محمد وارث

لائبریرین
پیرِ رومی کی یہ غزل اتنی خوبصورت ہے کہ ان کے دو مریدوں، مریدِ عراقی اور مریدِ ہندی، نے بھی اس میں طبع آزمائی کی ہے اور کیا خوب کی ہے۔ پیرِ رومی اور مریدِ ہندی کے بارے میں کچھ نہ کہنا ہی بہتر ہے کہ ہر کوئی ان دو کے متعلق جانتا ہے اور انکے "تعلق" کے متعلق بھی لیکن "مریدِ عراقی" کا تھوڑا سا تعارف ضروری ہے۔

شیخ فخرالدین ابراہیم عراقی، ساتویں صدی ہجری (تیرہویں صدی عیسوی) کے ایک نامور صوفی بزرگ اور شاعر تھے۔ آپ ہمَدان، ایران میں پیدا ہوئے اور اوائلِ عمر میں ہی قلندروں کی ایک ٹولی میں شامل ہو کر دنیا کی سیر و سیاحت کو نکل کھڑے ہوئے۔ شیخ محمد اکرام، "آبِ کوثر" میں شیخ بہاءالدین زکریا سہروردی (رح) کا ذکر کرتے ہوئے، ضمنی طور پر عراقی کا حال اسطرح لکھتے ہیں۔

"وہ [عراقی] شیخ شہاب الدین سہروردی کے بھانجے تھے [شیخ اکرام کی اس بات کے برعکس ایک روایت میں ہے کہ آپ ہمدان سے بغداد تشریف لے گئے تھے اور وہاں شیخ شہاب الدین سہروردی کے مرید ہوئے اور انہوں نے ہی آپ کو عراقی کا خطاب دیا] اور ان دنوں اثنائے سیر و سیاحت میں ملتان تشریف لائے تھے۔ شیخ بہاءالدین زکریا سے وہ اتنے متاثر ہوئے کہ وہ کہتے تھے، بر مثالِ مقناطیس کہ آہن را کشد، شیخ مرا جذب می کند و مقیّد خواہد کرد، ازیں جا زود تر باید رفت [مقناطیس کی طرح کہ جسطرح وہ لوہے کو کھینچتا ہے، شیخ نے مجھے جذب کر لیا ہے اور اپنا مقیّد بنا لیا ہے، اس جگہ سے جلد از جلد چلے جانا چاہیئے]۔ شیخ نے بھی اپنے مرشد کے خواہر زادے کی بڑی خاطر داری کی، اپنی بیٹی اس سے بیاہ دی اور عراقی ایک عرصہ ملتان میں مقیم رہے۔ وہ نہایت دل گداز شعر لکھتے تھے، چنانچہ "نفحات الانس" میں مولانا جامی لکھتے ہیں کہ شیخ بہاءالدین زکریا کی خانقاہ میں عراقی نے چلّہ کشی شروع کی تو ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ ان پر ایک وجد کی کیفیت طاری ہو گئی، انہوں نے ۔۔۔ [ایک] ۔۔۔ غزل کہی اور اسے بلند آواز سے پڑھنا شروع کیا۔ اہلِ خانقاہ نے اس پر اعتراض کیا کیونکہ خانقاہ میں سوائے ذکر اور مراقبہ کے کوئی اور چیز رائج نہ تھی [سہروردیہ سلسلے میں سماع سے اجتناب کیا جاتا ہے]، انہوں نے شیخ سے بھی اس کی شکائت کی، لیکن انہوں نے فرمایا کہ یہ چیزیں تمھیں منع ہیں، اسے منع نہیں۔"

ایک روایت کے مطابق آپ پچیس سال تک شیخ بہاءالدین زکریا کی خدمت میں رہے اور انہوں بوقتِ وصال آپ کو ہی اپنا خلیفہ اور جانشین بنایا، لیکن اس روایت کا ذکر شیخ محمد اکرام نے نہیں کیا بلکہ ان کے مطابق شیخ بہاءالدین زکریا کے جانشین انکے صاحبزادے شیخ صدرالدین تھے۔ بہرحال ملتان سے نکل کر عراقی نے حج کا قصد کیا اور مکہ و مدینہ کی زیارت کے بعد آپ قونیہ، ترکی میں مولانا رومی کی خدمت میں تشریف لے گئے اور ایک عرصہ تک انکی خدمت میں حاضر رہے اور سماع کی محفلوں میں حصہ لیتے رہے۔ اس کے بعد (شاید مولانا کے وصال کے بعد) آپ شام چلے گئے اور وہیں وفات پائی، آپ کا مزار دمشق میں ہے۔

عراقی کے متعلق یہ کچھ تفصیلات لکھنا مجھے ضروری محسوس ہوئیں کیونکہ انکے متعلق ویب پر بہت کم معلومات ملتی ہیں لیکن خوش قسمتی سے ان کی شاعری، جو کہ تصوف کی چاشنی سے لبریز ہے، محفوظ بھی ہے اور ویب پر عام ملتی بھی ہے، ان کا دیوان اس ربط پر پڑھا جا سکتا ہے۔

اب ان تینوں بزرگوں کی غزلیں آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں جو کہ ایک ہی زمین (یعنی مولانا رومی کی زمین) میں ہیں، فقط اس معمولی فرق کے ساتھ کہ اقبال نے اپنی غزل میں قافیہ تھوڑا سا بدل دیا ہے لیکن بہرحال زمین وہی مولانا رومی کی ہے۔ مزید برآں یہ کہ مریدِ ہندی کو، پیرِ رومی کی یہ غزل شاید زیادہ ہی پسند تھی کہ اپنی کتب میں دو بار اس غزل کے اشعار لکھے ہیں، اسرارِ خودی اور جاوید نامہ میں۔

غزلِ مولانا جلال الدین رومی

بکشائے لب کہ قندِ فراوانَم آرزوست
بنمائے رخ کہ باغ و گلستانم آرزوست
اپنے لب کھول یعنی باتیں کر کہ مجھے بہت زیادہ شیرینی کی آرزو ہے اور اپنا چہرہ دکھا کہ مجھے باغ اور گلستان کی آرزو ہے۔

یک دست جامِ بادہ و یک دست زلفِ یار
رقصے چنیں میانۂ میدانم آرزوست
ایک ہاتھ میں شراب کا جام ہو اور دوسرے ہاتھ میں یار کی زلف، اور اسطرح بیچ میدان کے رقص کرنے کی مجھے آرزو ہے۔

دی شیخ با چراغ ہمی گشت گردِ شہر
کز دیو و دد ملولم و انسانم آرزوست
کل رات ایک بوڑھا شخص چراغ ہاتھ میں لیے شہر میں گھومتا رہا اور کہتا رہا کہ میں شیطانوں اور درندوں سے ملول ہوں اور کسی انسان کو دیکھنے کی آرزو ہے۔

زیں خلقِ پرشکایتِ گریاں، شدم ملول
آں ‌هائے هوئے و نعرهٔ مستانم آرزوست
میں اس خلق سے، جو ہر وقت گریاں( اور مصائب) کی شکایت ہی کرتی ہے، ملول ہو گیا ہوں اور ھائے ھو یعنی مستی اور نعرۂ مستانہ کی آرزو ہے۔

واللہ کہ شہر بے ‌تو، مرا حبس می ‌شود
آوارگی و کوه و بیابانم آرزوست
واللہ کہ تیرے بغیر شہر میرے لیے حبس بن گیا ہے، مجھے آوارگی اور پہاڑوں اور بیابانوں کی آرزو ہے۔

گفتی ز ناز بیش مرنجاں مرا، برو
آں گفتَنَت کہ بیش مرنجانم آرزوست
تو نے ناز سے مجھے کہا کہ 'مجھے زیادہ تنگ نہ کرو اور چلے جاؤ"، یہ جو تو نے کہا کہ مجھے زیادہ تنگ نہ کرو، مجھے تم سے یہی بات سننے کی آرزو ہے۔ (چلے جانے والی بات کوئی عاشق کیسے سن سکتا ہے)۔

اے عقل تو ز شوق پراکندہ گوئے شو
اے عشق نکتہ ہائے پریشانم آرزوست
اے عقل تو شوق (عشق) کی وجہ سے بہکی بہکی باتیں کرنے والی بن جا، اے عشق مجھے تیری پریشان کر دینے والی لطیف باتوں کی ہی آرزو ہے۔

ایں آب و نانِ چرخ چو سیل است بیوفا
من ماہیَم، نہنگم و عمّانم آرزوست
یہ آسمان کا دیا ہوا آب و دانہ، سیلاب کی طرح بیوفا ہے کہ آیا اور چلا گیا، میں تو ایک مچھلی کی طرح ہوں اور سمندر و مگر مچھوں کی آرزو رکھتا ہوں یعنی ا نکے درمیان رہ کر رزق حاصل کرنے کی آرزور رکھتا ہوں، یعنی اصل رزق تو وہ ہے جو جدوجہد سے ملے نہ کہ دوسروں کا بخشا ہوا۔

جانم ملول گشت ز فرعون و ظلمِ او
آں نورِ جیبِ موسیِٰ عمرانم آرزوست
میری جان فرعون اور اسکے مظالم کی وجہ سے ملول و دل گرفتہ ہے، مجھے عمران کے بیٹے موسیٰ کے گریبان (یدِ بیضا) کی آرزو ہے یعنی موجودہ زمانے کے فرعونوں کیلیے بھی کسی موسیٰ کی آرزو ہے۔

زیں ہمرہانِ سست عناصر دلم گرفت
شیرِ خدا و رستمِ دستانم آرزوست
ان سست عناصر والے (دنیا پرست) ہمراہیوں نے مجھے دل گرفتہ کر رکھا ہے، مجھے شیرِ خدا (ع) اور دستان کے بیٹے رستم کی آرزو ہے یعنی بلند ہمت، حوصلہ مند اور بے لوث لوگوں کی سنگت چاہیئے۔

گفتم کہ یافت می نشَوَد جستہ ایم ما
گفت آنکہ یافت می نشود آنم آرزوست
میں نے کہا، ہم جسے ڈھونڈتے ہیں وہ نہیں ملتا، اُس نے کہا کہ جو نہیں ملتا مجھے تو اسی کی آرزو ہے۔

----------

غزلِ فخر الدین عراقی

یک لحظہ دیدنِ رخِ جانانم آرزوست
یکدم وصالِ آں مہِ خوبانم آرزوست
ایک لحظہ کیلیے رُخِ جاناں دیکھنے کی آرزو ہے، ایک دم کیلیے اُس مہِ خوباں کے وصال کی آرزو ہے۔

جاناں، ز آرزوئے تو جانم بہ لب رسید
بنمائے رخ، کہ قوّتِ دل و جانم آرزوست
اے جاناں تیری آرزو میں میری جان لبوں تک آ گئی، میری طرف رُخ کر کہ میری آرزو ہے کہ میرے دل و جان کو تقویت پہنچے یعنی تیرے دیدار سے زندہ ہو جاؤں۔

ور لحظہ ‌ای بہ کوئے تو ناگاه بگذرم
عیبم مکن، کہ روضۂ رضوانم آرزوست
ایک لحظ کیلیے ناگاہ تیرے کوچے کی طرف سے گذر گیا، عیب مت کر مجھے روضۂ رضوان (جنت) کی آرزو ہے کہ تیرا کوچہ میرے لیے مانندِ جنت ہے۔

وز روئے آں کہ رونقِ خوباں ز روئے توست
دایم نظارهٔ رخِ خوبانم آرزوست
تیرا چہرہ کہ دنیا کے سب خوباں کی رونق تیرے چہرے ہی سے ہے، اور مجھے اس رخِ خوباں یعنی تیرے چہرے کے دائمی نظارے کی آرزو ہے۔

سودائے تو خوش است و وصالِ تو خوشتر است
خوشتر ازیں و آں چہ بوَد؟ آنم آرزوست
تیرا جنون (و ہجر) خوب ہے اور تیرا وصال خوب تر ہے، ان دونوں سے خوب تر اگر کوئی چیز ہے تو پھر مجھے اُسی کی آرزو ہے یعنی تیرے ہجر و وصال سے بڑھ کر کوئی چیز تو عاشق کیلیے ہو نہیں سکتی سو وہ اور کس چیز کی خواہش کرے۔

ایمان و کفرِ من همہ رخسار و زلفِ توست
در بندِ کفر مانده و ایمانم آرزوست
میرا ایمان اور کفر بس تیرے رخسار اور زلفیں ہیں (تیرے چہرے کا نور میرے لیے مانندِ نورِ ایمان ہے اور تیری زلفوں کی سیاہی مانندِ تاریکیِ کفر)، مجھے کفر کی قید (تیری زلفوں کی قید) اور ایمان (تیرے چہرے) کی آرزو ہے۔

دردِ دلِ عراقی و درمانِ من تو ای
از درد بس ملولم و درمانم آرزوست
عراقی کے دل کا درد اور اسکا درمان بھی فقط تو ہی ہے، اس دردِ دل (یعنی تیرے ہجر) سے بہت ملول ہوگیا ہوں اور اب اسکے درمان (تیرے وصال و دیدار) کی آرزو ہے۔

----------

غزلِ علامہ محمد اقبال

تیر و سنان و خنجر و شمشیرم آرزوست
با من میا کہ مسلکِ شبّیرم آرزوست
مجھے تیر و نیزہ و خنجر و شمشیر کی آرزو ہے، (اے دنیا پرست و آسائش پسند) میرے ساتھ مت آ کہ مجھے مسلکِ شبیر (ع) کی آرزو ہے۔

از بہرِ آشیانہ خس اندوزیَم نگر
باز ایں نگر کہ شعلۂ در گیرم آرزوست
ایک آشیانہ بنانے کیلیے میرا تنکا تنکا جمع کرنا دیکھ، اور پھر یہ بھی دیکھ مجھے اس آشیانے کو جلا ڈالنے کی آرزو ہے۔

گفتند لب ببند و ز اسرارِ ما مگو
گفتم کہ خیر نعرۂ تکبیرم آرزوست
اُس نے کہا کہ اپنے لب بند رکھ اور ہمارے اسرار کسی سے مت کہا، میں نے کہا کہ خیر (یعنی آپ کی بات مان لیتا ہوں) لیکن مجھے نعرۂ تکبیر (اللہ اکبر) بلند کرنے کی آرزو ہے یعنی اسی ایک نعرے (اللہ کی کبریائی ببان کرنے) سے سب چھوٹے بڑے راز خود بخود ہی ظاہر ہو جاتے ہیں۔

گفتند ہر چہ در دِلَت آید ز ما بخواہ
گفتم کہ بے حجابیِ تقدیرم آرزوست
اُس نے کہا کہ جو کچھ بھی تیرے دل میں ہے ہم سے مانگ، میں نے کہا کہ میری آرزو یہ ہے کہ میری تقدیر مجھ پر بے حجاب یعنی آشکار ہو جائے۔

از روزگارِ خویش ندانم جز ایں قدَر
خوابم ز یاد رفتہ و تعبیرم آرزوست
اپنی زندگی کے بارے میں، میں کچھ نہیں جانتا لیکن صرف اتنا کہ ایک خواب تھا جو بُھول گیا اور اب اس بُھولے ہوئے خواب کی تعبیر کی آرزو ہے۔

کو آں نگاہِ ناز کہ اوّل دِلَم رَبُود
عُمرَت دراز باد، ہماں تیرم آرزوست
وہ نگاہِ ناز کدھر گئی کہ جس نے اوّل اوّل ہمارے دل کو لوٹا تھا، تیری عمر دراز ہو مجھے اُسی تیر کی آرزو ہے (اسلام کے گم گشتہ عروج و قرنِ اول کی خواہش کر رہے ہیں اور بلند اقبالی کی دعا بھی دے رہے ہیں)۔
 

سید زبیر

محفلین
وارث صاحب بہت تاخیر سے اس دھاگے کو دیکھا ۔ ۔ بہت معلوماتی اور زبردست تحریر ہے شراکت کا بہت شکریہ
 
بہت خوب۔۔۔ ۔۔۔ ۔
مہدی نقوی حجاز کا مفّکرانہ رائے بھی لیتے ہیں
بھئی ہماری رائے کی کیا وقعت
ہم کہاں کے داناں ہیں
کس ہنر میں یکتا ہیں؟؟
جناب محمد وارث صاحب تو ہمارے اساتذہ میں شامل ہیں۔۔۔ ہمیں کیا حق بھلا اظہار نظر کا۔۔
اتنا ضرور کہیں گے کہ خدا انہیں سلامت رکھے۔۔ واقعی خوب۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بھئی ہماری رائے کی کیا وقعت
ہم کہاں کے داناں ہیں
کس ہنر میں یکتا ہیں؟؟
جناب محمد وارث صاحب تو ہمارے اساتذہ میں شامل ہیں۔۔۔ ہمیں کیا حق بھلا اظہار نظر کا۔۔
اتنا ضرور کہیں گے کہ خدا انہیں سلامت رکھے۔۔ واقعی خوب۔

شکریہ آپ کا نقوی صاحب ان کلماتِ خیر کیلیے، آپ سے قابل نوجوان ہی وارثِ علم و فن ہیں۔ :)
 
محمد وارث بھائی! بہت شکریہ ان خوب صورت غزلوں کا اتنی سادہ زبان میں ترجمہ کرنے کا۔ محفل پر آگئے ہیں تو فارسی نہ جاننے کا اتنا افسوس بھی نہیں رہا۔آپ جو چند فارسی دان ہیں محفل پر ، وہ اردو محفل کا سرمایہ ہیں۔ جزاک اللہ الخیر
 
گفتند لب ببند و ز اسرارِ ما مگو
گفتم کہ خیر نعرۂ تکبیرم آرزوست
اُس نے کہا کہ اپنے لب بند رکھ اور ہمارے اسرار کسی سے مت کہا، میں نے کہا کہ خیر (یعنی آپ کی بات مان لیتا ہوں) لیکن مجھے نعرۂ تکبیر (اللہ اکبر) بلند کرنے کی آرزو ہے یعنی اسی ایک نعرے (اللہ کی کبریائی ببان کرنے) سے سب چھوٹے بڑے راز خود بخود ہی ظاہر ہو جاتے ہیں۔
گفتند کے ترجمے میں شاید ٹایپو ہو گئی ہے ورنہ اسکا معنی "انہوں نے کہا " ہے
میری ناقص معلومات اور استعمال کے مطابق اس مقام پر فارسی میں "خیر" ، "نہیں" کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسے جب کہا جائے کہ"شما دوست منی ؟" تو جواب میں کہا جاتا ہے کہ "خیر" یعنی نہیں۔ باقی ممکن ہے اس کا وہ استعمال بھی موجود ہو جو آپ نے ترجمہ فرمایا ہے ۔البتہ اس شعر کا سیاق بھی اسی معنی میں ظہور رکھتا ہے۔
اس بنا پر معنی یہ ہونا چاہیے
کہنے لگے وہ ہم سے کہ اب راز نہ کر فاش
میں نے کہا "نہیں"کہ اب اعلان ہے مراد:)
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ خلیل صاحب۔

نقوی صاحب گفتند کہ بارے میں آپ نے درست فرمایا۔ اور خیر کے متعلق میرے بلاگ پر بھی کچھ بحث ہوئی تھی، خیر اب کیا کہوں :)
 
Top