فرحت کیانی
لائبریرین
شاعر
جس آگ سے جل اُٹھا ہے جی آج اچانک
پہلے بھی میرے سینے میں بیدار ہوئی تھی
جس کرب کی شدت سے مری روح ہے بےکل
پہلے بھی مرے ذہن سے دوچار ہوئی تھی
جس سوچ سے میں آج لہو تُھوک رہا ہوں
پہلے بھی مرے حق میں تلوار ہوئی تھی
وہ غم، غمِ دنیا جسے کہتا ہے زمانہ
وہ غم،مجھے جس غم سے سروکار نہیں تھا
وہ درد کہ ہر دور کے انسان نے جھیلا
وہ درد مرے عشق کا معیار نہیں تھا
وہ زخم کہ ہر سینے کا ناسُور بنا تھا
وہ زخم مجھے باعثِ آزار نہیں تھا
دنیا نے تڑپ کر مرے شانوں کو جھنجھوڑا
لیکن مرا احساس غمِ ذات میں گُم تھا
آتی رہیں کانوں میں المناک پکاریں
لیکن مرا دل اپنے ہی حالات میں گُم تھا
میں وقت سے بیگانہ زمانے سے بہت دور
جام و مے و مینا و خرابات میں گُم تھا
دربار کی تفریح کا ساماں تھا مرا فن
ہاتھوں میں مرے ظرفِ گدا، لب پہ غزل تھی
شاہوں کی خواہی مرا ذوقِ سخن تھا
ایوانوں کی توصیف و ثنا اوجِ عمل تھی
اور اس کے عوض لعل و جواہر مجھے ملتے
ورنہ مرا انعام فقط تیغِ اجل تھی
چھیڑے کبھی میں نے لب و رخسار کے قصے
گاہے گل و بلبل کی حکایت کو نکھارا
گاہے کسی شہزادے کے افسانے سنائے
گاہے کیا دنیائے پرستاں کا نظارا
میں کھویا رہا جن و ملائک کے جہاں میں
ہر لحظہ اگرچہ مجھے آدم نے پُکارا
برسوں یونہی دل جمعیٔ اورنگ کی خاطر
سو پھول کِھلائے کبھی سو زخم خریدے
میں لکھتا رہا ہجو بغاوت منشوں کی
میں پڑھتا رہا قصر نشینوں کے قصیدے
اُبھرا بھی اگر دل میں کوئی جذبۂ سرکش
اِس خوف سے چپ تھا کہ کوئی ہونٹ نہ سی دے
لیکن یہ طلسمات بھی تادیر نہ رہ پائے
آخر مے و مینا و دف و چنگ بھی ٹوٹے
یوں دست و گریباں ہوئے انسان و خداوند
اس کشمکشِ ذرہ و انجم کی فضا میں
کشکول تو کیا افسر و اورنگ بھی ٹوٹے
میں دیکھ رہا تھا کہ مرے یاروں نے بڑھ کر
قاتل کو پُکارا کبھی مقتل میں صدا دی
گاہے رسن و دار کے آغوش میں جُھولے
گاہے حرم و دیر کی بنیاد ہلا دی
جس آگ سے بھرپور تھا ماحول کا سینہ
وہ آگ مرے لوح و قلم کو بھی پلا دی
اور آج شکستہ ہُوا ہر طوقِ طلائی
اب فن مرا دربار کی جاگیر نہیں ہے
اب میرا ہُنر ہے مرے جمہور کی دولت
اب میرا جنوں خائفِ تعزیر نہیں ہے
اب دل پہ جو گزرے گی وہ بےٹوک کہوں گا
اب میرے قلم میں کوئی زنجیر نہیں ہے
احمد فراز
جس آگ سے جل اُٹھا ہے جی آج اچانک
پہلے بھی میرے سینے میں بیدار ہوئی تھی
جس کرب کی شدت سے مری روح ہے بےکل
پہلے بھی مرے ذہن سے دوچار ہوئی تھی
جس سوچ سے میں آج لہو تُھوک رہا ہوں
پہلے بھی مرے حق میں تلوار ہوئی تھی
وہ غم، غمِ دنیا جسے کہتا ہے زمانہ
وہ غم،مجھے جس غم سے سروکار نہیں تھا
وہ درد کہ ہر دور کے انسان نے جھیلا
وہ درد مرے عشق کا معیار نہیں تھا
وہ زخم کہ ہر سینے کا ناسُور بنا تھا
وہ زخم مجھے باعثِ آزار نہیں تھا
دنیا نے تڑپ کر مرے شانوں کو جھنجھوڑا
لیکن مرا احساس غمِ ذات میں گُم تھا
آتی رہیں کانوں میں المناک پکاریں
لیکن مرا دل اپنے ہی حالات میں گُم تھا
میں وقت سے بیگانہ زمانے سے بہت دور
جام و مے و مینا و خرابات میں گُم تھا
دربار کی تفریح کا ساماں تھا مرا فن
ہاتھوں میں مرے ظرفِ گدا، لب پہ غزل تھی
شاہوں کی خواہی مرا ذوقِ سخن تھا
ایوانوں کی توصیف و ثنا اوجِ عمل تھی
اور اس کے عوض لعل و جواہر مجھے ملتے
ورنہ مرا انعام فقط تیغِ اجل تھی
چھیڑے کبھی میں نے لب و رخسار کے قصے
گاہے گل و بلبل کی حکایت کو نکھارا
گاہے کسی شہزادے کے افسانے سنائے
گاہے کیا دنیائے پرستاں کا نظارا
میں کھویا رہا جن و ملائک کے جہاں میں
ہر لحظہ اگرچہ مجھے آدم نے پُکارا
برسوں یونہی دل جمعیٔ اورنگ کی خاطر
سو پھول کِھلائے کبھی سو زخم خریدے
میں لکھتا رہا ہجو بغاوت منشوں کی
میں پڑھتا رہا قصر نشینوں کے قصیدے
اُبھرا بھی اگر دل میں کوئی جذبۂ سرکش
اِس خوف سے چپ تھا کہ کوئی ہونٹ نہ سی دے
لیکن یہ طلسمات بھی تادیر نہ رہ پائے
آخر مے و مینا و دف و چنگ بھی ٹوٹے
یوں دست و گریباں ہوئے انسان و خداوند
اس کشمکشِ ذرہ و انجم کی فضا میں
کشکول تو کیا افسر و اورنگ بھی ٹوٹے
میں دیکھ رہا تھا کہ مرے یاروں نے بڑھ کر
قاتل کو پُکارا کبھی مقتل میں صدا دی
گاہے رسن و دار کے آغوش میں جُھولے
گاہے حرم و دیر کی بنیاد ہلا دی
جس آگ سے بھرپور تھا ماحول کا سینہ
وہ آگ مرے لوح و قلم کو بھی پلا دی
اور آج شکستہ ہُوا ہر طوقِ طلائی
اب فن مرا دربار کی جاگیر نہیں ہے
اب میرا ہُنر ہے مرے جمہور کی دولت
اب میرا جنوں خائفِ تعزیر نہیں ہے
اب دل پہ جو گزرے گی وہ بےٹوک کہوں گا
اب میرے قلم میں کوئی زنجیر نہیں ہے
احمد فراز