عمران خان اک افسانہ کہ حقیقت؟؟

قیصرانی

لائبریرین
کیا آپ کو علم نہیں کہ ریاستی اداروں پر ان دھرنیوں کے حملے کی وجہ سے ملک کی کتنی تضحیک ہوئی؟ اور کہا گیا کہ ریاست پاکستان ڈس فنکشنل ہو گئی! چین کا صدر جو 30 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے کرنے آرہا تھا اس کا دورہ ملتوی ہوگیا۔
بالکل ، ملک میں دودھ کی نہریں بہنے لگتیں اس 30 ارب ڈالر سے۔
محترم جب یہ مکمل 30 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہو گئی تو بھی اس کی مثال اونٹ کے منہ میں زیرہ ہو نی ہے۔
عین قانونی تجازات ہٹانے کے لیے، 110 افراد کو گولیاں مارنا تو ریاست کے فنکشنل ہونے کا ثبوت ہے، لیکن اس مظلوم آمنہ کو انصاف نہ فراہم کرنے کے پر آپ کی حکومت پولیو زدہ نہیں کہلاتی۔
وزیرِ اعظم کا موٹر کیڈ 2 منٹ لیٹ ہو جا ئے تو فوراً لوگ معطل کر دیے جاتے ہیں، اور تھر میں بچے بھوک کے مارے مرتے چلے جائیں تو بھی آپ کی حکومت و ریاست اپاہج (ڈس فنکشنل )نہیں کہلاتی۔
آپ کو سلام ہے صاحب۔
مجھے جہاں تک یاد پڑتا ہے، 300 ملین ڈالر کی بات ہو رہی تھی۔ اسے ذرا کنفرم کر دیں :)
 

منقب سید

محفلین
میرا نکتہ نظر یہ ہے کہ اگر ہم قومی مفادات کو دیکھیں تو ہر طرف ہمیں بیوروکریسی کی ہی وجہ سے مسئلہ ہوتا ہے۔ عوامی سطح کے مسائل انہی سے پیدا ہوتے ہیں۔ فوجی ادارے میں اپنی مرضی کا سربراہ لانا ہو یا کوئی تبدیلیاں، ہمیشہ سیاسی حکومت ہی کرتی ہے اور پھر بھگتتی بھی ہے۔ تاہم جب بیوروکریسی، پاکستانی سویلین حکومت اور فوجی اداروں کی بات آتی ہے تو میں ان میں سے صرف فوجی اداروں کو ہی وفادار سمجھتا ہوں۔ باقی سب وہی غدار ہوتے ہیں جن کے پاس ایک سے زیادہ ملکوں کی شہریت اور ایک سے زیادہ ملکوں میں پھیلے کاروبار اور بینک اکاؤنٹس ہوتے ہیں۔ اگر کسی کو سویلین حکومت اور بیوروکریسی پر غداری کا ٹھپہ برا لگے تو اس چاہیئے کہ وہ بھی فوجی اداروں کو غداری کا طعنہ دینے سے باز آ جائے۔ البتہ حکومت ہو یا بیوروکریسی، ان میں بھی اچھے افراد اتنی ہی تعداد میں ملتے ہیں جتنی تعداد میں فوجی اداروں میں نااہل اور غلط کار :)
بیوروکریسی یا اسٹیبلشمنٹ دوںوں کے کردار کی نفی نہیں کی جا سکتی۔ فوج پر بھروسا ہر محب وطن کو ہونا بھی چاہیے۔ میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ دور آمریت میں ملک ترقی کی دوڑ سے نکل جاتا ہے لیکن باقیوں کو بھی یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ وطن عزیز پر پڑی ہر مشکل سے فوج نے ہی نکالا ہے۔ وہ الگ بات کے مختلف اوقات میں اس کے سربراہاں کی پالیسیاں مختلف رہی ہیں لیکن افواج پاکستان کی کٹر وطن پرستانہ سوچ ہی ہے کہ ابھی تک وطن عزیز اتنی سازشوں کے بعد بھی قائم ہے۔ ورنہ کسر تو کسی نے بھی نہ چھوڑی تھی۔
(وضاحت) مندرجہ بالا سابق گفتگو میں خاکسار اور عارف کریم بھائی کے مابین سیاسی میدان میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار زیر بحث ہے جس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی ملکی سلامتی کے لئے وفاداری پر شک ہے۔
موضوع کی حساسیت کی بناء پر ہی میں برادر عارف کریم کے ساتھ ہونے والی گفتگو کو ذاتی مکالمے کے زمرے میں لے گیا ہوں تاکہ ان سے گفتگو کر کے ابہام یا اشکالات دور کئے جا سکیں۔
 
عوامی اکثریت کی رائے کا احترام 1970 کے الیکشن کے بعد سے آج تک کبھی یہاں ہوا ہے؟ ہر الیکشن میں تو باقاعدگی کیساتھ دھاندلی ہوتی رہی ہے۔
جہاں تک میں سمجھ پایا ہوں، دھاندلی بحیثیت مجموعی پارٹیاں نہیں کرتیں، ہم لوگ کرتے ہیں، ہم جن کے مفادات اس مخصوص حلقے کی سیاست سے جڑے ہوتے ہیں۔ طاقت کے پہلے، دوسرے اور تیسرے مراکز ہر حلقے اور ہر امیدوار پر نظر رکھتے ہوئے ان کی امداد کسی نا کسی طریقے سے کر رہے ہوتے ہیں۔
بھائی جان، نون لیگ اور پیپلز پارٹی کو اور کتنے ارتقائی عوامل سے گزارنا ہے؟
پاکستانی عوام کی ایک بہت تعداد ایسا نہیں سمجھتی۔ اگر وہ ایسا سمجھتے ہوتے تو کسی بھی صوبے بلکہ کسی بھی ضلع میں یہ جماعتیں ایک بھی سیٹ نہ جیت پاتیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
جہاں تک میں سمجھ پایا ہوں، دھاندلی بحیثیت مجموعی پارٹیاں نہیں کرتیں، ہم لوگ کرتے ہیں، ہم جن کے مفادات اس مخصوص حلقے کی سیاست سے جڑے ہوتے ہیں۔ طاقت کے پہلے، دوسرے اور تیسرے مراکز ہر حلقے اور ہر امیدوار پر نظر رکھتے ہوئے ان کی امداد کسی نا کسی طریقے سے کر رہے ہوتے ہیں۔

پاکستانی عوام کی ایک بہت تعداد ایسا نہیں سمجھتی۔ اگر وہ ایسا سمجھتے ہوتے تو کسی بھی صوبے بلکہ کسی بھی ضلع میں یہ جماعتیں ایک بھی سیٹ نہ جیت پاتیں۔
اور یہ بھی کہ پارٹیوں میں شمولیت اختیار اسی لئے کی جاتی ہے کہ پھر حکومت میں آن کر دھاندلی کی تحقیقات کو رکوایا جا سکے۔ یعنی پارٹی کی اپنی کامیابی کے لئے ایسے افراد اور ایسے افراد اپنی کامیابی کو بچانے کے لئے پارٹیوں کی مجبوری بن جاتے ہیں
 
اگر ہم تھوڑی دیر کے لیے آپ کی یہ بات مان لیں تو آپ کو یہ کیوں نظر نہیں آتاکہ پی پی اور ن لیگ کے ہاتھوں میں جو تعمیر کا نقشہ ہے، وہ یا سڑک کا ہے یا مینار کا، جبکہ ہم لوگوں نے گھر تعمیر کرنا ہے، آپ لوگ انہیں ابھی نہیں روکیں گے تو خدا نخواستہ اوپر کی ساری دیواریں گرا کر عمارت اس بنیاد سے تعمیر کرنے پڑے گی جو حضرت علامہ اقبال اور قائدِ اعظم نے رکھی تھی۔
بھائی ہر پارٹی کا اپنا منشور اور اپنے ویژین ہوتا ہے، اور وہ برسر اقتدار آ کر اس پر اپنے طریقے سے عمل کرتی ہے۔ آپ ان سے لاکھ اختلاف کریں لیکن کیونکہ عنان حکومت ان کے ہاتھ میں ہے وہ جو بہتر سمجھیں گے وہی کریں گے۔ اور ایسا کرنا ان کا حق ہے، کیونکہ وہ ایسے ہی وعدوں اور وعیدوں کے ساتھ برسر اقتدار آئے ہوتے ہیں۔ اگر عوام کی اکثریت ان کی سڑکوں اور میناروں کی تعمیر کو ناپسند کرے گی تو اگلے الیکشنز میں وہ پارٹی کسی کونے کھدرے میں بیٹھی ہو گی۔
میں یہ نہیں کہتا کہ ان کے سارے اقدامات بالکل درست تھے ، لیکن امریکہ کے ساتھ دو افغان جنگوں کے لیے دو جرنیلوں نے اگر تعاون کیا تھا تو آپ کے سیاستدان تو ان کے آگے لیٹ جاتے، ان لوگوں میں کبھی انکار کا حوصلہ نہ تھا اور نہ ہے۔ کارگل تو آپ کو یاد ہی ہو گا، جس میں محترم نواز شریف نے صرف فون کال پر ہی فوج کو واپسی کا حکم دے دیاتھا۔
فوج ریاست کا ایک ادارہ ہے، جو آئین کے مطابق حکومت وقت کے تابع ہوتا ہے، اسے کیا حق ہے کہ وہ از خود کسی مہم جوئی کا فیصلہ کر لے وہ بھی ایک ایسی جگہ پر جو ہمیشہ سے متنازع چلی آ رہی ہے۔ جب ملک کے اندر ایک باقاعدہ حکومت موجود ہے تو اس کی مشاورت کے ساتھ کیوں نہ کوئی کام کیا جائے۔ شاید ہی دنیا کے کسی ملک میں ایسی کوئی مثال ہو۔
کون کہتا ہے کہ عوام نے مواقع دیے ؟؟؟
ذرا حلقے کھلوائیں اور پھر ثابت کریں کہ عوام نے ان کو ہی ووٹ دیے تھے۔ تقریباً ڈیڑھ کروڑ سے بھی کم ووٹ لے کر 20 کروڑ لوگوں کی قسمت کا فیصلہ کرنے مختار بنا دیا آپ نے۔
اور عوام کا اتنا قصور نہیں ہے۔ یہ لوگ عوام میں اگر تعلیم عام کر دیں تو عوام بہتر فیصلے لینے لگ پڑے، اور ظاہری بات ہے، ایسے میں ان لوگوں کا کام کیسے چلنا ہے ؟؟؟
اگر عوام نے مواقع نہ دئیے ہوتے تو 14 اگست کو لاکھوں پاکستانی نہ صرف باہر ہوتے بلکہ اس حکومت کا دھڑن تختہ بھی کب کا ہو چکا ہوتا۔ کیونکہ عوام کی اکثریت آپ بھی اس حکومت کو جائز سمجھتی ہے اس لیے وہ گھروں میں موجود ہے اور سیاستدانوں کی الٹ بازیاں دیکھ رہی ہے۔ ہر صوبے کی عوام اچھی خاصی تعلیم یافتہ ہے، اور شہروں کی حد تک آزادانہ رائے دہی ہی ہوتی ہے۔ ان پارٹیوں کو برسر اقتدار نا آنے دینے میں تعلیم ہونے یا نا ہونے کا اتنا قصور نہیں، اسے سیاسی شعور کی کمی کہا جا سکتا ہے، کہ وہی دو پارٹیاں بار بار برسر اقتدار آ رہی ہیں۔
۔۔۔
20 کروڑ آبادی ہے، ووٹرز نہیں ۔
کل رجسٹرڈووٹرز تقریباً 8 کروڑ تھے جن میں سے تقریباً ساڑھے تین کروڑ نے ووٹ ہی نہیں ڈالا۔ باقی بچ جانے والے ساڑھے چار کروڑ ووٹرز میں سے ڈیڈھ کروڑ حکومت وقت کو ملا اور کوئی 50 لاکھ کے قریب آزاد امیدواروں کو (جن کی غالب اکثریت حکومت وقت میں شامل ہو گئی) ایسے میں اسے اکثریت ہی کہا جائے گا۔
 
آئین کے مطابق بلدیاتی انتخابات تو آپ نے کروانے نہیں، کیونکہ ایسے فنڈز آپ کے ہاتھوں میں سے نکل جانے ہیں اور کرپشن کے چانسز کم ہو جائیں گے۔ یہ جو تقسیم جو آپ کو نظر آ رہی ہے، یہ بہت حد تک کم ہوتی اگر ملک میں 4 کے بجائے 35 صوبے ہوتے۔ کم علاقے اور لوگوں کو سنبھالنا آسان ہے، بہ نسبت اتنے بڑے بڑے صوبے ایک شہر میں سے بیٹھ کر سنبھالنے سے۔
بلدیاتی انتخابات 'میں' نے نہیں کروانے۔:p
دنیا کے مختلف ترقی یافتہ ممالک میں عوام کے مسائل بلدیہ تک ہی محدود ہوتے ہیں۔ بڑی اسمبلیاں ریاستی معاملات اور قانون سازی تک محدود ہوتی ہیں۔ لیکن پاکستان میں اس کا الٹ ہے اور اسے بہتر ہونا چاہیے۔ 4 سے 35 صوبے ہمارے مطلق العنان حکمران نہیں بنا سکے یہ کمزور جمہوری حکومتیں کیا کر سکتی ہیں۔
اور میں جمہورت کو بہترین نظام نہیں سمجھتا۔ جو جمہوریت مغربی ممالک میں ہے، وہ تو ویسے بھی پاکستان میں نافذ العمل نہیں ہے۔ مسلمان جب تمام دنیا پر حکومت کر رہے تھے تو اس وقت جمہوریت کا دور دور تک نام نشان بھی نہیں تھا۔
آپ کے نزدیک فی الوقت متبادل نظام کیا ہے؟
مسلمان جب دنیا میں حکومت کر رہے تھے تو اس وقت وہ وہابی، سنی، شیعہ، حنفی، جعفری ٹائپ کے مسلکوں میں اس طرح بٹے ہوئے نا تھے، جیسے آج ہیں کہ ہر دوسرا فرقہ کافر اور واجب القتل ہے۔
اور یہ مت کہیے گا کہ اب حالات بدل گئے ہیں اور جمہوریت لازمی ہے، وغیرہ و غیرہ۔
اب حالات واقعی ہی بدل چکے ہیں۔ آپ مذہب اور مسلک کو بنیاد بنا کر کم از کم ریاست پاکستان نہیں چلا سکتے۔
 
حکومت ہو یا بیوروکریسی، ان میں بھی اچھے افراد اتنی ہی تعداد میں ملتے ہیں جتنی تعداد میں فوجی اداروں میں نااہل اور غلط کار
مری رائے میں فوج میں پروفیشنل ازم اور ڈسپلن پاکستان کے باقی سولین اداروں کی نسبت زیادہ ہے اور اس کی وجہ ان کی تربیت کا معیار، اچھی تنخواہ و سہولتیں اور سخت سزائیں ہے۔ ویسے وہ بھی ہماری ہی قوم کے لوگ ہیں۔ اگر یہی تربیت کا معیار، اچھی تنخواہ و سہولتیں اور سخت سزائیں سولین اداروں کو مہیا کیا جائے تو سولین اداروں کی کارکردگی بھی بہتر ہوسکتی۔ اسکی ایک مثال موٹروے پولیس اور لاہور کے ٹریفک وارڈنز ہیں جن کی سروس کے معیار کے سب مداح ہیں۔ :)
 

arifkarim

معطل
آج پہلی بار یہ احساس ہوا کہ محفل جیسے پلیٹ فارم پر ملکی مسائل، سیاست وغیرہ کے بارہ میں پارٹی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے تعمیری بحث و مباحثہ بھی ہو سکتاہے۔ آپ سب کیلئے بہت دعائیں اور نیک تمنائیں۔ یہاں بہت کچھ سیکھنے کو مل رہا ہے۔ براہ کرم اسے جاری رکھئے۔
منقب سید
عبدالقیوم چوہدری
لئیق احمد
قیصرانی
عباس اعوان
نایاب
 
آج پہلی بار یہ احساس ہوا کہ محفل جیسے پلیٹ فارم پر ملکی مسائل، سیاست وغیرہ کے بارہ میں پارٹی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے تعمیری بحث و مباحثہ بھی ہو سکتاہے۔ آپ سب کیلئے بہت دعائیں اور نیک تمنائیں۔ یہاں بہت کچھ سیکھنے کو مل رہا ہے۔ براہ کرم اسے جاری رکھئے۔
لیکن کچھ نوجوان احباب نکتہ بہ نکتہ جواب دینے کی بجائے جذباتی خطابات سے نواز رہے ہیں :)
 

arifkarim

معطل
لیکن کچھ نوجوان احباب نکتہ بہ نکتہ جواب دینے کی بجائے جذباتی خطابات سے نواز رہے ہیں :)
دونوں اطراف کو اپنی قوت برداشت بڑھانی ہوگی تا اس موضوع پر مزید تعمیری بحث و مباحثہ ہو سکے۔ اپنی من پسند سیاسی جماعت اپنی جگہ لیکن ملک اور قومیت تو ایک ہی ہے نا۔ اور انکے وسیع طر مفادات کی خاطر اگر سخت، کرخت اور تلخی پیدا کرنے والے جملے بھی سننے پڑ گئے تو انہیں قبول کرنا ہوگا۔ اور اپنا اخلاقی توازن برقرار رکھتے ہوئے ترکی بہ ترکی جواب سے حتی الوسع اجتناب کریں تو یہ دونوں اطراف کیلئے زیادہ بہتر ہے۔:)
 
آپ کے ان تینوں حوالوں میں فون کال کا کہیں بھی ذکر نہیں ہے۔ :)
پہلے میں الزامات
دوسرے میں پاکستان کی شکست کی فوجی وجوہات
تیسرے میں فوجی صفائیاں۔ اور شکست کا ملبہ نواز پر ڈالنے کی کوشش۔
کارگل کی اصل کہانی میں ذاتی طور پر جانتا ہوں لیکن یہاں پبلک فورم پر لکھنا نہیں چاہتا۔
فون کال تو وہ مشہور ہے جس کا ذکر مشرف کے حوالے سے کیا جاتا ہے جو امریکہ سے آئی تھی اور اس کے بعد مشرف نے پاکستان کی افغان پالیسی بدل دی تھی :)
 

عباس اعوان

محفلین
بھائی ہر پارٹی کا اپنا منشور اور اپنے ویژین ہوتا ہے، اور وہ برسر اقتدار آ کر اس پر اپنے طریقے سے عمل کرتی ہے۔ آپ ان سے لاکھ اختلاف کریں لیکن کیونکہ عنان حکومت ان کے ہاتھ میں ہے وہ جو بہتر سمجھیں گے وہی کریں گے۔ اور ایسا کرنا ان کا حق ہے، کیونکہ وہ ایسے ہی وعدوں اور وعیدوں کے ساتھ برسر اقتدار آئے ہوتے ہیں۔ اگر عوام کی اکثریت ان کی سڑکوں اور میناروں کی تعمیر کو ناپسند کرے گی تو اگلے الیکشنز میں وہ پارٹی کسی کونے کھدرے میں بیٹھی ہو گی۔
اگر عوام نے مواقع نہ دئیے ہوتے تو 14 اگست کو لاکھوں پاکستانی نہ صرف باہر ہوتے بلکہ اس حکومت کا دھڑن تختہ بھی کب کا ہو چکا ہوتا۔ کیونکہ عوام کی اکثریت آپ بھی اس حکومت کو جائز سمجھتی ہے اس لیے وہ گھروں میں موجود ہے اور سیاستدانوں کی الٹ بازیاں دیکھ رہی ہے۔ ہر صوبے کی عوام اچھی خاصی تعلیم یافتہ ہے، اور شہروں کی حد تک آزادانہ رائے دہی ہی ہوتی ہے۔ ان پارٹیوں کو برسر اقتدار نا آنے دینے میں تعلیم ہونے یا نا ہونے کا اتنا قصور نہیں، اسے سیاسی شعور کی کمی کہا جا سکتا ہے، کہ وہی دو پارٹیاں بار بار برسر اقتدار آ رہی ہیں۔
۔۔۔
20 کروڑ آبادی ہے، ووٹرز نہیں ۔
کل رجسٹرڈووٹرز تقریباً 8 کروڑ تھے جن میں سے تقریباً ساڑھے تین کروڑ نے ووٹ ہی نہیں ڈالا۔ باقی بچ جانے والے ساڑھے چار کروڑ ووٹرز میں سے ڈیڈھ کروڑ حکومت وقت کو ملا اور کوئی 50 لاکھ کے قریب آزاد امیدواروں کو (جن کی غالب اکثریت حکومت وقت میں شامل ہو گئی) ایسے میں اسے اکثریت ہی کہا جائے گا۔
یہی تو مسئلہ ہے کہ عوام کی اکثریت کو اس بات کا نہ ادراک ہے نہ شعور۔ اور یہ پارٹیاں اپنی باریاں چلانے کے لیے اس شعور کے بیدار نہیں ہونے دے رہیں۔ تعلیم عام ہو جائے تو تب عوام کی رائے بہتر ہو گی، اب تو شائد بھیڑ چال ہی چلی رہی ہے۔
8 کروڑ میں سے قریباً ایک کروڑ 48 لاکھ ووٹ، یہ تقریباً ساڑھے 18 فیصد بنتے ہیں، ساڑھے 18 فیصد !!!!
80 فیصد سے زیادہ لوگوں نے نواز شریف کو نہیں چُنا، پھر بھی وہ سیاہ و سفید کا مالک بن کر بیٹھے ہوئے ہیں اس ارضِ پاکستان کے۔ اس نظام کو کیونکر درست کہتے ہیں آپ ؟؟؟
نواز لیگ اور پی پی کے ووٹ دیکھیں کہ زیادہ کہاں سے پڑے ہیں اور پی ٹی آئی کو کہاں سے۔ اور ابھی تو دھاندلی زدہ ووٹوں کی بات کی ہی نہیں جہاں شہروں میں زبردستی پی ٹی آئی کو ہرایا گیا۔
فوج ریاست کا ایک ادارہ ہے، جو آئین کے مطابق حکومت وقت کے تابع ہوتا ہے، اسے کیا حق ہے کہ وہ از خود کسی مہم جوئی کا فیصلہ کر لے وہ بھی ایک ایسی جگہ پر جو ہمیشہ سے متنازع چلی آ رہی ہے۔ جب ملک کے اندر ایک باقاعدہ حکومت موجود ہے تو اس کی مشاورت کے ساتھ کیوں نہ کوئی کام کیا جائے۔ شاید ہی دنیا کے کسی ملک میں ایسی کوئی مثال ہو۔
حکومتِ وقت کونسا مشورے لے کر قدم اٹھاتی ہے۔ دشمن کو موسٹ فیورٹ نیشن قرار دینا کہاں کا انصاف ہے ؟ ان حکمرانوں پر ہی تکیہ کر کے رہتے تو یہ لوگ آج شاید پاکستان کو بیچ کر کھا بھی چکے ہوتے۔ یہ لوگ کشمیر کا سیاسی حل نہیں ڈھونڈ سکتے، تو فوج کا اتنا تو حق بنتا ہے کہ پاکستان کی شہ رگ کو بزورِ بازو دشمن سے آزاد کروایا جائے۔ اور اگر ان لوگوں کے بغیر مشورے کے کوئی قدم اٹھا بھی لیا تھا تو نواز شریف نے کون سا ساتھ دے دیا تھا فوج کا ؟
الٹا اپنی غلطی کہہ کر فوجوں کو واپس آنے کا کہہ دیا۔
آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر فوج سویلین حکومت کو بھی اس ٹاپ سیکرٹ مشن میں رازدار بنا لیتی تو کتنی دیر تک راز ، راز رہتا ؟ مجھے تو کوئی خاص توقع نہیں ہے۔
 

عباس اعوان

محفلین
بلدیاتی انتخابات 'میں' نے نہیں کروانے۔:p
دنیا کے مختلف ترقی یافتہ ممالک میں عوام کے مسائل بلدیہ تک ہی محدود ہوتے ہیں۔ بڑی اسمبلیاں ریاستی معاملات اور قانون سازی تک محدود ہوتی ہیں۔ لیکن پاکستان میں اس کا الٹ ہے اور اسے بہتر ہونا چاہیے۔ 4 سے 35 صوبے ہمارے مطلق العنان حکمران نہیں بنا سکے یہ کمزور جمہوری حکومتیں کیا کر سکتی ہیں۔
چلیں آدھی بات تو آپ نے تسلیم کر لی کہ ایک آمر نے وہ درست نظام دیا جو کہ ترقی یافتہ دنیا میں چل رہا ہے۔ اب یہ بھی تسلیم کر لیں کہ وہ کیا وجہ تھی کہ مرکز میں جمہوری حکومت کے ہونے کے باوجود، ملک میں آئین کے تحت اب تک بلدیاتی انتخابات نہیں کروائے گئے ؟ کیا یہ وجہ فنڈز کو اپنے پاس رکھنا، اپنی مرضی سے استعمال کرنا، عوام کو اختیارات نہ دینا نہیں ہے ؟ تسلیم کریں کہ نون لیگ کی ترجیحات غلط ہیں، کم از کم بلدیاتی انتخابات تک، جس میں وہ آئین و قانون کی کھلم کھلا مخالفت کر رہے ہیں۔
اور اتنا بھی مان لیں کہ بہت سارے صوبے، بے شمار مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔
آپ اپنے وزیرِ اعظم کو میجارٹی والا مانتے ہیں تو مطلق العنان کیوں نہیں مانتے ؟؟
پارلیمنٹ سے ہر ڈویژن کو صوبہ بنانے کی قرارداد اور بل پاس کروانا کیوں نا ممکن ہے ؟
دھرنے کے خلاف تو پارلیمنٹ اکٹھی ہو سکتی ہے، نئے صوبے بنانے کے لیے ہر گز نہیں۔۔ کیا بات ہے۔
اس لیے کہ یہ لوگ خود ہی ایسا نہیں کرنا چاہتے۔
آپ کے نزدیک فی الوقت متبادل نظام کیا ہے؟
مسلمان جب دنیا میں حکومت کر رہے تھے تو اس وقت وہ وہابی، سنی، شیعہ، حنفی، جعفری ٹائپ کے مسلکوں میں اس طرح بٹے ہوئے نا تھے، جیسے آج ہیں کہ ہر دوسرا فرقہ کافر اور واجب القتل ہے۔
فرقوں کی تقسیم نئی نہیں ہے، لیکن قتل کے فتوے قدرے نئے ہیں۔ علم، پرانے زمانے میں برداشت کی ایک بہت بڑی وجہ تھا۔ جوں جوں مسلمانوں نے علم کو ترک کیا، برداشت ختم اور تنگ نظری آتی چلی گئی، نتیجتاً دنیا نے مسلمانوں کو رگیدنا شروع کر دیا۔ علم ، حلم سکھاتا ہے، سچ سے جھوٹ کی تمیز سکھاتا ہے۔علم عام ہو گا تو عام لوگوں کو بھی پتا ہو گا کہ کون واجب القتل ہے اور کون نہیں۔ علم ہو گا تو اس بات پر اتفاق ہو گا کہ چور کا ہاتھ کاٹا جائے یا نہیں، حد کب لگائی جائے اور کب نہیں۔
اب حالات واقعی ہی بدل چکے ہیں۔ آپ مذہب اور مسلک کو بنیاد بنا کر کم از کم ریاست پاکستان نہیں چلا سکتے۔
ایک پاکستانی ہوتے ہوئے آپ کو یہ بات نہیں کرنی چاہیے، اس مذہب کے اصولوں پر تو اس ریاست کو چلانا قائدِ اعظم کا عزم تھا، جس کو ہم نے پوری دنیا میں ایک مثال بنا کر پیش کرنا تھا ، تا کہ لوگ یہ بات نہ کر سکیں جو آپ کر رہے ہیں۔ لیکن اس عظیم قائد کے آنکھیں موندتے ہی سب کچھ ختم کر کے رکھ دیا۔
 
آخری تدوین:

عباس اعوان

محفلین
آپ کے ان تینوں حوالوں میں فون کال کا کہیں بھی ذکر نہیں ہے۔ :)
پہلے میں الزامات
دوسرے میں پاکستان کی شکست کی فوجی وجوہات
تیسرے میں فوجی صفائیاں۔ اور شکست کا ملبہ نواز پر ڈالنے کی کوشش۔
کارگل کی اصل کہانی میں ذاتی طور پر جانتا ہوں لیکن یہاں پبلک فورم پر لکھنا نہیں چاہتا۔
فون کال تو وہ مشہور ہے جس کا ذکر مشرف کے حوالے سے کیا جاتا ہے جو امریکہ سے آئی تھی اور اس کے بعد مشرف نے پاکستان کی افغان پالیسی بدل دی تھی :)
چلیں میں تسلیم کرتا ہوں کہ فون کال کا حوالہ اس وقت میرے پاس موجود نہیں ہے۔
 

منقب سید

محفلین
آج پہلی بار یہ احساس ہوا کہ محفل جیسے پلیٹ فارم پر ملکی مسائل، سیاست وغیرہ کے بارہ میں پارٹی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے تعمیری بحث و مباحثہ بھی ہو سکتاہے۔ آپ سب کیلئے بہت دعائیں اور نیک تمنائیں۔ یہاں بہت کچھ سیکھنے کو مل رہا ہے۔ براہ کرم اسے جاری رکھئے۔
منقب سید
عبدالقیوم چوہدری
لئیق احمد
قیصرانی
عباس اعوان
نایاب
بحث مباحثہ تعمیری ہی ہو تو بہتر ہے برادر۔ سوشل میڈیا پر تو درجنوں مقامات ایسے ہیں جہاں بحث و مباحثہ ہوتا رہتا ہے۔ لیکن ہر طرف الزام تراشی کا بازار گرم ہے اصلاح احوال کا ذکر کہیں نہیں ہوتا۔ اصل بات برداشت کی ہے جو ہم میں موجود نہیں رہی اب۔ دعاؤں کا شکریہ
 

arifkarim

معطل
بحث مباحثہ تعمیری ہی ہو تو بہتر ہے برادر۔ سوشل میڈیا پر تو درجنوں مقامات ایسے ہیں جہاں بحث و مباحثہ ہوتا رہتا ہے۔ لیکن ہر طرف الزام تراشی کا بازار گرم ہے اصلاح احوال کا ذکر کہیں نہیں ہوتا۔ اصل بات برداشت کی ہے جو ہم میں موجود نہیں رہی اب۔ دعاؤں کا شکریہ
محفل فارم دیگر اکھاڑوں سے تھوڑا مختلف ہے کہ یہاں کے فعال ناظمین بحث و مباحثہ غیر ضروری طور پر طول پکڑ جانے سے پہلے ہی روک دیتے ہیں۔ الحمدللہ۔ کم از کم میرا تو یہی مشاہدہ ہے۔ یوں تعمیری بحث کیلئے یہ پلیٹ فارم موذوں ہے اگر ذاتیات سے ہٹ کر اور اخلاقی دائرہ میں رہتے ہوئے بات چیک کی جائے۔
 
آخری تدوین:
یہی تو مسئلہ ہے کہ عوام کی اکثریت کو اس بات کا نہ ادراک ہے نہ شعور۔ اور یہ پارٹیاں اپنی باریاں چلانے کے لیے اس شعور کے بیدار نہیں ہونے دے رہیں۔ تعلیم عام ہو جائے تو تب عوام کی رائے بہتر ہو گی، اب تو شائد بھیڑ چال ہی چلی رہی ہے۔
شعور بھی ایک ارتقائی عمل ہے، آپ دیکھیے گا یہی پارٹیاں، موجودہ راہنما اور ان کے بعد ان پارٹیوں میں شامل ہونے اور عنان اقتدار سنبھالنے والے لوگ خود ٹھیک ہوتے جائیں گے۔ آج سے 15 سال پہلے تک کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ پیپلز پارٹی کا ملک کے مختلف حصوں سے انتخابی سیاست کی حد تک صفایا ہو جائے گا۔
اسے بھی شعور کی بہتری ہی کہا جا سکتا ہے کہ ایک پارٹی جس کے پاس حکومت چلانے کا سرے سے ہی کوئی تجربہ نہیں تھا اسے ایک صوبے میں اچھی خاصی سیٹیں ملیں اور دوسرے صوبوں میں بھی اس کے ووٹرز کی تعداد بڑھ گئی۔ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ملک کے مختلف خطوں میں اس شعور کی رفتار میں کمی بیشی موجود ہے ، لیکن ایسا دنیا میں ہر جگہ ہوتا ہے، آپ سب کو بیک وقت ایک لیول پر نہیں لا سکتے۔
شمالی پنجاب کی حد تک تعلیم عام ہو چکی، اب وہ پہلے والی باتیں نہیں رہیں۔ پاکستان کے باقی علاقوں کے بارے کچھ کہہ نہیں سکتا کہ عرصہ ہوا کبھی کہیں چکر نہیں لگا۔
8کروڑ میں سے قریباً ایک کروڑ 48 لاکھ ووٹ، یہ تقریباً ساڑھے 18 فیصد بنتے ہیں، ساڑھے 18 فیصد !!!!
تناسب ڈالے گئے ووٹوں میں سے نکالا جائے تو اس سے زیادہ بنتا ہے۔ اور جنھوں نے ووٹ کاسٹ ہی نہیں کیا انھیں اس سسٹم کے اچھے یا برے ہونے کے بارے میں بات ہی نہیں کرنی چاہیے
80 فیصد سے زیادہ لوگوں نے نواز شریف کو نہیں چُنا، پھر بھی وہ سیاہ و سفید کا مالک بن کر بیٹھے ہوئے ہیں اس ارضِ پاکستان کے۔ اس نظام کو کیونکر درست کہتے ہیں آپ ؟؟؟
آپ کا تناسب ٹھیک نہیں ہے۔
سیاہ و سفید کے مالک تب ہوتے جب ملک میں موجود 6 انتظامی یونٹس میں ایک ہی پارٹی کی حکومت ہوتی۔ جبکہ یہاں کشمیر، گلگت، بلتستان، سندھ اور کے پی کے (4 انتظامی یونٹس) میں اس پارٹی کی حکومتیں نہیں ہیں۔
نواز لیگ اور پی پی کے ووٹ دیکھیں کہ زیادہ کہاں سے پڑے ہیں اور پی ٹی آئی کو کہاں سے۔ اور ابھی تو دھاندلی زدہ ووٹوں کی بات کی ہی نہیں جہاں شہروں میں زبردستی پی ٹی آئی کو ہرایا گیا۔
پی ٹی آئی کو ایک صوبے سے زیادہ ووٹ ملے ہیں اور باقیوں سے کم۔ دھاندلی زدہ ووٹوں پر عوام کی اکثریت اب تک پی ٹی آئی کی منطق سے متفق نہیں۔ اگر عوام کی اکثریت متفق ہوتی تو اب تک نئے انتخابات بھی ہو چکے ہونے تھے۔
حکومتِ وقت کونسا مشورے لے کر قدم اٹھاتی ہے۔ دشمن کو موسٹ فیورٹ نیشن قرار دینا کہاں کا انصاف ہے ؟ ان حکمرانوں پر ہی تکیہ کر کے رہتے تو یہ لوگ آج شاید پاکستان کو بیچ کر کھا بھی چکے ہوتے۔ یہ لوگ کشمیر کا سیاسی حل نہیں ڈھونڈ سکتے، تو فوج کا اتنا تو حق بنتا ہے کہ پاکستان کی شہ رگ کو بزورِ بازو دشمن سے آزاد کروایا جائے۔ اور اگر ان لوگوں کے بغیر مشورے کے کوئی قدم اٹھا بھی لیا تھا تو نواز شریف نے کون سا ساتھ دے دیا تھا فوج کا ؟
الٹا اپنی غلطی کہہ کر فوجوں کو واپس آنے کا کہہ دیا۔
آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر فوج سویلین حکومت کو بھی اس ٹاپ سیکرٹ مشن میں رازدار بنا لیتی تو کتنی دیر تک راز ، راز رہتا ؟ مجھے تو کوئی خاص توقع نہیں ہے۔
فوج ہو یا کوئی اور ادارہ جب وہ آئین سے ماوراء ہو کر کچھ فیصلہ کریں گے تو انارکی پھیلے گی۔ کارگل کا نتیجہ کیا نکلا ۔۔۔دس سال کی آمریت۔ فوج کیا، کسی بھی ادارے کو اپنی حد سے باہر نہیں نکلنا چاہیے۔
چلیں آدھی بات تو آپ نے تسلیم کر لی کہ ایک آمر نے وہ درست نظام دیا جو کہ ترقی یافتہ دنیا میں چل رہا ہے۔ اب یہ بھی تسلیم کر لیں کہ وہ کیا وجہ تھی کہ مرکز میں جمہوری حکومت کے ہونے کے باوجود، ملک میں آئین کے تحت اب تک بلدیاتی انتخابات نہیں کروائے گئے ؟ کیا یہ وجہ فنڈز کو اپنے پاس رکھنا، اپنی مرضی سے استعمال کرنا، عوام کو اختیارات نہ دینا نہیں ہے ؟ تسلیم کریں کہ نون لیگ کی ترجیحات غلط ہیں، کم از کم بلدیاتی انتخابات تک، جس میں وہ آئین و قانون کی کھلم کھلا مخالفت کر رہے ہیں۔
آمر نے جو نظام دیا تھا وہ اس کی مجبوری تھی۔ اور اس کے لیے اس نے کیا کیا پاپڑ بیلے تھے ان کا ذکر اس لڑی میں ہی کہیں میں نے کیا بھی تھا۔
لیکن بہرحال بلدیاتی نظام ہونا چاہیے۔
بلدیاتی انتخابات صرف ایک صوبے میں ہوئے ہیں۔ پھر آپ یہ بھی تسلیم کریں کہ دیگر صوبوں میں موجود حکمران جماعتوں کی ترجیحات بھی غلط ہیں۔
اور اتنا بھی مان لیں کہ بہت سارے صوبے، بے شمار مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔
فی الوقت بہت سارے صوبے بے شمار مسائل پیدا کریں گے اور سیاسی تفریق مزید بڑھ جائے گی۔
آپ اپنے وزیرِ اعظم کو میجارٹی والا مانتے ہیں تو مطلق العنان کیوں نہیں مانتے ؟؟
مطلق العنان تب ہوتا جب ہر صوبے میں ایک ہی پارٹی کی حکومت ہوتی
پارلیمنٹ سے ہر ڈویژن کو صوبہ بنانے کی قرارداد اور بل پاس کروانا کیوں نا ممکن ہے ؟
اس لیے کہ موجودہ آئین کے تحت پارلیمینٹ ایسا کر نہیں سکتی۔ اگر پی ٹی آئی ایک اچھی مثال بنانا چاہتی ہے تو ہزارہ کو صوبے کا درجہ دلوانے کے لیے کے پی کے اسمبلی میں قرارداد منظور کروائے اور وہ بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہو۔
ایک پاکستانی ہوتے ہوئے آپ کو یہ بات نہیں کرنی چاہیے، اس مذہب کے اصولوں پر تو اس ریاست کو چلانا قائدِ اعظم کا عزم تھا، جس کو ہم نے پوری دنیا میں ایک مثال بنا کر پیش کرنا تھا ، تا کہ لوگ یہ بات نہ کر سکیں جو آپ کر رہے ہیں۔ لیکن اس عظیم قائد کے آنکھیں موندتے ہی سب کچھ ختم کر کے رکھ دیا۔
پاکستان میں آپ کس مسلک کے اصولوں اور تشریح کے مطابق ریاست چلائیں گے؟ یہاں مسلک طاقتور ہے، مذہب نہیں۔ اور یہ ایک حقیقت ہے
 
Top