القلم تاج نستعلیق کی تخلیق پر سید شاکر القادری کے اعزاز میں تقریب

بلال

محفلین
اس تقریب کا احوال یا روداد لکھنے کا ذمہ ساجد بھائی نے لیا تھا۔ اب پتہ نہیں انہوں نے کچھ لکھا ہے یا نہیں مگر میں نے اپنے ساتھی بلاگران کے لئے کچھ لکھا تو سوچا یہاں بھی شیئر کر دیتا ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ لوگوں کو میری بونگیاں پسند آ جائیں۔
جب اردو والے ملتے ہیں : شاکرالقادری کے اعزاز میں تقریب کا احوال
 

حسن نظامی

لائبریرین
میں نبیل نقوی، الف نظامی اور دیگر انعقاد کنندگان کا شکر گزار ہوں
آج کل ہر چیز زوال آشنا ہے، اصل کو نقل اور نقل کو اصل بنا کر پیش کیا جا تا ہے، اعلی احقر اور احقر اعلی، کم ظرف مسند نشین جب کہ عالی ظرف خاک پھانکتے ہیں۔ ہنرمند مطعون اور بے ہنر ممدوح ٹھہرتے ہیں۔ لوگوں نے اخلاقی اقدار کو تو کب کا بیچ کھایا تھا۔ اب نظریات اورایمان کا بھی سودا کرنے لگے ہیں۔ دوسرے لفظوںمیں خدا کو بھی بیچ کھانے کے درپے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مخلص، کھرے اور صاحبان ایمان و یقین دور کہیں "نکرے "لگے ۔ بس تماشا دیکھتے رہتے ہیں۔
اس تناظر میں اگر کوئی مردقلندر للہیت اور خدمت کا جذبہ لے کر لوگوں کی بھلائی کے لیے کچھ کرنا بھی چاہےتو ہر طرف سے "بونے لوگ" ٹوٹ پڑتے ہیں، گویا کچا ہی چبا جائیں گے۔ اور وہ بے چارہ اگر بہت ہی زورآور ہو تو کچھ عرصہ سینہ سپر رہتا ہے اور بالآخر دھڑام سے گر جاتا ہے۔
بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کسی بھی قسم کی رکاوٹ ، طعن ، تحقیر، تمنا، خواہش اور لالچ سے ماورا ہو کر بس خدمت کرتے جاتے ہیں اور "مخدوم" بن جاتے ہیں۔ پھر یہ خدمت بھی عجیب ہے۔
میں اکثر سوچا کرتا ہوں : اگر کسی ارب پتی شخص نے آٹھ دس لاکھ کی لاگت سے ایک فری ڈسپنسری بنا دی تو اسے کیا فرق پڑا، کسی لکھ پتی انسان نے ایک نوجوان طالب علم کو ایم فل کروا دیا تو کون سی بڑی بات ، (بلا تشبیہ و بلا مثال) ایک بہت بڑے سافٹ ویئر انجینئر نے خدمت اردو کے نام پر ایک چھوٹا سا اطلاقیہ سجا دیا تو کون سی وڈی گل، ایک پورے ملک کے برسرآوردہ لوگوں نے ڈیڑھ ڈیڑ ھ لاکھ تنخواہ پر "کچرہ ڈبوں" کو اردو کے ترقیاتی اداروں کا سربراہ بنا دیا تو "کیڑا تیر مارا"۔۔۔
چندلاکھوں کی تعلیمی دانش گاہ بنا کر کروڑوں کے سرمایہ سے سالہا سال تک پبلسٹی کے نام پر قوم کے ساتھ کھلواڑ کرنا اور " ویلی خدمت" کا ڈھنڈورا پیٹنا اگر خدمت کا یہی معیار ہے تو میں مانتا ہوں کہ اس صدی میں بڑے اعلی قسم کے خادم موجود ہیں۔
اگر اسے خدمت کہتے ہیں تو میں : باز آیا ایسی خدمت سے ۔۔۔۔ میں تین حرف بھیجتا ہوں ایسی کارگزاری پر۔۔۔۔۔۔اگرایسی خدمتوں سے لوگ مخدوم بنیں تو بنیں : " میں نہیں مانتا ، میں نہیں مانتا" دل اسی پر صبر نہیں کرتا بلکہ نعرے لگاتا ہے : "میں باغی ہوں میں باغی ہوں"
میں یقین سے کہتا ہوں ۔ ایسی خدمت کبھی مخدوم نہیں بنا سکتی ۔
خدمت تو یہ ہے کہ ایک نان ٹینیکل ،محدود تنخواہ کا سرکاری ملازم ، شوگر اوربلڈ پریشر کا مریض، مسلسل تین سال ہر رات جاگتا ہے(میں ذاتی طور پر اس کا گواہ ہوں) ، اور پھر جب فونٹ تیار ہوجاتا ہے تو ایک مرتبہ پھر ہر قسم کے لالچ اور طعن و تشنیع سے ماوراء ہو کر اردو لکھنے پڑھنے والوں کی خدمت میں فونٹ لا کر رکھ دیتا ہے ۔سچ کہتا ہے :
اس محفل میں ہے کو ئی ان سا
ان سا ہو تو سامنے آئے
ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنے والے بھی بڑے لوگ ہوتے ہیں۔ اردو محفل کے منتظم اعلی نبیل نقوی ، الف نظامی ، محترم ساجد اور باقی وہ تمام صاحبان جنہوں نے اس تقریب کا انعقاد کیا اور باقی انتظامات کیے ۔
وہ عظیم لوگ ہیں، خدا برکتیں دے، سب مبارک باد کے مستحق ہیں۔
 

تلمیذ

لائبریرین
جناب شاکر القادری کو خراج تحسین پیش کرنے کا یہ انداز سب سے انوکھا اور لفظ لفظ سے خلوص و عقیدت کا مظہر ہے۔ہے۔
چھا گئےاو حسن نظامی صاحب!! جزاک اللہ۔
 

الف نظامی

لائبریرین
امجد حسین علوی​
21aijp5.jpg
 
میں نبیل نقوی، الف نظامی اور دیگر انعقاد کنندگان کا شکر گزار ہوں
آج کل ہر چیز زوال آشنا ہے، اصل کو نقل اور نقل کو اصل بنا کر پیش کیا جا تا ہے، اعلی احقر اور احقر اعلی، کم ظرف مسند نشین جب کہ عالی ظرف خاک پھانکتے ہیں۔ ہنرمند مطعون اور بے ہنر ممدوح ٹھہرتے ہیں۔ لوگوں نے اخلاقی اقدار کو تو کب کا بیچ کھایا تھا۔ اب نظریات اورایمان کا بھی سودا کرنے لگے ہیں۔ دوسرے لفظوںمیں خدا کو بھی بیچ کھانے کے درپے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مخلص، کھرے اور صاحبان ایمان و یقین دور کہیں "نکرے "لگے ۔ بس تماشا دیکھتے رہتے ہیں۔
اس تناظر میں اگر کوئی مردقلندر للہیت اور خدمت کا جذبہ لے کر لوگوں کی بھلائی کے لیے کچھ کرنا بھی چاہےتو ہر طرف سے "بونے لوگ" ٹوٹ پڑتے ہیں، گویا کچا ہی چبا جائیں گے۔ اور وہ بے چارہ اگر بہت ہی زورآور ہو تو کچھ عرصہ سینہ سپر رہتا ہے اور بالآخر دھڑام سے گر جاتا ہے۔
بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کسی بھی قسم کی رکاوٹ ، طعن ، تحقیر، تمنا، خواہش اور لالچ سے ماورا ہو کر بس خدمت کرتے جاتے ہیں اور "مخدوم" بن جاتے ہیں۔ پھر یہ خدمت بھی عجیب ہے۔
میں اکثر سوچا کرتا ہوں : اگر کسی ارب پتی شخص نے آٹھ دس لاکھ کی لاگت سے ایک فری ڈسپنسری بنا دی تو اسے کیا فرق پڑا، کسی لکھ پتی انسان نے ایک نوجوان طالب علم کو ایم فل کروا دیا تو کون سی بڑی بات ، (بلا تشبیہ و بلا مثال) ایک بہت بڑے سافٹ ویئر انجینئر نے خدمت اردو کے نام پر ایک چھوٹا سا اطلاقیہ سجا دیا تو کون سی وڈی گل، ایک پورے ملک کے برسرآوردہ لوگوں نے ڈیڑھ ڈیڑ ھ لاکھ تنخواہ پر "کچرہ ڈبوں" کو اردو کے ترقیاتی اداروں کا سربراہ بنا دیا تو "کیڑا تیر مارا"۔۔۔
چندلاکھوں کی تعلیمی دانش گاہ بنا کر کروڑوں کے سرمایہ سے سالہا سال تک پبلسٹی کے نام پر قوم کے ساتھ کھلواڑ کرنا اور " ویلی خدمت" کا ڈھنڈورا پیٹنا اگر خدمت کا یہی معیار ہے تو میں مانتا ہوں کہ اس صدی میں بڑے اعلی قسم کے خادم موجود ہیں۔
اگر اسے خدمت کہتے ہیں تو میں : باز آیا ایسی خدمت سے ۔۔۔ ۔ میں تین حرف بھیجتا ہوں ایسی کارگزاری پر۔۔۔ ۔۔۔ اگرایسی خدمتوں سے لوگ مخدوم بنیں تو بنیں : " میں نہیں مانتا ، میں نہیں مانتا" دل اسی پر صبر نہیں کرتا بلکہ نعرے لگاتا ہے : "میں باغی ہوں میں باغی ہوں"
میں یقین سے کہتا ہوں ۔ ایسی خدمت کبھی مخدوم نہیں بنا سکتی ۔
خدمت تو یہ ہے کہ ایک نان ٹینیکل ،محدود تنخواہ کا سرکاری ملازم ، شوگر اوربلڈ پریشر کا مریض، مسلسل تین سال ہر رات جاگتا ہے(میں ذاتی طور پر اس کا گواہ ہوں) ، اور پھر جب فونٹ تیار ہوجاتا ہے تو ایک مرتبہ پھر ہر قسم کے لالچ اور طعن و تشنیع سے ماوراء ہو کر اردو لکھنے پڑھنے والوں کی خدمت میں فونٹ لا کر رکھ دیتا ہے ۔سچ کہتا ہے :
اس محفل میں ہے کو ئی ان سا
ان سا ہو تو سامنے آئے
ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنے والے بھی بڑے لوگ ہوتے ہیں۔ اردو محفل کے منتظم اعلی نبیل نقوی ، الف نظامی ، محترم ساجد اور باقی وہ تمام صاحبان جنہوں نے اس تقریب کا انعقاد کیا اور باقی انتظامات کیے ۔
وہ عظیم لوگ ہیں، خدا برکتیں دے، سب مبارک باد کے مستحق ہیں۔
شکریہ حسن نظامی بھائی!
آپ نے ہمارے خیالات کی خوب ترجمانی کی، یقیناً ہمارے خیالات اور احساسات اسی طرح کے ہیں بس ہمارے پاس الفاظ کی کمی جس کی وجہ سے اسی پراکتفا کرتا ہوں۔اور وقت تو ۔۔۔
ہم جو ٹھہرے ویلے مصروف:)

باردیگر شکریہ
 
Top