ملالہ کا ملال اور قوم کی دھمال

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
اگر آپ اس 'بچگانہ تحریر میں موجود جھول' کی نشاندہی فرما دیں تو میں ممنون ہوں گا!
جی بہت بہتر۔۔
کہتے ہیں ہوا کی مخالف سمت میں اُڑنا ایک انتہائی مشکل کام ہے اور ایسا کرنے والوں کو اکثر نقصان کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ یہ تحریر بھی بہاؤ مخالف سوچ کی عکاس ہے اور اسے پڑھ کر اگر آپ کا ہمیں گالی دینے کو دل چاہے تو آپ یہ حق محفوظ رکھتے ہیں اور اگر آپ کی دلآزاری ہو تو اس کے لئے ہم پیشگی معذرت خواہ ہیں۔ اس تحریر کا مقصد کسی کا دل دُکھانا نہیں بلکہ صرف تصویر کا دوسرا رخ دکھانے کی ایک کوشش ہے۔!

گویا کالم نگار صاحب کی نظر میں پاکستان کا پرنٹ میڈیا، سوشل میڈیا، اور الیکٹرانک میڈیا بشمول عوام کی اکثریت، نہایت سطحی سوچ رکھتے ہیں، چنانچہ کالم نگار موصوف نے ضروری سمجھا کہ عوام کالانعام کو تصویر کا دوسرا رخ دکھانے کی کوشش کی جائے ، جسے وہ اپنی تاریک سوچ یا بیوقوفی یا پھر سادہ لوحی کی وجہ سے دیکھ نہیں پارہے۔۔۔بہت خوب ۔۔۔آغاز تو خاصا جاندار ہے۔۔آگے دیکھتے ہیں کہ موصوف نے قدرت کے کس سربستہ راز سے پردہ اٹھایا ہے۔
گزشتہ روز چودہ سالہ بچی ملالہ یوسفزئی پر حملہ ہوا۔ اس بزدلانہ فعل کی جتنی بھی مذمت کی جائے، وہ کم ہے۔ اخبارات اور ابلاغ کے دیگر ذرائع سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق یہ حملہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے کیا گیا۔ مذکورہ کالعدم تحریک کے ترجمان احسان اللہ احسان نے ایک خبررساں ادارے سے ٹیلیفون پر رابطے کے دوران بتایا کہ ملالہ طالبان مخالف سوچ رکھتی ہے اور منفی پراپیگنڈہ کررہی ہے، اس وجہ سے اس پر حملہ کیا گیا۔
حملے کے بعد تمام ٹیلیویژن چینلز پر ایک ایسا ہنگامہ بپا ہوا جو رات گئے تک تھمنے میں نہ آسکا۔ آج کے تمام قومی اخبارات کی شہ سرخی بھی یہی واقعہ بنا اور سرورق پر اس واقعے یا ملالہ سے متعلق دیگر خبروں نے بھی خوب جگہ پائی۔ صدر مملکت اور وزیراعظم کے علاوہ کئی سیاسی راہنماؤں نے اس واقعے کی بھرپور مذمت کی۔ اس موقع پر کشور ناہید کی نظم "وہ جو بچیوں سے بھی ڈر گئے" بھی سماجی رابطے کی ویب سائٹوں پر کئی جگہ دیکھنے کو ملی۔
ملالہ پر ہونے والے افسوسناک حملے کی مذمت امریکہ نے بھی کی اور ہمارے ہاں عوامی حلقوں میں بھی اس واقعے پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔ اس قبیح عمل کی مذمت میں اٹھنے والی ہر آواز جائز، ہر نعرہ برحق اور ہر کوشش لائق ستائش ہے۔!

اس سے یہ معلوم ہوا کہ کالم نگار موصوف بھی اس بات سے متفق ہیں کہ یہ واقعہ ایک قبیح عمل ہے اور اسکی مذمت میں اٹھنے والی ہر آواز جائز، ہر نعرہ برحق اور ہر کوشش لائق ستائش ہے۔۔۔اور یہ کہ خبر رساں اداروں کے مطابق، اس قبیح عمل کی ذمہ داری بھی کچھ لوگوں نے لی ہے جنکا تعلق تحریک طالبان پاکستان سے ہے یعنی احسان اللہ احسان۔۔۔چلیں یہ بھی غنیمت ہے
میرے لئے تو ہے اقرار باللساں بھی بہت
ہزار شکرکہ ملّا ہیں صاحبِ تصدیق۔۔۔۔
چنانچہ اس تمہید کے بعد اور اپنے تئیں اپنی پوزیشن واضح کردینے کے بعد ارشاد ہوتا ہے کہ:
مگر کیا ملالہ وہ پہلا انسان یا پاکستانی ہے جس پر ایسا کوئی حملہ ہوا ہے؟ کیا ہمارے ہاں ہر انسان یا پاکستانی پر ہونے والے حملے کے بعد ایسی ہی افراتفری مچتی ہے؟ کیا پاکستان میں کسی بچے پر ہونے والے ہر حملے کی مذمت یونہی کی جاتی ہے؟ کیا یہاں کسی حملے کے نتیجے میں زخمی ہونے والے ہر بچے کو علاج معالجے کی ایسی ہی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں؟!

یہاں موصوف نے کچھ سوالات اٹھائے ہیں۔ بادی النظر میں یہی معلوم ہوتا ہے کہ کالم پڑھنے والوں کو جب ان سوالات کا جواب مل جائے گا، تو خودبخود انکے سامنے تصویر کا وہ دوسرا رخ ظاہر ہوجائے گا جو ابھی تک انکی نظر سے اوجھل ہے اور جس سے پردہ اٹھنے کیلئے موصوف نے کالم لکھنے کا تردد کیا ہے۔۔۔۔بہت خوب۔ چلئیے آئیے دیکھتے ہیں کہ آگے کیا انکشافات ہونے والے ہیں۔ لیکن آگے چلنے سے پہلے یہ بات ہم واضح کردینا چاہتے ہیں کہ یہ سوالات ایسے ہیں کہ ایک معمولی سمجھ بوجھ کا انسان بھی انکا جواب بقیہ کالم پڑھے بغیر بھی بڑی آسانی سے د ےسکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ نہیں۔۔عموماّ ایسا نہیں ہوتا کہ ہر انسان یا پاکستانی پر ہونے والے حملے کے بعد ایسی ہی افراتفری مچتی ہو، یا اس سکیل پر اسکی مذمت ہوتی ہو یا زخمی بچے کو علاج معالجے کی ایسی ہی سہولتیں فراہم ہوتی ہوں۔ یہ تو ایک بدیہی بات ہے ۔ اسکے لئیے اتنی سنسنی خیز تمہید باندھنے کی کیا ضرورت تھی؟۔
ہم نے ملالہ کی ڈائری کے وہ صفحات پڑھے ہیں جو وہ 2009ء میں تقریباً دس برس کی عمر میں 'گل مکئی' کے فرضی نام سے لکھ کر برطانوی نشریاتی ادارے کی اردو سروس کو مبینہ طور پر بھجواتی رہی ہے۔ ان صفحات میں بہت صاف اور سلیس اردو میں عموماً روزمرہ باتوں کو قلمبند کیا گیا اور خصوصی توجہ طالبان کی فکر اور ان کی سرگرمیوں پر رکھی گئی ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ملالہ نے جب جنوری 2009ء میں یہ ڈائری لکھنے کا آغاز کیا اس وقت ساتویں جماعت کی طالبہ تھی اور آج پونے چار برس گزرنے کے بعد وہ آٹھویں جماعت میں ہے۔!

ہمیں یہ کہنے میں قطعاّ کوئی باک نہیں کہ باوجود کافی کوشش کرنے کے، ہم پر ابھی تک یہ واضح نہیں ہوسکا کہ گل مکئی کی ڈائری، ملالہ کی عمر اور تین سال تک اسکے ایک ہی جماعت میں اٹکے رہنے والے سنسنی خیز انکشافات کا مذکورہ بالا سوالات سے کیا تعلق بنتا ہے۔ ڈائری والے 'تہلکہ خیز انکشاف' سے زیادہ سے زیادہ یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ یہ ڈائری ملالہ نے خود نہیں لکھی بلکہ یا تو اس سے لکھوائی گئی ہے، یا پھر تحریر کی نوک پلک سنوار کر اسے شائع کیا گیا ہے۔۔لیکن اس سے کیا ثابت ہو سکتا ہے؟، یہی نا کہ بی بی سی والوں نے اپنے مخصوص ایجنڈے کو اگے بڑھاتے ہوئے اس سچویشن کو ایکسپلائٹ کیا ہے۔ تو بھائی یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ یہاں کوئی بھی اتنا سادہ لوح نہیں ہے کہ انہیں بی بی سی کے پاکستان کے ساتھ عمومی رویے اور پالیسی کا علم نہ ہو۔۔بہرحال آپکی اطلاع کا شکریہ۔ اسے کہتے ہیں تحصیلِ حاصل۔
دوسری دور کی کوڑی جو آپ لائے ہیں وہ یہ ہے کہ ملالہ پونے چار برس گذرنے کے بعد بھی صرف ایک کلاس آگے کیوں گئی ہے؟۔۔۔۔شائد آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ بچی اوسط درجے کے طالبعلموں سے بھی زیادہ کند ذہن اور نالائق ہے، چنانچہ ناممکن ہے کہ یہ ڈائری اس کے قلم سے نکلی ہو۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ آپکے پیش کردہ جواب کا یہی ایک ممکنہ جواب بنتا ہو، یہ بھی تو ممکن ہے کہ اسکی وجہ طالبان کی اسلامی حکومت کی وجہ سے پیدا ہونے والا تعلیمی تعطل ہو یا کوئی اور وجہ بھی ہوسکتی ہے، لیکن یہ قرین قیاس نہیں ہے کہ بچی کند ذہن یا نالائق ہے یا اس میں اسکی قابلیت نہیں آپ براہ کرم اس بچی کے انٹرویوز اور اسکی گفتگو پر مبنی ویڈیوز دیکھ لیں، جس اعتماد اور ذہانت کے ساتھ وہ گفتگو کرتی ہے اور جو ربط اس کی گفتگو میں پایا جاتا ہے وہ آپکے اس کالم سے کہیں برتر اور دلچسپ ہے ۔ :)

دی بیورو آف انویسٹیگیٹیو جرنلزم کی ایک رپورٹ کے مطابق جون 2004ء سے ستمبر 2012ء تک پاکستان میں ہونے والے ڈرون حملوں کے نتیجے میں 176 بچے شہید ہوئے۔ معروف برطانوی جریدے گارڈین کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2006ء میں ایک مدرسے پر کئے جانے والے ڈرون حملے کے نتیجے میں 69 بچے شہید ہوئے جبکہ بعض پاکستانی صحافیوں کے مطابق یہ تعداد 85 ہے۔ ان میں سے کئی بچوں کی عمریں دس برس سے کم تھیں۔ ان میں سے کئی بچے جنگ اور امن کی تعریف سے بھی واقف نہیں تھے۔ اس وقت جرنیلی صدارت چل رہی تھی اور روشن خیالی کا دور دورہ تھا۔ حملے کا شکار ہونے والے بچے چونکہ انسان نہیں بلکہ کیڑے مکوڑے تھے، سو نہ تو کسی کو انسانی حقوق کا خیال آیا، نہ ہی کوئی نظم کہی گئی اور نہ ذرائع ابلاغ نے اس حوالے سے شور مچانا مناسب سمجھا۔
لاہور، کراچی یا کسی بھی بڑے شہر کے کسی سکول کے باہر کوئی کریکر چلنے سے بھی چند بچے زخمی ہوجائیں تو ان بچوں کے اوصاف و فضائل پر ایسی ایسی رپورٹیں ٹیلیویژن پر چلائی جاتی ہیں اور ایسے ایسے نغمے اور نوحہ نما نظمیں پیش کی جاتی ہیں کہ جی چاہتا ہے ان لوگوں کے ٹکڑے کردیں جو ان ننھے سقراطوں اور معصوم ارسطوؤں کی جان کے در پے ہوگئے ہیں۔ لیکن وزیرستان یا اس سے ملحقہ علاقوں میں کسی ڈرون حملے کے نتیجے میں شیرخوار بچوں کے چیتھڑے بھی اُڑ جائیں تو محض چند سیکنڈز کی ایک خبر اور کچھ پٹیاں چلا کر اپنا 'صحافتی فریضہ' ادا کردیا جاتا ہے۔!


بات تو ٹھیک ہے لیکن اس سے کیا ثابت ہوتا ہے؟۔۔۔کیا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پوری قوم ، پورا الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا کسی نوع کی سازش میں مصروف ہے؟ اگر پوری قوم اور ملک کے پورے میڈیا، اور ہر سطح کے لوگوں کی یہی روش ہے تو اسکے پیچھے کچھ اور عوامل اور کچھ اور بھی تو وجوہات ہوسکتی ہیں، چہ جائیکہ پوری قوم سے سوء ظن رکھتے ہوئے اسے منافقت کا موردِ الزام ٹھہرا دیا جائے۔۔۔ارے بھائی اسکی ایک سیدھی سادی وجہ یہ بھی تو ہوسکتی ہے کہ لوگ طالبان اور انکو پناہ دینے والے قبائلیوں کی حرکتوں اور انکی آئیڈیالوجی اور ہٹ دھرمی ،جہالت و غباوت سے تنگ آچکے ہوں۔ اور اس ایک واقعے نے دو مختلف قسم کی سوچوں کے درمیان ایک حدِ فاصل کھینچ دی ہو۔ اور لوگ یہ اچھی طرح سمجھتے ہوں کہڈرون حملے اس وجہ سے نہیں ہوتے کہ حملہ آور ان لوگوں کی آئیڈیالوجی کو یا انکی آواز کو ختم کرنا چاہتا ہے، بلکہ یہ گیہوں کے ساتھ گھن پسنے والا معاملہ ہے جبکہ ملالہ پر حملہ دراصل ایک آئیڈیالوجی کو طاقت کے ذریعے نافذ کرنے کے ایک مسلسل مکروہ عمل کا ایک مظاہرہ ہے۔ ہوسکتا ہے کہ قوم اس واقعے کو ایک باٹم لائن سمجھہ کر ملالہ کو ایک علامت کے طور پر دیکھتی ہو۔۔۔لیکین یہ بات آپکی سمجھ میں شائد نہ آئے، کیونکہ آپکو تو ہر بات میں ایک محلاتی سازش نظر آنی چاہئیے ورہہ صحافیوں اور رپورٹروں میں کیا فرق رہ جائے گا۔
بہرحال یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا، آگے چلتے ہیں۔
برطانوی نشریاتی ادارے کی اردو سروس پاکستان کے اندر کن سرگرمیوں میں ملوث ہے اور اس ادارے کے ذریعے کن خیالات اور نظریات کی ترویج کی جارہی ہے اس بحث کو ہم کسی اور وقت کے لئے اٹھا رکھتے ہیں۔ فی الحال تو سوال یہ ہے کہ مذکورہ کالعدم تحریک سے جڑے ہوئے جنگجو جو ہماری انتہائی تربیت یافتہ فوج کے خلاف کارروائیاں کرنے میں بھی کامیاب ہوجاتے ہیں، کیا اتنے ہی غیرتربیت یافتہ ہیں کہ ایک چودہ سالہ نہتی بچی پر 'ناکام حملہ' کرکے بھاگ کھڑے ہوئے؟ ملالہ کی تصویریں دنیا بھر میں شائع ہوچکی ہیں تو پھر حملہ آوروں کو یہ پوچھنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی کہ گاڑی میں بیٹھی بچیوں میں سے ملالہ یوسفزئی کون ہے؟ ملالہ کے ساتھ تو سیکیورٹی اہلکار نہیں ہوتے اور مبینہ طور پر اسے دھمکیاں بھی ملتی رہی ہیں تو اس پر اب سے پہلے حملے کرنے میں کیا رکاوٹ تھی؟ حالیہ دنوں میں ملالہ نے کون سی ایسی اہم سرگرمی کی تھی جس کی وجہ سے اس پر حملہ کیا گیا؟ کیا اس طرح کی کارروائیوں سے وزیرستان آپریشن کی راہ ہموار کرنے کی کوشش تو نہیں کی جارہی؟ اور آخر میں ہم یہ بھی جاننے میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ مغرب کی مخالفت کے باوجود ہم لوگ ان کی طرف سے ہی چنے اور نمایاں کئے گئے لوگوں کو کیوں اپنے معاشرے میں تبدیلی اور اثبات کی علامت سمجھتے ہیں؟؟؟
اطلاعات کے مطابق ملالہ کی حالت اب خطرے سے باہر ہے۔ اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ ملالہ کو صحت، تندرستی اور لمبی زندگی عطا فرمائے، آمین!
لیجیے اللہ اللہ خیر سلّا۔۔۔کالم ختم ہوا۔ اور تھا جسکا انتظار وہ شاہکار پھر بھی کہیں نظر نہیں آیا۔۔۔ اب جو دور کی کوڑ ی لائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ طالبان چونکہ بہت تربیت یافتہ ہوتے ہیں، لہٰذا ان سے کسی بھی غلطی کا "صدور ناممکن ہے ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ طالبان کے کسی دور افتادہ مقام سے تعلق رکھنے والے اور غاروں میں چھپنے والے کسی جنگجو کو ملالہ کی شکل کا پتہ نہ ہو، یا یہ کہ اسکا نشانہ خطا چلا جائے، ہو نہ ہو یہ کسی امریکی یابلیک واٹر کے گھامڑ سے اہلکار کا کام ہے یا پھر ناپاک آرمی اور اسکی ذیلی مجرم ایجنسیوں کے کسی نا اہل اہلکار کی اوچھی حرکت ہو تاکہ شمالی وزیرستان پر حملہ کرنے کیلئے لوگوں کا ذہن بنایا جا سکے۔۔۔
لیکن یہاں نجانے کیوں کالم نگار کے ذہنِ رسا میں یہ بات نہیں آسکی کہ کیا وجہ ہے کہ طالبان نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔۔۔یا اگر قبول نہیں کی تو جھوٹے الزام سے بچنے کیلئے اسکی تردید کردی ہے۔۔۔لیکن چھوڑئیے اس بات کو یہ بھی کوئی سوال ہے بھلا۔
چنانچہ اسکے بعد موصوف بہت معصومیت سے پوشچھ رہے ہیں کہ پتہ نہیں کب ہم لوگوں کو عقل آئے گی کہ وہ ملالہ جیسے لوگوں کو تبدیلی اور اثبات کی علامت کیوں سمجھتے ہیں۔۔ٹی ٹی پی کے خودکش بمبار، یا ملا فضل الرحمان کے سیاسی اطوار اور جماعتٰ اسلامی کے پینترے بدل بدل کر پاکستان پر وار کرنے والے مشعلٰ راہ قسم کے ستاروں پر کیوں نہیں نظر جاتی عوام کی ۔۔۔صحیح ہے صاحب ۔۔اس ملک کے رہنے والے اسی قابل ہیں کہ جہالت کے ان اندھیروں مں ہی رہین۔۔۔کیونکہ انکو اتنا پتہ نہیں کہ :
جنہیں حقیر سمجھ کر بھجا دیا تو نے
وہی چرا غجلیں گے تو روشنی ہوگی
 

عسکری

معطل
گولی سر میں ماری گئی ہے یعینی کہ ایک انچ ادھر ادھر اور کھوپڑی کا بلاسٹ ہونا اور پھر بھی لڑکی کی گڈ لک ۔ کوئی جاھل ترین نشانے مارنے والا بھی جانتا ہے گولی جب چہرے ہر ماری جاتی ہے تو کیا مقصد ہوتا ہے ۔ لڑکی لکی ہے بس ۔2 انچ لیفٹ ہوتی تو دماغ کے سینٹر میں اور وہ وہیں مر جاتی 5 منٹ میں ۔ مارنے والے نے اپنی پوری کوشش کی اور یہی اس کا ثبوت ہے لڑکی جھکی ہوئی تھی اور ظاہر ہے ہل رہی ہو گی شور مچا رہی ہوں گی اس لیے بھی اگلا بندہ سیٹ نہیں ہو پا رہا ہو گا فائرنگ کے لیے ۔ اس بات کا نقظہ اٹھانا ہی ہتھیاروں سے نا واقفی کا ثبوت ہے ۔ اس پر ڈسکس کرنی ہے تو کوئی بھی کرنے میرے ساتھ جس نے زندگی میں 100 سے زیادہ راؤنڈ فائر کیے ہوں نشانے بازی میں ۔
 

قیصرانی

لائبریرین
گولی سر میں ماری گئی ہے یعینی کہ ایک انچ ادھر ادھر اور کھوپڑی کا بلاسٹ ہونا اور پھر بھی لڑکی کی گڈ لک ۔ کوئی جاھل ترین نشانے مارنے والا بھی جانتا ہے گولی جب چہرے ہر ماری جاتی ہے تو کیا مقصد ہوتا ہے ۔ لڑکی لکی ہے بس ۔2 انچ لیفٹ ہوتی تو دماغ کے سینٹر میں اور وہ وہیں مر جاتی 5 منٹ میں ۔ مارنے والے نے اپنی پوری کوشش کی اور یہی اس کا ثبوت ہے لڑکی جھکی ہوئی تھی اور ظاہر ہے ہل رہی ہو گی شور مچا رہی ہوں گی اس لیے بھی اگلا بندہ سیٹ نہیں ہو پا رہا ہو گا فائرنگ کے لیے ۔ اس بات کا نقظہ اٹھانا ہی ہتھیاروں سے نا واقفی کا ثبوت ہے ۔ اس پر ڈسکس کرنی ہے تو کوئی بھی کرنے میرے ساتھ جس نے زندگی میں 100 سے زیادہ راؤنڈ فائر کیے ہوں نشانے بازی میں ۔
میں نے کئی ہزار راؤنڈ فائر کئے ہوئے ہیں۔ جی کیا بات کرنی ہے :)
 

شمشاد

لائبریرین
گولی سر میں ماری گئی ہے یعینی کہ ایک انچ ادھر ادھر اور کھوپڑی کا بلاسٹ ہونا اور پھر بھی لڑکی کی گڈ لک ۔ کوئی جاھل ترین نشانے مارنے والا بھی جانتا ہے گولی جب چہرے ہر ماری جاتی ہے تو کیا مقصد ہوتا ہے ۔ لڑکی لکی ہے بس ۔2 انچ لیفٹ ہوتی تو دماغ کے سینٹر میں اور وہ وہیں مر جاتی 5 منٹ میں ۔ مارنے والے نے اپنی پوری کوشش کی اور یہی اس کا ثبوت ہے لڑکی جھکی ہوئی تھی اور ظاہر ہے ہل رہی ہو گی شور مچا رہی ہوں گی اس لیے بھی اگلا بندہ سیٹ نہیں ہو پا رہا ہو گا فائرنگ کے لیے ۔ اس بات کا نقظہ اٹھانا ہی ہتھیاروں سے نا واقفی کا ثبوت ہے ۔ اس پر ڈسکس کرنی ہے تو کوئی بھی کرنے میرے ساتھ جس نے زندگی میں 100 سے زیادہ راؤنڈ فائر کیے ہوں نشانے بازی میں ۔
اس سے زیادہ تو میں نے کیئے ہوئے ہیں 7.62MM سب مشین گن کے۔
 

عسکری

معطل
اس سے زیادہ تو میں نے کیئے ہوئے ہیں 7.62MM سب مشین گن کے۔
ہاں تو میں وہی کہہ رہا تھا اب ایمان سے بتائیں 9ایم ایم کے پسٹل سے فائر کرتے ہوئے سر پر مارتے وقت آپ کیا کسی کو بچنے مرنے کی یقین دھانی کرا سکتے ہیں؟ جب مار ہی سر میں رہے ہیں تو پھر یہ بات ہی بے وقوفی والی ہے
 

قیصرانی

لائبریرین
ہاں تو میں وہی کہہ رہا تھا اب ایمان سے بتائیں 9ایم ایم کے پسٹل سے فائر کرتے ہوئے سر پر مارتے وقت آپ کیا کسی کو بچنے مرنے کی یقین دھانی کرا سکتے ہیں؟ جب مار ہی سر میں رہے ہیں تو پھر یہ بات ہی بے وقوفی والی ہے
سر میں گولی مارنا تو انتہائی مہارت کا کام ہونے کے ساتھ ساتھ بہت کم استعمال ہوتا ہے کہ انتہائی معمولی غلطی سے بھی ٹارگٹ کے بچ نکلنے کے امکانات ہوتے ہیں۔ پتہ نہیں انہوں نے کیوں سر میں گولی مارنے کا فیصلہ کیا ہوگا۔ خیر، جہالت ہی ہے طالبان کی
 

عاطف بٹ

محفلین
عاطف بھائی ۔۔ کمال عرق ریزی سے گفتگو کی ہے ۔
میری اور میری بیگم کی جانب سے زبردست کی ریٹنگ قبول کیجے گا۔۔
بعد ازاں تفصیل سے کچھ لکھ سکیں گے۔۔ فی الوقت اجازت۔۔:)


535936_3770271177735_1184008760_n.jpg
مغزل بھائی، آپ کا اور بھابھی کا بےحد شکریہ۔
 

عاطف بٹ

محفلین
غزنوی صاحب، آپ کا بےحد ممنون ہوں کہ آپ کی وجہ سے آج مجھے بہت زیادہ ہنسنے کا موقع ملا۔ میں جب کالج اور یونیورسٹی میں تقریروں اور مباحثوں میں حصہ لیا کرتا تھا اس وقت میں نے اپنے دوستوں سے ایک عجیب سا شعر کئی بار سنا مگر آج تک کبھی بھی اسے استعمال کہیں نہیں کیا۔ آج آپ کا جواب پڑھ کر بہت شدت سے دل چاہ رہا ہے کہ وہ شعر آپ کی نذر کروں مگر اس شرط پر کہ آپ برا نہیں مانیں گے اور اگر برا لگے تو میری طرف سے پیشگی معذرت۔ شعر کچھ یوں ہے:
جی میں آتا ہے کہ تیری عقل پر ماتم کروں​
پھر یہ کہتا ہوں کہ بچہ ہے چلو جانے دو​
 

عاطف بٹ

محفلین
بہرحال عاطف بھائی گولی والی بات آپ کی غلط تھی مان لیں
عمران بھائی، میں بھی سینکڑوں راؤنڈز فائر کرچکا ہوں مگر یہاں بات نشانے بازی کی نہیں ہورہی تھی بلکہ میں یہ کہہ رہا تھا کہ عام طور پر ان لوگوں کا یہ طریقہ کار دیکھنے میں آیا ہے کہ وہ اس نوعیت کے حملوں میں اس بات کی تسلی کرلیتے ہیں کہ بندہ مرا ہے یا نہیں۔
 

عسکری

معطل
عمران بھائی، میں بھی سینکڑوں راؤنڈز فائر کرچکا ہوں مگر یہاں بات نشانے بازی کی نہیں ہورہی تھی بلکہ میں یہ کہہ رہا تھا کہ عام طور پر ان لوگوں کا یہ طریقہ کار دیکھنے میں آیا ہے کہ وہ اس نوعیت کے حملوں میں اس بات کی تسلی کرلیتے ہیں کہ بندہ مرا ہے یا نہیں۔
گاڑی بھاگ گئی تھی ۔آپ مان لیں وہ مارنے ہی آئے تھے زخمی کرنے نہیں ۔ فیصل شہزاد نیو یارک میں فیل ہو گیا تھا ۔ ایسا ہوتا ہے افواج میں بھی بندے فیل ہو جاتے ہیں ۔ پشاور کے حکم خان نے سینکڑوں بم سیکیور کیے ابھی دو ہفتے پہلے ایک آپریشن مین ایک سیکیور کر کے دوسرا کرتے ہوئے بلاسٹ ہو گیا اور وہ شہید ہو گئے ۔اب کوئی کہہ سکتا ہے کہ سینئیر ایکپلوزیوز ایکسپرٹ فیل ہو گیا ؟ ایساہوتا ہے بھائی جان مان لیں
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top