بخاری محدث کے بارے میں ایک کتاب : قرآن مقدس اور بخاری مقدس

شاکرالقادری

لائبریرین
افسوس کوئی شافی و کافی جواب نہیں ملا بس لڑائی شروع ہو گئی ۔۔۔ اور یہی (تفرقہ بازی) امت کی گمراہی ہے
میں نے امام نووی اور ابن تیمیہ کی شروح دیکھ لیں یا کم از کم جو کچھ آپ نے یہاں پیش کیا وہ پڑھ لیا اس سب کچھ سے ذہن کے پردے تو صاف نہیں ہوئے البتہ مزید سوالات پیدا ہوگئے:

  • کیا غیر نبی کی فہم و فراست اور قوت اجتہاد ایک نبی سے زیادہ ہو سکتی ہے کہ نبی غیر نبی کے سامنے اپنے موقف سے پسپائی اختیار کرنا پڑے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
  • اور یہ تشریح کہ پہلے کچھ لکھوانے کا حکم ہوا اور پھر بعد میں منسوخ ہوگیا۔ اس کو تو اسی صورت میں تسلیم کیا جا سکتا تھا جب آپ حکم دیتے کہ کاغذ قلم لاؤ۔۔۔۔۔ تو تعمیل کرتے ہوئے حاضر کر دیا جاتا۔۔۔ پھر ارشاد ہوتا واپس لے جاؤ اب اس کی ضرورت نہیں رہی لیکن یہاں تو صورت برعکس ہے۔ اختلاف ہوا" تکرار کی نوبت آئی اور پھر جس حالت میں سب کو باہر بھیج دیا گیا وہ تو اس جانب اشارہ نہیں کرتا کیا میں اس کے باوجود اس شرح سے مطمئن ہو جاؤں۔۔۔۔۔؟
  • یہ تشریح کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بیماری کی تکلیف سے بچانے کے لیے ایسا کیا گیا تھا۔ کیا پوری روایت میں اس کا کوئی ہلکا سا تاثر بھی ملتا ہے بلکہ نہایت گہرا اور واضح تاثر تو یہی ہے کہ اس اختلاف و تکرار سے آپ کی اذیت میں اضافہ ہوا اور آپ نے ناگواری کا اظہار فرمایا۔ کیا اس کے باوجود میں مطمئن ہو جاؤں ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔؟
  • البتہ محمود احمد غزنوی کی یہ بات دل کو لگتی ہے کہ ہم جناب فاروق اعظم رضی اللہ عنہ جیسی عظیم شخصیت کے بارے میں اپنے ذہن کو صاف رکھتے ہوئے اس روایت کو ہی درایت کے اصول کے ساتھ رد کر دیں۔ لیکن اس سے بخاری شریف پر حرف آجائے گا اور اس کی صحت میں کلام ہو جائے گا پھر آپ مطمئن نہیں ہونگے۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ میں ناموس رسالت اور ناموس فاروق اعظم کو اختیار کروں یا ناموس بخاری کو خاطر میں لاؤں۔۔۔۔۔۔؟
 
ساجد صاحب
آپ كي نصيحت پلے باندھ لي هے اور هم سب اب
اطمينان سے هم اپنا كام كريں گے ان شاء الله
دھاگے میں ابھی تک میرے خیال سے ایسی کوئی بات نہیں آئی جس سے تالا لگانے کا جواز آئے۔ اگر شروع میں ہوتا تو اور بات تھی۔ اب اگر کچھ لوگ اپنی طرف گھسیٹ رہے ہیں وہ اور بات ہے۔ تھوڑی دیر چلنا چائیے۔ اگر کسی نے دوسرے طبقے پہ بات کی تو فورا قفل ہونا چائیے۔
 

نایاب

لائبریرین
ناياب صاحب ميں آپ كي بات سمجھ چكا هوں۔
حضرت علي رضي الله عنه بھي وهيں تھے۔ مگر کچھ لوگ کہتے ہیں کہ بے بس تھے۔
شير الله اور بے بس !!!
اگر آپ کی مان لی جاے جو نه صرف بے بس بلکہ نهج البلاغة ميں تاخير كرنے والوں كي تعريف وتوصيف كركے گئے۔
مگر حقيقت يه هے كه آپ کی ساري بات هي بے سروپا هے لهذا اسكے سارے نتائج بھی باطل۔
اگر يقين سچا ہے تو آئيے هم فقيروں سے سيكھئے اور الله کے پیاروں سے بدگمانی كو راسته نه ديجئے۔
باقي آپ گریز کریں تو دانا كهلائيں گے۔
ان شخصيات ميں حضرت علي رضي الله عنه اور حضرت حسنين رضي الله عنه بھي شامل هيں۔ يا كهيں كهيں "پرستی" كي اجازت هے؟؟؟
یہ کچھ لوگ کون ہیں ان کی معلومات اور ان کے بیانات ان کے سر ۔ وہ اس کا اپنے حساب میں جواب دیں گے ۔
میں اس بات سے بیزاری کا اظہار کرتا ہوں ۔ کہ جناب علی علیہ السلام " بے بس " و کمزور " تھے ۔
یہ کہا جا سکتا ہے کہ امت مسلمہ کے وسیع تر مفاد میں اس نازک موقع پر ایسی خاموشی اختیار کی ہو ۔
جیسا کہ صلح الحدیبیہ کے موقع پر کی گئی تھی ۔
اور جہاں تک بات شخصیت پرستی کی ہے تو میرے محترم بھائی میرا یقین میرا ایمان اس کلمے پر استوار ہے کہ
اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہ‘ وَ رَسُوْلُہ‘۔
ترجمہ: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمّد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔
اور جناب نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
دیگر میرا یہ یقین ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپکے اہل بیت اطہار کو کسی بھی صورت اذیت دینے والا پریشان کرنے والا دنیا و آخرت میں خسارے میں ہوگا ۔ ان شاءاللہ
آپ نے گفتگو کو اک خاص رخ کی جانب موڑنے کی کوشش کی ۔۔۔۔۔۔۔۔ جزاک اللہ خیراء
صحابہ کیلئے اللہ نے رضی اللہ عنھم و رضوا عنہ ارشاد فرمایا ہے لہذا آپ کو بھی رضی اللہ عنہ مکمل لکھنا چاہیے۔
آپ کے کلام میں صریح طعن اور کھلی جسارتیں صاف ظاہر ہیں۔ آپ یہ سب لکھ کر کس کی نمائندگی کر رہے ہیں ؟
مدیران صاحبان اس پوسٹ کو حذف کریں بلکہ اس دھاگہ کو مقفل کریں۔یہاں بعض لوگ اپنی مخصوص سوچوں کی نمائش کر نے بیٹھے ہیں ۔
وما ینطق عن الھویٰ سے کیا یہ مراد ہے کہ کسی صحابی کی رائے پر اللہ کے نبی ﷺ اللہ کا حکم موقوف کردیں ؟ ؟ اگر وحی کے حکم کے ہوتے ہوئے بھی آپ ﷺ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نہیں لکھوایا تو پھر معاذ اللہ ثم معاذ اللہ آپ ﷺ اللہ کی گواہی کے حقدار نہیں ٹھیرتے۔(یہ جملہ دل پر پتھر رکھ کر آپ کی بات کے رد میں لکھا ہے ورنہ قلم اور ادب میں اس کی اجازت نہیں)۔
آپ کی دلیل آپ کی قرآن فہمی کے دعویٰ کا منہ چڑا رہی ہے۔
اللہ رب العزت ہمیں قرآن و سنت کا علم انکے حاملین (صحابہ ، تابعین و سلف صالحین ) سے حاصل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے اور غلو پسندی سے بچائے آمین۔
میری مدیران سے گزارش ہے کہ اس دھاگے کو مقفل کیجئے ۔
میرے محترم بھائی آپ کا اکتساب تحریر بلا شبہ حیرت زدہ کر دینے والا ہے ۔
جب جواب نہ ہو تو " آنگن کو ہی ٹیڑھا " قرار دے دو ۔
میرے محترم بھائی آپ میری تحریر کو اک بار مزید غور سے پڑھنے کی التجا ہے ۔
اور میرے محترم بھائی رضی اللہ تعالی عنہ لکھتے عنہ ٹائپو ہوا اس کی معذرت
مجھے خود سے صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور رضی اللہ تعالی عنہ لکھنا مناسب لگتا ناکہ کاپی پیسٹ کرنا ۔
بہر حال توجہ دلانے پر جزاک اللہ خیراء

ينطق كا مطلب لكھوانا نهيں هوتا اور نه الھوى كا وه مفهوم هے جس كي طرف آپ بلا رہے ہیں۔

جو چيزيں سيدي صلى الله عليه وسلم لكھوانا چاهتے تھے وه سيدي صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرما دي تھی۔

مگر ان ميں امامت اور وصيت وغيره كو فائده دينے والا ادنى اشاره بھی نهيں۔ لهذا آپ مايوس هونگے۔ بالكل ويسے هي جيسے قرآن اس نص سے خالي هے۔
بلا شبه اور اس ماحول ميں تحقيقي رويه برقرار ركھنا مشكل هے۔

لهذا طبيعت دوسري طرف مائل هو هي جاتي هے۔

ياد رهے انسان دل ودماغ كا مركب ہے۔

اگر ميرے كسي محبوب كو كسي كنايه ميں سواليه نشان بنايا جائے تو بھاڑ ميں گئي ميري تحقيق پسندي۔
میرے محترم بھائی
وما ینطق عن الھویٰ سے کیا یہ مراد ہے ؟ کہ یہ (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )اپنی خواہش نفس کے زیر اثر نہیں بولتے ۔ ۔
یہ ( محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )اپنی خواہش نفس سے کچھ بھی نہیں کہتے ۔
یہ (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) وہی بولتے کہتے ہیں جو انہیں وحی کی جاتی ہے ۔
اور جب کاغذ قلم مانگتے کچھ لکھوانے کی بات ہے تو میرے بھائی بول کر ہی لکھایا جاتا ہے نا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امامت وصیت کے بارے آپ جو چاہیں سوچ سکتے ہیں ۔ آپ کو آزادی ہے ۔ کہ قیاس کے گھوڑے دوڑاتے نفس مضمون کو پا لیں ۔
انسان بلا شبہ دل و دماغ کے زیر اثر ہوتا ہے ۔ دین میں دل سے زیادہ دماغ کے سوچنے غوروفکر کرنے پر ابھارنے سے تحقیق کی نئی راہیں نئی منزلیں سامنے آتی ہیں ۔ اور دل کے کہے سوچنے پر " صم بکم " کا درجہ نصیب ہوتا ہے ۔
 
افسوس کوئی شافی و کافی جواب نہیں ملا بس لڑائی شروع ہو گئی ۔۔۔ اور یہی (تفرقہ بازی) امت کی گمراہی ہے
میں نے امام نووی اور ابن تیمیہ کی شروح دیکھ لیں یا کم از کم جو کچھ آپ نے یہاں پیش کیا وہ پڑھ لیا اس سب کچھ سے ذہن کے پردے تو صاف نہیں ہوئے البتہ مزید سوالات پیدا ہوگئے:
بس جناب۔ جب آپ کی تشفی امام نووی کی شرح اور ابن تیمیہ کے اقوال سے نہیں ہوئی تو ہم فقیروں کے چند بولوں سے کیا ہوگی۔

یا کم از کم جو کچھ آپ نے یہاں پیش کیا
یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ نے اصل مراجع کی طرف نظر التفات نہیں کی۔
 

فرسان

محفلین
دھاگے میں ابھی تک میرے خیال سے ایسی کوئی بات نہیں آئی جس سے تالا لگانے کا جواز آئے۔ اگر شروع میں ہوتا تو اور بات تھی۔ اب اگر کچھ لوگ اپنی طرف گھسیٹ رہے ہیں وہ اور بات ہے۔ تھوڑی دیر چلنا چائیے۔
عزيزم میں اس جگہ نیا ہوں اس بنا پہ یہاں کے مزاج سے ناواقفیت تھی۔ آپ سچ کہتے ہیں (اس ماحول کے مزاج کے مطابق) یہاں کوئي قابل اعتراض بات نهيں هے۔​
بھلا جهاں رب ذو الجلال اور قرآن كے ساتھ ايسی حركات هوں جو قابل اعتراض هوں مگر سب كچھ آزادي رائے كے نام پر OK هو، وهاں سنت ،صحابه اور فقهاء ومحدثين پر اعتراضات كو دھاگه لپیٹنے كا جواز نهيں بنايا جاسكتا۔​
البته اس امر ميں فقير آپ سے متفق هونا ناممكن سمجهتا هے كه واقعي امر ميں يه قابل اعتراض نهيں ہیں۔ اعتراض كرنے كے اپنے اپنے معيارات هوتے ہیں۔​
 

فرسان

محفلین
  • البتہ محمود احمد غزنوی کی یہ بات دل کو لگتی ہے کہ ہم جناب فاروق اعظم رضی اللہ عنہ جیسی عظیم شخصیت کے بارے میں اپنے ذہن کو صاف رکھتے ہوئے اس روایت کو ہی درایت کے اصول کے ساتھ رد کر دیں۔ لیکن اس سے بخاری شریف پر حرف آجائے گا اور اس کی صحت میں کلام ہو جائے گا پھر آپ مطمئن نہیں ہونگے۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ میں ناموس رسالت اور ناموس فاروق اعظم کو اختیار کروں یا ناموس بخاری کو خاطر میں لاؤں۔۔۔ ۔۔۔ ؟

السلام عليكم
آپ اس طالب علم سے علم ومرتبه ميں بلند ہیں۔ آپ سے كافي كچھ سيكھنے كو ملے گا ان شاء الله۔

ليكن يه عرض كرنا چاهتا هوں يه حديث صرف بخاري ميں نهيں بلكه بيسيوں كتب ميں هے۔ اور هر سند كے رجال سوائے اول راوي كے (جو صحابي ہیں) مختلف ہیں۔ لهذا معامله اتني آساني سے حل نهيں هوگا۔


وأخرجه مصنف عبد الرزاق الصنعاني (9992) ، والحميدي (526) ، وابن سعد 2/242، والبخاري (3053) و (4431) ، ومسلم (1637) (20) ، وأبو داود (3029) ، والنسائي في "الكبرى" (5854) ، وأبو يعلى (2409) ، والبيهقي في "السنن" 9/207، وفي "الدلائل" 7/181، والبغوي (2755) والطبراني (12261) ومصنف ابن أبي شيبة ومسند أحمد.

ان كے علاوه بھی بهت سي كتب ہیں۔
 

فرسان

محفلین
همارا اعتراض جو هم زبردستي كرنا چاهتے ہیں، وه دراصل وارد هي نهيں هوتا۔ همارا اپنا زاويه نگاه مستقيم نهيں ہے اور تصوير جو ادھوري ہے، وه همارے لئے مشكل بني ہوئي هے۔

ميں ذرا ضروري دلائل اكٹھے كر لوں تو مزید بات فائده مند رهے گي ان شاء الله۔

آپ اگر ابن تيميه كي شرح كا حواله بتا سكيں تو ممنون رهوں گا۔
 

فرسان

محفلین
میں نے امام نووی اور ابن تیمیہ کی شروح دیکھ لیں یا کم از کم جو کچھ آپ نے یہاں پیش کیا وہ پڑھ لیا اس سب کچھ سے ذہن کے پردے تو صاف نہیں ہوئے البتہ مزید سوالات پیدا ہوگئے:​
ايسا هونا فطري ہے كيونكه ان كے زمانے ميں اتنے فتنے نه تھے جن سے همارا پالا پڑا هےِ​
لهذا نئے فتنوں كي دوا بھي نئي هوني چاهيے۔​
ياد رهے كه اگر واقع صحيح بخاري ميں كوئي كمي هوتي تو امت اس كتاب كو بھي "صحيح ابن خزيمة" اور "صحيح ابن حبان" كے درجه مين ركھتی۔​
صحيح بخاري كي خاص بات يه هے كه هر امتحان اور هر تنقيد سے pass پاس هوئي اور تنقيد كرنے والوں كے اعتراضات objection over rule هوئے۔
 

ساجد

محفلین
عزيزم میں اس جگہ نیا ہوں اس بنا پہ یہاں کے مزاج سے ناواقفیت تھی۔ آپ سچ کہتے ہیں (اس ماحول کے مزاج کے مطابق) یہاں کوئي قابل اعتراض بات نهيں هے۔​
بھلا جهاں رب ذو الجلال اور قرآن كے ساتھ ايسی حركات هوں جو قابل اعتراض هوں مگر سب كچھ آزادي رائے كے نام پر OK هو، وهاں سنت ،صحابه اور فقهاء ومحدثين پر اعتراضات كو دھاگه لپیٹنے كا جواز نهيں بنايا جاسكتا۔​
البته اس امر ميں فقير آپ سے متفق هونا ناممكن سمجهتا هے كه واقعي امر ميں يه قابل اعتراض نهيں ہیں۔ اعتراض كرنے كے اپنے اپنے معيارات هوتے ہیں۔​
میں مزید وضاحت کئے دیتا ہوں کہ اردو محفل کا اپنا کوئی مذہب نہیں ہے اور نہ یہ کوئی تبلیغی فورم ہے۔ یہاں اگر کچھ لوگ اللہ کا انکار کرتے ہیں تو صرف اور صرف اپنی صوابدید پر کرتے ہیں اردو محفل کا ان کے نظریات سے کچھ لینا دینا نہیں ہے ، بالکل اسی طرح جو لوگ ادیان کی تبلیغ کرتے ہیں ان کی دعوت و تبلیغ بھی ہمارے لئے محترم و مکرم ہے۔ ہر کوئی اللہ کے حضور اپنے اعمال کے لئے سزا اور جزا کا حقدار ٹھہرایا جائے گا ،نہ کسی اور کے اعمال کی پرسش ہم سے ہوگی اور نہ ہمارے اعمال کی دوسروں سے۔ ہاں البتہ اخلاقیات کے عمومی تقاضوں اور احترامِ انسان کے بنیادی اصولوں کی بنیاد پر یہاں کسی گروہ ، مذہب ، مسلک یا ازم کے تمسخر و تنقیص کو پسند نہیں کیا جاتا ۔ اگر کوئی ملحد اللہ اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا انکار کرتا ہے تو ہمیں اس سے سروکار نہیں ، یہ اس کا ذاتی فعل ہے لیکن اگر وہ اللہ اور اس کے انبیاء کرام ، صحابہ ، تابعین اور دیگر محترم ہستیوں پر کیچڑ اچھالتا ہے تو اسے برداشت نہیں کیا جاتا۔ اسی طرح ہم اسلامی تعلیمات کے مبلغین سے بھی توقع رکھتے ہیں کہ وہ دوسروں کے عقائد و نظریات پر چوٹ کرنے کی بجائے اپنی بات سنت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مطابق نرم الفاظ میں کریں۔
اللہ ہم سب کو ہدایت نصیب فرمائے۔
 
عزيزم میں اس جگہ نیا ہوں اس بنا پہ یہاں کے مزاج سے ناواقفیت تھی۔ آپ سچ کہتے ہیں (اس ماحول کے مزاج کے مطابق) یہاں کوئي قابل اعتراض بات نهيں هے۔​
بھلا جهاں رب ذو الجلال اور قرآن كے ساتھ ايسی حركات هوں جو قابل اعتراض هوں مگر سب كچھ آزادي رائے كے نام پر OK هو، وهاں سنت ،صحابه اور فقهاء ومحدثين پر اعتراضات كو دھاگه لپیٹنے كا جواز نهيں بنايا جاسكتا۔​
البته اس امر ميں فقير آپ سے متفق هونا ناممكن سمجهتا هے كه واقعي امر ميں يه قابل اعتراض نهيں ہیں۔ اعتراض كرنے كے اپنے اپنے معيارات هوتے ہیں۔​
میرے بھائی یہ سائیٹ صرف مسلمان استعمال نہین کرتے۔ یہاں پر ہر قسم کے لوگ آتے ہیں بات کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ اپنی بات کہیں اگر انکار کرنا ہے تو وہ انکا اپنا فعل ہوگا۔ یہ وہ آزادی رائے نہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں۔ بات کرنے کی آزادی تو اسلام بھی دیتا ہے مگر مدیران اعلی کسی کو گندی زبان یا نازیبا الفاظ استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
 

فرسان

محفلین
خاكسار كي جستجو (تحقيق نما جستجو) ابھي مكمل تو نه هوئي هے البته جو باتيں سامنے آئي هيں ان سے محترم شاكر القادري صاحب كے سوالات كي نوعيت ميں كچھ تبديلي واقع هونا ناگزير هے.
بتايا جا چكا هے كه يه مذكوره حديث پاك صرف صحيح بخاري ميں نهيں هے بلكه بيسيوں كتب ميں هے، اور كئي سندوں سے هے.
اور يه بھي ثابت هے (مطلب كه جو يهاں حاضرين هيں ان كے نزديك ثابت هے) كه انبياء معصوم هوتے هيں اور الله كا حكم پورا پورا پهنچاتے هيں.

اس بنا پر سوالات كي نئي نوعيت يه هو چكي هے.

اگر احاديث صحيح ماني جائيں تو حصرت عمر (رضي الله عنه وعمن والاه) پر اعتراض كا جواز نكلتا هے اور اگر حصرت عمر كي شان برقرار ركھوں تو احاديث پر حرف آتا هے اور اگر ان دونوں كو صحيح مان لوں تو اپنے اعتراض كي تشفي نهيں هوتي اور عقل پر حروف آتے هيں.
حيران هوں كه حضرت عمر (رضي الله عنه واخزى اللهُ عدوَه) كي عصمت كو بچائيں يا احاديث مباركه كو يا اپنے اعتراض كي معقوليت پر يقين ركھيں؟؟؟

كچھ هي دير ميں يه اعتراض بدل جاوے گا ان شاء الله. كيونكه احاديث ميں واضح هے كه حضرت عمر رضي الله عنه ان عاشقان مصطفى عليه الف الف الصلاة والسلام ميں سے صرف ايك تھے جنهيں حضور صلى الله عليه وسلم كي نازك حالت نے قلم كاغذ لانے پر تامل په مجبور كيا. (كاش هم اپني جانيں دے كر حضور كے الم كواپنےاوپر لے ليتے۔)

تو اب سوال يه هوا كه (حيران هوں كه حضرات صحابه كي عصمت كو بچائيں يا احاديث مباركه كو يا اپنے اعتراض كي معقوليت پر يقين ركھيں؟؟؟)

عزيزان ما ! سارے كا سارا مسئله يه بنا پڑا هے كه صحابه نے قلم كاغذ لانے ميں تامل كيوں كيا. اور كيا تامل اور تاخير كي تھي يا انكار؟ ايسا كيوں كيا؟؟

كچھ لوگ كهتے هيں كه حضور صلى الله عليه وسلم حضرت أبوبكر كے استخلاف كا امر لكھوانے كا اراده ركھتے تھے مگر يه محض ظن وتخمين هے جو رد كي جاتي هے.

اس واقعه كے بعد جن تين امور كي نصيحت حضور صلى الله عليه وسلم نے زباني فرما دي تھي وهي اصل بات تھي.

ان شاء الله جو كچھ سامنے آئے گا آپ فضلاء سے share كروں گا.
 

فرسان

محفلین
تب تك آپ يه سوچيں كه صلح حديبيه كے روز حضرت علي رضي الله عنه وكرم الله وجهه جب كاتب النبي صلى الله عليه وسلم تھے اور جب سيدي صلى الله عليه وسلم نے لفظ (رسول الله) حذف كرنے كا حكم فرمايا اور حضرت علي رضي الله عنه نے ايسا نه كيا اور آخر وقت تك نه كيا تو كيا حضرت علي رضي الله عنه پر اعتراض وارد هو سكتا هے؟؟

يا يهاں بھي چپ كركے هم احاديث اور كتب سيرت كے سارے ذخيره كو مشكوك قرار ديديں تاكه هماري اعتراضي ذهنيت سلامت رهے سلامت رهے؟؟؟

خاكسار كے نزديك يهاں حضرت علي رضي الله عنه پر اعتراض كسي ناصبي كي بھٹكي بد روح هي كر سكتي هے. كيونكه واقعه سچ هے مگر اعتراض وارد نهيں هوتا. حضرت علي رضي الله عنه فرط محبت اور ادب كي بنا حضور صلى الله عليه وسلم كے اسم مبارك "محمد" كے ساتھ سے لفظ "رسول الله" مٹانے پر تامل كر رهے تھے.
 

فرسان

محفلین
ايك اور حديث ميں هے كه اسي دن جب ايك مشرك سرور كونين صلى الله عليه وسلم سے بات چيت اور معاملات كے لئے آيا اور بات چيت شروع كي اور جب وه عرب كے رواج كے مطابق بات چيت كے دوران حضور پاك صلى الله عليه وسلم كي پاك داڑھي مبارك كو هاتھ لگاتا تو ايك صحابي هر دفعه اس كے هاتھ كو تلوار كے دستے سے پرے هٹا ديتے.

كيا يهاں كوئي بيمار قسم كا اعتراض كيا جاسكتا هے كه جب مشرك سے خود حضور صلى الله عليه وسلم نے تعرض نه فرمايا تو صحابي كون تھے آگے بڑھ كر روكنے والے؟؟؟؟
 

فرسان

محفلین
اور بھى واقعات مل سكتے هيں مثلا جب حضور نے ايك بيمار خاتون جو قريب مرگ تھيں، فرمايا كه جب ان كي وفات هو تو مجھے خبر دينا تاكه جنازه پڑھا جائے. وفات رات كو هو گئي اور صحابه نے اپنے پيارے نبي صلى الله عليه وسلم كي نينداور سكون كي خاطر خبر نه كي اور جنازه پڑھ ديا اور جب حضور صلى الله عليه وسلم كو معلوم هوا تو حضور نے صرف دريافت فرمايا كه خبر كيوں دي اور نكير نه فرمائي. جب صحابه نے كها كه حضور كے آرام كا خيال تھا تو سيدي صلى الله عليه وسلم نے كچھ نه فرمايا. جس عمل كو ديكھ كر حضور صلى الله عليه وسلم نكير نه فرمائيں وه اس كے جائز هونے كي دليل هوتا هے اور معلوم هوا كه حضور كا ادب اور احترام اور هر طرح سے حضور كے آرام كا خيال ركھنا واجب هے.
 

فرسان

محفلین
ايك اور واقعه بھى ليتے جائيے. حضرت ابن عباس رضي الله عنه بچپن ميں اپني خاله كے گھر رات گزارتے هيں. ان كي خاله امهات المؤمنين ميں سے هيں يعني حضور صلى الله عليه وسلم كي ازواج ميں سے هيں.

رات گئے جب سيدي صلى الله عليه وسلم تهجد ادا فرما رهے تھے تو حضور صلى الله عليه وسلم كي اقتداء ميں حضرت ابن عباس بھي پيچھے كھڑے هو گئے.
حضور صلى الله عليه وسلم نے ان كو اپنے برار كھڑا كيا اور پھر نوافل ادا كرنے لگے. مگر جيسے هي حضور نے نماز شروع كي تو حضرت ابن عباس ذرا پيچھے هٹ گئے. اور برابر كھڑے نه هوئے. نماز ختم كرنے پر سيدي صلى الله عليه وسلم نے پوچھا كے تمهيں كيا هے جو ميں تمهيں برابر كھڑا كرتا هوں اور تم هو كه پيچھے هٹ آتے هو.

( حضرت ابن عباس كا ادب بھرا جواب سنئے ) كيا مناسب هے كه كوئي آپ كے برابر كھڑا هو اور آپ تو الله كے رسول هيں؟

كيا يهاں ابن عباس پر مخالفت كا اعتراض وارد هو سكتا هے؟؟

ياد رهے كه حديث كے بقيه حصے ميں هے كه حضور يه جواب سن كر بهت خوش هوئے اور ابن عباس رضي الله عنه كو دعا دي.

(جو لوگ حضرات صحابه كرام پر اعتراض ميں لذت محسوس كرتے هيں ان كے لئے ان تينوں صحيح احاديث ميں بهت لذت هے. اور جو صحابه كے خلوص ومحبت واحترام و ادب كا دم بھرتےهيں ان كے لئے بھي بهت سامان هے) هر دو فريقين شاد باش
 

فرسان

محفلین
ان تمام صحيح روايات كا كيا كيا جائے؟؟؟؟
كيا اپنے فرسوده اعتراضات كي معقوليت كو برقرار ركھنے كے لئے ذخيره احاديث سے محروم هو جائيں؟؟؟
يا مان ليں كه ان واقعات ميں اعتراض وارد هي نهيں هوتا؟؟؟
كيا ضروري هے كه ايك نارمل سے واقعه كو اعتراضي رنگ ديا جائے صرف اس وجه سے كه اس كي طرف چند "تاريخ كا عميق مطالعه ركھنے والوں" نے توجه دلائي؟

ديكھنے هيں فضلاء كيسا مزاج ركھتےهيں.
 

فرسان

محفلین
میرے بھائی یہ سائیٹ صرف مسلمان استعمال نہین کرتے۔ یہاں پر ہر قسم کے لوگ آتے ہیں بات کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ اپنی بات کہیں اگر انکار کرنا ہے تو وہ انکا اپنا فعل ہوگا۔ یہ وہ آزادی رائے نہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں۔ بات کرنے کی آزادی تو اسلام بھی دیتا ہے مگر مدیران اعلی کسی کو گندی زبان یا نازیبا الفاظ استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔


بڑي مهرباني !
 
فرسان صاحب سے درخواست ہے کہ حدیثِ قرطاس کے جتنے حوالہ جات انہوں نے دئے ہیں، اگر زحمت نہ ہو تو انکے متون بھی یہاں پوسٹ کردیں تاکہ حق پوری طرح واضح ہوسکے۔۔۔شکریہ :)
 

نایاب

لائبریرین
محترم فرسان بھائی ۔۔۔۔۔
آپ جس حدیث مبارک کو دوسرے واقعات سے منسلک کرتے گھما پھرا رہے ہیں ۔
جناب علی علیہ السلام کا لفظ رسول اللہ نہ مٹا نا ۔
جنازے کے لیئے آپ رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو نہ جگایا جانا ۔۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کا آپ کے برابر نہ کھڑا ہونا ۔
اک مشرک کا ریش مبارک کی جانب ہاتھ بڑھانا اور آپ سرکار صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا درگزر فرمانا ۔

ان میں ہر واقعہ ویسا ہی اک مخصوص پہلو رکھتا ہے جیسا کہ " حدیث قلم و قرطاس " رکھتی ہے ۔
میرے محترم بھائی پہلے واقعے میں ایمان ہے ۔
دوسرے واقعے میں مودت ہے ۔
تیسرے واقعے میں ادب و احترام ہے ۔
سو حدیث قلم و قرطاس میں کونسا پہلو مخفی ہے ۔ جو حدیث مبارک یہ بیان کرتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چہرے سے ناراضگی کے آثار ظاہر ہوئے ۔
صلح حدیبیہ کے بارے سوچنا ہے تو اس حدیث مبارک بارے سوچیں ، جو کہتی ہے کہ کچھ صحابہ کرام کو نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا صلح کرنا پسند نہ آیا ۔ اور وہ آپ کی رسالت پر اشکال میں الجھ گئے ۔۔۔
میرے محترم بھائی جب احادیث کے ذخیرے کو کھنگالا جائے تو چھینٹے اڑتے ہیں اسلیئے کسی کوفت میں مبتلا ہوئے بنا اک کو چھوڑ دوسری کی جانب لپکنا مقصود کو اوجھل کر دیتا ہے ۔ پہلے اک حدیث بارے بات کر لیں ۔ پھر دوسری پھر تیسری ۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ جو کچھ لوگ کہتے ہیں جن پر ظن و تخمین و جرح کی جاتی ہے ۔ یہ لوگوں کے اقوال احادیث ہی کی کتب سے سامنے آئے ہیں ۔
محترم بھائی آپ سے التجا ہے کہ
فرسان صاحب سے درخواست ہے کہ حدیثِ قرطاس کے جتنے حوالہ جات انہوں نے دئے ہیں، اگر زحمت نہ ہو تو انکے متون بھی یہاں پوسٹ کردیں تاکہ حق پوری طرح واضح ہوسکے۔۔۔ شکریہ :)
 

شاکرالقادری

لائبریرین
خاكسار كي جستجو (تحقيق نما جستجو) ابھي مكمل تو نه هوئي هے البته جو باتيں سامنے آئي هيں ان سے محترم شاكر القادري صاحب كے سوالات كي نوعيت ميں كچھ تبديلي واقع هونا ناگزير هے.

اگر احاديث صحيح ماني جائيں تو حصرت عمر (رضي الله عنه وعمن والاه) پر اعتراض كا جواز نكلتا هے اور اگر حصرت عمر كي شان برقرار ركھوں تو احاديث پر حرف آتا هے اور اگر ان دونوں كو صحيح مان لوں تو اپنے اعتراض كي تشفي نهيں هوتي اور عقل پر حروف آتے هيں.
حيران هوں كه حضرت عمر (رضي الله عنه واخزى اللهُ عدوَه) كي عصمت كو بچائيں يا احاديث مباركه كو يا اپنے اعتراض كي معقوليت پر يقين ركھيں؟؟؟
خیر میں اس بچے کی طرح بھی تو نہیں ہوں جسکے منہ میں آپ جو ڈالیں گے وہ وہی بولے گا۔ ستاون برس عمر ہو چکی ہے اور ۳۳ برس سے ایک ادارے کے کتابخانہ میں کتابوں کی گرد جھاڑنے کا فرایضہ انجام دے رہا ہوں اس لیے آپ مجھ سے اپنی مرضی کی بات نہیں کہلوا سکتے۔ میرے سوالات میں ترمیم کر کے گویا آپ نے میرے منہ میں اپنی زبان ڈالنے کی سعی نا مشکور کی ہے۔ حضرت آپ کا کام صرف سمجھانا ہے اور اور ہمارا کام "افلا تفکرون" افلا تدبرون" اور افلا تعقلون کے حکم کے موجب سمجھنے غور کرنے فکر کرنے اور عقل سے کام لینے کی کوشش کرنا ہے۔ عقل پر حرف ان لوگوں کی آتا ہے جو عقل سے کام نہیں لیتے، فکر سے کام نہیں لیتے، اس لیے اعتراض کی معقولیت اور نا معقولیت کا یہاں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
تب تك آپ يه سوچيں كه
صلح حديبيه كے روز حضرت علي رضي الله عنه وكرم الله وجهه جب كاتب النبي صلى الله عليه وسلم تھے اور جب سيدي صلى الله عليه وسلم نے لفظ (رسول الله) حذف كرنے كا حكم فرمايا اور حضرت علي رضي الله عنه نے ايسا نه كيا اور آخر وقت تك نه كيا تو كيا حضرت علي رضي الله عنه پر اعتراض وارد هو سكتا هے؟؟
يا يهاں بھي چپ كركے هم احاديث اور كتب سيرت كے سارے ذخيره كو مشكوك قرار ديديں تاكه هماري اعتراضي ذهنيت سلامت رهے سلامت رهے؟؟؟
خاكسار كے نزديك يهاں حضرت علي رضي الله عنه پر اعتراض كسي ناصبي كي بھٹكي بد روح هي كر سكتي هے. كيونكه واقعه سچ هے مگر اعتراض وارد نهيں هوتا. حضرت علي رضي الله عنه فرط محبت اور ادب كي بنا حضور صلى الله عليه وسلم كے اسم مبارك "محمد" كے ساتھ سے لفظ "رسول الله" مٹانے پر تامل كر رهے تھے.
==================
اسي دن جب ايك مشرك سرور كونين صلى الله عليه وسلم سے بات چيت اور معاملات كے لئے آيا اور بات چيت شروع كي اور جب وه عرب كے رواج كے مطابق بات چيت كے دوران حضور پاك صلى الله عليه وسلم كي پاك داڑھي مبارك كو هاتھ لگاتا تو ايك صحابي هر دفعه اس كے هاتھ كو تلوار كے دستے سے پرے هٹا ديتے.
كيا يهاں كوئي بيمار قسم كا اعتراض كيا جاسكتا هے كه جب مشرك سے خود حضور صلى الله عليه وسلم نے تعرض نه فرمايا تو صحابي كون تھے آگے بڑھ كر روكنے والے؟؟؟؟
================
ايك بيمار خاتون جو قريب مرگ تھيں، فرمايا كه جب ان كي وفات هو تو مجھے خبر دينا تاكه جنازه پڑھا جائے. وفات رات كو هو گئي اور صحابه نے اپنے پيارے نبي صلى الله عليه وسلم كي نينداور سكون كي خاطر خبر نه كي اور جنازه پڑھ ديا اور جب حضور صلى الله عليه وسلم كو معلوم هوا تو حضور نے صرف دريافت فرمايا كه خبر كيوں دي اور نكير نه فرمائي. جب صحابه نے كها كه حضور كے آرام كا خيال تھا تو سيدي صلى الله عليه وسلم نے كچھ نه فرمايا. جس عمل كو ديكھ كر حضور صلى الله عليه وسلم نكير نه فرمائيں وه اس كے جائز هونے كي دليل هوتا هے اور معلوم هوا كه حضور كا ادب اور احترام اور هر طرح سے حضور كے آرام كا خيال ركھنا واجب هے.
===========
جب سيدي صلى الله عليه وسلم تهجد ادا فرما رهے تھے تو حضور صلى الله عليه وسلم كي اقتداء ميں حضرت ابن عباس بھي پيچھے كھڑے هو گئے.
حضور صلى الله عليه وسلم نے ان كو اپنے برار كھڑا كيا اور پھر نوافل ادا كرنے لگے. مگر جيسے هي حضور نے نماز شروع كي تو حضرت ابن عباس ذرا پيچھے هٹ گئے. اور برابر كھڑے نه هوئے. نماز ختم كرنے پر سيدي صلى الله عليه وسلم نے پوچھا كے تمهيں كيا هے جو ميں تمهيں برابر كھڑا كرتا هوں اور تم هو كه پيچھے هٹ آتے هو.
( حضرت ابن عباس كا ادب بھرا جواب سنئے ) كيا مناسب هے كه كوئي آپ كے برابر كھڑا هو اور آپ تو الله كے رسول هيں؟
كيا يهاں ابن عباس پر مخالفت كا اعتراض وارد هو سكتا هے؟؟
ياد رهے كه حديث كے بقيه حصے ميں هے كه حضور يه جواب سن كر بهت خوش هوئے اور ابن عباس رضي الله عنه كو دعا دي.
آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے ۔۔ "تب تک آپ سوچیں" کا جملہ کہہ کر (معقولیت) کی اہمیت کو جانتے ہوئے ہمیں دعوت فکر دی ۔ لیکن افسوس کہ جو احادیث نقل کر کے آپ نے دعوت فکر دی ہے ان میں کوئی پیچیدگی تو موجود ہی نہیں جسے سلجھایا جا سکے ۔ اور آپ نے خود جواب دے دیا کہ:
جس عمل كو ديكھ كر حضور صلى الله عليه وسلم نكير نه فرمائيں وه اس كے جائز هونے كي دليل هوتا هے
اور
حديث كے بقيه حصے ميں هے كه حضور يه جواب سن كر بهت خوش هوئے اور ابن عباس رضي الله عنه كو دعا دي
.
اب ذرا ہم دیکھتے ہیں کہ حدیث قلم و قرطاس میں حضور کا لائحہ عمل کیا رہا ہے؟
انہوں نے نکیر کی یا نہیں کی؟
انہوں نے اس کو پسند کرتے ہوئے کاغذ قلم کی مخالفت کرنے والے کو پسندیدگی کی سند عطا فرمائی
نا پسندیدگی کا اظہار کیا
پس متن حدیث سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دو لائحہ عمل سامنے آتے ہیں:
اول:آپ نے فرمایا: " قوموا عنّی و لاینبغی عندی التنازع
میرے سامنے سے اٹھ کر چلے جاو که میرے سامنے جھگڑا اور کشمکش مناسب نهیں هے

دوم: آپ نے فرمایا
ذرونی فالذّی أنا فیه خیر ممّا تدعونی إلیه
مجھے اپنے حال پر چھوڑ دو ؛ کیونکه جو اس وقت میری حالت هے ، وه اس سے بهتر هے که تم لوگ مجھے جس کی طرف بلاتے هو


اب ذرا اپنے ہی بیان کردہ اصول کے مطابق بتایئے کہ دونوں صورتوں میں نکیر پائی جاتی ہے یا پسندیدگی
افلا تعقلون !
 
Top