بخاری محدث کے بارے میں ایک کتاب : قرآن مقدس اور بخاری مقدس

فرسان

محفلین
فرسان صاحب سے درخواست ہے کہ حدیثِ قرطاس کے جتنے حوالہ جات انہوں نے دئے ہیں، اگر زحمت نہ ہو تو انکے متون بھی یہاں پوسٹ کردیں تاکہ حق پوری طرح واضح ہوسکے۔۔۔ شکریہ :)
اس كي تعميل كي كوشش كسي حد تك كروں گا إن شاء الله مگر پوری طرح ممكن نهيں۔
 

فرسان

محفلین
سو حدیث قلم و قرطاس میں کونسا پہلو مخفی ہے ۔ جو حدیث مبارک یہ بیان کرتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چہرے سے ناراضگی کے آثار ظاہر ہوئے ۔

لے آئيے يه الفاظ كه سيدي صلى الله عليه وسلم كےمبارك چہرے سے نارضگي ظاهر هوئي۔ ياد رهے كه جب آپ ايسي روايت لائيں تو سند صحيح هوني چاهيے۔
اگرحديث صحيح هو تو هم اسے عقل پر فوقيت ديتے ہیں۔
اور اگر ضعيف هو تو اس كا جواب دينا لازم نهيں جانتے۔

صلح حدیبیہ کے بارے سوچنا ہے تو اس حدیث مبارک بارے سوچیں ، جو کہتی ہے کہ کچھ صحابہ کرام کو نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا صلح کرنا پسند نہ آیا ۔ اور وہ آپ کی رسالت پر اشکال میں الجھ گئے ۔۔۔

يه حديث (صحيح سند كے ساتھ بھی آپ پر ادھار هوئي۔ رسالت ميں اشكال كا پيدا هونا اسي صحيح حديث ميں هونا چاهيے۔

پہلے اک حدیث بارے بات کر لیں ۔ پھر دوسری پھر تیسری ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔

جي ضرور ان شاء الله

یہ جو کچھ لوگ کہتے ہیں جن پر ظن و تخمین و جرح کی جاتی ہے ۔ یہ لوگوں کے اقوال احادیث ہی کی کتب سے سامنے آئے ہیں ۔

حديث كي كتب ميں موجود حضورصلى الله عليه وسلم كے اقوال كي حيثيت نبي كے قول كي هے۔
اور انهي كتب ميں " کچھ لوگ" كے اقوال كي حيثيت " کچھ لوگ" هي كي سي ہِے
 

فرسان

محفلین
57 ساله ، ذرا اس جملے په غور !!! كس دربار ميں هو ؟؟؟

ميرا كوئي شاگرد ايسي جسارت كرتا تو ساري زندگي اسے اپنے سے دور كر ديتا ان شاء الله۔


ميں اپنے يه الفاظ واپس ليتا هوں۔

آپ اس طالب علم سے علم ومرتبه ميں بلند ہیں۔ آپ سے كافي كچھ سيكھنے كو ملے گا ان شاء الله۔
 

نایاب

لائبریرین
لے آئيے يه الفاظ كه سيدي صلى الله عليه وسلم كےمبارك چہرے سے نارضگي ظاهر هوئي۔ ياد رهے كه جب آپ ايسي روايت لائيں تو سند صحيح هوني چاهيے۔
اگرحديث صحيح هو تو هم اسے عقل پر فوقيت ديتے ہیں۔
اور اگر ضعيف هو تو اس كا جواب دينا لازم نهيں جانتے۔
يه حديث (صحيح سند كے ساتھ بھی آپ پر ادھار هوئي۔ رسالت ميں اشكال كا پيدا هونا اسي صحيح حديث ميں هونا چاهيے۔
جي ضرور ان شاء الله
حديث كي كتب ميں موجود حضورصلى الله عليه وسلم كے اقوال كي حيثيت نبي كے قول كي هے۔
اور انهي كتب ميں " کچھ لوگ" كے اقوال كي حيثيت " کچھ لوگ" هي كي سي ہِے
میرے محترم بھائی
میں احادیث کو صرف ذاتی علم و اصلاح کے لیئے مناسب سمجھتا ہوں ۔ اور ان احادیث کے مطالعے سے مشرف ہوتے صرف " اسوہ حسنہ " سے آگہی مقصود و مطلوب رکھتا ہوں ۔ باقی دین کے لیئے قران پاک بہترین اور مستند ذریعہ ہے ۔
احادیث بارے جو کہ ڈیڑھ دو سو سال بعد جمع ہوئیں ۔ ان کی حیثیت ان ہی میں موجود یہ احادیث واضح کر دیتی ہیں ۔
کل محدثة بدعة وکل بدعة ضلالة وکل ضلالة فی النار (مسلم) ”دین کے معاملے میں ہر نئی شے بدعت ہے اورہربدعت گمراہی ہے اورہرگمراہی کا ٹھکانہ جہنم ہے “۔
من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد (رواہ البخاری ومسلم)
رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایاکہ جس نے ہمارے اس دین میں کسی نئی چیز کو ایجادکیا جو اس میں نہیں ہے وہ ناقابلِ قبول ہے “۔
یہ خلفائے راشدین کے ادوار کے کہیں بعد تحریر و تدوین ہوئیں ۔ اور پھر " متفق " "موضوع " " محذوف " " منقطع کا درجہ پاتے امت مسلمہ میں انتشار و فساد کا باعث ٹھہریں ۔ قرآن مجیدمیں بہت واضح طورپر بیان کیاجاچکا ہے کہ میں نے تمہارے دین کو مکمل کردیا اوراس دین کے ناطے تمہیں اپنی تمام نعمتیں عطاکردیں اورتمہارے لیے دینِ اسلام کو بحیثیت ضابطہ حیات منتخب کیا (سورة المائدة : 3 ) مطلب یہ ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، اس میں کسی قسم کی کمی بیشی کرنے کا اختیار کسی انسان کو حاصل نہیں۔خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی دین اورشریعت کے معاملے میں اپنی مرضی سے کوئی ترمیم یا اضافہ نہیں کرتے جیسے قرآن مجید نے فرمایا: ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی مرضی اور خواہش سے دین کے معاملہ میں کوئی گفتگو نہ فرماتے مگروہی کچھ بتاتے ہیں جو انہیں اللہ کی طرف سے وحی کی جاتی ہے ۔“
دین اسلام ہرلحاظ سے کامل اورمکمل ہے ۔ احادیث کی اسناد بارے عقل لڑانے سے بہت بہتر عمل ہے قران پاک میں تفکر و تدبر کرنا ۔
احادیث کے مجموعے بزرگوں نے فلاح انسانیت کے لیئے جمع فرمائے ۔ اگر کسی نے کوئی قول اپنی خواہش نفسانی کے زیر اثر اسم رسول علیہ الصلوات والسلام منسوب کیا تو اس کا ٹھکانہ جہنم ہے ۔
کچھ احادیث جو کہ ستر اور اسی کی دہائی میں متفق علیہ قرار پاتی تھیں وہ آج تیس پینتیس سال کے بعد ضعیف اور موضوع کے درجہ پر ہیں ۔
قران پاک اللہ کی حفاظت میں ہے ۔ اور ابن آدم کو انسان بناتے مسلمان کرنے کو شافی و کافی ہے ۔
جس حدیث پر آپ بحث کر رہے ہیں ۔ یہ حدیث بھی مختلف مجموعوں میں مختلف متون کے ساتھ موجود ہے ۔ متون سے اختلاف کیا جا سکتا ہے ۔ مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ایسا واقعہ ہوا ۔ اس واقعے کی تاویلات ہر اک اپنے سوچ وخیال کے بل پر کرتا ہے ۔
نیٹ پر احادیث کی چھان بین کرنے سے بہتر ہوگا کہ ہند و پاک میں موجود کسی قدیم لائیبریری میں جا کر 1970 سے پہلے کے شائع شدہ " مجموعہ الاحادیث " کا خود مطالعہ کیا جائے ۔ حیرنگی کی انتہا نہ رہے گی ایسی ایسی احادیث پڑھنے کو ملیں گی ۔
اب تو تفرقہ اتنا بڑھ گیا ہے کہ ہر مسلک نے اپنی پسند کی احادیث کو اختیار کرتے باقی کی احادیث کو " موضوع و ضعیف " کے درجے سے نوازتے دوسرے مسالک کے لیئے " مہر کفر " بنا رکھا ہے ۔
بلا شک میرے لیئے قران ہی مستند اور کافی و شافی ہے ۔
 

نایاب

لائبریرین
اگر اس كا مطلب يه هے كه لفظ كا نه مٹانا ايمان كي دليل هے تو يه مطلب مردود اور باطل هے كيونكه يه لفظ بهر حال مٹا ديا گيا تھا۔
میرے محترم بھائی
شاید آپ بھول رہے ہیں کہ " رسول اللہ " کا لفظ مٹایا کس نے تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے علاوہ کوئی اور مٹاتا تو اس کے ایمان کی کجی سامنے آ جاتی ۔
 

فرسان

محفلین
میرے محترم بھائی
میں احادیث کو صرف ذاتی علم و اصلاح کے لیئے مناسب سمجھتا ہوں ۔ اور ان احادیث کے مطالعے سے مشرف ہوتے صرف " اسوہ حسنہ " سے آگہی مقصود و مطلوب رکھتا ہوں ۔ باقی دین کے لیئے قران پاک بہترین اور مستند ذریعہ ہے ۔
احادیث بارے جو کہ ڈیڑھ دو سو سال بعد جمع ہوئیں ۔ ان کی حیثیت ان ہی میں موجود یہ احادیث واضح کر دیتی ہیں ۔
کل محدثة بدعة وکل بدعة ضلالة وکل ضلالة فی النار (مسلم) ”دین کے معاملے میں ہر نئی شے بدعت ہے اورہربدعت گمراہی ہے اورہرگمراہی کا ٹھکانہ جہنم ہے “۔
من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد (رواہ البخاری ومسلم)
رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایاکہ جس نے ہمارے اس دین میں کسی نئی چیز کو ایجادکیا جو اس میں نہیں ہے وہ ناقابلِ قبول ہے “۔
یہ خلفائے راشدین کے ادوار کے کہیں بعد تحریر و تدوین ہوئیں ۔ اور پھر " متفق " "موضوع " " محذوف " " منقطع کا درجہ پاتے امت مسلمہ میں انتشار و فساد کا باعث ٹھہریں ۔ قرآن مجیدمیں بہت واضح طورپر بیان کیاجاچکا ہے کہ میں نے تمہارے دین کو مکمل کردیا اوراس دین کے ناطے تمہیں اپنی تمام نعمتیں عطاکردیں اورتمہارے لیے دینِ اسلام کو بحیثیت ضابطہ حیات منتخب کیا (سورة المائدة : 3 ) مطلب یہ ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، اس میں کسی قسم کی کمی بیشی کرنے کا اختیار کسی انسان کو حاصل نہیں۔خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی دین اورشریعت کے معاملے میں اپنی مرضی سے کوئی ترمیم یا اضافہ نہیں کرتے جیسے قرآن مجید نے فرمایا: ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی مرضی اور خواہش سے دین کے معاملہ میں کوئی گفتگو نہ فرماتے مگروہی کچھ بتاتے ہیں جو انہیں اللہ کی طرف سے وحی کی جاتی ہے ۔“
دین اسلام ہرلحاظ سے کامل اورمکمل ہے ۔ احادیث کی اسناد بارے عقل لڑانے سے بہت بہتر عمل ہے قران پاک میں تفکر و تدبر کرنا ۔
احادیث کے مجموعے بزرگوں نے فلاح انسانیت کے لیئے جمع فرمائے ۔ اگر کسی نے کوئی قول اپنی خواہش نفسانی کے زیر اثر اسم رسول علیہ الصلوات والسلام منسوب کیا تو اس کا ٹھکانہ جہنم ہے ۔
کچھ احادیث جو کہ ستر اور اسی کی دہائی میں متفق علیہ قرار پاتی تھیں وہ آج تیس پینتیس سال کے بعد ضعیف اور موضوع کے درجہ پر ہیں ۔
قران پاک اللہ کی حفاظت میں ہے ۔ اور ابن آدم کو انسان بناتے مسلمان کرنے کو شافی و کافی ہے ۔
جس حدیث پر آپ بحث کر رہے ہیں ۔ یہ حدیث بھی مختلف مجموعوں میں مختلف متون کے ساتھ موجود ہے ۔ متون سے اختلاف کیا جا سکتا ہے ۔ مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ایسا واقعہ ہوا ۔ اس واقعے کی تاویلات ہر اک اپنے سوچ وخیال کے بل پر کرتا ہے ۔
نیٹ پر احادیث کی چھان بین کرنے سے بہتر ہوگا کہ ہند و پاک میں موجود کسی قدیم لائیبریری میں جا کر 1970 سے پہلے کے شائع شدہ " مجموعہ الاحادیث " کا خود مطالعہ کیا جائے ۔ حیرنگی کی انتہا نہ رہے گی ایسی ایسی احادیث پڑھنے کو ملیں گی ۔
اب تو تفرقہ اتنا بڑھ گیا ہے کہ ہر مسلک نے اپنی پسند کی احادیث کو اختیار کرتے باقی کی احادیث کو " موضوع و ضعیف " کے درجے سے نوازتے دوسرے مسالک کے لیئے " مہر کفر " بنا رکھا ہے ۔
بلا شک میرے لیئے قران ہی مستند اور کافی و شافی ہے ۔

اچھا آپ وه دو احاديث جو آپ پر ادھار ہیں وه ضرور لانا۔

موجوده جواب ميں وهي پرانی غلط فهمياں ہیں جنهيں دور كرنا چاهيے۔ آپ ان كو دور كروانے كسي محدث كے پاس تشريف لے جاسكتے ہیں۔ وه آپ كو مايوس نهيں كريں گے ان شاء الله۔

باقي 1970 سے پہلے والي بات آپ محض بوكھلاهٹ ميں كه رہے ہيں۔ كوئي معنى خيز نهيں هے وه۔

نیٹ پر احادیث کی چھان بین واقع نهيں كرني چاہیے۔ آپ درست كهتے ہیں، ميں بھي نهيں كرتا والحمد لله۔

اگر آپ سے شر ملاقات نصيب هوا تو آپ كو أحاديث كي كتب پرانی اور نئي دكھانے ميں لطف آئے گا ان شاء الله۔
 

نایاب

لائبریرین
اچھا آپ وه دو احاديث جو آپ پر ادھار ہیں وه ضرور لانا۔

موجوده جواب ميں وهي پرانی غلط فهمياں ہیں جنهيں دور كرنا چاهيے۔ آپ ان كو دور كروانے كسي محدث كے پاس تشريف لے جاسكتے ہیں۔ وه آپ كو مايوس نهيں كريں گے ان شاء الله۔

باقي 1970 سے پہلے والي بات آپ محض بوكھلاهٹ ميں كه رہے ہيں۔ كوئي معنى خيز نهيں هے وه۔

نیٹ پر احادیث کی چھان بین واقع نهيں كرني چاہیے۔ آپ درست كهتے ہیں، ميں بھي نهيں كرتا والحمد لله۔

اگر آپ سے شر ملاقات نصيب هوا تو آپ كو أحاديث كي كتب پرانی اور نئي دكھانے ميں لطف آئے گا ان شاء الله۔
میرے محترم بھائی ۔
بڑے بول سے اللہ تعالی معاف فرمائے
اک عمر گزاری ہے اس دشت کی سیاحی میں
میرے بھائی بچپن سے یہ کتب احادیث مطالعے میں ہیں ۔
سن ستر سے نوے تک پسندیدہ شوق تھا ان مجموعہ احادیث کا مطالعہ کرنا ۔ اور لایعنی بحثیں کرنا ۔
ان احادیث کے تقابل نے مجھے دہریت تک پہنچا دیا تھا ۔
میں نے ان احادیث کو صرف انتشار وفساد پھیلانے کے لیئے ہی استعمال ہوتے دیکھا ہے ۔
بزرگوں نے مسلمانوں کو " اسوہ حسنہ " سے آگہی دینے کے لیئے انہیں تحریر فرمایا تھا ۔
کیا کیا مشقتیں برداشت کی تھیں ان بزرگوں نے ۔
ہم "اسوہ حسنہ " تو اخذ کر نہ سکے ۔ اور انہیں " مہر کفر " بنا لیا ۔
بلاتفریق " گیہوں کے ساتھ گھن کو پیسا ہم نے "
ان شاءاللہ پاکستان آنے پر آپ سے شرف ملاقات حاصل کروں گا ۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
57 ساله ، ذرا اس جملے په غور !!! كس دربار ميں هو ؟؟؟

سرٹیفیکیٹ کا مطلب ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔ سند ۔۔۔۔۔ آپ کو انگریزی لفظ استعمال کرنے پر اعتراض ہے یا جواب نہ پاکر دائیں بائیں ہو رہے ہیں۔ (ویسے آپ کی خوشی کی خاطر میں نے "سرٹیفکیٹ دیا" کو "سند عطا کی" سے بدل دیا ہے

ميرا كوئي شاگرد ايسي جسارت كرتا تو ساري زندگي اسے اپنے سے دور كر ديتا ان شاء الله۔
ميں اپنے يه الفاظ واپس ليتا هوں۔

خدا کا شکر ہے کہ میں آپ کا شاگرد نہیں کا شاگرد نہیں۔ الفاظ واپس لینے سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔ کسی اور کو عنایت فر دیجئے گا۔
 

رانا

محفلین
میرے محترم بھائی ۔
بڑے بول سے اللہ تعالی معاف فرمائے
اک عمر گزاری ہے اس دشت کی سیاحی میں
میرے بھائی بچپن سے یہ کتب احادیث مطالعے میں ہیں ۔
سن ستر سے نوے تک پسندیدہ شوق تھا ان مجموعہ احادیث کا مطالعہ کرنا ۔ اور لایعنی بحثیں کرنا ۔
ان احادیث کے تقابل نے مجھے دہریت تک پہنچا دیا تھا ۔
میں نے ان احادیث کو صرف انتشار وفساد پھیلانے کے لیئے ہی استعمال ہوتے دیکھا ہے ۔
بزرگوں نے مسلمانوں کو " اسوہ حسنہ " سے آگہی دینے کے لیئے انہیں تحریر فرمایا تھا ۔
کیا کیا مشقتیں برداشت کی تھیں ان بزرگوں نے ۔
ہم "اسوہ حسنہ " تو اخذ کر نہ سکے ۔ اور انہیں " مہر کفر " بنا لیا ۔
بلاتفریق " گیہوں کے ساتھ گھن کو پیسا ہم نے "
ان شاءاللہ پاکستان آنے پر آپ سے شرف ملاقات حاصل کروں گا ۔


نایاب بھائی آپ کی بات بالکل درست ہے کہ لیکن پھر بھی احادیث کو بالکل حقیر بھی نہیں جاننا چاہئے۔ اسلام وسط کی تعلیم دیتا ہے۔ مسئلہ وہاں آتا ہے جہاں وسط کو چھوڑ کر افراط و تفریط میں انسان پڑ جاتا ہے۔ اس معاملہ کو آپ اسطرح دیکھیں کہ صحیح بخاری کا درجہ بلا شک و شبہ اصح الکتب بعد کتاب اللہ کا ہے اسے فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ لیکن یہ سوچنا کہ اسکی ہر حدیث پر آنکھیں بند کرکے ایمان لے آیا جائے یہ افراط کی راہ پر قدم مارنا ہے۔ جبکہ اسکے برعکس یہ خیال کرنا کہ احادیث عرصہ دراز کے بعد جمع کی گئیں یا انہیں انتشار پھلانے کے لئے استعمال کیا گیا وغیرہ یہ تفریط کی راہ اختیار کرنا ہے۔ ایک سچے مسلمان کو درمیان کی راہ اختیار کرنی چاہئے۔ قرآن میں آتا ہے کہ فَبِاَيِّ حَدِيْثٍۭ بَعْدَ اللّٰهِ وَ اٰيٰتِهٖ يُؤْمِنُوْنَ (الجاثیۃ 6) یعنی خدا اور اس کی آیتوں کے بعد کس حدیث پر ایمان لائیں گے۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ جو حدیث قرآن کے مطابق نہ ہو اسے چھوڑ دیا جائے۔
اسی طرح قرآن میں یہ بھی آتا ہے قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ۠ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ۔(آل عمران 31) یعنی خداتعالی کی محبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کی پیروی سے وابستہ ہے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کو جاننے کا ایک ذریعہ حدیث بھی ہے۔ لہذا حدیث کو چھوڑنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کو چھوڑنا ہے۔
لہذا نہ افراط کی راہ اختیار کی جائے اور نہ تفریط کی۔ درمیانی راستہ اختیار کرتے ہوئے یہ طریق اختیار کیا جائے جو بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کی جارہی ہو اسکی اتنی عزت تو ضروری ہے کہ بہرحال وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کی جارہی ہے۔ اب چاہے وہ بخاری کی حدیث ہو اگر وہ قرآن کی کسی آیت کے صریح خلاف نظر آئے تو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہورہی ہے اس لئے پہلی کوشش یہ کی جائے کہ اس حدیث کے ایسے معنی کرنے کی سعی کی جائے کہ وہ قرآن کے مطابق ہوجائے۔ یہ نہ کیا جائے کہ قرآن کی آیت کو حدیث کے مطابق کرنے کی کوشش کی جائے۔ کیونکہ قرآن کسوٹی ہے حدیث کو پرکھنے کی بوجہ مستند ہونے کے۔ اگر پھر بھی کوئی مطابقت اس حدیث کی قرآن سے نہ ہوپائے تو پھر اسے محض اللہ کی خاطر چھوڑ دیا جائے کہ وہ رسول کا کلام نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ طے ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی بات اپنی طرف سے نہیں ہوتی تھی بلکہ ہر بات خدا کی طرف سے ہوتی تھی۔ اگر کوئی حدیث ایسی ہو کہ وہ قرآن کے خلاف نہ ہو تو خواہ کیسی ہی ادنی درجہ کی حدیث ہو اس کی عزت کی جائے اور اسے قبول کیا جائے۔ قرآن کے خلاف نہ ہونے کا یہ مطلب ہے کہ اس حدیث کا مضمون قرآن کی کسی آیت کے مضمون سے نہ ٹکرائے۔ ورنہ اگر کوئی ایسی حدیث ہے کہ اسکا مضمون قرآن میں کہیں بھی نہیں مل رہا لیکن اسکے خلاف بھی قرآن میں کوئی مضمون نہیں مل رہا تو اس حدیث کو قبول کرلیا جائے۔
لہذا درمیانی راہ یہی بہتر ہے کہ نہ تو حدیثوں کی نسبت یہ اعتقاد رکھا جائے کہ وہ قرآن پر مقدم ہیں اور نہ ہی یہ کہ انہیں بالکل ہی چھوڑ دیا جائے۔ بلکہ قرآن کو حدیث کے پرکھنے لئے قاضی سمجھا جائے۔
 

فرسان

محفلین
وأما المتناقض، فنحن مخبروك بالمخارج منه، ومنبهوك على ما تأخر عنه علمك، وقصر عنه نظرك، وبالله الثقة، وهو المستعان
 

فرسان

محفلین
سن ستر سے نوے تک پسندیدہ شوق تھا ان مجموعہ احادیث کا مطالعہ کرنا

كچھ بتا سكتے ہیں كه كون كون سے مجموعه پر نظر پڑی؟؟؟

(جو حضرت بھي كتب احاديث كے مطالعه كا شوق ركھتے ہیں تو وه ضرور بالضرور اس پر عمل كريں مگر كسي أستاد كے سامنے كريں تاكه محترم ناياب صاحب والے انجام سے بچ سكيں۔)

قرآن بھي استاد سے هي پڑھنا چاہیے۔
 

فرسان

محفلین
یعنی خدا اور اس کی آیتوں کے بعد کس حدیث پر ایمان لائیں گے۔

ما شاء الله بهت عمده ترجمه هے۔

اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ جو حدیث قرآن کے مطابق نہ ہو اسے چھوڑ دیا جائے۔

اور تفسير بھي بالكل نئي اور اچھوتی هے۔

ميں کچھ آيات بھيج رها هوں ان ميں بھی "حديث" كا يهي مطلب تصور كرليں تو سارا مسئله حل هو جائےگا۔ اگر برا نه منائيں تو اپني كي گئي تفسير ميں 1300 هجري سے پہلے كي كوئي عالم شخصيت اگر آپ کے ساتھ هو تو حواله بھي لائيں۔
|

  • وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِه
  • وَإِذَا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آيَاتِنَا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِه
  • فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ عَلَى آثَارِهِمْ إِنْ لَمْ يُؤْمِنُوا بِهَذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا
  • اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ
  • فَلْيَأْتُوا بِحَدِيثٍ مِثْلِهِ إِنْ كَانُوا صَادِقِين
  • أَفَمِنْ هَذَا الْحَدِيثِ تَعْجَبُون
  • أَفَبِهَذَا الْحَدِيثِ أَنْتُمْ مُدْهِنُونَ
  • فَذَرْنِي وَمَنْ يُكَذِّبُ بِهَذَا الْحَدِيثِ سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُونَ


|
 

فرسان

محفلین
ميري بھيجي قرآني آيت كا ترجمه وتفسير "حديث" كا معنى برقرار ركھتے هوئے سامنے لے آئيے۔

آپ كي تفسير كا رد هو جائے گا ۔

اور اگر حديث كا لفظ برقرار ركھنے ميں اور حديث كي تفسير "حديث" هي كرنے ميں شرم محسوس هو تو آپ كو اپنی رائے واپس ليني چاهيے۔
 

فرسان

محفلین
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے علاوہ کوئی اور مٹاتا تو اس کے ایمان کی کجی سامنے آ جاتی ۔

كچھ باتيں اپنا رد آپ هوا كرتي هيں۔

بھلا جس كا حكم خود رسول رب العالمين صلى الله عليه وسلم ديں تو كيا نعوذ بالله یہ كجي والي بات درست هو سكتي هے؟؟؟؟

اگر يه كجي والي بات پر آپ مصر ہیں تو پھر يه بھي بتائيں كه اس بات كے كرنے كا حكم حضرت علي رضي الله عنه كو كيوں هوا ؟؟؟؟

صرف اپني عقل سے حضرت علي رضي الله عنه كے ناكام دفاع كي كوشش فضول هے۔ حضرت علي عليه السلام كو آپ کے دفاع كي ضرورت بالكل نهيں كيونكه جب اعتراض هي وارد نهيں هو سكتا تو دفاع حاصل المحصول كي طرح مرجوح هے۔
 
ما شاء الله بهت عمده ترجمه هے۔



اور تفسير بھي بالكل نئي اور اچھوتی هے۔

ميں کچھ آيات بھيج رها هوں ان ميں بھی "حديث" كا يهي مطلب تصور كرليں تو سارا مسئله حل هو جائےگا۔ اگر برا نه منائيں تو اپني كي گئي تفسير ميں 1300 هجري سے پہلے كي كوئي عالم شخصيت اگر آپ کے ساتھ هو تو حواله بھي لائيں۔
 
(جو حضرت بھي كتب احاديث كے مطالعه كا شوق ركھتے ہیں تو وه ضرور بالضرور اس پر عمل كريں مگر كسي أستاد كے سامنے كريں تاكه محترم ناياب صاحب والے انجام سے بچ سكيں۔)

قرآن بھي استاد سے هي پڑھنا چاہیے۔
یہ جن صاحب کی کتاب کے بارے میں دھاگہ شروع کیا گیا ہے۔ یہ بھی کسی دارالعلوم سےکسی استاد سے ہی پڑھے ہوئے تھے۔۔۔کیا خیال ہے؟
 

فرسان

محفلین
یہ جن صاحب کی کتاب کے بارے میں دھاگہ شروع کیا گیا ہے۔ یہ بھی کسی دارالعلوم سےکسی استاد سے ہی پڑھے ہوئے تھے۔۔۔ کیا خیال ہے؟

خيال كافي بھيانك هے غزونوي صاحب۔ اس ايك بندے کے لئے قاعده تو بدلا نهيں سكتےِ

اور ويسے بھي يه موصوف دار العلوم ميں صرف ونحو اور فقه پڑھتے تھے۔ علوم الحديث ميں يه حضرت بھي بے استادے تھے۔

اگر آپ کو ان كے اساتذة كا معلوم هے تو بتا ديجئے كه

علم الجرح والتعديل ميں يه كس كے شاگرد تھے يا يه علم اس دارلعلم ميں وجود ركھتا هے جس سے يه موصوف فيضياب هوئے؟؟

علم العلل ميں يه كس كے شاگرد تھے يا يه علم اس دارلعلم ميں وجود ركھتا هے جس سے يه موصوف فيضياب هوئے؟؟

علم التخريج ميں يه كس كے شاگرد تھے يا يه علم اس دارلعلم ميں وجود ركھتا هے جس سے يه موصوف فيضياب هوئے؟؟

علم مناهج المحدثين ميں يه كس كے شاگرد تھے يا يه علم اس دارلعلم ميں وجود ركھتا هے جس سے يه موصوف فيضياب هوئے؟؟

علم حديث صرف تدريب الراوي كا نام نهيں هے عزيزم !!
 
Top