ایک شاعر جسے مرنے کے بعد بھی انصاف نہیں ملا


مکرمی ! ضلع سیالکوٹ کی سابقہ تحصیل شکرگڑھ (اب ضلع نارووال) کے ایک شاعر سید صادق حسین ایڈووکیٹ اپنی زندگی اور مرنے کے بعد بھی اس ناانصافی کا شکار رہے کہ اُن کا درج ذیل مشہور شعر ہمیشہ علامہ محمد اقبالؒ کے نام سے منسوب کر دیا جاتا ہے ....
تندی¿ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے
سید صادق حسین کی شاعری کی ایک مختصر سی کتاب ”برگ سبز“ کے نام سے 1977ءمیں شائع ہوئی تھی۔ 80 صفحات کی اس کتاب کے صفحہ 64 پر درج بالا شعر دیکھا جا سکتا ہے۔ کتاب کا انتساب بھی سید صادق حسین نے ان اصحاب کے نام کیا ہے جنہوں نے شاہ صاحب کا یہی واحد مشہور شہر چھین کر علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ کے اسم گرامی سے منسوب کر دیا ہے۔ چلتے چلتے مولانا ظفر علی خاں کے دو اشعار کا بھی ذکر ہو جائے جو انتہائی پڑھے لکھے حضرات بھی غلطی سے علامہ اقبالؒ کو سونپ دیتے ہیں ....
نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
بشکریہ نوائے وقت محمد آصف بھلی
 
”فاران“ میگزین 2006 گورنمنٹ اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور
میں بھی اس شعر کے شاعر
سید صادق حسین ہی کو بتایا گیا ہے۔ بلکہ مکمل بائیوگرافی بھی ہے۔ اور دیگر بحثیں بھی
تندی¿ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے
بقیہ دو کے بارے مجھے علم نہیں
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین

مکرمی ! ضلع سیالکوٹ کی سابقہ تحصیل شکرگڑھ (اب ضلع نارووال) کے ایک شاعر سید صادق حسین ایڈووکیٹ اپنی زندگی اور مرنے کے بعد بھی اس ناانصافی کا شکار رہے کہ اُن کا درج ذیل مشہور شعر ہمیشہ علامہ محمد اقبالؒ کے نام سے منسوب کر دیا جاتا ہے ....
تندی¿ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے
سید صادق حسین کی شاعری کی ایک مختصر سی کتاب ”برگ سبز“ کے نام سے 1977ءمیں شائع ہوئی تھی۔ 80 صفحات کی اس کتاب کے صفحہ 64 پر درج بالا شعر دیکھا جا سکتا ہے۔ کتاب کا انتساب بھی سید صادق حسین نے ان اصحاب کے نام کیا ہے جنہوں نے شاہ صاحب کا یہی واحد مشہور شہر چھین کر علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ کے اسم گرامی سے منسوب کر دیا ہے۔ چلتے چلتے مولانا ظفر علی خاں کے دو اشعار کا بھی ذکر ہو جائے جو انتہائی پڑھے لکھے حضرات بھی غلطی سے علامہ اقبالؒ کو سونپ دیتے ہیں ....
نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
بشکریہ نوائے وقت محمد آصف بھلی

ہمارا فیس بک فورم اس شعر کی نشاندہی بہت عرصہ پہلے کر چکا ہے۔
اور جہاں تک مجھے یاد ہے، صادق حسین صاحب کی قبر کی لوح پہ بھی یہی شعر لکھا ہوا ہے۔
میں اُس کی تصویر بھی شاملِ محفل کرتا ہوں، اگر مل گئی تو۔

اور مولانا ظفر علی خان کا یہ شعر بھی
خدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال، آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
 

انتہا

محفلین
بھئی اس شعر کے بارے بھی کوئی بتائے، ہم تو آج تلک حضرتِ اقبال ہی کا سمجھتے رہے:
اس کے الطاف تو ہیں عام شہیدی سب پہ
تجھ سے کیا ضد تھی اگر تو کسی قابل ہوتا
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
بھئی اس شعر کے بارے بھی کوئی بتائے، ہم تو آج تلک حضرتِ اقبال ہی کا سمجھتے رہے:
اس کے الطاف تو ہیں عام شہیدی سب پہ
تجھ سے کیا ضد تھی اگر تو کسی قابل ہوتا

میرے علم کے مطابق تو یہ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا نہیں ہے۔
 
”فاران“ میگزین 2006 گورنمنٹ اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور
میں بھی اس شعر کے شاعر
سید صادق حسین ہی کو بتایا گیا ہے۔ بلکہ مکمل بائیوگرافی بھی ہے۔ اور دیگر بحثیں بھی
تندی¿ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے
بقیہ دو کے بارے مجھے علم نہیں
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت سے اچھے اچھے شعر مشہور شعراء کے نام کرنے والے عوام ہی ہوتے ہیں اور وہ یوں ہی یا ملتے جلتے اُسلوب سے دھوکہ کھا جاتے ہیں۔ عوام کے لئے یہ بات بہت زیادہ اہم بھی نہیں ہوتی۔
 

شمشاد

لائبریرین
قادری صاحب اگر برگ سبز مل سکتی ہے تو کیوں نا اسے اردو میں ٹائپ کر کے محفل کی زینت بنا دیا جائے۔
 
قادری صاحب اگر برگ سبز مل سکتی ہے تو کیوں نا اسے اردو میں ٹائپ کر کے محفل کی زینت بنا دیا جائے۔

ضرور کوشش ہونی چاہیے
لیکن میری وضاحت اوپر درج تھی
بشکریہ نوائے وقت
محمد آصف بھلی
یہ کالم نگار ہیں بھلی صاحب
اس دن کے اخبار میں ان کا مراسلہ چھپا تھا۔
وہاں ان کا فون نمبر بھی درج تھا۔
میں کتاب ڈھونڈنے کی کوشش کروں گا ان شاءاللہ
 

تصور تقوی

محفلین
سمجھتا ہے حوادث ہیں ستانے کے لیے

یہ ہوا کرتے ہیں ظاہر آزمانے کے لیے

تندیٔ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب

یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے

کامیابی کی ہوا کرتی ہے ناکامی دلیل

رنج آتے ہیں تجھے راحت دلانے کے لیے

چرخ کج‌ رفتار ہے پھر مائل جور و ستم

بجلیاں شاہد ہیں خرمن کو جلانے کے لیے

نیم جاں ہے کس لیے حال خلافت دیکھ کر

ڈھونڈ لے کوئی دوا اس کو بچانے کے لیے

چین سے رہنے نہ دے ان کو نہ خود آرام کر

مستعد ہیں جو خلافت کو مٹانے کے لیے

دست و پا رکھتے ہیں اور بیکار کیوں بیٹھے رہیں

ہم اٹھیں گے اپنی قسمت کو بنانے کے لیے
 

تصور تقوی

محفلین
تو سمجھتا ہے حوادث ہیں ستانے کے لیے

یہ ہوا کرتے ہیں ظاہر آزمانے کے لیے

تندیٔ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب

یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے

کامیابی کی ہوا کرتی ہے ناکامی دلیل

رنج آتے ہیں تجھے راحت دلانے کے لیے

چرخ کج‌ رفتار ہے پھر مائل جور و ستم

بجلیاں شاہد ہیں خرمن کو جلانے کے لیے

نیم جاں ہے کس لیے حال خلافت دیکھ کر

ڈھونڈ لے کوئی دوا اس کو بچانے کے لیے

چین سے رہنے نہ دے ان کو نہ خود آرام کر

مستعد ہیں جو خلافت کو مٹانے کے لیے

دست و پا رکھتے ہیں اور بیکار کیوں بیٹھے رہیں

ہم اٹھیں گے اپنی قسمت کو بنانے کے لیے
 

umarjkan

محفلین
الف نظامی بھائی، اگر یہ پوری غزل یا نظم سہولت سے شیئر کر سکیں تو بندہ شکر گزار ہو گا۔
دیوانِ شہیدی صفحہ نمبر 10

کرامت علی شہیدی​

ریختہ
عام ہیں اُسکے تو الطاف شہیدی سب پر
تجھ سے کیا ضد تھی اگر تو کسی قابل ہوتا
 
آخری تدوین:
Top