امبڑی(ماں)۔۔۔ پنجابی نظم کا ترجمہ تو کردیں

السلام علیکم
انور مسعود صاحب کی اس نظم کو سن کر میرے آنسو رواں ہوگئے مگر شاید آپ کو حیرانی ہوکہ مجھے پنجابی نہیں آتی مگر کچھ کچھ سمجھ گیا ہوں۔
میری اہلیان محفل سے گذارش ہے کہ اس نظم کے پنجابی بول اور ان کا اردو ترجمہ ضرور لکھ دیں تاکہ اس خوب صورت نظم کو صحیح طرح سمجھا جاسکے۔
مشکور رہوں گا۔
شکریہ

مجھے اس کا عنوان صحیح لکھنا نہیں آرہا ہے ،اوہ دوبارہ تدوین بھی نہیں کیی جارہی ہے۔اہل علم تصحیح فرمادیں۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
امبڑی (ماں)

ما سٹر: اَج بڑی دیر نال آیاں ایں بشیریا!
ایہ تیراپنڈ اے تے نال ای سکول اے
جائں گا توُں میرےے کولوں ہڈیاں بھناں کے
آیاں ایں تُو اَج دوونویں ٹلیاں گھسا کے

ترجمہ:
ماسٹر: آج بڑی دیر سے تم آئے ہو بشیریا
قریب تیرا گاؤں ہے اور ساتھ اس کے سکول ہے
جاؤ گے اب مجھ سے تم ہڈیاں تڑوا کے
آئے ہو اب تم دونوں پیریڈ بھی گزار کے


بشیرا: منشی جی میری اِک گل پہلں سُن لو
اکرمے نے نھیر جیہانھیراَج پایاجے
مائ نوں ایہ ماردائے تے بڑا ڈاہڈا ماردائے
اَج ایس بھیڑکے نے حد پئ مکائ اے
اوہنوں مارمار کے مدھانی بھَن سُٹی سوُ
بندے کٹھے ہوے نیں تے اوتھوں پج گیائے
چُک کے کتاباں تے سکوُل ول نسیائے

ترجمہ
بشیرا: منشی جی میری اِک بات پہلے سن لیں
اکرمے نے اندھیر سا اندھیر آج مچایا ہے
ماں کو یہ مارتا ہے اور بہت مارتا ہے
آج یہ پھلانگ گیا حدیں سب ساری
ماں کو مار مار کے مدھانی توڑ دی ہے
لوگ اکٹھے ہوئے ہیں اور فرار وہاں سے ہوا ہے
بستہ اٹھا کر یہ سکول کی طرف بھاگا ہے

مائی ایہدی منشی جی گھر ساڈے آئی سی
مُونہ اُتے نیل سن سُجا ھویاہتھ سی
اکھں وچ اتھرو تے بُلاں وچ رَت سی

ترجمہ:
ماں اس کی منشی جی گھر ہمارے آئی تھی
منہ پہ نیل پڑے تھے اور ہاتھ سوجا ہوا تھا
آنکھوں میں تھے آنسو اور سوجا ہوا ہاتھ تھا

کہن لگی سوہنیا وے پتر بشیریا
میرا اک کم وی توں کریں اج ہیریا
روٹی میرے اکرمے دی لئ جا مدرسے
اَج فیر ٹُر گیا اے میرے نال رُس کے

ترجمہ:
کہنے لگی پیارے او بیٹے میرے بشیریا
کام آج میرا ایک کرنا ہے رے ہیریا (ہیرا)
روٹی میرے اکرمے کی تو لے جا مدرسے
آج پھر چلا گیا مجھ سے وہ پھر روٹھ کے


گھیؤ وچ گُنّھ کے پراؤنٹھے اوس پکاے نیں
ریجھ نال رِنھیاں سُوآنڈیاں دا حلوہ
پونے وچ بَنھ کے تے میرے ہتھ وچ دَتی سُو
ایہو گل آکھدی سی مُڑ مُڑ منشی جی
چھیتی نال جائیں بیبا’دیریاں نہ لائیں بیبا

ترجمہ:
گوندھ کر گھی میں پراٹھے اس نے پکائے ہیں
پیار سے بنایا ہے انڈوں کا ساتھ حلوہ
سب یہ چیزیں باندھ کر میرے حوالے کی ہیں
یہی بات کہتی تھی وہ بار بار منشی جی
جلدی سے جانا بیٹا دیر سے نہ جانا بیٹا

اوہدیاں تے لُو سدیاں ہون گیاں آندراں
بھکھا بھانا اج او سکولے ٹُر گیااے
روٹی اوہنے دتی اے میں بھجا لگا آیاجے
اکرمے نے نھیر جیہانھیر اج پایا اے

ترجمہ:
اس کی تو آنتیں بھی بھوک سے بلکتی ہوں گی
بغیر کچھ کھائے پیے وہ سکول چلا گیا ہے
روٹی اس نے دی ہے میں بھاگا چلا آیا ہوں
اکرمے نے اندھیر سا اندھیر آج مچایا ہے


 
بشیریا ۔۔۔۔۔۔
نظم پڑھی وی، سنی وی، کچھ نہ پچھو! پروفیسر صاحب نے روا چھڈیا اے۔ ایس نظم دے بارے میں 1990 وچ اونہاں دا انٹرویو لیندیاں آکھیا سی میں ایہ نظم پڑھ نہیں سکدا، اوہ کہن لگے میں آپ وی نہیں پڑھ سکدا۔
یاد رہوے پئی ایہ نظم اونہاں دی کتاب ”میلہ اکھیاں دا“ وچ شامل اے جیہڑی 1969 وچہ چھپی سی، اودوں میں میٹرک دا امتحان نواں نواں پاس کیتا سی۔ تے لاہور وچہ اک تھاں نوکری کردا ساں۔

محمد یعقوب آسی
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
انور مسعود صاحب ایک اچھے شاعر ہی نہیں بلکہ ایک بہت اچھے انسان بھی ہیں میری ان سے دو یا تین دفعہ ملاقات ہوئی ہے اللہ تعالیٰ انہیں صحت مند زندگی عطا فرمائے آمین
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
بشیریا ۔۔۔ ۔۔۔
نظم پڑھی وی، سنی وی، کچھ نہ پچھو! پروفیسر صاحب نے روا چھڈیا اے۔ ایس نظم دے بارے میں 1990 وچ اونہاں دا انٹرویو لیندیاں آکھیا سی میں ایہ نظم پڑھ نہیں سکدا، اوہ کہن لگے میں آپ وی نہیں پڑھ سکدا۔
یاد رہوے پئی ایہ نظم اونہاں دی کتاب ”میلہ اکھیاں دا“ وچ شامل اے جیہڑی 1969 وچہ چھپی سی، اودوں میں میٹرک دا امتحان نواں نواں پاس کیتا سی۔ تے لاہور وچہ اک تھاں نوکری کردا ساں۔

محمد یعقوب آسی
نظم پڑھی بھی، سنی بھی۔ کچھ مت پوچھئے۔ پروفیسر صاحب نے رلا دیا۔ اس نظم کے بارے میں 1990 میں ان کا انٹرویو لیتے ہوئے کہا تھا میں یہ نظم نہیں پڑھ سکتا۔ وہ کہنے لگے میں خود بھی نہیں پڑھ سکتا۔
یاد رہے کہ یہ نظم ان کی کتاب ’’میلہ اکھیاں دا‘‘ میں شامل ہے جو 1969 میں چھپی تھی جب میں نے میٹرک کا امتحان نیا نیا پاس کیا تھا۔ اور لاہور میں ایک جگہ نوکری کرتا تھا۔۔۔
بھائی آپ نوکری کہاں کرتے تھے؟ لاہور میں تو سنا ہے نوکریاں ہوتی ہی نہیں ہیں۔ میں اسی لیے کراچی میں دھکے کھا رہا ہوں۔۔اوہو، تو آپ نے لکھا آپ 1969میں نوکری کرتے تھے۔ آج کل کیا کرتے ہیں؟
 

شمشاد

لائبریرین
اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہ سچا واقعہ ہے اور وہ خود اس اسکول کے ماسٹر تھے اور یہ واقعہ انہی کے ساتھ بیتا تھا جو انہوں نے ناقابل فراموش نظم میں ڈھال دیا۔
 
نظم پڑھی بھی، سنی بھی۔ کچھ مت پوچھئے۔ پروفیسر صاحب نے رلا دیا۔ اس نظم کے بارے میں 1990 میں ان کا انٹرویو لیتے ہوئے کہا تھا میں یہ نظم نہیں پڑھ سکتا۔ وہ کہنے لگے میں خود بھی نہیں پڑھ سکتا۔
یاد رہے کہ یہ نظم ان کی کتاب ’’میلہ اکھیاں دا‘‘ میں شامل ہے جو 1969 میں چھپی تھی جب میں نے میٹرک کا امتحان نیا نیا پاس کیا تھا۔ اور لاہور میں ایک جگہ نوکری کرتا تھا۔۔۔
بھائی آپ نوکری کہاں کرتے تھے؟ لاہور میں تو سنا ہے نوکریاں ہوتی ہی نہیں ہیں۔ میں اسی لیے کراچی میں دھکے کھا رہا ہوں۔۔اوہو، تو آپ نے لکھا آپ 1969میں نوکری کرتے تھے۔ آج کل کیا کرتے ہیں؟
بات پرانی ہو گئی۔ خیر! آج کل کمال کرتا ہوں۔ نوکری تو میں نے 2007 کے آخر تک کی؛ ”میلہ اکھیاں دا“ جب چھپی میں لاہور میں تھا (1969)۔
نوکریاں نہ ہونے کی بھی آپ نے خوب کہی، کراچی والے لاہور میں اور لاہور والے کراچی میں (ایک شہر کے باسی دوسرے شہر میں) نوکریاں کر رہے ہیں۔ نوکری جو ٹھہری۔
 

مہر نگار

محفلین
اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہ سچا واقعہ ہے اور وہ خود اس اسکول کے ماسٹر تھے اور یہ واقعہ انہی کے ساتھ بیتا تھا جو انہوں نے ناقابل فراموش نظم میں ڈھال دیا۔
جی انھونے بذات خود یہ واقعہ سنایا ہے نظم پڑھنے سے پہلے کسی نشست میں۔۔۔
 
Top