بخاری محدث کے بارے میں ایک کتاب : قرآن مقدس اور بخاری مقدس

فرسان

محفلین
اور هاں يه جو آپ بار بار "خيراء" لكھ رهے ہیں تو آپ هى كو ڈھیروں

خيراءملے ۔​
("السام" والي بدديانتي كو بھانپ ليا كريں۔ "خيراء" بهت بيهوده معنى ركھتا هے۔)​
 

نایاب

لائبریرین
اور هاں يه جو آپ بار بار "خيراء" لكھ رهے ہیں تو آپ هى كو ڈھیروں

خيراءملے ۔​
("السام" والي بدديانتي كو بھانپ ليا كريں۔ "خيراء" بهت بيهوده معنى ركھتا هے۔)​
محترم بھائی آپ سے دلی معذرت اگر آپ کی دانست میں یہ لفظ " خیراء " بہت بیہودہ معنی رکھتا ہے ۔
کیا ہی اچھا ہو کہ افادہ عام کے لیئے اس لفظ " خیراء " کی درست املا اور معنی مطالب تحریر فرما دیں ۔
اللہ آپ کو بہترین جزا سے نوازے آمین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے تو " امیرالمحدثین حضرت امام بخاری رحمہ اللہ " کی سائٹ پر بھی ایسی ہی املا سے لکھا دیکھا ہے ۔
صحیح بخاری سے احادیث مبارکہ اپنے ای میل بوکس میں فری حاصل کیجئے ۔۔۔

ای میل بوکس میں حاصل کردہ احادیث مبارکہ اپنے دوست احباب کو بھی بھیج سکتے ہیں۔ اور اپنے پاس محفوظ بھی رکھہ سکتے ہیں۔ نیچے دئیے ہوئے بوکس میں اپنا ای میل ایڈریس ٹائپ کیجئے۔ جزاک اللہ خیراء
 

نایاب

لائبریرین
محترم " فرسان " بھائی
سنا پڑھا کچھ ایسے ہے کہ " مومن ہمیشہ صاف سیدھی سچی بات کرتا ہے "
پنجابی میں کہتے ہیں کہ " سخی نالوں شوم چنگا جیہڑا ترنت دیوے جواب "
کب تک کسی شرارت کے منتظر رہیں گے ۔ ؟
لکھ ڈالیں بھائی " قلم و قرطاس " بارے جو بھی حقیقت ہے ۔
 

فرسان

محفلین
محترم بھائی آپ سے دلی معذرت اگر آپ کی دانست میں یہ لفظ " خیراء " بہت بیہودہ معنی رکھتا ہے ۔
کیا ہی اچھا ہو کہ افادہ عام کے لیئے اس لفظ " خیراء " کی درست املا اور معنی مطالب تحریر فرما دیں ۔
اللہ آپ کو بہترین جزا سے نوازے آمین ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
میں نے تو " امیرالمحدثین حضرت امام بخاری رحمہ اللہ " کی سائٹ پر بھی ایسی ہی املا سے لکھا دیکھا ہے ۔
صحیح بخاری سے احادیث مبارکہ اپنے ای میل بوکس میں فری حاصل کیجئے ۔۔۔

ای میل بوکس میں حاصل کردہ احادیث مبارکہ اپنے دوست احباب کو بھی بھیج سکتے ہیں۔ اور اپنے پاس محفوظ بھی رکھہ سکتے ہیں۔ نیچے دئیے ہوئے بوکس میں اپنا ای میل ایڈریس ٹائپ کیجئے۔ جزاک اللہ خیراء

:):):)

"خيرا" هوتا هے۔ آخر ميں همزه نهيں هے۔

خيراء كا ماده نجاست والا هے۔ (فيعال سے وزن نكال كر ديكھيں۔)

جس سائٹ كا حواله آپ نے ديا هے ان كي بھی تصحيح كرديں۔ يه بھی بددعائيں دئيے جا رهے ہیں۔
 

فرسان

محفلین
اصل حديث كي طرف رجوع سے قبل كچھ امور كا جاننا اور سمجھنا بهتر هے تاكه حديث قرطاس سمجھنے ميں آساني هو. سلف صالحين كو ان امور كا بخوبي علم تھا ، اسي بنا پر آج تك انھيں اس ميں كوئي اشكال محسوس نهيں هوا. فقير كو كسي ايسے سني عالم كا معلوم نهيں هو سكا جنهيں اس ميں اشكال محسوس هوا هو.
اس كا يه مطلب بھي هرگز نهيں كه اگر آج كسي كو (جس كي نيت صاف هو) اس ميں اشكال محسوس هو تو اسے ملامت كيا جائے. بالكل نهيں ، هر وه عقل جو سوچتي هے اسے بعض امور ميں پيچيدگي محسوس هوا كرتي هے اور يه فطرت انساني هے. اگر كسي مطالعه پسند شخصيت كو اشكال هو تو اشكال كو علماء كے هاں لے جانا چاهيے. اشكال بھي رفع هو جاتا هے اور ورثاء الابنياء كي زيارت بھي هو جاتي هے.
يه دور (خصوصا پاكستان ميں) علمي مندي اور كساد بازاري كا دور هے ، اس ميں اشكال كا پيدا هو جانا ممكن هے ، خصوصا تب جب همارے هاں بدقسمتي سے ديني امور ميں درس لينے ميں دلچسپي بهت كم لي جاتي هے البته رائے زني كرنا هر كسي كا حق تصور كيا جاتا هے.

شادي بياه كا جشن هو ، عيد ملن هو يا كسي كي وفات په اكٹھا هوا جائے، لوگ بلا تكلف ديني امور ميں بڑھ چڑھ كر بحث مباحثه كر رهے هوتے هيں.

اگر ميري عبارات ميں سختي هو تو صرف نظر كي التماس كرتا هوں. الله نے هر شخص كو نرم پيدا نهيں فرمايا اگرچه فضيلت هر طرح سے نرمي اور نرم لوگوں هي كو حاصل هے.

ميرا كردار ايسا نهيں كه ميں كوئي نصيحت كرسكوں. هميں اور خصوصا مجھ غلط كار كو اپنے كردار پر شرمسار هونا چاهيے. قائين سے گزراش هے كه ميري ذات سے صرف نظر كرتے هوئے فقط اس پيغام كو اهميت ديجئے جو ميرا نهيں هے. بلكه ميري سعادت اسي ميں هے كه ميں اس كے سيكھنے اور سيكھانے ميں عمر لگا دوں. الله هم سب كو هدايت اور مغفرت سے نوازے. آمين وصلى الله على سيدنا.
 

فرسان

محفلین
بسم الله الرحمن الرحيم​
وصلى الله على النبي الحبيب​

صحيح حديث كا مفهوم هے كه "الله تعالى علم كو اس طرح نهيں اٹھاتے كه بندوں (كے سينوں) سے كھينچ كر ، مگر علماء كو اٹھا نے سے علم ختم كرتے هيں. يهاں تك كه جب الله كسي عالم كو (زمين پر) باقي نه چھوڑيں تو لوگ جاهلوں كو اپنا پيشوا بناليں اور جب ان سے پوچھيں تو بلا علم رائے ديں اور خود بھي گمراه هوں اور دوسروں كو بھي گمراه كريں گے." (حديث ختم هوئي)
ايك اور صحيح حديث كا مفهوم هے كه "بے شك قيامت كي نشانيوں ميں سے هے كه علم اٹھا ليا جائے اور جهالت راسخ هو جائے."(حديث ختم هوئي)
ايك اور صحيح حديث كا مفهوم هے كه "قيامت سے قبل كچھ دن (يعني زمانه) آئے گا جس ميں جهالت نازل هو گي اور علم اٹھا ليا جائے گا اور قتل عام هوگا"(حديث ختم هوئي)

آپ كو غالبا كئي بار احساس هوا هي هوگا كه هم قريب از قيامت زمانه هي ميں ره رهے هيں. ايسے ميں يه الفاظ "ميري رائے" ، "ميري سمجھ" ، "ميري تحقيق" ، "ميرے خيال سے" ، "روايتي مولوي" ، "پرانے فقهاء تنگ نظر" اور "اسلاف غلطي كر گئے" وغيره مذكوره بالا احاديث كي روشني ميں هماري ايك خطرناك روش هے.
صحيح حديث ميں چند لوگوں كا ذكر هے كه "وه جهنم كے ابواب پر كھڑے جهنم كي طرف دعوت دينے والے هونگے جس نے ان كي پكار مان لي اسے وه جهنم ميں گرائيں گے. حضرت حذيفه رضي الله عنه نے ان لوگوں كي نشاني پوچھي تو فرمايا كه وه هميں ميں سے هونگے اور هماري هي زبان بولا كريں گے".(حديث ختم هوئي)

سلف صالحين اور امت كا وه عمل جس پر 1300 صدي هجري كے بعد مختلف تحقيقات اور علميت كي آڑ ميں هرزه سرائي هونے لگے اسي حديث كي عين اليقين شرح لگتي هے. ايسے ميں اپنا ايمان بچانے كا بهترين طريقه جو حديث ميں هے وه مسلمانوں كي جماعت (يعني مفهوما متفقه نظريات) كو لازم پكڑنے ميں هے. يه چاروں احاديث اس قسم سے تعلق ركھتي هيں جنهيں صحيح ترين يعني "متفق عليه" كها جاتا هے. يه چاروں احاديث متفق عليها هيں.
 

فرسان

محفلین
سب سے پهلے يه جاننا چاهيے كه انبياء اپني امت يا اصحاب پر نكير كريں تو يه عين ممكن اور واقع امر هے. انبياء كا اپني امت سے شفيق والد اور فرزند كا سا رشته هوتا هے.

اسي طرح الله تعالى رب البرية اگر افضل الخلق نوع انساني يعني اپنے انبياء ميں سے كسي هستي پر نكير فرمائے تو يه بھي عين ممكن اور واقع امر هے. الله تعالى كي ذات قادر مطلق ذات هے. دلائل آگے آرهے هيں ان شاء الله.

مگر يه نكير نه تو اس شخصيت كي (نعوذ بالله) تنقيص كي دليل هے اور نه هي كسي دوسرے كو يه حق حاصل هے كے اعتراض كرسكے. بلكه اس صورت ميں اعتراض وارد هوتا هي نهيں اور اعتراض كرنے والا اور غمز اور طعنه زني كرنے والا رانده درگاه هے اور برا هے.

اسي طرح هر دو صورت كي نكير سے اس هستي كے ايمان ، خلوص اور فرمانبرداري پر كوئي حرف نهيں آتا بلكه نكير كا ان تين سے كوئي تعلق هي نهيں. جو شك كرے تو اس كا اپنا ايمان مشكوك اور اخلاص مرفوع هے. اور جو نفي كرے تو اس كے اپنے ايمان كي نفي اور خلوص كي نفي هے.
 

فرسان

محفلین
ايك جنگ ميں ايك صحابي نے ايك شخص كو قتل كيا. شخص ايسا تھا جس نے كلمه پڑھا تھا اور صحابي كے سامنے پڑھا تھا. جنگ تھي اور ان صحابي نے اس كے كلمے كو مكر سمجھا اور قتل كرديا. يه ان صحابي كا اجتهاد تھا. جب مدينه منوره پهنچے اور سيد الكونين صلى الله عليه وسلم كو معلوم هوا تو آپ صلى الله عليه وسلم نے سخت ناگواري كا اظهار فرمايا اور انتهائي سخت نكير فرمائي يهاں تك كه صحابي اتنے شرمسار هوئے كه وه فرمايا كرتے تھے كه كاش ميں اس دن كے بعد مسلمان هوا هوتا اور اس دن كي شرمساري سے بچ جاتا.
اس نكير كا ان مبارك صحابي كے ايمان ، خلوص اور فرمانبرداري سے كوئي تعلق نهيں. بلكه يه صحابي آخري وقت تك حضور پر نور صلى الله عليه وسلم كے پيارے رهے. يهاں تك كه جهاں كهيں كسي كو حضور صلى الله عليه وسلم كي خدمت ميں سفارش كروانا هوتي تو يه آخري اميد هوا كرتے تھے. مخزومي عورت كا جو مشهور قصه هے وهاں يهي ايك شخصيت نظر آئي تھي جو بارگاه رسالت ميں سفارش كرتي.

نكير تو كي گئي هے مگر كيا ان كي تنقيص يا ناموس پر حرف آتا هے؟
ايمان اور خلوص پر حرف آتا هے؟؟؟
 

فرسان

محفلین
ايك صحابي اپني مسجد كے امام تھے اور جماعت عشاء كي امامت انجام ديا كرتے تھے. قرآن كے بهترين علماء ميں ان كا شمار هوتا هے.
نماز كچھ لمبي پڑھا كرتے تھے اور جماعت بھي لمبي كراتے تھے اور وه جماعت زياده لمبي كروانے كو اچھا خيال كيا كرتے تھى. وه دَور ايمان كا دَور تھا. ان كي مسجد كے لوگ بھي ان كے ساتھ هي تھے.
يهاں تك كه ايك شخص صبح كا كام كاج كركے تھكا هارا آيا اور نماز عشاء ان كي مسجد ميں ادا كي. آپ نے نماز لمبي كروائي اور اتني لمبي هونے لگي كه وه شخص جماعت كي نماز توڑ كر الگ اپني نماز پڑھ كر چلا گيا.
يه خبر جب سيدي رسول الله صلى الله عليه وسلم تك پهنچي تو آپ نے اس شخص سے پوچھا كه اس نے ايسا كيوں كيا؟
اس نے كها كه هم صبح كے كام كاج كركے آتے هيں اور تھكن سے چور لمبي نماز ادا نهيں كرسكتے.
اس پر حضور صلى الله عليه وسلم، ان امام صحابي كي طرف متوجه هوئے اور اتني سخت نكير فرمائي يهاں تك كه فرمايا "أفتان أنت".

اس نكير كا ان مبارك صحابي كے ايمان ، خلوص اور فرمانبرداري سے كوئي تعلق نهيں. بلكه يه صحابي آخري وقت تك حضور پر نور صلى الله عليه وسلم كے قريب رهے. يه وهي صحابي هيں جنهيں حضور صلى الله عليه وسلم نے حلال وحرام كا سب سےبڑا عالم قرار ديا تھا(يعني بهترين فقيه).

يه ان چار صحابه ميں سے هيں جن كا نام لے كر سيدي رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا كه قرآن ان سے سيكھو.

حضور صلى الله عليه وسلم كي حيات هي ميں يمن ان كو سونپا گيا تھا.

صحابه كرام كي باهمي علمي گفتگو ميں انكا حرف قول فيصل هوا كرتا تھا.


ان كي خطا پر نكير تو كي گئي هے مگر كيا ان كي تنقيص يا ناموس پر حرف آتا هے؟
ايمان اور خلوص پر حرف آتا هے؟؟؟
 

فرسان

محفلین
ميرے پاس اور بھي كئي مثاليں هيں. مثلا حضور صلى الله عليه وسلم كے ايك داماد صحابي پر نكير هوئي تھي اور وه بھي بهت سخت هوئي تھي. يه صحابي ان صحابه ميں سے هيں جن كي محبت ايمان كي نشاني هے.

بعض لوگ يه صحابه كے قصص پڑھ كر اور سركش بھي هو سكتے هيں لهذا ان كے لئے سوره صافات آيات (141 )اور القلم48 كا حواله هے. يهاں رب العالمين نے نكير كي هے. اور معاذ الله كه كوئي مسلمان يهاں برا سوچے.

ان مثالوں سے جن ميں نكير هے ان هستيوں كي شان اور ناموس پر بھي كوئي حرف نهيں آتا. سب سے بڑھ كر جو قرآن كا حواله هے اس ميں.

يهاں تك اگر كسي كو اختلاف نهيں تو يه ثابت هوتا هے كه
1. شارع كي نكير مكلف پر عين ممكن اور واقع هے. اور امتي كا كوئي فعل شارع كي ناپسنديدگي كا باعث بن سكتا جس پر نكير كي جائے.
2. كسي صحابي كا اجتهاد غلط هو سكتا هے.
3.نكير كا ايمان ، خلوص اور فرمانبرداري سے كوئي تعلق نهيں.
 

فرسان

محفلین
دوم يه جاننا ضروري هے كه صحابه كا باهم اختلاف اگر هو تو اس كا كيا حكم هے.

غزوه احزاب سے واپسي پر حضور صلى الله عليه وسلم نے صحابه سے فرمايا كه تم ميں سے كوئي بھي بنو قريظه كے علاقے ميں پهنچنے سے پهلے نماز ادا نه كرے.
صحابه كي ايك جماعت راسته ميں تھي كه عصر كا وقت هوگيا. چونكه حضور صلى الله عليه وسلم نے نماز كي تاكيد كي تھي كه بنو قريظه هي ميں ادا كي جائے تو پھر صحابه كا آپس ميں اختلاف هوا كه نماز كهاں ادا كي جائے. ايك فريق نے راسته هي ميں ادا كي اور كها كه "هم سے يه نهيں چاها گيا" يعني كه انهوں نے حضور صلى الله عليه وسلم كے حكم كي تشريح مقصد كو ذهن ميں ركھ كر كچھ اور كي. دوسرے فريق نے بنو قريظه كے علاقے ميں پهنچ كر نماز ادا كي اور انھوں نے حكم كسي اور طرح سے سمجھا.
جب واقعه كا علم حضور صلى الله عليه وسلم كو هوا تو آپ نے كسي فريق پر نكير نه فرمائي. اور نه هي كسي ايك كو صحيح كهنے كا معلوم هوا هے. جس پر حضور صلى الله عليه وسلم نكير نه فرمائيں وه امر جائز هوتا هے.
 

فرسان

محفلین
يهاں تك لكھنے كے بعد ميں كچھ انتظار كے بعد باقي لكھوں گا ان شاء الله.

كوئي ابهام هو تو اعتراف كوتاهي كرتا هوں۔
 

فرسان

محفلین
بسم الله الرحمن الرحيم

حديث قرطاس جيسا كه پيچھے گرز چكا هے ، صرف ايك كتاب الجامع الصحيح از امام بخاري ميں نهيں هے بلكه بسيوں كتب ميں هے اور كئي اسانيد سے مروي هے.

جمعرات كو سيدنا رسول الله صلى الله عليه وسلم كے پاس بهت سے صحابه موجود تھے۔

رسول الله صلى الله عليه وسلم پر درد كي شدت هوتي هے مگر اس گھڑي بھي حضور صلى الله عليه وسلم كو اپني امت هي كي فكر هے.

رسول الله صلى الله عليه وسلم كچھ لكھوانا چاهتے هيں اور قلم كتاب طلب فرماتے هيں. كتاب سے يهاں مراد كوئي بھي چيز جس پر لكھا جاسكے اس سے مراد كاغذ بالكل بھي نهيں هے اور نه اس سے يه مراد هو سكتا هے. عرب ميں كاغذ هي كتنا تھا. عرب ميں لكھنے پڑھنے كا رواج نه تھا. تو قلم اور لكھنے كا سامان بھي كمياب تھا.

ايسے ميں قلم اور كتاب كسي كاتب وحي كے گھر پر هي ميسر هو سكتا هے. جو لانے ميں وقت لگے گا.

حضور صلى الله عليه وسلم كي حالت ديكھ كر حضرت عمر رضي الله عنه نے حاضرين كي توجه اس طرف دلائي كه حضور صلى الله عليه وسلم پر درد كا غلبه هے. اس پر باقي صحابه بھي حضرت عمر رضي الله عنه كي تائيد كرتے هيں سوائے كچھ صحابه كے.

يهاں تك بات آساني سے سمجھ آجاتي هے. اور اگر كسي كو صحابه سے بغض كي بيماري لاحق نه هو تو اسے اتنا يقين هے كه حضرت عمر رضي الله عنه نے فرط اخلاص ميں حضور صلى الله عليه وسلم كے آرام كي خاطر يه كها تھا. اور يقين كيوں نه هو كه يه عمر حضور صلى الله عليه وسلم سے 15 سال چھوٹے تھے يعني اولاد كي جگه تھے اور اتني شديد محبت ركھتے تھے كه حضور صلى الله عليه وسلم كي رحلت كا انهيں يقين هي نه آيا تھا اور اگر كوئي يقين دلانے كي كوشش كرتا تو شديد برهم هوجاتے يهاں تك كه حضرت ابو بكر نے قرآن كي آيات سے حضور صلى الله عليه وسلم كي رحلت كا يه سانحه ثابت كيا. جنهيں ايسي محبت هوتي هے وه حديبيه كے دن لفظ "رسول الله" مٹا نه سكے. جنهيں ايسي محبت هوتي هے وه ايك جنازه كے لئے حضور صلى الله عليه وسلم كو نيند سے بيدار نه كرسكے اگرچه كه حكم سر آنكھوں پر.
 
مدیر کی آخری تدوین:

فرسان

محفلین
اس كے علاوه جتنے بھي علماء نے اس حديث پر كلام كيا هے ان سب نے حضرت عمر رضي الله عنه كي رائے هي كو صحيح اور افضل كها هے اس ميں صرف ايك شخصيت نے اختلاف كيا هے جو ظاهري مذهب سے تعلق ركھتے هيں.
علماء نے اس واقعه كو حضرت عمر رضي الله عنه كي فقاهت كي واضح دليل قرار ديا هے. اور كيوں نه هو كه حضرت عمر رضي الله عنه كي فقاهت پهلے سے ثابت شده هے.

صحابه كے بهترين فقهاء ميں سے ايك حضرت عبد الله بن مسعود كي گواهي هے كه "اگر عمر (رضي الله عنه) كا علم ترازو كي ايك جانب هو اور باقي زمين والوں كا علم دوسري جانب هو تو عمر (رضي الله عنه) كي طرف بھاري رهے گي."

حضرت حذيفه كا كهنا هے كه "يوں محسوس هوتا هے كه لوگون كا علم عمر (رضي الله عنه) كے همراه ايك جگه جمع رها هے."

بهر حال حضرت عمر كي فقاهت پر تو كتب موجود هيں، يهاں صرف يه ثابت كرنا تھا كه اگر بعض صحابه بزرگ أصحاب سے اختلاف نه كرتے اور حضرت عمر كي بات پر غور كرتے اور مان ليتے تو تنازعه نه هوتا اور سب كي حالت ايسي هوتي جيسي ابن عباس رضي الله عنه كي تھي يا كم از كم ان جيسي جنهوں نے حضور صلى الله عليه وسلم كو نيند سے نه جگايا. مگر اختلاف كي وجه سے تنازعه هوا جو حضور صلى الله عليه وسلم كو ناگوار گزرا اور حضور صلى الله عليه وسلم نے سب كو اٹھ كھڑے هونے كا حكم دے ديا.
 

فرسان

محفلین
يهاں يه ياد رهے كه اٹھ كھڑے هونے كا حكم يا تو تنازعه كي وجه سے ديا گيا تھا اور يا حضور صلى الله عليه وسلم نے آرام كرنا چاها اور سب كو جانے كا كها. اگر اس كو نكير اور حضور صلى الله عليه وسلم كي ناپسنديدگي مانا جائے تو بھي يه اس وجه سے هرگز نه تھي كه صحابه نے قلم اور كتاب لانے ميں تامل كيا. كيونكه اگر ايسا هوتا تو حضور صلى الله عليه وسلم ان كي تعريف فرماتے جو قلم اور كتاب لانا چاه رهے تھے اور ان لوگوں كي ترديد اور تصحيح فرماتے جو تامل كر رهے تھے. مگر اس كے برعكس حضور صلى الله عليه وسلم نے كسي كو غلط نهيں فرمايا اور اس سے معلوم هوا كه دونوں فريقين كا اجتهاد ويسے هي مقبول هوا جيسے عصر والے معاملے ميں دونوں فريقين كا اجتهاد مقبول هوا تھا. البته حضور صلى الله عليه وسلم كا مبارك عمل يه ظاهر كرتا هے كه حضرت عمر رضي الله عنه كا فعل حضور صلى الله عليه وسلم نے قبول فرمايا اور لكھوانے كا اراده ترك فرما ديا.

ليكن تنازعه هوا اور حضور صلى الله عليه وسلم كے آرام ميں خلل واقع هوا اور حضور صلى الله عليه وسلم كي طبيعت سخت عليل تھي لهذا حضور صلى الله عليه وسلم نے زياده بات مناسب (يا طبيعت كے باعث ممكن) نه سمجھي اور سب كو اٹھ جانے كا حكم دے ديا.

الله تعالى كا حكم هے كه "اگر تم كسي چيز ميں اختلاف كرو تو اسے الله اور رسول صلى الله عليه وسلم كي طرف لوٹا ديا كرو" (سوره النساء)

ماضي ميں جهاں كهيں كسي مسئله پر اختلاف هوجاتا سيدي صلى الله عليه وسلم فيصله فرما ديا كرتے. مگر اس دفعه ايسا نه فرمايا ، كيوں؟

شايد طبيعت بهت ناساز تھي اس لئے معامله كو رفع فرمايا اور تمام اصحاب كو اٹھ كھڑا هونے كو فرماديا. يا پھر يه كه سيدي صلى الله عليه وسلم نے آرام فرمانا چاها.
انبياء كي موجودگي ميں اگر كوئي ناجائز عمل هو تو انبياء اس كي تصحيح فرمايا كرتے هيں اور كرنے والے كو بلا تصحيح نهيں جانے ديتے. اگر دليل ملاحظه كرني هو تو سوره حديد آيت 25 ديكھ ليں.لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْط (القرآن)
 

فرسان

محفلین
يه كوئي بهت بڑا واقعه نهيں تھا بلكه اتنا سا تھا كه اسے صرف ايك صحابي نے روايت كيا. اگر يه كوئي بهت بڑي نكير هوتي تو ضرور صحابه ميں مشهور هوتي اور كئي صحابه اسے بيان كرتے. مكر واقعه اس كے برعكس هے.

اگر اس واقعه ميں كي گئي نكير كا موازنه فقير كي پهلے دي گئي مثالوں سے كيا جائے تو يه واقعه بهت بڑا نهيں رهتا.

صحابه كے هر دو فريق نے اپنے خلوص سے وه كيا جو ان كے ايمان ويقين نے انهيں راه دكھائي مگر يه كه اختلاف رائے پيدا هوا اور حضرت ابن عباس رضي الله عنه كے قول كے مطابق اختلاف رائے انبياء كے سامنے جائز نهيں لهذا اس پر نكير هوئي.

يهاں تك يه ثابت هوگيا – والحمد لله – كه نكير كا تعلق قلم اور قرطاس سے تھا هي نهيں. اس كا تعلق باهم تنازعه سے تھا اور امام بخاري كي فقاهت ملاحظه هو كه وه بھي اس حديث سے يهي معنى اخذ كرتے هوئے "باب كراهية الخلاف"ميں اسے لائے هيں. لهذا نكير كا تعلق قلم قرطاس سے بتانا محض هٹ دھرمي هے اور هميشه كيلئے محتاج برهان هے.
 

فرسان

محفلین
آج تك كسي سني عالم نے سيدي صلى الله عليه وسلم كي اس نكير پر جو آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمائي ، اس كو قلم اور قرطاس سے متعلق نهيں كها. اگر كسي كو پھر بھي اصرار هو كه نهيں جناب نكير كا تعلق قلم اور كتاب هي سے تھا تو وه اس كي وجه بيان فرما دے كه پھر ساتھ ان صحابه كو بھي اٹھ كھڑے هونے كا حكم كيوں هوا جو قلم اور كتاب لانا چاه رهے تھے؟؟ بلكه ساتھ ميں ان صحابه پر دو مرتبه نكير هوئي جيسا كه آگے آئے گا ان شاء الله.

ميري دانست ميں اب اس حديث كي اجمالي وضاحت مكمل هوئي جس ميں مزيد كوئي ابهام نهيں. لهذا اب ميں ان عبارات كي طرف متوجه هوتا هوں - باذن الله - جو ظاهري طور پر اشكال كا باعث بني هيں.
 

فرسان

محفلین
يه الفاظ كه "قوموا عني" اور "فالذي أنا فيه خير مما تدعوني إليه"


سب سے پهلے يه جان ليجئے كه حضرت ابن عباس رضي الله عنه سے يه حديث دو مشهور طرق سے مروي هے.

يه دونوں الفاظ ايك هي حديث ميں كهيں نهيں آئے. جس حديث ميں "قوموا" كے الفاظ هيں اس ميں "فالذي أنا فيه خير مما تدعوني إليه" كے الفاظ نهيں اور جن ميں يه هيں ان ميں "قوموا عني" كے الفاظ نهيں. جو اس كے برعكس دعوى كرے تو هميں بھي با دليل اپنے علم سے فيضياب كرتا جائے.

"قوموا عني" كے الفاظ احاديث ميں آئے هيں اور جن صاحب كو اصرار هو كه يه الفاظ صرف ناپسنديدگي كے لئے بولے جاتے هيں تو وه فقط دو شهادتيں كسي عربي عالم كي لے آئے. يا كم از كم دو شهادتيں دو سني عرب علماء كي لے آئے كه هاں ان الفاظ سے يهاں سخت ناپسنديدگي هي هے.

في الحقيقت يه الفاظ صرف عتاب كے لئے نهيں بولے جاتے. جيسا كه حديث ميں قرآن كے بارے ميں هے كه "فَقُومُوا عنه"
يا جيسے حضرت عمر رضي الله عنه نے اپنے آخري وقت ميں (ابو لولو ملعون كے خنجر سے زخمي هونے كے بعد) حاضرين كو چند ضروري نصيحتيں كرنے كے بعد فرمايا "قوموا عني". اور بھي كئي واقعات هيں.

بهر حال ان دونوں واقعات سے يه ثابت كرنا مقصود هے كه يه الفاظ ناپسنديدگي كي دليل نهيں هيں لهذا جو صاحب عربي كو بھي هندي اور فارسي شاعري سے متاثر هوكر سمجھنے كے سقم ميں مبتلا هيں الله انھيں شفاياب فرمائے.

اگر كوئي صاحب يه كهيں كه يهاں ناپسنديدگي سياق سے ظاهر هے تو يه بھي بلا دليل اهل تشيع كى اعتراض سے متاثر هونے كي عكاسي هے.

كيونكه سياق ميں سيدي صلى الله عليه وسلم نے چند ضروري نصيحتيں فرمائيں اور اٹھ جانے كو فرمايا. زياده سے زياده اگر كوئي كهے تو يه كهه سكتا هے كه ان الفاظ ميں نكير پائي جاتي هے اور ايسي صورت ميں بھي صحابه كي ناموس ميں كوئي شك نهيں پيدا هوتا جيسا كه ثابت كيا جا چكا هے. ناپسنديدگي كا احتمال البته موجود هے جو اگر هو تو تنازعه كي وجه سے هے قلم اور كتاب ميں تامل كي وجه سے نهيں.
 

فرسان

محفلین
"فالذي أنا فيه خير مما تدعوني إليه" كے الفاظ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے ان لوگوں كے لئے فرمائے تھے جنهوں نے دوباره لكھوانے كا استفسار كيا تھا.
· دليل 1 : استفهموه، قال: "دعوني فالذي أنا فيه خير"
· دليل 2 : فذهبوا يعيدون عليه، فقال: "دعوني فالذي أنا فيه خير مما تدعوني إليه"
· دليل 3 : فذهبوا يردون عليه، فقال: "دعوني، فالذي أنا فيه خير مما تدعوني إليه"

لهذا اس سے ثابت هوا كه يه الفاظ صحابه كے دوباره لكھوانے كے استفسار پر تھے.
 
Top