بخاری محدث کے بارے میں ایک کتاب : قرآن مقدس اور بخاری مقدس

فرسان

محفلین
جوحضرات صدق نيت سے جواب كي تلاش ميں ہیں ميں ان سے معذرت چاهتا هوں كه ابھی تك جواب نهيں ديا۔

وجه صرف اور صرف يه هے كه اس محفل كا مزاج يه ہے کہ جهاں كوئي تاسف اور تعزيت كي خبر ہو وهاں بھی اعتراض كرتے جاؤ۔

ميرا اور هر صاحب دليل كا يه حق ہے كه دلائل كو فضول اعتراضات كرنے والوں سے بچایا جائے اور اسي سلسلے ميں ان معترضين حضرات سے چند امور قبل از دلائل طے كر لينا لازمي هيں۔

يه جواب ديں كه

كيا حضرت علي رضي الله عنه يوم حديبيه رسول الله صلى الله عليه وسلم کے كاتب تھے؟؟؟؟ هاں يا نهيں؟؟؟

اگر تھے تو كيا لفظ "رسول الله" مٹانے كا حكم هوا؟؟؟؟ هاں يا نهيں؟؟؟

آپ بات گھمائے بنا صرف يه بتائيں كه كيا سيدي صلى الله عليه وسلم حضرت علي كو يا كسي اور صحابي كو ( رضي الله عنهم اجمعين ) ايسي بات كا حكم دے سكتے ہیں جو ايمان كي كجي كي دليل هو( نعوذ بالله) ؟؟؟؟؟؟ هاں يا نهيں؟؟؟
 

فرسان

محفلین
اگر ان کی جگہ کوئی دوسرے ایسے صحابی ہوتے جو " اللہ کے رسول " کو اپنی جان کے علاوہ دیگر ہر دوسری چیز سے پیارا رکھتے تھے وہ شاید اسے مٹانے میں تاخیر نہ کرتے ۔

اهل علم جانتے ہیں كه مذكوره بالا عبارت ميں كس جليل القدر صحابي كو غمز كيا گيا هےِ۔ غمز كا مطلب عام لفظوں ميں طعنه زني يا طنز كرنے كے هوتے ہیں۔ اس مردود عبارت والي پوسٹ پر يه پوسٹ لکھنے کے وقت تک بعض لوگوں كی اتفاق يا پسندیدگی کی ريٹنگ موجود تھی۔ يعني وه اس طعنه زده عبارت سميت پوري پوسٹ پر راضي اور معاون ہیں۔


يه ميري ذيل كي عبارت كي واضح ترين دليل هے كه


اگر حضرت علي كرم الله وجهه كي جگه كوئي اور صحابي هوتے جو اس لفظ كو مٹانے ميں تامل كرتے تو آج ان پر طرح طرح كے اعتراضات "بعض جهات" كي طرف سے خوب هو رهے هوتے جس ميں بعض "عقلاء" بھي شامل هوتے۔
 

فرسان

محفلین
اب ذرا اپنے الفاظ کا جائزہ لیجئے کہ 33 سالہ خاک چھانتے ہوئے آپ نے کتنا ادب سیکھا !!


دین سراپا سوختن اندر طلب
انتہایش عشق و آغازش ادب
آبروی گل ز رنگ و بوی اوست
بے ادب ، بے رنگ و بو ، بے آبروست
نوجوانے را چو بینم بے ادب
روز من تاریک می گردد چو شب

اور جهاں نوجوان كي بجائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

فرسان

محفلین
ٹیگنگ کا شکریہ ۔
جناب والا۔ آپ کے علم کے تو ہم شیدائی ہوجاویں گے اگر مزید اس قسم کے سوالات سے واسطہ پڑے گا۔ ذرا اپنا انداز تکلم تو ملاحظہ فرمائیں ؟؟ کہ کن نفوس کے متعلق ایسی زبان استعمال کر رہے ہیں ؟؟؟ یا للعجب ، متاع دین و دانش لٹ گئی اللہ والوں کی !
آپ کے سوال کا جواب تو آپ کو مل ہی جائے گا ذرا یہ بتلادیجئے کہ کیا صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم سیدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی قسم کی تکلیف پہنچنانے کا تصور بھی کرسکتے تھے ؟؟؟ حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کا جواب ملاحظہ فرمائیں کہ سولی پر کھڑے ہوتے ہوئے بھی فرمایا کہ مجھے یہ گوارا نہیں کہ آقا علیہ السلام کو کانٹا بھی چبھے ۔
اب ذرا اپنے الفاظ کا جائزہ لیجئے کہ 33 سالہ خاک چھانتے ہوئے آپ نے کتنا ادب سیکھا !!

اس پوسٹ پر يهي ياد آيا كه


جوانوں کو پيروں کا استاد کر
 
بلا شبہ " علم الحدیث " کی ان اصطلاحات بارے میرے سارے جواب غلط ہیں ۔
کاش کہ آپ میرے غلط جوابوں کی با دلیل درستگی کرتے علم کو پھیلاتے ۔ بجائے علم پھیلانے کے آپ صرف تماشے سے لطف لینے والے نکلے ۔
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
محترم جب آپ کو اصطلاحات کا علم نہ تھا تو آپ نے وہ سرقہ کیا ہی کیوں ؟؟؟؟
یعنی آپ علمی بددیانتی کے مرتکب ہوئے ۔۔۔یہ تو ہے آپ کا مبلغ علم ۔آپ قرآن کی تعلیمات کا نعرہ لگاتے ہیں لیکن اس کی تعلیمات کے الٹ افعال کرتے ہیں ۔ اب آپ سے کیا علمی بحث کی جائے جب کہ آپ بددیانت واقع ہوئے ہیں۔ آپ کیلئے (پلس شاکرالقادری میاں) کیلئے قرآن مجید کی یہ آیت کافی ہے۔
وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا ( اسراء -36 )
اور (اے بندے) جس چیز کا تجھے علم نہیں اس کے پیچھے نہ پڑ۔ کہ کان اور آنکھ اور دل ان سب (جوارح) سے ضرور باز پرس ہوگی۔
لیکن میرے محترم بھائی میں نے چاہا کہ ذرا آپ کے " بحر علم " میں غلط بیانی کر دیکھوں کہ " کہیں خالی گھڑا ہی تو نہیں اونچی تھاپ دے رہا ۔
جناب نے چاہا کہ میں بھی دیکھوں کہ میری طرح سرقہ بازی تو نہیں کی جارہی لیکن

جی ہاں حقیقت کھل کے سامنے آگئی کہ یہاں صرف کاپی پیسٹ کے ماہر نہیں بیٹھے اور خالی گھڑا تو ہم نے بھی دیکھ لیا کہ کس کی اونچی تھاپ دے رہا ہے !!! ۔ آُ پ کو اصطلاحات کا علم نہیں، چلیں ہیں احادیث کی حیثیت کو مشکوک کرنے !! دعویٰ بےجا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور !!!
انسانوں کے کلام کو چھوڑ کر صرف رب سچے کے کلام کو اختیار کرنا ہی بہتر عمل ہے ۔
پھر سب سے پہلے آپ یہ عمل خود پر لاگو کیوں نہیں کرتے ؟ جلد از جلد سورہ اسراء کی آیت 36 میں ذکر کردہ حکم کو بجا لایئے ۔اور ہاں ،
ہم "انسانوں'' کے کلام کو نہیں رہبر انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام مقدس کو قرآن کے بعد فوقیت دیتے ہیں اور اسی کو دیں گے۔ ان شاء اللہ
 

نایاب

لائبریرین
یہ سب ’’مواد‘‘ کس جگہ سے کاپی کر کے یہاں فٹ کرلیا ہے جناب ِ نایاب صاحب ؟؟؟
اول تو یہ آپ کی تحریر نہیں ، دوسرا موضوع سے ہٹی ہوئی بات ہے ۔
آپ سے جو سوال کیے گئے ہیں ، ان کا جواب تو آپ سے بن نہیں پا رہا۔
آپ نے جواصطلاحات احادیث کے "مبنی بر تکے ‘‘ (ت پر پیش ہے نہ کہ زیر :D ) جواب دیے ہیں ، وہ تو میں نے پڑھے جس سے صاف ظاہر ہوگیا کہ یہ پورا بیان سرقہ ہے۔ غالبا کسی دیوبندی مولوی صاحب کی کتاب یا کم از کم انہی کے حلقے کے کسی شخص کی تحریر ہے ۔
اب تو بتا دیں کہ کہاں سے اٹھایا ہے ؟؟
جناب شاکرالقادری ! کتابوں کی گرد ہی چھانی ہے یہ تو معلوم ہوگیا۔ کاش کہ ان کتابوں کو کسی استاد سے سمجھ کر پڑھ لیتے !
میرے محترم بھائی
اگر تو آپ کو " کاپی پیسٹ " کا شک ہے تو ثبوت آپ کے ذمے ۔
یہ مختلف سوال اور جواب ہیں جو کہ اکٹھے کر کے اک " گفتگو " کی صورت آپ جیسی صاحب علم ہستیوں کے آگے رکھتے ان کا مدلل " رد " چاہا تھا ۔
لیکن آپ جیسی صاحب علم ہستیوں کے "ردعمل " نے انہیں مزید پختگی عطا کر دی ۔ یہ سوال و جواب اک " تفکر و تدبر " کی حامل ہستی کی جانب سے ہیں ۔ جو کہ صرف " مسلمان " کہلانا پسند کرتی ہے ۔ اس لیئے مناسب ہوگا کہ کسی بھی فرقے کے عالم کو اس کی نسبت سے دور رکھا جائے ۔
آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ تحریر " میری " نہیں ۔ اور " موضوع " سے بالکل بھی ہٹی ہوئی نہیں ہے ۔ بلکہ آپ ہی موضوع سے ہٹ رہے ہیں ۔
" اصطلاحات " کے تکے آپ جیسی محترم صاحب علم ہستیوں کے سامنے جان بوجھ کر " اٹکل پچو اجتہادی " کوئلوں پر بھون کر رکھے تھے ۔ تاکہ سمجھنے والے جان سکیں کہ " قیاسی و اجتہادی " تکے کیسی کیسی خوشبو بکھیرتے ہیں ۔ افسوس کہ ان اصطلاحات جو کہ قران کے مقابلے تعمیر کی گئی اک کمزور عمارت کے بودے ستون ہیں ۔ ان کے معنی و مطالب آپ صاحب علم مناظرین سے بھی اوجھل ہیں ۔
ان " اصطلاحات " کے بارے میرے محترم بھائی 24 گھنٹے کا وقت دے رہے ہیں ۔ سبحان اللہ کتنے سادہ و معصوم ہیں ۔ میں ان کے وہ معنی جو کہ ان کو " اجتہادی " طور پر خود سے تخلیق کرنے والوں نے " بزعم خود " قرار دے رکھے ہیں ۔ ابھی تحریر کر دوں ۔لیک ان کی معتبریت کچھ بھی نہیں ۔ یہ " روایات " کے خوگر انسانوں نے اپنی روایات کے " راویوں " کو مستند و معتبر بنانے کے لیئے وضع کیئے ہیں ۔
میرے لیئے میرا اللہ ہی کافی و شافی ہے ۔
آپ چاہیں تو " شیاطین " سے مدد لے سکتے ہیں ۔
آپ كے پاس اس پوسٹ کے لکھے جانے کے بعد سے لے كر 24 گھنٹہ كا وقت ہے كه خود يا كسي معاون (جن وانس وشياطين) سے پوچھ كر ان پانچ اصطلاحات كا مطلب لكھ ديں۔
ورنه ميں يهي تصور كركے خود ان كے جواب لکھوں گا كه آپ كو جواب نهيں آتے۔
المعضل
المدبج
السابق واللاحق
المتفق والمفترق
المؤتلف والمختلف
 

نایاب

لائبریرین
جوحضرات صدق نيت سے جواب كي تلاش ميں ہیں ميں ان سے معذرت چاهتا هوں كه ابھی تك جواب نهيں ديا۔

وجه صرف اور صرف يه هے كه اس محفل كا مزاج يه ہے کہ جهاں كوئي تاسف اور تعزيت كي خبر ہو وهاں بھی اعتراض كرتے جاؤ۔

ميرا اور هر صاحب دليل كا يه حق ہے كه دلائل كو فضول اعتراضات كرنے والوں سے بچایا جائے اور اسي سلسلے ميں ان معترضين حضرات سے چند امور قبل از دلائل طے كر لينا لازمي هيں۔

يه جواب ديں كه

كيا حضرت علي رضي الله عنه يوم حديبيه رسول الله صلى الله عليه وسلم کے كاتب تھے؟؟؟؟ هاں يا نهيں؟؟؟

اگر تھے تو كيا لفظ "رسول الله" مٹانے كا حكم هوا؟؟؟؟ هاں يا نهيں؟؟؟

آپ بات گھمائے بنا صرف يه بتائيں كه كيا سيدي صلى الله عليه وسلم حضرت علي كو يا كسي اور صحابي كو ( رضي الله عنهم اجمعين ) ايسي بات كا حكم دے سكتے ہیں جو ايمان كي كجي كي دليل هو( نعوذ بالله) ؟؟؟؟؟؟ هاں يا نهيں؟؟؟
میرے محترم بھائی اس پر بھی بات ہو گی ضرور ہوگی ۔ ان شاءاللہ
پہلے آپ محترم شاکر القادری کے اٹھائے سوالات " قلم و قرطاس " بارے جوابات عنایت کر دیں ۔
پہلے بات اس " قلم و قرطاس " کی ہے ۔ پھر ضمنی طور پر " صلح حدیبیہ " کا ذکر ہوا ۔
آپ پہلی بات مکمل کیجئے ۔ ان شاءاللہ دوسری بات میں مکمل کر دوں گا ۔
جب تک آپ کے مدلل اور مکمل جوابات نہیں آ جاتے " قلم و قرطاس " بارے ۔
آپ کے سوالات " معلق " رہیں گے ۔
 

فرسان

محفلین
میرے محترم بھائی اس پر بھی بات ہو گی ضرور ہوگی ۔ ان شاءاللہ
پہلے آپ محترم شاکر القادری کے اٹھائے سوالات " قلم و قرطاس " بارے جوابات عنایت کر دیں ۔
پہلے بات اس " قلم و قرطاس " کی ہے ۔ پھر ضمنی طور پر " صلح حدیبیہ " کا ذکر ہوا ۔
آپ پہلی بات مکمل کیجئے ۔ ان شاءاللہ دوسری بات میں مکمل کر دوں گا ۔
جب تک آپ کے مدلل اور مکمل جوابات نہیں آ جاتے " قلم و قرطاس " بارے ۔
آپ کے سوالات " معلق " رہیں گے ۔

اگر آپ " صلح حدیبیہ "پر بات كرنے والے ہوتے تو ابھی کرتے۔
مجھے آپ سے علمي گفتگو کرنے ميں بهت دقت آئي ہے كيونكه مجھے پہلے آپ کو پڑھانا پڑتا ہے اور پھرپوچھنے پر بھی آپ غلط جواب دے ديتے ہیں اور اس طرح میرا وقت كا ضياع هي هوتا هے۔

لهذا اگر بات كرني هے تو ابھی کر لیں بعد ميں يه فقير التفات نه كر پائے گا۔ والسلام على من اتبع الهدى
 
محترم جب آپ کو اصطلاحات کا علم نہ تھا تو آپ نے وہ سرقہ کیا ہی کیوں ؟؟؟؟
یعنی آپ علمی بددیانتی کے مرتکب ہوئے ۔۔۔ یہ تو ہے آپ کا مبلغ علم ۔آپ قرآن کی تعلیمات کا نعرہ لگاتے ہیں لیکن اس کی تعلیمات کے الٹ افعال کرتے ہیں ۔ اب آپ سے کیا علمی بحث کی جائے جب کہ آپ بددیانت واقع ہوئے ہیں۔ آپ کیلئے (پلس شاکرالقادری میاں) کیلئے قرآن مجید کی یہ آیت کافی ہے۔
وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا ( اسراء -36 )
اور (اے بندے) جس چیز کا تجھے علم نہیں اس کے پیچھے نہ پڑ۔ کہ کان اور آنکھ اور دل ان سب (جوارح) سے ضرور باز پرس ہوگی۔
جناب نے چاہا کہ میں بھی دیکھوں کہ میری طرح سرقہ بازی تو نہیں کی جارہی لیکن

جی ہاں حقیقت کھل کے سامنے آگئی کہ یہاں صرف کاپی پیسٹ کے ماہر نہیں بیٹھے اور خالی گھڑا تو ہم نے بھی دیکھ لیا کہ کس کی اونچی تھاپ دے رہا ہے !!! ۔ آُ پ کو اصطلاحات کا علم نہیں، چلیں ہیں احادیث کی حیثیت کو مشکوک کرنے !! دعویٰ بےجا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور !!!
جزاک اللہ خیرا بھیا ۔ واٹر کٹ انجینئرنگ کا زمانہ ہے۔ پانی پر کاریں چل رہی ہیں ، اور محدثین کی تمام اصطلاحات خام بتائی جا رہی ہیں ، آپ نے اور دوسرے برادران نے کلمہ حق کہہ کر اپنا فریضہ ادا کر دیا ۔ عوامی فورم پر اتنا ہی ’علمی ‘ مباحثہ ہو سکتا ہے ۔
یہ آیت مبارکہ ہمارے لیے ہی اتری ہے ، اور ہمارے عمل کی منتظر ہے ۔ کاش کہ ہم ہر علم و فن کے ماہرین سے رجوع کی عادت ڈالیں ، شعر گوئی میں شاعر کی طرف دیکھیں ، ادبی معاملات میں ادیب کی مان لیں ، دینی معاملات میں مستند دینی عالم کی سنیں اور بیمار ہوں تو مستند طبیب سے دوا لیں ۔ ورنہ ہمارا مرض جہالت روز افزوں ترقی کرتا رہے گا اور ہم ابلیس کو اہل علم کا سردار سمجھ کر علم دشمنی پھیلاتے رہیں گے ۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
ٹیگنگ کا شکریہ ۔
جناب والا۔ آپ کے علم کے تو ہم شیدائی ہوجاویں گے اگر مزید اس قسم کے سوالات سے واسطہ پڑے گا۔ ذرا اپنا انداز تکلم تو ملاحظہ فرمائیں ؟؟ کہ کن نفوس کے متعلق ایسی زبان استعمال کر رہے ہیں ؟؟؟ یا للعجب ، متاع دین و دانش لٹ گئی اللہ والوں کی !
آپ کے سوال کا جواب تو آپ کو مل ہی جائے گا
ذرا یہ بتلادیجئے کہ کیا صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم سیدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی قسم کی تکلیف پہنچنانے کا تصور بھی کرسکتے تھے ؟؟؟ حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کا جواب ملاحظہ فرمائیں کہ سولی پر کھڑے ہوتے ہوئے بھی فرمایا کہ مجھے یہ گوارا نہیں کہ آقا علیہ السلام کو کانٹا بھی چبھے ۔
اب ذرا اپنے الفاظ کا جائزہ لیجئے کہ 33 سالہ خاک چھانتے ہوئے آپ نے کتنا ادب سیکھا !!

محترم المقام کفایت ہاشمی !
پہلی بات تو یہ ہے کہ میں بھی اردو جانتا ہوں اور آپ بھی کسی کوہ قاف میں بولی جانے والی زبان نہیں بولتے میرے سوال میں سے آپ وہ الفاظ دکھا دیں جن کی بنا پر آپ نے فتویٰ دیا ہے کہ میں نے نفوس قدسیہ کے بارے میں گستاخانہ طرز تکلم اختیار کرکے متاع دین و دانش لٹوادی۔

دوسری بات! یہ کہ میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم سیدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی قسم کی تکلیف پہنچنانے کا تصور بھی کرسکتے تھے ؟؟؟
اور یہی میرا ایمان ہے کہ صحابہ کی جانب سے ایسی کوئی بات نہیں تھی

اسی لیے میں نے کہا تھا:
  • البتہ محمود احمد غزنوی کی یہ بات دل کو لگتی ہے کہ ہم جناب فاروق اعظم رضی اللہ عنہ جیسی عظیم شخصیت کے بارے میں اپنے ذہن کو صاف رکھتے ہوئے اس روایت کو ہی درایت کے اصول کے ساتھ رد کر دیں۔ لیکن اس سے بخاری شریف پر حرف آجائے گا اور اس کی صحت میں کلام ہو جائے گا پھر آپ مطمئن نہیں ہونگے۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ میں ناموس رسالت اور ناموس فاروق اعظم کو اختیار کروں یا ناموس بخاری کو خاطر میں لاؤں۔۔۔ ۔۔۔ ؟
لیکن یہ مختلف "جہات" سے ایسی کج فکری سامنے آئی جس سے یہ تاثر کھل کر سامنے آیا کہ نہ تو یہاں پر کسی کو ناموس رسالت کی پروا ہے اور نہ ہی ناموس فاروق اعظم کا احساس ۔۔ سارے کا سارا زور بخاری کی روایت کو درست ثابت کرنے پر صرف ہورہا ہے کہ کہیں یہ ثابت نہ ہو جائے کہ بخاری بھی تو ایک انسان تھے اور بہ تقاضائے بشری خطا ان سے بھی خطا کا صدور ممکن ہے۔ میرے دل کو تو محمود احمد غزنوی کی بات پسند آئی اور میں نے اسے تسلیم کر لیا۔ لیکن چونکہ اس سے "کچھ لوگوں" کے موقف پر حرف آتا تھا اس لیےانہوں نے اس کو تسلیم نہیں کیا۔اس لیے میرے سوالوں کا جواب دینا ان کی ذمہ داری ہے جو بخاری کی اس روایت کو درست بھی تسلیم کرتے ہیں اور صحابہ کی جانب سے رسول خدا کو تکلیف پہنچانا بھی نہیں مانتے۔ اب انکا یہ فض بنتا ہے کہ میرے سوال کا جواب دیں اور بتائیں کہ بیک وقت دو متضاد باتیں کیسے درست ہو سکتی ہیں۔
لیکن اس کج فکری اور کج ذہنی کا نتیجہ یہ ہوا کہ میرے ہر مراسلہ کو آپ نے اور ام نورالعین نے نفس مضمون کا مطالعہ کیے بغیر ہی نا پسند اور غیر متفق کا سرٹیفیکیٹ عطا کرنا شروع کر دیا۔ لیکن میرے سوال کا جواب نہیں دیا جا سکا ۔۔۔ اللہ کرے کہ آپ کا یہ کہنا پورا ہو جائےکہ"
آپ کے سوال کا جواب تو آپ کو مل ہی جائے گا
آپ مجھے تو گستاخ اور راندہ درگاہ قرار دے سکتے ہیں لیکن آپ کو پتہ نہیں کہ فتنہ انکار حدیث اسی واقعہ قرطاس و قلم کو بنیاد بنا کر شروع ہوا تھا۔ غلام احمد پرویز۔۔۔۔۔ نے انہی الفاظ کو اپنا موٹو بنایا ہے:
حسبنا کتاب اللہ
اور اسی جملہ سے وہ ثابت کرتے ہیں کہ حدیث کی ضرورت نہیں قرآن ہی کافی ہے
اگر ایک مسلمان سوال کرے تو اسے تو آپ یہ کہہ لیں گے کہ تمہاری متاع دین و دانش لٹ گئی، لیکن اگر یہ سوال کوئی غیر مسلم کرے تو آپ کے پاس کیا جواب ہے۔
میں نے تو "صاحبان علم" سے سوال کیا تھا۔ اگر وہ مجھے شافی جواب دینے کی بجائے میرے سوال کو نا پسند کریں اور مجھے دھتکار دیں اور جواب نہ دے سکیں تو مجھے بتایئے میں اپنی متاع دین و دانش لٹ جانے پر افسوس کروں یا "صاحب علم" کی علمیت پرماتم کروں۔ جو آئیں بائیں شائیں تو کیئے جا رہا ہے لیکن جواب نہیں دے رہا اور سوال کرنے والے کو گستاخ پہ گستاخ کہتا چلا جا رہا ہے میں آپ ہی کے الفاظ کو آپ کی طرف لوٹاتا ہوں؟؟؟ یا للعجب ،
متاع دین و دانش لٹ گئی اللہ والوں کی !

اور اپنا سوال پھر دہراتا ہوں:
س مجھے اتنا بتا دیجیئے کہ قلم و قرطاس والے واقعہ میں نبی کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے الفاظ :
  • " قوموا عنّی و لاینبغی عندی التنازع
میرے سامنے سے اٹھ کر چلے جاو که میرے سامنے جھگڑا اور کشمکش مناسب نهیں هے

یا
  • ذرونی فالذّی أنا فیه خیر ممّا تدعونی إلیه
مجھے اپنے حال پر چھوڑ دو ؛ کیونکه جو اس وقت میری حالت هے ، وه اس سے بهتر هے که تم لوگ مجھے جس کی طرف بلاتے هو
سے پسندیدگی کا تاثر ملتا ہے یا ناگواری کا ۔۔۔ ۔۔۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اذیت میں اضافہ ثابت ہو رہا ہے یا آرام و سکون ملنا۔؟
 

فرسان

محفلین
کاش کہ ہم ہر علم و فن کے ماہرین سے رجوع کی عادت ڈالیں ، شعر گوئی میں شاعر کی طرف دیکھیں ، ادبی معاملات میں ادیب کی مان لیں ، دینی معاملات میں مستند دینی عالم کی سنیں اور بیمار ہوں تو مستند طبیب سے دوا لیں ۔ ورنہ ہمارا مرض جہالت روز افزوں ترقی کرتا رہے گا

يا أختاه
قسم بالله اس کے ساتھ ساتھ هميں خود بھی ديني معاملات ميں بلا علم رائے زني سے بچنا چاہیے۔ اگر هم شاعر هوں يا اديب ، انجنیئر ، صحافي يا طبيب تو هميں اپنے كام پر توجه ديني چاہیے اور اپنے شكوك وشبهات كو تحقيق اور تعقل كا نام نهيں دينا چاہیے۔
 

فرسان

محفلین
كيا يه حديث صرف بخاري شريف كي هے؟

يه حديث صرف بخاري ميں نهيں بلكه بيسيوں كتب ميں هے۔ اور هر سند كے رجال سوائے اول راوي كے (جو صحابي ہیں) مختلف ہیں۔


وأخرجه مصنف عبد الرزاق الصنعاني (9992) ، والحميدي (526) ، وابن سعد 2/242، والبخاري (3053) و (4431) ، ومسلم (1637) (20) ، وأبو داود (3029) ، والنسائي في "الكبرى" (5854) ، وأبو يعلى (2409) ، والبيهقي في "السنن" 9/207، وفي "الدلائل" 7/181، والبغوي (2755) والطبراني (12261) ومصنف ابن أبي شيبة ومسند أحمد.

ان كے علاوه بھی بهت سي كتب ہیں۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا ( اسراء -36 )
اور (اے بندے) جس چیز کا تجھے علم نہیں اس کے پیچھے نہ پڑ۔ کہ کان اور آنکھ اور دل ان سب (جوارح) سے ضرور باز پرس ہوگی۔


میں اگر وَلَا تَقْفُ کے معنی (پیروی اور اتباع کرنے یا کھڑے ہونے) کے ہیں تو بھی ہم نے پیروی، اتباع نہیں کیا اور نہ ہی جاہلانہ انداز میں اپنے موقف پر بلا وجہ جم کر کھڑے ہوئے بلکہ صاحبان علم سے سوال کیا ہے جو کہ صاحبان علم پر ابھی تک قرض بھی ہے اور فرض بھی ہے ۔

اور اگر وَلَا تَقْفُ کا مطلب یہ ہے کہ (پیچھے نہ پڑ۔۔۔۔ یا سوال نہ کر) تو میرا خیال ہے کہ صاحبان علم کو اس موقف سے رجوع کرنا چاہیئے کیونکہ سوال تو علم کی کنجی ہے اور صاحبان علم سے سوال کرنا حکم خداوندی ہے
قوله تعالى: {فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ} [النحل: 43]
پس سوال تو میں ضرور کرونگا
مجھ سے میرا حقِ سوال کوئی نہیں چھین سکتا
آپ کیلئے (پلس شاکرالقادری میاں) کیلئے قرآن مجید کی یہ آیت کافی ہے۔
وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا ( اسراء -36 )
اور (اے بندے) جس چیز کا تجھے علم نہیں اس کے پیچھے نہ پڑ۔ کہ کان اور آنکھ اور دل ان سب (جوارح) سے ضرور باز پرس ہوگی۔
 
يا أختاه
قسم بالله اس کے ساتھ ساتھ هميں خود بھی ديني معاملات ميں بلا علم رائے زني سے بچنا چاہیے۔ اگر هم شاعر هوں يا اديب ، انجنیئر ، صحافي يا طبيب تو هميں اپنے كام پر توجه ديني چاہیے اور اپنے شكوك وشبهات كو تحقيق اور تعقل كا نام نهيں دينا چاہیے۔
درست ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ایک میدان کے سنجیدہ لوگ دوسرے علم کے ماہرین کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہیں ، وہ دوسروں کے میدان میں دراندازی نہیں کرتے ۔ کیوں کہ علم انہیں ماہر کی قدر کرنا سکھاتا ہے ۔ اسی لیے رب کائنات نے فرما دیا ہے :
أَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ آنَاءَ اللَّيْلِ سَاجِدًا وَقَائِمًا يَحْذَرُ‌ الْآخِرَ‌ةَ وَيَرْ‌جُو رَ‌حْمَةَ رَ‌بِّهِ ۗ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ ۗ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ‌ أُولُو الْأَلْبَابِ
بھلا جو شخص راتوں کے اوقات سجدے اور قیام کی حالت میں (عبادت میں) گزارتا ہو، آخرت سے ڈرتا ہو اور اپنے رب کی رحمت کی امید رکھتا ہو، (اور جو اس کے برعکس ہو برابر ہو سکتے ہیں؟) بتاؤ تو علم والے اور بے علم کیا برابر کے ہیں؟ یقیناً نصیحت وہی حاصل کرتے ہیں جو عقلمند ہوں۔ سورۃ الزمر 9
محدثین کی علمی امانت اور تحقیقی خدمات کو غیر مسلم ماہرین کی ایک بڑی تعداد نے بھی سراہا ہے ، ایک اقتباس محفل پر شئیر کیا تھا :
محدثين كى تحقيقى خدمات، ايك غير مسلم محقق كى گواہی
ڈاکٹر گیان چند

ہر تحقيق سے پہلے كچھ تحقيق موجود ہوتى ہے ۔ بعد كے تحقيق كار كو ماضى كى تحقيق يعنى پہلے سے موجود مواد كو پرکھنا ، پھٹکنا ، چھاننا ہوتا ہے ۔ مواد كى فراہمی اور تسويد كے درميان كى منزل ہے مواد كا جائزہ لينا ، پایہ اعتبار متعين كرنا اور تصحيح كرنا ۔ یہی تحقيق كا مركزى كام ہے ۔ تحقيق كار كا علمى سرمايہ جتنا کثیر ، اور اس كى نظر جتنى تیز و عميق ہوتی ہے اسى اعتبار سے وہ اپنے حاصل مطالعہ كا بہتر تجزيہ و قدر پیمائی كر سكتا ہے ۔

ماضى كے مواد كى صحت متعين كرنے كے ليے يہ ديکھنا پڑتا ہے کہ لکھنے والا يا بيان كرنے والا راوى كون ہے اور كتنا معتبر ہے ؟ اسلام ميں حديث كى جانچ کے لیے جو اصول بنائے گئے وہ تحقيقى صحت طے كرنے كے ليے بھی مثالى كسوٹی مانے جا سكتے ہیں ۔

ڈاكٹر غلام مصطفى خان لکھتے ہیں : " روايت كے بارے ميں ان كى حزم واحتياط كا يہ عالم تھا کہ سير ومغازى تو بہت بڑی چیز ہے ۔ وہ عام خلفاء يا سلاطين كے حالات اس وقت تك بيان نہیں كرتے جب تك كہ ان كے پاس آخرى راوى سے لے كر چشم ديد گواہ تك تسلسل كے ساتھ روايت موجود نہ ہو ۔ يعنى جو واقعہ ليا جائے وہ اس شخص كى زبانى ہو جو خود شريك واقعہ رہا ہو اور اگر وہ خود شريك واقعہ نہیں تھا تو اس واقعے تك تمام درميانى راويوں کے نام ترتیب کے ساتھ بيان كيے جائيں اور ساتھ ہی یہ تحقيق بھی كى جائے کہ وہ کون لوگ تھے ؟ كيسے تھے ؟ ان كے مشاغل كيا تھے ؟ ان كا كردار كيسا تھا ؟ ان كى سمجھ كيسى تھی ؟ ثقہ كہاں تک تھے ؟ سطحى الذہن تھے یا نكتہ رس تھے ؟ عالم تھے یا جاہل تھے ؟ " (1)

راويوں كى بنا پر حديثوں كى قسميں اور قسم در قسم كى گئیں ۔ ظاہر ہے کہ ان معياروں كا ادبى تاريخ پر اطلاق كرنا مشكل بلكہ نا قابل عمل ہے ۔ ہاديانِ دين كے اقوال كى صحت كى بطور خاص حفاظت كى گئی ۔ عام انسانوں كى گفتگو كى اس طرح كہاں نگہداشت کی جاتی ہے ؟ تاريخ ادب کے راويوں كا مسلسل سلسلہ نہیں مل سکتا ۔ اگر تسلسل کے ساتھ روايت كا سر رشتہ تلاش كيا جائے تو دنيا كا تمام كلاسيكى ادب ايليڈ، اوڈیسی ، سنسكرت رامائن ، مہا بھارت ، شكنتلا، ميگھ دوت وغيرہ حرف غلط كى طرح محو كرنا پڑے گا ۔۔۔

(1) _ غلام مصطفى خان : فن تحقيق، ص 101۔

اقتباس از: تحقيق کا فن : ڈاکٹر گیان چند ، ص 188_189
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/محدثين-كى-تحقيقى-خدمات،-ايك-غير-مسلم-محقق-كى-گواہی.34028/
 

نایاب

لائبریرین
محترم فرسان بھائی ۔ محترم کفایت ہاشمی بھائی ۔محترمہ ام نورالعین بہنا ۔
حدیث قرطاس و قلم
پر آپ سے علمی بحث یا گفتگو کے نام پر سوائے غیر متفق نا پسند کے تمغوں اور خائن العلم گستاخ صحابہ منکر الحدیث جیسے فتوؤں کے علاوہ اور کچھ نہ مل سکا ۔
میرے محترمین کیا احادیث صرف فتوی لگانا ہی سیکھاتی ہیں ۔ ؟
کیا احادیث صرف صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اعمال و افعال پر ناقد ہوتے ان کے درجات کا فیصلہ کرنے کا کام آتی ہیں ۔ ؟
بخاری شریف بارے گفتگو کرتے صرف دو احادیث کا حوالہ ہی آپ جیسی صاحب علم ہستیوں سے " گستاخ صحابہ " کا درجہ پانے کا سبب بن گیا ۔
اگر مزید " بخاری شریف سے کچھ احادیث ذکر کروں جو کہ ام المومنین حضرت عائیشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا
جناب عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے ذکر پر مبنی ہیں ۔ تو دفاع " بخاری شریف " میں آپ صاحب علم ہستیوں سے مدلل جواب کا ملنا تواک محال امر ہے ۔
ہاں " واجب القتل " ضرور قرار دیا جاؤں گا ۔ کہ ان احادیث کو ذکر کیوں کیا ۔
میرے محترمین عرض ہے کہ اصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم جب اللہ کی جانب سے " اللہ کے راضی " ہونے کی سند پا چکے تو مجھ جیسے سیاہکار کی کیا مجال کہ میں ان کے درجات بارے کوئی بات کر سکوں ۔
بلاشبہ وہ احادیث جو کہ " اسوہ حسنہ " اور " سیرت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم " کے گوشوں کو سامنے لاتی ہیں ۔ وہ میرے نزدیک قران پاک کے بعد واجب الاطاعت ہیں ۔ جن بزرگوں نے انہیں جمع کیا ۔ وہ ان شاءاللہ رب سچے سے انعام پائیں گے ۔
میں ایسی تمام احادیث کو " رد " کرتا ہوں جو کسی بھی صورت انتشار و فساد پھیلانے ۔ انسانیت کو نقصان پہنچانے ۔ اور اصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے اعمال و افعال پر زبان دراز ی کا سبب بنتی ہیں ۔
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ جس نے بھی " اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم " بارے کسی بھی قسم کا جھوٹ باندھا وہ جہنم کے آخری گڑھے کا ایندھن ہوگا ۔
قران پاک کے علاوہ کسی بھی کتاب بارے یہ دعوی کرنا کہ یہ اغلاط اور افراط و تفریط سے پاک اور تحریف سے محفوظ سچے کلام پر مبنی ہے ۔ غلط فکر اور سوچ کی گمراہی ہے ۔
نیتوں کا حال سچا سمیع العلیم خوب جانتا ہے ۔
 

نایاب

لائبریرین
محترم المقام کفایت ہاشمی !
پہلی بات تو یہ ہے کہ میں بھی اردو جانتا ہوں اور آپ بھی کسی کوہ قاف میں بولی جانے والی زبان نہیں بولتے میرے سوال میں سے آپ وہ الفاظ دکھا دیں جن کی بنا پر آپ نے فتویٰ دیا ہے کہ میں نے نفوس قدسیہ کے بارے میں گستاخانہ طرز تکلم اختیار کرکے متاع دین و دانش لٹوادی۔

دوسری بات! یہ کہ میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم سیدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی قسم کی تکلیف پہنچنانے کا تصور بھی کرسکتے تھے ؟؟؟
اور یہی میرا ایمان ہے کہ صحابہ کی جانب سے ایسی کوئی بات نہیں تھی

اسی لیے میں نے کہا تھا:

لیکن یہ مختلف "جہات" سے ایسی کج فکری سامنے آئی جس سے یہ تاثر کھل کر سامنے آیا کہ نہ تو یہاں پر کسی کو ناموس رسالت کی پروا ہے اور نہ ہی ناموس فاروق اعظم کا احساس ۔۔ سارے کا سارا زور بخاری کی روایت کو درست ثابت کرنے پر صرف ہورہا ہے کہ کہیں یہ ثابت نہ ہو جائے کہ بخاری بھی تو ایک انسان تھے اور بہ تقاضائے بشری خطا ان سے بھی خطا کا صدور ممکن ہے۔ میرے دل کو تو محمود احمد غزنوی کی بات پسند آئی اور میں نے اسے تسلیم کر لیا۔ لیکن چونکہ اس سے "کچھ لوگوں" کے موقف پر حرف آتا تھا اس لیےانہوں نے اس کو تسلیم نہیں کیا۔اس لیے میرے سوالوں کا جواب دینا ان کی ذمہ داری ہے جو بخاری کی اس روایت کو درست بھی تسلیم کرتے ہیں اور صحابہ کی جانب سے رسول خدا کو تکلیف پہنچانا بھی نہیں مانتے۔ اب انکا یہ فض بنتا ہے کہ میرے سوال کا جواب دیں اور بتائیں کہ بیک وقت دو متضاد باتیں کیسے درست ہو سکتی ہیں۔
لیکن اس کج فکری اور کج ذہنی کا نتیجہ یہ ہوا کہ میرے ہر مراسلہ کو آپ نے اور ام نورالعین نے نفس مضمون کا مطالعہ کیے بغیر ہی نا پسند اور غیر متفق کا سرٹیفیکیٹ عطا کرنا شروع کر دیا۔ لیکن میرے سوال کا جواب نہیں دیا جا سکا ۔۔۔ اللہ کرے کہ آپ کا یہ کہنا پورا ہو جائےکہ"

آپ مجھے تو گستاخ اور راندہ درگاہ قرار دے سکتے ہیں لیکن آپ کو پتہ نہیں کہ فتنہ انکار حدیث اسی واقعہ قرطاس و قلم کو بنیاد بنا کر شروع ہوا تھا۔ غلام احمد پرویز۔۔۔ ۔۔ نے انہی الفاظ کو اپنا موٹو بنایا ہے:
حسبنا کتاب اللہ
اور اسی جملہ سے وہ ثابت کرتے ہیں کہ حدیث کی ضرورت نہیں قرآن ہی کافی ہے
اگر ایک مسلمان سوال کرے تو اسے تو آپ یہ کہہ لیں گے کہ تمہاری متاع دین و دانش لٹ گئی، لیکن اگر یہ سوال کوئی غیر مسلم کرے تو آپ کے پاس کیا جواب ہے۔
میں نے تو "صاحبان علم" سے سوال کیا تھا۔ اگر وہ مجھے شافی جواب دینے کی بجائے میرے سوال کو نا پسند کریں اور مجھے دھتکار دیں اور جواب نہ دے سکیں تو مجھے بتایئے میں اپنی متاع دین و دانش لٹ جانے پر افسوس کروں یا "صاحب علم" کی علمیت پرماتم کروں۔ جو آئیں بائیں شائیں تو کیئے جا رہا ہے لیکن جواب نہیں دے رہا اور سوال کرنے والے کو گستاخ پہ گستاخ کہتا چلا جا رہا ہے میں آپ ہی کے الفاظ کو آپ کی طرف لوٹاتا ہوں؟؟؟ یا للعجب ،
متاع دین و دانش لٹ گئی اللہ والوں کی !

اور اپنا سوال پھر دہراتا ہوں:
میرے محترم شاکرالقادری بھائی
آپ سے التجا ہے کہ آپ اس موضوع کو بند کر دیں ۔ اب تک کی گفتگو سے جواب کی جگہ جو فتاوی مل چکے ہیں ۔
ان پر " حسبنااللہ و نعم الوکیل " کا ذکر فرماتے " جزاک اللہ خیراء " کہہ دیں ۔
جواب تو کوئی ملنا نہیں صرف " فتوی کفر " اور توہین صحابہ " کے الزام کے سوا ۔
 

فرسان

محفلین
پانچ اصطلاحات پر جواب دينے كا وقت گزر چكا هے. واضح هو چكا هے كه ناياب صاحب علوم حديث ميں كوئي علم نهيں ركھتے. اور يه بھي واضح هو چكا هے كه يه يهاں فقط ايك اعتراض سے لطف اندوز هونے تشريف لائے تھے. كيونكه اعتراض مجوسيت اور ساسانيت كو دفن كرنے والي طاقت پر تھا. ذيل ميں جواب هے والحمد لله.
 

فرسان

محفلین
يه اصطلاحات خالص علمي نوعيت كي هيں اور علم حديث ميں جو طلباء كافي مراحل طے كر چكتے هيں ان كو ان اصطلاحات كے پڑھنے كي نوبت آتي هے.

ميں كوشش كروں گا كه آسان ترين نهج پر ان كا مطلب لكھ سكوں مگر پھر بھي اگر كسي بھائي كو سمجھ نه آئے تو دل چھوٹا نه كريں، ايك سے زياده بار پڑھنے سے يا كسي استاد كي مدد سے يه حل هو جائيں گي ان شاء الله. جو علم آپ كي Field نهيں هوتا وه بلا شبهه كچھ دشوار هوتا هے. اور ايسي Field ميں رائے نهيں دي جا سكتي.

ذخيره حديث جو هم تك پهنچا هے وه سند كے ذريعه سے پهنچا هے. هر هر حديث كي سند هوتي هے جو الحمد لله آج بھي جاري وساري هے. سند ان لوگوں كو كهه سكتے هيں جو اپنے سے پهلے بزرگوں سے حديث سنتے هيں ياد كرتے هيں ان كي حفاظت كرتے هيں اور پھر اگلي نسل كو وه تمام احاديث Hand over كر ديتے هيں.

سند كي مثال

1. علي (زين العابدين) عن حسين عن علي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
2. عبد الرحمن بن مهدي عن مالك عن نافع عن ابن عمر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم.

يعني حضرت ابن مهدي نے امام مالك سے احاديث لي اور امام مالك نے اپنے استاد حضرت نافع سے احاديث لي اور حضرت نافع نے وهي تمام احاديث اپنے استاد اور اپنے مولى حضرت عبد الله بن عمر (صحابي) رضي الله عنه سے لي اور صحابي نے يه تمام احاديث خود صاحب قرآن رسالت مآب رسول الله صلى الله عليه وسلم سے اپنے كانوں سے سني اور دل ودماغ سے سمجھي.

اگر سند نا مكمل يا ضعيف هو تو حديث قبول نهيں كي جاتي. مثلا اگرابن مهدي كهه ديں كه ابن عمر رضي الله عنه نے حديث بيان كي تو بيچ ميں سے امام مالك اور حضرت نافع محذوف هو جائيں گے اور سند ٹوٹ جائے گي. تو جس سند سے دو راوي ايك ساتھ محذوف هوں اسے المعضل كهتے هيں. اگر ايك راوي محذوف هو تو اسے المعضل نهيں كهتے. يه دقيق اصطلاحات هيں.
المعضل
وهو ما سقط من إسناده اثنان فصاعداً

اب اس كے بارے ميں اپنے اندازه پر يه كهنا كه
1 ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ جس کا کچھ واقعہ راوی تاریکی کا حامل ہو ۔
يه كتنا بڑا لطيفه هے.
 

فرسان

محفلین
خير القرون پهلي تين صديوں كو كهتے هيں اور ان صديوں كي بهت فضيلت هے.
صحيح حديث ميں هے كه «خير الناس قرني، ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهم».

اس حديث سے ثابت هوتا هے كه اس امت كے بهترين لوگ وه هيں جو صحابه هيں.
حديث كا مفهوم كچھ يوں هے كه بهترين لوگ وه هيں جو ميري صدي كے هيں پھر جو ان كے بعد آئيں گے (يعني مفهوما دوسري صدي) اور پھر جو ان كے بعد آئيں گے (يعني مفهوما تيسري صدي).

حديث كے بعد كے الفاظ ميں ان لوگوں كے بعد آنيوالوں كي بعض خرابياں بيان هوئي هيں.

اس حديث كي بنا پر پهلي تين صديوں كو خير القرون يعني بهترين صدياں (يا نسليں) كها جاتا هے.

تو خير القرون ميں حديث سيكھنے اور سيكھانے كا دور دورا رهتا تھا. سمرقند وبخارى سے ليكر مراكش اور سپين تك حديث كي محفليں سجا كرتي تھي. جب ايك طالب علم اپنے شهر ميں موجود احاديث ازبر كر ليتا تو اعلى تعليم كے واسطے اور مزيد ذخيره احاديث كيلئے وه دوسرے شهروں كا سفر كرتا . امام بخاري تركستان (موجوده ازبكستان سابق روسي مقبوضه رياست) كے شهر بخارا سے نكلے اور حجاز تك گئے. امام أحمد بن حنبل بغداد سے نكلے اور يمن تك گئے. ايك ايسے وقت ميں كه جب بري سواري صرف جانوروں پر هوتي تھي.
عموما ذخيره حديث اپنے سے بزرگ استاد سے ليا جاتا تھا مگر جب كچھ حديث اپنے هي كسي هم عصر سے لي جاتي اور سند ميں هم عصر لوگوں كا وجود بطور استاد وشاگرد هوتا تو وه المدبجكهلاتي هے.
وهو رواية الأقران سناً وسنداً.

اب اس كے بارے ميں اپني اٹكل پر يه كهنا كه
2 ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ایسی حدیث جو مختلف بیانات کی حامل ہو ۔

يه كتنا بڑا مذاق هے علوم كے ساتھ.
 

فرسان

محفلین
اور صرف هم عصر هي نهيں بلكه كبھي كبھار كوئي طالب علم جب دور دراز كے شهر كا سفر كركے اور وهاں دور سے ذخيره احاديث لے كركئي سال بعد اپنے آبائي وطن لوٹتا تو اپنے شهر كے پرانے اساتذه بھي اس سے نئي احاديث ليتے تھے جو وه دشوار سفر كركے كئي ملك پار كركے لاتا تھا. جب ايك شخص (مثلا امام بخاري) سے ان كاكوئي بزرگ استاد بھي حديث لے اور اس مخصوص حديث ميں وه استاد امام بخاري كا شاگرد بن جائے اور پھر استاد كي وفات امام سے كئي سال پهلے هو جائے اور امام بخاري سے كوئي كمسن طالب علم بھي ذخيره حديث لے جس كي وفات امام سے كئي عرصه بعد هو اور اس طرح امام كے دو شاگردوں ميں سو سال يا ڈيڑھ سو سال كا فرق آئے گا. اسے معرفة رواية السابق واللاحقكهتے هيں.
وهذا إنما يقع عند رواية الأكابر عن الأصاغر ثم يروي عن المروي عنه متأخر.

اب اس كے بارے ميں اپني مفت ميں يه كهنا كه
3 ۔۔ جس میں ماضی و مستقبل بارے اخبار ہو ۔

كتني شرم كي بات هے.
 
Top