بخاری محدث کے بارے میں ایک کتاب : قرآن مقدس اور بخاری مقدس

فرسان

محفلین
آپ حضرات اس سے انكار نهيں كر سكتے انٹرنیٹ اور بلا استاد ديني علوم ميں بلا رهنما كے غور وفكر سے في الواقع كتنا نقصان هوا هے۔
 

رانا

محفلین
ميري بھيجي قرآني آيت كا ترجمه وتفسير "حديث" كا معنى برقرار ركھتے هوئے سامنے لے آئيے۔
آپ كي تفسير كا رد هو جائے گا ۔
اور اگر حديث كا لفظ برقرار ركھنے ميں اور حديث كي تفسير "حديث" هي كرنے ميں شرم محسوس هو تو آپ كو اپنی رائے واپس ليني چاهيے۔

میرے محترم آپ میری پوسٹ میں حدیث کا ترجمہ "بات" کر کے دوبارہ پڑھ لیجئے۔ امید ہے میری پوسٹ کے مفہوم و موقف میں کوئی تبدیلی محسوس نہ ہوگی۔
 

فرسان

محفلین
میرے محترم آپ میری پوسٹ میں حدیث کا ترجمہ "بات" کر کے دوبارہ پڑھ لیجئے۔ امید ہے میری پوسٹ کے مفہوم و موقف میں کوئی تبدیلی محسوس نہ ہوگی۔

الحمد لله كه وه تأثر جاتا رها جو لفظ "حديث" سے پيدا هوا۔

سنت قرآن سے لا ينفك هےِ اگرچه قرآن نهيںِ

بلا سنت قرآن كا فهم ناممكن هے۔
 

فرسان

محفلین
لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ

(مفهوم بالمعنى) اس آيت مباركه سے ظاهر هے كه حضور صلى الله عليه وسلم نے امت كو كتاب اور الحكمة دي۔

الحكمةسے مراد يهاں سنت هےِ

اور جب كتاب وسنت ايك هي سرچشمه هدايت سے ہیں تو مطابقت هي مطابقت هےِ تعارض نا ممكن هےِ

(كوئي صاحب اگر اس تفسير كا حواله سلف صالحين اور مفسرين امت كي كتب سے مانگنا چاہیں تو ساتھ ميں عدد بھی ظاهر فرما دیں تاكه مذكوره عدد میں حوالاجات فراهم كيے جاسكيں)۔

سلف صالحين اور مفسرين امت كے فهم كي حيثيت جن حضرات كے هاں مخدوش هے وه اس پوسٹ كإ مخاطب نهيںِ
 
خيال كافي بھيانك هے غزونوي صاحب۔ اس ايك بندے کے لئے قاعده تو بدلا نهيں سكتےِ

اور ويسے بھي يه موصوف دار العلوم ميں صرف ونحو اور فقه پڑھتے تھے۔ علوم الحديث ميں يه حضرت بھي بے استادے تھے۔

اگر آپ کو ان كے اساتذة كا معلوم هے تو بتا ديجئے كه

علم الجرح والتعديل ميں يه كس كے شاگرد تھے يا يه علم اس دارلعلم ميں وجود ركھتا هے جس سے يه موصوف فيضياب هوئے؟؟

علم العلل ميں يه كس كے شاگرد تھے يا يه علم اس دارلعلم ميں وجود ركھتا هے جس سے يه موصوف فيضياب هوئے؟؟

علم التخريج ميں يه كس كے شاگرد تھے يا يه علم اس دارلعلم ميں وجود ركھتا هے جس سے يه موصوف فيضياب هوئے؟؟

علم مناهج المحدثين ميں يه كس كے شاگرد تھے يا يه علم اس دارلعلم ميں وجود ركھتا هے جس سے يه موصوف فيضياب هوئے؟؟

علم حديث صرف تدريب الراوي كا نام نهيں هے عزيزم !!
آپکی ان باتوں سے جو کچھ سمجھ میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ ان موصوف کو صرف و نحو اور فقہ ہی کی تعلیم دی گئی تھی، حدیث کی نہیں۔۔۔تو کیا جس شخص کو حدیث کا علم حاصل نہ ہو، اس پر لفظ فقیہہ کا اطلاق کیا جاسکتا ہے؟
اگر آپ ان مذکورہ بالا علوم(اور وہ علوم بھی جنہیں آپ نے قوم کے وسیع تر مفاد میں بیان نہیں کیا، ان علوم) میں ماہر ہیں تو آپ ہی اس حدیث پر وارد ہونے والے اعتراضات کو دور فرمادیں۔ اعتراض سمٹ سمٹا کر یہ رہ گیا ہے کہ اگراس حدیث کو بعیہنہ درست مان لیا جائے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس فعل کی توجیہہ ایسی ہونی چاہئیے جو انکی شان کے مطابق ہو۔ یہاں جو توجیہہ پیش کی گئی ہے (یعنی آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بیماری کی شدت میں تکلیف نہیں دینا چاہتے تھے ۔یعنی یہ عمل انکو راحت پہنچانے کیلئے کیا گیا، لیکن کیا وجہ ہے کہ حدیث کے بعد کے الفاظ سے اس راحت کا تاثر نہیں ملتا بلکہ اک گونہ ناخوشگواری کا اظہار ہوتا ہے ۔ اور کیا وجہ ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اس فعل کو یاد کرکے آنسو بہا رہے ہیں اور انکی رائے یہ معلوم ہوتی ہے کہ انہوں نے بھی اس فعل کو پسند نہیں کیا۔۔۔
اگرآپ ان علوم میں ماہر ہیں تو ہم کسی اور سے نہیں بلکہ آپ ہی سے پوچھ لیتے ہیں۔
والسلام
 

فرسان

محفلین
آپکی ان باتوں سے جو کچھ سمجھ میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ ان موصوف کو صرف و نحو اور فقہ ہی کی تعلیم دی گئی تھی، حدیث کی نہیں۔۔۔ تو کیا جس شخص کو حدیث کا علم حاصل نہ ہو، اس پر لفظ فقیہہ کا اطلاق کیا جاسکتا ہے؟

اس سوال سے نئے مباحث كھلنے سے پرهيز كي بنا پر سكوت بهتر هے۔

اگر آپ ان مذکورہ بالا علوم(اور وہ علوم بھی جنہیں آپ نے قوم کے وسیع تر مفاد میں بیان نہیں کیا، ان علوم) میں ماہر ہیں تو آپ ہی اس حدیث پر وارد ہونے والے اعتراضات کو دور فرمادیں۔
اگرآپ ان علوم میں ماہر ہیں تو ہم کسی اور سے نہیں بلکہ آپ ہی سے پوچھ لیتے ہیں۔
والسلام

في الحقيقت تو ايسي كوئي بات نهيں جس كي بنا پر ميں مهارت كا دعوى كرسكوں۔

ليكن مجھ پر ميرے اساتذة اور ان كے ساتھ گزرے هوئےوقت كي بنا پر يه ذمه داري عائد هوتي هے كه امت كي متفقه احاديث كا دفاع كروں۔

اعتراض سمٹ سمٹا کر یہ رہ گیا ہے کہ اگراس حدیث کو بعیہنہ درست مان لیا جائے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس فعل کی توجیہہ ایسی ہونی چاہئیے جو انکی شان کے مطابق ہو

ميں آپ كا شكر گزار هوں كه آپ نے مختلف اعتراضات كو كوزے ميں بند كركے ميرا كام آسان بنا ديا هے۔

ليكن اتني تصحيح اور هوني چاهيے كه يه رائے حضرت عمر رضي الله عنه كي نهيں بلكه (جمع من الصحابه) كي تھی۔

کیا وجہ ہے کہ حدیث کے بعد کے الفاظ سے اس راحت کا تاثر نہیں ملتا بلکہ اک گونہ ناخوشگواری کا اظہار ہوتا ہے ۔
اور کیا وجہ ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اس فعل کو یاد کرکے آنسو بہا رہے ہیں
والسلام

يهي دو سوال محور هيں اور انهي كا جواب ديني كي سعي كروں گا ان شاء الله۔
اگر جواب صحيح دے پايا تو الله كي طرف سے ورنه
هماري كوتاه بيني۔
 

نایاب

لائبریرین
كچھ باتيں اپنا رد آپ هوا كرتي هيں۔

بھلا جس كا حكم خود رسول رب العالمين صلى الله عليه وسلم ديں تو كيا نعوذ بالله یہ كجي والي بات درست هو سكتي هے؟؟؟؟

اگر يه كجي والي بات پر آپ مصر ہیں تو پھر يه بھي بتائيں كه اس بات كے كرنے كا حكم حضرت علي رضي الله عنه كو كيوں هوا ؟؟؟؟

صرف اپني عقل سے حضرت علي رضي الله عنه كے ناكام دفاع كي كوشش فضول هے۔ حضرت علي عليه السلام كو آپ کے دفاع كي ضرورت بالكل نهيں كيونكه جب اعتراض هي وارد نهيں هو سكتا تو دفاع حاصل المحصول كي طرح مرجوح هے۔
میرے محترم بھائی
بلا شک آپ نے درست لکھا کہ " کچھ باتیں آپ ہی اپنا رد ہوتی ہیں "
جیسا کہ آپ نے پوچھا کہ " حضرت علی علیہ السلام کو یہ مٹانے کا حکم کیوں ہوا "
میرے محترم بھائی یاد رہے کہ اس معاہدے کو تحریر ہی جناب علی علیہ السلام کر رہے تھے ۔
 

فرسان

محفلین
میرے محترم بھائی
بلا شک آپ نے درست لکھا کہ " کچھ باتیں آپ ہی اپنا رد ہوتی ہیں "
جیسا کہ آپ نے پوچھا کہ " حضرت علی علیہ السلام کو یہ مٹانے کا حکم کیوں ہوا "
میرے محترم بھائی یاد رہے کہ اس معاہدے کو تحریر ہی جناب علی علیہ السلام کر رہے تھے ۔

مجھے صرف يه بتا ديجئے كه اگر مٹانا ايمان كي كجي هو سكتا تھا تو اس كا حكم سيدي صلى الله عليه وسلم نے حضرت علي كو كيوں ديا ؟؟؟؟
 

شاکرالقادری

لائبریرین
نایاب صاحب! بجائے اعتراضات کا جواب دینے کے مناظرانہ تیکنیک استعمال کرکے بھونڈے انداز میں بات کو دوسری طرف پلٹا جا رہا ہے آپ بحث کیوں کرتے ہیں بس اتنا جواب ہی کافی ہے کہ حضرت علی کے نہ مٹانے والے عمل پر آنحضرت نے نکیر نہیں فرمائی اور ان کے کسی جملے سے ناگواری کا تاثر نہیں ملا۔ بلکہ جس روایت پر اعتراض ہے اس میں واضح طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناگواری پائی جاتی ہے
میں نے بات کو سمیٹ سماٹ کر ایک نقطے پر مرتکز کر دیا تھا
آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے ۔۔ "تب تک آپ سوچیں" کا جملہ کہہ کر (معقولیت) کی اہمیت کو جانتے ہوئے ہمیں دعوت فکر دی ۔ لیکن افسوس کہ جو احادیث نقل کر کے آپ نے دعوت فکر دی ہے ان میں کوئی پیچیدگی تو موجود ہی نہیں جسے سلجھایا جا سکے ۔ اور آپ نے خود جواب دے دیا کہ:
جس عمل كو ديكھ كر حضور صلى الله عليه وسلم نكير نه فرمائيں وه اس كے جائز هونے كي دليل هوتا هے
اور
حديث كے بقيه حصے ميں هے كه حضور يه جواب سن كر بهت خوش هوئے اور ابن عباس رضي الله عنه كو دعا دي
.
اب ذرا ہم دیکھتے ہیں کہ حدیث قلم و قرطاس میں حضور کا لائحہ عمل کیا رہا ہے؟
انہوں نے نکیر کی یا نہیں کی؟
انہوں نے اس کو پسند کرتے ہوئے کاغذ قلم کی مخالفت کرنے والے کو پسندیدگی کی سند عطا فرمائی
نا پسندیدگی کا اظہار کیا
پس متن حدیث سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دو لائحہ عمل سامنے آتے ہیں:
اول:آپ نے فرمایا: " قوموا عنّی و لاینبغی عندی التنازع
میرے سامنے سے اٹھ کر چلے جاو که میرے سامنے جھگڑا اور کشمکش مناسب نهیں هے

دوم: آپ نے فرمایا
ذرونی فالذّی أنا فیه خیر ممّا تدعونی إلیه
مجھے اپنے حال پر چھوڑ دو ؛ کیونکه جو اس وقت میری حالت هے ، وه اس سے بهتر هے که تم لوگ مجھے جس کی طرف بلاتے هو
اب ذرا اپنے ہی بیان کردہ اصول کے مطابق بتایئے کہ دونوں صورتوں میں نکیر پائی جاتی ہے یا پسندیدگی
افلا تعقلون !

لیکن مجھے تو انہوں نے ڈانٹ کردھتکار دیا جیسے میں انکے مکتب کا کوئی طالب علم تھا۔
ميرا كوئي شاگرد ايسي جسارت كرتا تو ساري زندگي اسے اپنے سے دور كر ديتا ان شاء الله۔
لیکن وہ میری بات کا جواب نہیں دے سکے۔
آپ بھی اسی نقطہ پر فوکس کریں ممکن ہے آپ کو جواب مل جائے۔ یا پھر میری طرح کھرا جواب مل جائے :notworthy:
 

نایاب

لائبریرین
مجھے صرف يه بتا ديجئے كه اگر مٹانا ايمان كي كجي هو سكتا تھا تو اس كا حكم سيدي صلى الله عليه وسلم نے حضرت علي كو كيوں ديا ؟؟؟؟
میرے محترم بھائی ۔ ذرا دل تھام کے پڑھیئے گا ۔ سمجھ تو آپ کو آئے گی نہیں ۔
یہ مٹانے کی حکم کیوں دیا ،؟ " رسول اللہ " کے کاتب معاہدہ لکھ رہے تھے ۔ کفار نے اعتراض کیا ۔ کہ ہم تو آپ کو " اللہ کا رسول مانتے ہی نہیں ۔ اس لیئے اس کو ختم کیا جائے ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس شرط کو مانا ۔ مگر جناب علی علیہ السلام نے اس لفظ کو مٹانے سے معذوری ظاہر کر دی ۔ کیونکہ آپ یہ مکمل یقین رکھتے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے پیار ے سچے رسول ہیں ۔ اور ان کی تصدیق کرتے اپنی جان مال آل اولاد مٹا دینا اس لفظ " رسول اللہ " کے مٹانے سے زیادہ آسان اور باعث رحمت ہے ۔ اگر ان کی جگہ کوئی دوسرے ایسے صحابی ہوتے جو " اللہ کے رسول " کو اپنی جان کے علاوہ دیگر ہر دوسری چیز سے پیارا رکھتے تھے وہ شاید اسے مٹانے میں تاخیر نہ کرتے ۔ اور کچھ صحابہ نے نے اس معاہدے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت پر شکوک بھرے کلمات بھی ادا کیئے ۔
آپ اس موضوع" قلم و قرطاس " کا تسلی بخش جواب نہ دے سکے اور نہ ہی دے سکیں گے ۔ پانی میں مدھانی چلانے سے صرف جھاگ ہی بنے گا ۔ مکھن کبھی نہیں نکلے گا ۔
نایاب صاحب! بجائے اعتراضات کا جواب دینے کے مناظرانہ تیکنیک استعمال کرکے بھونڈے انداز میں بات کو دوسری طرف پلٹا جا رہا ہے آپ بحث کیوں کرتے ہیں بس اتنا جواب ہی کافی ہے کہ حضرت علی کے نہ مٹانے والے عمل پر آنحضرت نے نکیر نہیں فرمائی اور ان کے کسی جملے سے ناگواری کا تاثر نہیں ملا۔ بلکہ جس روایت پر اعتراض ہے اس میں واضح طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناگواری پائی جاتی ہے
میں نے بات کو سمیٹ سماٹ کر ایک نقطے پر مرتکز کر دیا تھا


لیکن مجھے تو انہوں نے ڈانٹ کردھتکار دیا جیسے میں انکے مکتب کا کوئی طالب علم تھا۔

لیکن وہ میری بات کا جواب نہیں دے سکے۔
آپ بھی اسی نقطہ پر فوکس کریں ممکن ہے آپ کو جواب مل جائے۔ یا پھر میری طرح کھرا جواب مل جائے :notworthy:
محترم بھائی شاکر القادری صاحب
بہت شکریہ آپ نے اک اچھی نصیحت کی ۔
جزاک اللہ خیراء
میرے لیئے یہ طریقہ بحث کوئی نیا نہیں ۔ آپ فکر نہ کریں ۔
کیچڑ میں جو پتھر مارتے ہیں چھینٹوں سے کپڑے ان کے ہی گندے ہوتے ہیں ۔
بابا بلھے شاہ سرکار کی اک کافی پڑھیئے ۔یاد آگئی ۔ حسب حال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الف اللہ دل رتّا میرا
''ب''دی خبر نہ کائی
''ب'' پڑھدیاں مینوں سمجھ نہ آوے
لذت الف دی آئی
''ع'' تے''غ'' نوں سمجھ نہ جاناں
گل الف سمجھائی
بُلھیا قول الف دے پورے
دل دی کرن صفائی
 

فرسان

محفلین
سمجھ تو آپ کو آئے گی نہیں ۔

بالكل سمجھ نهيں آئي۔


صحابہ نے نے اس معاہدے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت پر شکوک بھرے کلمات بھی ادا کیئے ۔

آپ سے وه صحيح روايت مطلوب ہے جس سے آپ کی بات ثابت هوتي هو، بلا دليل آپ کی بات نهيں ماني جاسكتي اور ماننے اور اتفاق كرنے ميں كوئي خير نهيں۔


آپ اس موضوع" قلم و قرطاس " کا تسلی بخش جواب نہ دے سکے اور نہ ہی دے سکیں گے


جواب بھی آجائے گا ان شاء الله كچھ صبر اور كريں۔


میرے محترم بھائی ۔

آپ بات گھمائے بنا صرف يه بتائيں كه كيا سيدي صلى الله عليه وسلم حضرت علي كو يا كسي اور صحابي كو ( رضي الله عنهم اجمعين ) ايسي بات كا حكم دے سكتے ہیں جو ايمان كي كجي كي دليل هو( نعوذ بالله) ؟؟؟؟؟؟

آپ ہاں يا نهيں ميں جواب دے ديں برائے مهرباني ۔ اگر "نهيں" ميں هو تو پھر حضرت علي رضي الله عنه كو كيوں ديا ؟؟؟؟
بس !
 

فرسان

محفلین
مگر جناب علی علیہ السلام نے اس لفظ کو مٹانے سے معذوری ظاہر کر دی ۔ کیونکہ آپ یہ مکمل یقین رکھتے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے پیار ے سچے رسول ہیں ۔ اور ان کی تصدیق کرتے اپنی جان مال آل اولاد مٹا دینا اس لفظ " رسول اللہ " کے مٹانے سے زیادہ آسان اور باعث رحمت ہے ۔

يهاں تك تو آپ كي بات درست هے۔ مگر يه كهنا كه اس لفظ كو مٹانا ايمان كي كجي هو سكتا هے تو يه حقائق كے خلاف هونے كي بنا په غلط هے۔

حضرت علي رضي الله عنه سے زياده خود سرور كونين صلى الله عليه وسلم كو اس بات پر ايمان علم اور ادراك هے مگر پھر بھی يه بات معاهده ميں سے هٹا دي تھي۔ يه اس بات كي واضح ترين دليل هے كه اس لكھے گئے لفظ كا بطور معاهده ايمان سے كوئي تعلق نهيں۔ اگر تعلق هوتا تو كبھی مٹايا نه جاتا۔ كفار نے ماضي ميں بعض قرآني آيات بھي بدلانے كو كها تھا مگر نهيں بدلائي گئيں كيونكه آيات كے بدلانے سے ايمان كا تعلق هے۔


اگر ان کی جگہ کوئی دوسرے ایسے صحابی ہوتے جو " اللہ کے رسول " کو اپنی جان کے علاوہ دیگر ہر دوسری چیز سے پیارا رکھتے تھے وہ شاید اسے مٹانے میں تاخیر نہ کرتے ۔

اگر كوئي اور صحابي هوتے جو اس عبارت كو حضور صلى الله عليه وسلم كے حكم پر بلا تامل اور بلا تاخيرمٹا ديتے تو اس ميں اعتراض كي كوئي گنجائش نهيں۔
جس طرح ايك صحابي ادب اور احترام كي بنا پر تامل كرتے ہیں اور دوسرے صحابي حكم پورا كرتے ہیں تو دونوں ماجور هيں اور دونوں صورتوں ميں اعتراض كا سوال هي پیدا نهيں هوتا۔ اعتراض وارد هو هي نهيں سكتا۔


اگر ان کی جگہ کوئی دوسرے ایسے صحابی ہوتے

اگر حضرت علي كرم الله وجهه كي جگه كوئي اور صحابي هوتے جو اس لفظ كو مٹانے ميں تامل كرتے تو آج ان پر طرح طرح كے اعتراضات "بعض جهات" كي طرف سے خوب هو رهے هوتے جس ميں بعض "عقلاء" بھي شامل هوتے۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
اگر حضرت علي كرم الله وجهه كي جگه كوئي اور صحابي هوتے جو اس لفظ كو مٹانے ميں تامل كرتے تو آج ان پر طرح طرح كے اعتراضات "بعض جهات" كي طرف سے خوب هو رهے هوتے جس ميں بعض "عقلاء" بھي شامل هوتے۔
مومن کبھی بد ظن نہیں ہوتا ۔۔۔ جس "جہت" سے حضرت علی کا واقعہ کوٹ کیا گیا اسی "جہت" سے دو تین دوسرے واقعات بھی مختلف صحابہ کے بارے میں نقل کیے گئے۔ اگر کسی کو یاد نہیں رہا تو یہاں کوٹ کیے دیتا ہوں:
  • جب ايك مشرك سرور كونين صلى الله عليه وسلم سے بات چيت اور معاملات كے لئے آيا اور بات چيت شروع كي اور جب وه عرب كے رواج كے مطابق بات چيت كے دوران حضور پاك صلى الله عليه وسلم كي پاك داڑھي مبارك كو هاتھ لگاتا تو ايك صحابي هر دفعه اس كے هاتھ كو تلوار كے دستے سے پرے هٹا ديتے.
  • جب حضور نے ايك بيمار خاتون جو قريب مرگ تھيں، فرمايا كه جب ان كي وفات هو تو مجھے خبر دينا تاكه جنازه پڑھا جائے. وفات رات كو هو گئي اور صحابه نے اپنے پيارے نبي صلى الله عليه وسلم كي نينداور سكون كي خاطر خبر نه كي اور جنازه پڑھ ديا اور جب حضور صلى الله عليه وسلم كو معلوم هوا تو حضور نے صرف دريافت فرمايا كه خبر كيوں دي اور نكير نه فرمائي.
  • جب سيدي صلى الله عليه وسلم تهجد ادا فرما رهے تھے تو حضور صلى الله عليه وسلم كي اقتداء ميں حضرت ابن عباس بھي پيچھے كھڑے هو گئے.حضور صلى الله عليه وسلم نے ان كو اپنے برار كھڑا كيا اور پھر نوافل ادا كرنے لگے. مگر جيسے هي حضور نے نماز شروع كي تو حضرت ابن عباس ذرا پيچھے هٹ گئے. اور برابر كھڑے نه هوئے. نماز ختم كرنے پر سيدي صلى الله عليه وسلم نے پوچھا كے تمهيں كيا هے جو ميں تمهيں برابر كھڑا كرتا هوں اور تم هو كه پيچھے هٹ آتے هو.
    ( حضرت ابن عباس كا ادب بھرا جواب سنئے ) كيا مناسب هے كه كوئي آپ كے برابر كھڑا هو اور آپ تو الله كے رسول هيں؟ ۔۔۔۔۔۔ ياد رهے كه حديث كے بقيه حصے ميں هے كه حضور يه جواب سن كر بهت خوش هوئے اور ابن عباس رضي الله عنه كو دعا دي.
ان تینوں واقعات میں سے آخری واقعہ تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا ہے۔ اور باقی دو میں بھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو مشخص نہیں کیا گیا ۔۔۔ صرف ایک صحابی یا صحابہ کا ذکر ہے لیکن نہ تو "بعض جہات" سے اعتراضات ہوئے اور نہ ہی ان اعتراضات میں "بعض عقلا" کا کوئی حصہ ہے۔
بدیں وجہ جس "جہت" سے اس بدظنی اور بے جہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بے بنیاد "خامہ فرسائی" کی گئی ہے۔ ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔
 

نایاب

لائبریرین
بالكل سمجھ نهيں آئي۔
آپ سے وه صحيح روايت مطلوب ہے جس سے آپ کی بات ثابت هوتي هو، بلا دليل آپ کی بات نهيں ماني جاسكتي اور ماننے اور اتفاق كرنے ميں كوئي خير نهيں۔
جواب بھی آجائے گا ان شاء الله كچھ صبر اور كريں۔
آپ بات گھمائے بنا صرف يه بتائيں كه كيا سيدي صلى الله عليه وسلم حضرت علي كو يا كسي اور صحابي كو ( رضي الله عنهم اجمعين ) ايسي بات كا حكم دے سكتے ہیں جو ايمان كي كجي كي دليل هو( نعوذ بالله) ؟؟؟؟؟؟
آپ ہاں يا نهيں ميں جواب دے ديں برائے مهرباني ۔ اگر "نهيں" ميں هو تو پھر حضرت علي رضي الله عنه كو كيوں ديا ؟؟؟؟
بس !
میرے محترم بھائی بلا شبہ یہ آپ کی ہی ہمت ہے کہ آپ جناب نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جانب سے " ایمان کی کجی " پر مبنی حکم صادر ہونا ممکن فرما رہے ہیں ۔
التجا ہے کہ ذرا توجہ خاص سے یہ گفتگو پڑھئے گا ۔ شاید کہ کوئی سرا پا جائیں آپ ۔

کسی نے یہ کہا کہ " یہ حضورصلی الله علیہ وسلم کا فرمان هے "
اس سے پوچھا گیا کہ "کیا آپ نے یہ فرمان حضورصلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے ؟؟
اس نے جواب دیا کہ " نہیں میں نے حضورصلی الله علیہ وآلہ وسلم سے نہیں سنا ،"
اس سے پوچھا کہ " پھر آپ کیسےیہ حضورصلی الله علیہ وآلہ وسلم کا قول بیان کر رہے ہیں ؟؟
اس نے کہاکہ "فلاں نے فلاں سے روایت کیا ہے ، "
اس سے پوچھا کہ کیا آپ نے نے ان فلاں اور فلاں راویوں کودیکھا اور پرکھا جانا ہے ۔ جو آپ انہیں عادل و ثقہ قرار فرما رہے ہیں ۔ ؟
اس نے کہا کہ فلاں اور فلاں نے کہا ہے اور کتابوں میں لکھا ہے ۔ کہ یہ سب راوی عادل وثقہ ومعتبرہیں ۔
پوچھا کہ یہ فلاں آدمی جوان راویوں کوثقہ و عادل کہہ رہا اور لکھ رہا ہے ۔ کیا اس نےان تمام راویوں کوخود دیکھا پرکھا ہے ۔ ؟
جواب دیا کہ یہ تو علم نہیں مگر فلاں نے اپنی تحقیق کے بعد اسے معتبر و ثقہ لکھا اور پھر اس کے بعد آنے والے فلاں فلاں ایک دوسرے کے قول پراعتماد کرتے رہے ،
اس سے پوچھا کہ آپ کے پاس اس قول کی صحت کی کوئ دلیل ہے ؟؟
کہنے لگا کہ کوئ دلیل نہیں سوائے حسن ظن کے ،جو فلاں فلاں کے کہنے اور لکھنے پر قائم ہے ۔
اس سے پوچھاکہ کیا تمام احادیث میں اسی طرح کا حسن ظن کرکے ان کوبیان کیا جاتا هے ، اورکیااس طرح ایک دوسرے کی تقلید کرکے حضورصلی الله علیہ وسلم کی طرف کسی قول کی نسبت کرنا جائزہے ؟؟
توکہنے لگا کہ " تم منکر حدیث ہو ۔ "آئمہ کرام جو لکھ گئے وہ محکم حدیث ہے ۔ بس محض حسن ظن وتقلید کے ساتھ ہی آئمہ کرام کی تحقیقات وتبصروں کوتسلیم کیا جاتا ہے ،یہ اجتہاد ہے ۔ احادیث کی تمام انواع و اقسام اجتهادى ہیں،مثلا((الحديث الصحیح ، صحیح لغیره ، المتواتر ،الغريب ،المنقطع،المتصل، الضعيف ، ، المرسل ، المسند ،، الحسن ، حسن لغیره ، المقلوب،المنكر،المشهور ، المعلق ، المعنن و المؤنن ، المتروك ، الافراد أو الآحاد ، المعضل ،المبهم ،المسلسل ، المطروح ، الموقوف ، المستفيض ، المدلس ، العالى ، الموضوع ، المقطوع ، العزيز ، المرسل الخفى ،النازل،التابع،الشاهد، المدبج،السابق واللاحق المتفق والمفترق،المؤتلف والمختلف الرواية الأكابر عن الأصاغر،)) ،
اور یہ سب انواع واسماء اجتهادی ہیں قرآن اور خود حدیث سے کہیں ثابت نہیں ہیں بعد میں آنے والے ائمہ حدیث نے اپنے ظن واجتهاد سے لکھےہیں ،اسی طرح جرح وتعدیل کے احکام ومراتب واصول وقواعد سب محدثین کے اجتهاد کا نتیجہ ہیں ۔
اسی طرح علم حدیث میں کتب وتصانیف کے انواع واسماء سب اجتهادی ہیں محدثین نے اپنے اجتهاد سے ان کےنام رکھے ہیں۔
(( الجوامع ،المسانيد ،السنن، المعاجم ،العلل ، الأجزاء ، الأطراف ، المستدركات ، المستخرجات ، الناسخ والمنسوخ ، مختلف الحديث ، الجرح والتعديل ، أصول الحديث ، غريب الحديث ، الأنساب والألقاب والكنى والأوطان والبلدان ، ))
حضرت اوکاڑوی رحمتہ الله مشہور عالم نے اک بار اپنی تقریر میں کچھ لوگوں کا"احادیث " کو مناظرانہ انداز میں گفتگو کرتے وقت گزارنے کا ایک طریقہ قرار فرمایا تھا ۔ فرماتے ہیں کہ یہ مداری "چھ گر "یاد رکھتے ہیں ۔
جس سے ملو چھوٹتے ہی اس کے کسی عمل پر اعتراض کردو کہ اس کا حکم کس حدیث میں ہے ۔
اگر وہ کوئی مناسب معتدل قسم کی بات کر کے آپ سے پوچھ بیٹھے کہ
حضرت آپ کے اس عمل کی دلیل کیا ہے ۔ ؟
تو بنا گھبرائے دوسرا سوال جڑ دو کہ کس حدیث میں یہ منع ہے ۔ ؟
اور بنا اس کی بات پر دھیان دیئے یہ رٹ لگا دو کہ " کہاں ہے منع کی حدیث ؟
اگر سامنے والا کوئی حدیث بمعہ کتاب کے سامنے لے آئے تو فورا اک زوردار قہقہ لگاؤ اور کہو کہ صاحب کون یہ حدیث کی کون سی کتاب لے آئے ۔ ہم تو صرف " فلاں فلاں " کو ہی مصدقہ جانتے ہیں اور باقی تمام بارے ضعیف موضوع کا حکم لگاتے نہ صرف سب کا انکار کرو بلکہ اتنا استہزاء اور مذاق اڑاؤ کہ سامنے والا شرمندہ ہو کر گھبرا جائے ۔
اگر سامنے والا تھوڑا تیز ہو اور وہ آپ ہی کی " مصدقہ " قرار دی گئی احادیث کی کتاب لے آئے ۔ تو بھی گھبراؤ نہیں بلکہ
" فورا " کوئ شرط اپنی طرف سے لگا دو کہ فلاں لفظ دکھاؤ ۔ توایک لاکھہ روپیہ انعام ، ہاں یاد رہے کہ وہ حدیث صحیح صریح مرفوع غیرمرجوح هو ،
اگربالفرض وه لفظ ہی مل جائے اور سامنے والا دکھا دے کہ یہ ہے وہ لفظ تو پورے زور کے ساتھ تین مرتبہ اعلان کردو
کہ یہ تو ضعیف ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو نماز نہیں پڑھتا اس کو کبھی نہیں کہنا کہ نماز پڑھو، هاں جو نماز پڑھ رها هو اس کو ضرور کہنا کہ تیری نماز نہیں هوئ تو نے فلاں فلاں رکن میں فلاں فلاں حدیث میں بیان کردہ حکم کا خیال نہیں رکھا ۔ ۰
ان مداریوں کے یہ " چھ گر " ان کے علم کلام کا محور ہوتے ہیں ۔
 

فرسان

محفلین
اگر ان کی جگہ کوئی دوسرے ایسے صحابی ہوتے جو " اللہ کے رسول " کو اپنی جان کے علاوہ دیگر ہر دوسری چیز سے پیارا رکھتے تھے وہ شاید اسے مٹانے میں تاخیر نہ کرتے ۔

غلط فهمي سے بچنے كے لئے بتاتا هوں كه ميرا اشاره مذكوره بالا عبارت كي طرف تھا اور اهل علم جانتے ہیں كه اس عبارت ميں كس جليل القدر صحابي كو غمز كيا گيا هےِ۔

اب ان سے كوئي يه پوچھ لے كه لاؤ وه روايت جس كي بنا پر تم نے اس جليل هستي سے غمز كركے اپني آخرت كالي كي هے تو ان كي سانس پھول جاوے۔
 

فرسان

محفلین
میرے محترم بھائی بلا شبہ یہ آپ کی ہی ہمت ہے کہ آپ جناب نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جانب سے " ایمان کی کجی " پر مبنی حکم صادر ہونا ممکن فرما رہے ہیں ۔

ميري جان نكل جائے مگر الله نه كرے كه يه خبيث عبارت ميرے هونٹوں سے نكلے۔

التجا ہے کہ ذرا توجہ خاص سے یہ گفتگو پڑھئے گا ۔ شاید کہ کوئی سرا پا جائیں آپ ۔

کسی نے یہ کہا کہ " یہ حضورصلی الله علیہ وسلم کا فرمان هے "
اس سے پوچھا گیا کہ "کیا آپ نے یہ فرمان حضورصلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے ؟؟
اس نے جواب دیا کہ " نہیں میں نے حضورصلی الله علیہ وآلہ وسلم سے نہیں سنا ،"
اس سے پوچھا کہ " پھر آپ کیسےیہ حضورصلی الله علیہ وآلہ وسلم کا قول بیان کر رہے ہیں ؟؟
اس نے کہاکہ "فلاں نے فلاں سے روایت کیا ہے ، "
اس سے پوچھا کہ کیا آپ نے نے ان فلاں اور فلاں راویوں کودیکھا اور پرکھا جانا ہے ۔ جو آپ انہیں عادل و ثقہ قرار فرما رہے ہیں ۔ ؟
اس نے کہا کہ فلاں اور فلاں نے کہا ہے اور کتابوں میں لکھا ہے ۔ کہ یہ سب راوی عادل وثقہ ومعتبرہیں ۔
پوچھا کہ یہ فلاں آدمی جوان راویوں کوثقہ و عادل کہہ رہا اور لکھ رہا ہے ۔ کیا اس نےان تمام راویوں کوخود دیکھا پرکھا ہے ۔ ؟
جواب دیا کہ یہ تو علم نہیں مگر فلاں نے اپنی تحقیق کے بعد اسے معتبر و ثقہ لکھا اور پھر اس کے بعد آنے والے فلاں فلاں ایک دوسرے کے قول پراعتماد کرتے رہے ،
اس سے پوچھا کہ آپ کے پاس اس قول کی صحت کی کوئ دلیل ہے ؟؟
کہنے لگا کہ کوئ دلیل نہیں سوائے حسن ظن کے ،جو فلاں فلاں کے کہنے اور لکھنے پر قائم ہے ۔
اس سے پوچھاکہ کیا تمام احادیث میں اسی طرح کا حسن ظن کرکے ان کوبیان کیا جاتا هے ، اورکیااس طرح ایک دوسرے کی تقلید کرکے حضورصلی الله علیہ وسلم کی طرف کسی قول کی نسبت کرنا جائزہے ؟؟
توکہنے لگا کہ " تم منکر حدیث ہو ۔ "آئمہ کرام جو لکھ گئے وہ محکم حدیث ہے ۔ بس محض حسن ظن وتقلید کے ساتھ ہی آئمہ کرام کی تحقیقات وتبصروں کوتسلیم کیا جاتا ہے ،یہ اجتہاد ہے ۔ احادیث کی تمام انواع و اقسام اجتهادى ہیں،مثلا((الحديث الصحیح ، صحیح لغیره ، المتواتر ،الغريب ،المنقطع،المتصل، الضعيف ، ، المرسل ، المسند ،، الحسن ، حسن لغیره ، المقلوب،المنكر،المشهور ، المعلق ، المعنن و المؤنن ، المتروك ، الافراد أو الآحاد ، المعضل ،المبهم ،المسلسل ، المطروح ، الموقوف ، المستفيض ، المدلس ، العالى ، الموضوع ، المقطوع ، العزيز ، المرسل الخفى ،النازل،التابع،الشاهد، المدبج،السابق واللاحق المتفق والمفترق،المؤتلف والمختلف الرواية الأكابر عن الأصاغر،)) ،
اور یہ سب انواع واسماء اجتهادی ہیں قرآن اور خود حدیث سے کہیں ثابت نہیں ہیں بعد میں آنے والے ائمہ حدیث نے اپنے ظن واجتهاد سے لکھےہیں ،اسی طرح جرح وتعدیل کے احکام ومراتب واصول وقواعد سب محدثین کے اجتهاد کا نتیجہ ہیں ۔
اسی طرح علم حدیث میں کتب وتصانیف کے انواع واسماء سب اجتهادی ہیں محدثین نے اپنے اجتهاد سے ان کےنام رکھے ہیں۔
(( الجوامع ،المسانيد ،السنن، المعاجم ،العلل ، الأجزاء ، الأطراف ، المستدركات ، المستخرجات ، الناسخ والمنسوخ ، مختلف الحديث ، الجرح والتعديل ، أصول الحديث ، غريب الحديث ، الأنساب والألقاب والكنى والأوطان والبلدان ، ))
حضرت اوکاڑوی رحمتہ الله مشہور عالم نے اک بار اپنی تقریر میں کچھ لوگوں کا"احادیث " کو مناظرانہ انداز میں گفتگو کرتے وقت گزارنے کا ایک طریقہ قرار فرمایا تھا ۔ فرماتے ہیں کہ یہ مداری "چھ گر "یاد رکھتے ہیں ۔
جس سے ملو چھوٹتے ہی اس کے کسی عمل پر اعتراض کردو کہ اس کا حکم کس حدیث میں ہے ۔
اگر وہ کوئی مناسب معتدل قسم کی بات کر کے آپ سے پوچھ بیٹھے کہ
حضرت آپ کے اس عمل کی دلیل کیا ہے ۔ ؟
تو بنا گھبرائے دوسرا سوال جڑ دو کہ کس حدیث میں یہ منع ہے ۔ ؟
اور بنا اس کی بات پر دھیان دیئے یہ رٹ لگا دو کہ " کہاں ہے منع کی حدیث ؟
اگر سامنے والا کوئی حدیث بمعہ کتاب کے سامنے لے آئے تو فورا اک زوردار قہقہ لگاؤ اور کہو کہ صاحب کون یہ حدیث کی کون سی کتاب لے آئے ۔ ہم تو صرف " فلاں فلاں " کو ہی مصدقہ جانتے ہیں اور باقی تمام بارے ضعیف موضوع کا حکم لگاتے نہ صرف سب کا انکار کرو بلکہ اتنا استہزاء اور مذاق اڑاؤ کہ سامنے والا شرمندہ ہو کر گھبرا جائے ۔
اگر سامنے والا تھوڑا تیز ہو اور وہ آپ ہی کی " مصدقہ " قرار دی گئی احادیث کی کتاب لے آئے ۔ تو بھی گھبراؤ نہیں بلکہ
" فورا " کوئ شرط اپنی طرف سے لگا دو کہ فلاں لفظ دکھاؤ ۔ توایک لاکھہ روپیہ انعام ، ہاں یاد رہے کہ وہ حدیث صحیح صریح مرفوع غیرمرجوح هو ،
اگربالفرض وه لفظ ہی مل جائے اور سامنے والا دکھا دے کہ یہ ہے وہ لفظ تو پورے زور کے ساتھ تین مرتبہ اعلان کردو
کہ یہ تو ضعیف ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
جو نماز نہیں پڑھتا اس کو کبھی نہیں کہنا کہ نماز پڑھو، هاں جو نماز پڑھ رها هو اس کو ضرور کہنا کہ تیری نماز نہیں هوئ تو نے فلاں فلاں رکن میں فلاں فلاں حدیث میں بیان کردہ حکم کا خیال نہیں رکھا ۔ ۰
ان مداریوں کے یہ " چھ گر " ان کے علم کلام کا محور ہوتے ہیں ۔


يه ساري عبارت بذات خود ايك كرتب هے جسے ميں نظر انداز كرتا هوں اور بتا ديتا هوں كه سنت اور جرح وتعديل كي كتب هم تك با سند پهنچي ہیں۔

اور بالفرض اگر نه بھی پهنچتي تو كوئي مسئله نهيں تھا۔ كيونكه مذكوره عبارت لكھنے والے صاحب كے پاس جس انداز سے قرآن پهنچا هے بعينه اسي طرح هم تك سنت پهنچي هے فرق صرف يه كه قرآن كي سند زياده مضبوط هے۔
 

فرسان

محفلین
التجا ہے کہ ذرا توجہ خاص سے یہ گفتگو پڑھئے گا ۔ شاید کہ کوئی سرا پا جائیں آپ ۔

آپ سے پھر يهي سوال هے كه كيا حضرت علي رضي الله عنه يوم حديبيه رسول الله صلى الله عليه وسلم کے كاتب تھے؟؟؟؟ هاں يا نهيں؟؟؟

اگر تھے تو كيا لفظ "رسول الله" مٹانے كا حكم هوا؟؟؟؟ هاں يا نهيں؟؟؟

آپ بات گھمائے بنا صرف يه بتائيں كه كيا سيدي صلى الله عليه وسلم حضرت علي كو يا كسي اور صحابي كو ( رضي الله عنهم اجمعين ) ايسي بات كا حكم دے سكتے ہیں جو ايمان كي كجي كي دليل هو( نعوذ بالله) ؟؟؟؟؟؟ هاں يا نهيں؟؟؟

آپ ہاں يا نهيں ميں جواب دے ديں برائے مهرباني ۔

بس اتني سي بات هے! اور جواب نه آئے تو غصه نهیں كرنا چاهيے۔
 

نایاب

لائبریرین
غلط فهمي سے بچنے كے لئے بتاتا هوں كه ميرا اشاره مذكوره بالا عبارت كي طرف تھا اور اهل علم جانتے ہیں كه اس عبارت ميں كس جليل القدر صحابي كو غمز كيا گيا هےِ۔

اب ان سے كوئي يه پوچھ لے كه لاؤ وه روايت جس كي بنا پر تم نے اس جليل هستي سے غمز كركے اپني آخرت كالي كي هے تو ان كي سانس پھول جاوے۔
میرے محترم بھائی ۔ اگر کوئی صاحب علم اس تحریر میں پوشیدہ حقیقت کو جان گیا تو اس کے معنی یہ ہوئیےکہ اس صاحب علم کی نگاہ سے یہ روایت گزر چکی ہوگی ۔ اور یہی مقصود تھا اس تحریر سے کہ اکثر "روایات " صرف " فلاں فلاں کے کہے لکھے پر استوار ہیں ۔ اور کون جانے کہ ان روایات کو مشہور کرنے والوں نے کس نیت کے ساتھ ان روایات کو عام کرتے " درجہ حدیث " عطا کیا ۔ " اور ہم صدیوں کی دوری پر رہتے ان احادیث سے انتشار و فساد کی خوب آبیاری کررہے ہیں ۔
 

فرسان

محفلین
((الحديث الصحیح ، صحیح لغیره ، المتواتر ،الغريب ،المنقطع،المتصل، الضعيف ، ، المرسل ، المسند ،، الحسن ، حسن لغیره ، المقلوب،المنكر،المشهور ، المعلق ، المعنن و المؤنن ، المتروك ، الافراد أو الآحاد ، المعضل ،المبهم ،المسلسل ، المطروح ، الموقوف ، المستفيض ، المدلس ، العالى ، الموضوع ، المقطوع ، العزيز ، المرسل الخفى ،النازل،التابع،الشاهد، المدبج،السابق واللاحق المتفق والمفترق،المؤتلف والمختلف الرواية الأكابر عن الأصاغر،)) ،
(( الجوامع ،المسانيد ،السنن، المعاجم ،العلل ، الأجزاء ، الأطراف ، المستدركات ، المستخرجات ، الناسخ والمنسوخ ، مختلف الحديث ، الجرح والتعديل ، أصول الحديث ، غريب الحديث ، الأنساب والألقاب والكنى والأوطان والبلدان ، ))

يه سب نام تو copy paste كا كرشمه هے۔

ورنه ذرا ذيل كي اصطلاحات كا مطلب بتائيں كه يه كيا هے۔
المعضل
المدبج
السابق واللاحق
المتفق والمفترق
المؤتلف والمختلف


(ويسے كس نے كاپي كركے دي هيں؟؟؟) :applause:
 
Top