر اس کی دم اکھیڑ لی۔ چوہا جان سلامت لے کر بل میں پہنچا تو خدا کا شکر ادا کیا اگرچہ اسے لنڈورا ہونے کا بے حد دکھ تھا۔ بلی بہت کائیاں تھی۔ اس نے ہاتھ آیا شکار جو یوں جاتے دیکھا تو ایک چال چلی۔ چوہے کے بل کے پاس جاکر بولی، "ارے بھانجے، تو تو مجھ سے خواہ مخواہ ہی ڈر گیا۔ میں تو تیری خالہ ہوں۔ تجھ سے مذاق کر رہی تھی۔ چل آ باہر آ! تیری دم جوڑ دوں۔ لنڈورا بہت برا معلوم ہوگا۔" مگر چوہا بھی بہت سیانا تھا۔ بلی کی نیت بھانپ کر بولا، "بخشو بی بلی میں لنڈورا ہی بھلا"

آپ کا نوکر ہوں بینگن کا نہیں
مطلب یہ کہ جس سے فائدہ پہنچے گا ہم اس کی ہاں میں ہاں ملائیں گے۔ یہ کہاوت اس وقت بولی جاتی ہے جب کوئی خوشامدی موقعے کے مطابق کسی بڑے کی ہاں میں ہاں ملائے اور اس کی اپنی کوئی رائے نہ ہو۔
اس کی کہانی یہ ہے کہ ایک بادشاہ کا وزیر بہت خوشامدی تھا۔ بادشاہ جو بھی کہتا وزیر فورا اس کی تائید کرتا۔ ایک دن بادشاہ نے کہا، "بیگن بہت اچھی ترکاری ہے۔"
وزیر کہنے لگا، "سرکار، بینگن کے کیا کہنے ہیں۔ ذائقے دار، خوبصورت۔ ترکاریوں کا بادشاہ ہے۔ حکیموں کا کہنا ہے بینگن کئی بیماریوں کا علاج ہے۔"
اگلے دن بادشاہ کسی اور موڈ میں تھا۔ بادشاہوں کا تو یہی حساب ہوتا ہے کہ پل میں ماشہ پل میں تولہ۔ کہنے لگے، "بینگن بری ترکاری ہے۔"
وزیر نے فورا ہاں میں ہاں ملائی اور بولا، "جی حضور، بینگن بھی بھلا کوئی ترکاری ہے۔ کالا منہ ہے۔ نہ شکل ہے نہ ذائقہ۔ حکیموں کا کہنا ہے کہ بینگن کھانے سے خون میں خرابی ہوجاتی ہے۔"
بادشاہ نے حیران ہو کر کہا، "کل جب میں بینگن کی تعریف کر رہا تھا تو تم بھی تعریف کر رہے تھے اور آج میری دیکھا دیکھی بینگن کی برائی کر رہے ہو؟"
وزیر نے جواب دیا، "جہاں پناہ، میں آپ کا نوکر ہوں بینگن کا نہیں۔"

ناؤ میں خاک اڑانا
ناؤ کا مطلب ہے کشتی۔ اب آپ کہیں گے کہ کشتی میں خاک یعنی مٹی بھلا کوئی کیسے اڑا سکتا ہے۔ یہ تو بے تکی بات ہوئی، تو جناب اس کہاوت کا مطلب ہے بے تکا بہانہ بنانا۔ یہ کہاوت ایسے موقعے پر بولی جاتی ہے جب کوئی شخص ایک نا حق بات کہے اور پھر اسے صحیح ثابت کرنے کے الٹے سیدھے بہانے تراشے یا کوئی کسی پر ظلم کرنے کے لئے بے تکی دلیل دے۔
اس کا قصہ بھی سنئیے۔ ایک کشتی میں شیر اور بکری اکٹھے دریا پار جارہے تھے۔ بکری کو دیکھ کر شیر کے منہ میں پانی بھر آیا۔ اس نے سوچا کہ کسی بہانے سے اسے ہڑپ کرنا چاہیے۔ آخر کوئی بہانہ نہ ملا تو بولا، "اے نالائق! ناؤ میں خاک کیوں اڑا رہی ہو؟ اگر میری آنکھ میں خاک چلی گئی تو؟"
بکری نے جواب دیا، "ناؤ میں بھلا خاک کہاں؟"
اس پر شیر بولا، "بد تمیز، زبان چلاتی ہے۔" اور اسے کھا گیا۔
 
الٹی گنگا بہانا
اس کہاوت کا مطلب ہے عقل کے خلاف بات کہنا یا رواج کے خلاف کرنا۔ جب کوئی شخص ایسی بات کہے جو بالکل الٹی اور کم عقلی کی بات ہو یا ناممکن ہو تو ایسے موقع پر یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔
اس کہاوت کی کہانی یہ ہے کہ ایک عورت بہت ضدی تھی۔ اس کا شوہر اس سے جو کہتا وہ اس کے برعکس کام کرتی۔ ایک روز شوہر نے تنگ آ کر کہا، "تم اپنی ماں کے گھر چلی جاؤ۔"
وہ بولی، "ہرگز نہیں جاؤں گی۔"
شوہر نے کہا، "اچھا مت جاؤ۔"
کہنے لگی، "ضرور جاؤں گی۔"
شوہر بولا، "کل جانا۔"
بولی، "ابھی اور اسی وقت چلی جاؤں گی۔"
شوہر نے کہا، "خود ہی جاؤ اکیلی۔"
کہنے لگی، "تم چھوڑنے چلو گے، اکیلی تو ہرگز نہیں جاؤں گی۔"
مجبوراً شوہر اس کے ساتھ ہولیا۔ دونوں چلے۔ راستے میں دریائے گنگا پڑتا تھا۔
شوہر نے کہا، "تم ٹھہرو میں کشتی لاتا ہوں۔"
عورت بولی، "کشتی نہیں چاہئے۔ میں تیر کر جاؤں گی۔"
شوہر نے اسے بہت سمجھایا کہ پانی گہرا ہے اور بہاؤ بھی تیز ہے، مگر اس ضدی عورت نے ایک نہ مانی اور پانی میں کود پڑی۔ ظاہر ہے ڈوبنا تو تھا ہی۔ پانی میں غوطے کھانے لگی اور پانی کے تیز بہاؤ کے ساتھ بہتی ہوئی جانے لگی۔ شوہر نے یہ دیکھا تو اسے بچانے کے لیے دوڑا، مگر بہاؤ کے ساتھ دوڑنے کے بجائے بہاؤ کی مخالف سمت کنارے کنارے بھاگنے لگا۔ ایک شخص یہ سارا ماجرا دیکھ رہا تھا۔ اس نے پوچھا، "وہ پانی کے ساتھ بہہ کر نیچے کی طرف گئی ہوگی، تم بہاؤ کے الٹ اوپر کیوں اسے پکڑنے جا رہے ہو؟"
اس پر اس نے جواب دیا، "تم اسے نہیں جانتے۔ وہ بہت ضدی ہے۔ یہاں بھی الٹی گنگا بہائے گی۔"

بھیگی بلی بن جانا یا بھیگی بلی بتانا
اس محاورہ کا مطلب ہے کمزور اور سیدھا سادہ بن جانا یا ڈر کر چپ ہو جانا۔ اسے یوں بھی بولتے ہیں بھیگی بلی بتانا۔ جس کا مطلب ہے سستی کی وجہ سے بہانہ کرنا، ٹالنا، کام نہ کرنے کے لیے کوئی بہانہ کر دینا، کام چوری کرنا۔ اگر کوئی شخص کام کو ٹالنے کے لیے کوئی بہانہ کرے تو کہا جاسکتا ہے، "یہیں پر بیٹھے بیٹھے بھیگی بلی بتا رہے ہو۔"
اس کا قصّہ یہ ہے کہ ایک صاحب نے اپنے نوکر سے لیٹے لیٹے پوچھا، کیا باہر بارش ہو رہی ہے؟
نوکر بھی چارپائی پر پڑ اینڈ رہا تھا۔ نیند آ رہی ہو تو کس کا جی اٹھنے کو چاہتا ہے۔
اس نے وہیں پڑے پڑے کہہ دیا، "ہاں جی ہو رہی ہے۔"
ان صاحب نے کہا، "تم عجیب آدمی ہو۔ باہر گئے نہیں اور دیکھے بغیر کہہ دیا کہ ہاں ہو رہی ہے۔"
نوکر نے جلد بہانہ کیا، "ابھی بلّی باہر سے آئی تھی۔ میں نے دیکھا تو وہ بھیگی ہوئی تھی۔"
 
حساب جوں کا توں کنبہ ڈوبا کیوں
مطلب یہ کہ تھوڑا علم خطرناک ہوتا ہے۔یہ کہاوت اس وقت بولی جاتی ہے جب کوئی شخص تھوڑا سا علم حاصل کر کے خود کو بہت قابل سمجھے اور جب اس علم پر عمل کرنے بیٹھے تو اپنی بے وقوفی کی وجہ سے نقصان اٹھائے، مگر نقصان کی وجہ اس کی سمجھ میں نہ آئے۔

اس کی کہانی یہ ہے کہ ایک صاحب زادے نے حساب کا علم سیکھنا شروع کیا۔ ایک روز استاد نے اوسط کا قاعدہ بتایا۔ انہوں نے اسے رٹ لیا۔ شام کو گھر گئے تو گھر والے دریا پار جانے کو تیار بیٹھے تھے۔ یہ حضرت بھی ساتھ ہو لیے۔ دریا کے کنارے پہنچنے پر گھر والوں نے کشتی تلاش کرنی شروع کی۔ یہ صاحب زادے اوسط کا قاعدہ پڑھ چکے تھے۔ جب کشتی والوں سے انہیں معلوم ہوا کہ دریا کناروں سے دو دو فٹ گہرا ہے اور درمیان میں آٹھ فٹ تو فورا دونوں کناروں کی گہرائی یعنی دو اور دو چار فٹ اور درمیان کی گہرائی آٹھ فٹ جمع کر کے کل بارہ فٹ کو تین پر تقسیم کر دیا۔ جواب آیا "اوسط گہرائی چار فٹ"۔ اس قاعدے سے تو دریا کی گہرائی بالکل کم تھی۔ اس لئے انہوں نے خوشی خوشی گھر والوں کو بتایا کہ کشتی کا کرایہ بچ جائے گا۔ بغیر کشتی کے بھی دریا پار کیا جا سکتا ہے۔ میں نے حساب لگا کر دیکھا ہے۔ اس دریا کی اوسط گہرائی چار فٹ ہے۔ یہ سن کر گھر والے دریا پار کرنے کو تیار ہو گئے۔ پورا کنبہ یعنی گھر والے سامان لے کر دریا میں کود پڑے اور دریا کے بیچ میں پہنچ کر آٹھ فٹ گہرے پانی میں ڈوبنے لگے۔ کشتی والوں نے بڑی مشکل سے انہیں بچایا۔ صاحب زادے پانی میں شرابور کنارے پر پہنچے تو دوبارہ حساب جوڑا۔ وہی جواب آیا۔

پریشان ہو کر بولے، "حساب جوں کا توں کنبہ ڈوبا کیوں؟"
 
اندھیر نگری چوپٹ راجا ۔۔۔۔ ٹکے سیر بھاجی ٹکے سیر کھاجا
بھاجی کا مطلب ہے پکی ہوئی سبزی اور ترکاری اور کھاجا ایک قسم کی مٹھائی کا نام ہے۔ اس کہاوت کا مطلب ہے کہ اگر حاکم بےوقوف یا نالائق ہو تو ملک میں لوٹ مار اور بے انصافی عام ہو جاتی ہے۔
یہ کہاوت عام طور پہ ایسے وقت بولی جاتی ہے جب کسی جگہ، ملک، شہر یا ادارے کے بارے میں یہ بتانا ہو کہ وہاں اچھے برے کی تمیز نہیں، بد نظمی ہے، لوٹ مار مچی ہوئی ہے اور کسی کے ساتھ انصاف نہیں ہوتا۔
اس کی کہانی یہ ہے کہ ایک گرو اور اس کا چیلا ایک ایسے شہر سے گزرے جہاں ہر چیز ٹکے سیر بکتی تھی۔ چاہے سبزی ہو یا مٹھائی۔ سستی سے سستی اور مہنگی سے مہنگی چیز کے دام ایک ہی تھے، یعنی ایک ٹکے کا ایک سیر۔
اتنا سستا شہر دیکھ کر چیلے کا جی للچا گیا۔ گرو سے کہنے لگا، "یہیں رہ جاتے ہیں۔ مزے مزے کی چیزیں خوب پیٹ بھر کر کھایا کریں گے۔"
گرو نے چیلے کو سمجھایا کہ ایسی جگہ رہنا ٹھیک نہیں جہاں اچھے اور برے میں کوئی فرق نہ نہیں، لیکن چیلا نہ مانا۔ گرو اسے وہیں چھوڑ کر آگے بڑھ گیا۔ ادھر چیلا مٹھائیاں اور روغنی کھانے کھا کھا کر خوب موٹا ہوگیا۔ ایک دن شہر میں ایک شخص کو کسی نے جان سے مار دیا۔ سپاہیوں نے قاتل کو بہت تلاش کیا لیکن اسے نہ پکڑ سکے۔ مرنے والے کے رشتے داروں نے راجا سے فریاد کی کہ ہمیں جان کا بدلہ جان سے دلایا جائے۔ راجا کو پتا چلا کہ قاتل کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔ اندھیر نگری تو تھی ہی اور سارا کام کاج تو ویسے بھی چوپٹ تھا۔ اس بےوقوف راجا نے حکم دیا، "کوئی بات نہیں، جان کا بدلہ جان سے لیا جائے گا۔ شہر میں جو آدمی سب سے موٹا ہو اسے پکڑ کر پھانسی دے دو۔ انصاف ہو جائے گا۔"
ٹکے سیر مٹھائی کھا کر موٹا ہونے والا چیلا ہی شہر میں سب سے موٹا نکلا۔ سپاہیوں نے اسے پکڑ لیا اور چلے پھانسی دینے۔ اتفاق سے گرو جی دوبارہ وہاں سے گزرے۔ چیلے نے انہیں دیکھ کر دہائی دی۔
گرو نے سارا معاملہ سن کر کہا، "میں تم سے پہلے ہی کہتا تھا یہاں رہنا ٹھیک نہیں۔ یہاں برے اور بھلے میں کوئی تمیز نہیں۔ خیر اب کوئی تدبیر کرتا ہوں۔"
یہ کہہ کر گرو نے سپاہیوں سے کہا، "اسے چھوڑ دو، مجھے پھانسی دے دو، تمھاری مہربانی ہوگی۔"
سپاہیوں نے حیران ہو کر پوچھا، "کیوں؟"
گرو نے جواب دیا، "اس لیے کہ یہ وقت موت کے لئے بہت اچھا ہے۔ اس وقت جو پھانسی لگ کر مرے گا وہ سیدھا جنّت میں جائے گا۔"
یہ سن کر سارے سپاہی پھانسی پر چڑھنے کو تیار ہو گئے۔
کوتوال نے یہ سنا تو کہا، "سب کو چھوڑو پہلے مجھے پھانسی دو۔"
اس طرح پورے شہر میں "مجھے پھانسی دو، مجھے پھانسی دو" کا شور مچ گیا۔
راجا کو پتا چلا تو اس نے کہا، "جنّت میں جانے کا پہلا حق میرا ہے۔ پہلے مجھے پھانسی دو۔"
پس راجا کو پھانسی دے دی گئی۔ اس طرح چیلے کی جان بچی اور گرو جی اسے لے کر بھاگے۔
یہ منہ اور مسور کی دال
اس کہاوت کا مطلب ہے کہ یہ منہ اس کام یا زمہ داری کے قابل نہیں اور اسی منہ سے کہتے ہو کہ ہم یہ کریں گے ہم وہ کریں گے۔ یہ کہاوت اس وقت بولی جاتی ہے جب کسی سے یہ کہنا ہو کہ تم نالائق ہو اور فلاں کام نہیں کر سکتے۔
اس کا قصّہ بھی سنیے۔ کہتے ہیں کہ کسی بادشاہ کا باورچی ایک نواب کے ہاں نوکر ہوگیا۔
نواب نے اس سے پوچھا، "تم کیا چیز سب سے اچھی پکاتے ہو؟"
وہ بولا، "مسور کی دال ایسی مزید ار پکاتا ہوں کہ جو کھاتا ہے انگلیاں چاٹتا رہ جاتا ہے۔"
نواب نے کہا، "اچھا کل ہمارے ہاں دعوت ہے۔ کل ہی مسور کی دال پکا کر دکھاؤ تو جانیں۔"
باورچی نے حامی بھر لی۔ اگلے روز شامیانہ بندھا۔ مہمان آئے۔ باورچی نے مسور کی دال طشتری میں نکال کر پیش کی۔ پورا شامیانہ مہک اٹھا۔ نواب صاحب آئے۔ دال چکھی۔ واقعی ایسی ذائقے دار اور مزیدار دال کبھی نہ کھائی تھی۔ اش اش کر اٹھے، لیکن تھے آخر کو کنجوس، خرچ کا خیال آگیا۔ بادشاہ ہوتے تو خرچ کی فکر نہ کرتے، لیکن باورچی بادشاہ کے محل میں کام کر چکا تھا۔ دل کھول کر خرچ کرنے کا عادی تھا۔ اس لےر جب نواب صاحب نے پوچھا کہ دال تو بہت مزے کی ہے، مگر خرچ کتنا اٹھا، تو باورچی کو بہت برا لگا۔
ضبط کر کے بولا، "دو آنے کی دال ہے، بتیس روپے کا مسالا ہے۔"
سستا زمانہ تھا۔ نواب صاحب اتنی مہنگی دال کا سن کر چیخ پڑے، "کیا کہا! بتیس روپے دو آنے کی مسور کی دال!"
باورچی تو بھرا بیٹھا تھا۔ طیش میں آکر جیب سے بتیس روپے دو آنے نکال کر رکھ دیے اور دال کا برتن زمین پر پٹخ دیا اور کہا، "اونھ! یہ منہ اور مسور کی دال۔"
یہ کہہ کر چلا گیا۔ کہتے ہیں کہ دال شامیانے کے جس بانس پر گری تھی وہ کچھ روز بعد مسالے کے اثر سے سر سبز ہوگیا اور اس طرح یہ کہاوت مشہور ہوگئی۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
واہ انیس بھائی میں نے یہ ساری کہاوتیں پڑھ رکھی ہیں۔ بہت ہی عمدہ اور اعلی دھاگہ ہے یہ۔ آپ مجھے براہِ مہربانی ٹیگ کر دیا کریں لازماً ایسے دھاگوں میں۔ بہت لطف آتا ہے۔
اچھا اک اور بات کہ سوچ رہا ہوں کہ ان کہاوتوں کو بھی جدت دی جائے۔ اجازت ہو تو طبع آزمائی کروں ان پر :)
 
واہ انیس بھائی میں نے یہ ساری کہاوتیں پڑھ رکھی ہیں۔ بہت ہی عمدہ اور اعلی دھاگہ ہے یہ۔ آپ مجھے براہِ مہربانی ٹیگ کر دیا کریں لازماً ایسے دھاگوں میں۔ بہت لطف آتا ہے۔
اچھا اک اور بات کہ سوچ رہا ہوں کہ ان کہاوتوں کو بھی جدت دی جائے۔ اجازت ہو تو طبع آزمائی کروں ان پر :)
بھائی آپ مجھ سے کسی قسم کی اجازت نہ لیا کریں یہ مشترکہ اکاؤنٹ کی طرح ہے۔ آپ جیسا چاہیں کریں۔:bighug:
 
ہم بھی ہیں پانچ سواروں میں
یہ کہاوت اس وقت بولی جاتی ہے جب کوئی شخص اپنے آپ کو زبردستی بڑے اور مشہور آدمیوں کے ساتھ شامل کرے یا تھوڑا اور چھوٹا کام کر کے مشہور ہونا چاہے۔
کہتے ہیں کہ چار آدمی گھوڑے پر سوار ہو کر دکن جا رہے تھے۔ ان کے پیچھے پیچھے ایک کمہار بھی گدھے پر سوار جا رہا تھا۔ کسی نے پوچھا، "یہ سوار کہاں جاتے ہیں؟"
اس پر کمہار نے خود کو بھی شامل کرتے ہوئے کہا، "ہم پانچوں سوار دکن کو جاتے ہیں۔"
 
چور کے گھر مور یا چور کو مور پڑنا
یعنی خود چور کے گھر چوری ہو گئی۔ یہ کہاوت اس وقت بولی جاتی ہے جب کوئی شخص بےایمان کے ساتھ بے ایمانی کرے یا کسی ٹھگ کو کوئی شخص ٹھگ لے۔
مور ایک ایسا پرندہ ہے جو چھوٹے موٹے سانپ کھا جاتا ہے۔ کہتے ہیں ایک چور نے ایک قیمتی ہار چوری کیا اور گھر میں لا کر ایک طرف ڈال دیا۔ گھر میں مور تھا۔ مور نے ہار کو سانپ سمجھ کر نگل لیا۔ چور نے یہ معاملہ دیکھا تو بولا، "بہت خوب! چور کے گھر مور۔"
اس کہاوت کو یوں بھی بولتے ہیں، "چور کو مور پڑ گئے۔"
 
اپنا الّو کہیں نہیں گیا
مطلب یہ کہ کوئی نقصان اٹھائے یا فائدہ ہمیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ہماری بات یوں بھی سچ ہے اور سچ رہے گی۔ یہ کہاوت اس موقع پر بولی جاتی ہے جب کسی بےوقوف آدمی سے اپنا مقصد پورا ہو جاتا ہے۔
اس کی کہانی یوں ہے کہ ایک بادشاہ کے دربار میں ایک اجنبی شخص آیا اور اس نے خود کو گھوڑوں کا بہت بڑا سوداگر ظاہر کیا۔ بادشاہ نے اسے ایک لاکھ روپیہ دیا اور کہا کہ ہمارے لیے عرب کی عمدہ نسل کے گھوڑے لے کر آنا۔ سوداگر روپیہ لے کر چلتا بنا۔ یہ بات ایک شخص کو معلوم ہوئی تو اس نے اپنے روز نامچے میں لکھا، "بادشاہ الّو ہے۔"
اس گستاخی پر بادشاہ نے اس شخص کو دربار میں طلب کر کے اس کی وجہ پوچھی تو وہ شخص کہنے لگا، "حضور! آپ نے ایک اجنبی سوداگر کو بغیر سوچے سمجھے ایک لاکھ روپیہ دے دیا ظاہر ہے کہ وہ اب واپس آنے سے رہا۔"
بادشاہ نے کہا، "اور اگر وہ واپس آ گیا تو؟"
اس شخص نے فوراً جواب دیا، "تو میں آپ کا نام کاٹ کر اس کا نام لکھ دوں گا۔ اپنا الّو کہیں نہیں گیا۔"
 
ٹیڑھی کھیر ہے
یعنی مشکل کام ہے۔ یہ کہاوت ایسے وقت بولتے ہیں جب کوئی ٹیڑھا اور بہت مشکل کام سر پر آن پڑے۔
اس کا قصّہ یہ ہے کہ ایک شخص نے کھیر پکائی۔ سوچا الله کے نام پر کسی فقیر کو بھی تھوڑی سی کھیر دینی چاہیے۔ اسے جو پہلا فقیر ملا وہ اتفاق سے نابینا تھا اور اس فقیر نے کبھی کھیر نہیں کھائی تھی۔ جب اس شخص نے فقیر سے پوچھا، "کھیر کھاؤ گے؟"
تو فقیر نے سوال کیا، "کھیر کیسی ہوتی ہے؟"
اس شخص نے جواب دیا، "سفید ہوتی ہے۔"
اندھے نے سفید رنگ بھلا کہاں دیکھا تھا۔ پوچھنے لگا، "سفید رنگ کیسا ہوتا ہے؟"
اس شخص نے کہا، "بگلے جیسا۔"
فقیر نے پوچھا، "بگلا کیسا ہوتا ہے؟"
اس پر اس شخص نے ہاتھ اٹھایا اور انگلیوں اور ہتھیلی کو ٹیڑھا کر کے بگلے کی گردن کی طرح بنایا اور بولا، "بگلا ایسا ہوتا ہے۔"
نابینا فقیر نے اپنے ہاتھ سے اس شخص کے ہاتھ کو ٹٹولا اور کہنے لگا، "نہ بابا یہ تو ٹیڑھی کھیر ہے۔ یہ گلے میں اٹک جائے گی۔ میں یہ کھیر نہیں کھا سکتا۔"
 
اونٹ کے گلے میں بلّی
مطلب یہ کہ فالتو چیز کی قیمت کام کی چیز سے زیادہ ہے۔ یہ ایسے وقت بولتے ہیں جب کوئی شخص ضروری چیز کے ساتھ غیر ضروری چیز خریدنے کی شرط رکھے یا ایک مفید کام کے ساتھ نقصان دہ کام لازم ہو جائے۔
اس کہاوت کی کہانی یہ ہے کہ ایک شخص کا اونٹ کھو گیا۔ اس نے اونٹ کو بہت تلاش کیا۔ سارا شہر چھان مارا پر اونٹ کا کہیں پتا نہ چلا۔ اس پر اسے اتنا غصّہ آیا کہ قسم کھالی کہ اگر اونٹ مل گیا تو ایک رپے میں بیچ دوں گا۔ یہ بات چاروں طرف پھیل گئی۔ الله کا کرنا یہ ہوا کہ جلد ہی اس کا اونٹ مل گیا۔ لوگوں کو پتہ چلا تو اس کا اونٹ ایک رپے میں خریدنے اس کے گھر پہنچے۔ اب تو وہ شخص بہت گھبرایا۔ ایک دوست سے مشورہ کیا۔ اس عقلمند دوست نے اسے مشورہ دیا، "اونٹ کے گلے میں لمبی سی رسّی باندھو اور رسّی کے دوسرے سرے پر ایک بلّی باندھ دو۔ اونٹ کی قیمت تو بےشک ایک ہی روپیہ رکھو، لیکن بلّی کی قیمت ایک سو روپیہ رکھو۔ خریدار کے لیے ضروری ہو کہ وہ اونٹ کے ساتھ بلّی بھی خریدے۔ صرف اونٹ اکیلا نہیں بیچا جائے گا۔"
اس نے ایسا ہی کیا۔ جب لوگوں نے یہ سنا تو ہنستے ہوئے یہ کہہ کر اپنے گھروں کو لوٹ گئے کہ یہ تو اونٹ کے گلے میں بلّی ہے۔ اور یہ کہاوت مشہور ہو گئی۔
 
انیس بھائی، بہت ہی عمدہ سلسلہ ہے، اسے جاری رکھئے اور ہمیں بھی ٹیگ کردیا کیجئے پلیز۔
عاطف بٹ بھائی سلسلہ مکمل ہو گیا۔۔:(
تین شماروں میں ہی آئی تھیں۔
باقی اس سلسلے کی کوئی تحریر ملی تو ضرور پوسٹ کروں گا۔
 

عاطف بٹ

محفلین
عاطف بٹ بھائی سلسلہ مکمل ہو گیا۔۔:(
تین شماروں میں ہی آئی تھیں۔
باقی اس سلسلے کی کوئی تحریر ملی تو ضرور پوسٹ کروں گا۔
میرے پاس Aesop's Fables پڑی ہے۔ فرصت ملتی ہے تو اسے ترجمہ کر کے یہاں پیش کروں گا انشاءاللہ!
 
Top