عمران خان اک افسانہ کہ حقیقت؟؟

arifkarim

معطل
سول نافرمانی بنیادی طور پر ہی غلط کام ہے۔ اسی سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ضدی بچہ اپنی ضد منوانے کے لئے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔ :)
تو پہیا جام ہڑتال سول نافرمانی نہیں ہے؟ :)

ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے کردار میں آپ کی دلچسپی کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کے حوالے سے اپنا ذاتی تجزیہ آپ کی اجازت سے پی ایم کروں گا انشا اللہ آج کی رات۔
جزاک اللہ محترم انتظار رہے گا۔

بلکہ اگر آپ مجھے پی ایم پر اجازت دے دیں تو مجھے زیادہ سہولت ہو گی کیوں کہ محفل میں پی ایم کا طریقہ کار مجھے مل نہیں رہا۔
بہتر میں آپکو ایک ذاتی پیغام بھیج دیتا ہوں۔

یہی تو وہ اصل مسئلہ ہے جس وجہ سے یہ لوگ عمران و قادری صاحبان کے خلاف اکٹھے ہو گئے ہیں۔
متفق!

کراچی کے ٹارگٹ کلرز سے تو نشانہ کبھی خطا نہیں ہوا، اور یہاں جس پر الزام لگایا جا رہا ہے ان کا نشانہ چوک گیا، خوب کہی۔
حامد میر کو 3 گولیوں لگی تھیں کمر میں۔ اگر وہ آج بھی زندہ ہے تو اسکی خوش قسمتی کہہ سکتے ہیں۔

اگر ہمیں بھی مکالمے میں شامل رکھیں گے تو بہت بہت نوازش ہو گی۔
بہتر۔۔۔

میرے بھائی جمہوری اور سیاسی جدو جہد قانون کے دائرے میں رہ کرنی چاہئے۔ قانون کے دائرے میں رہ کر بھی حکومت پر دباؤ ڈالا جا سکتا ہے۔ اور اپنی بات منوائی جاسکتی ہے۔
یعنی پہیا جام ہڑتال اب قانونی ہو گئی؟ کیا تب ملکی معیشت و سالمیت کو نقصان نہیں ہوگا؟ :)

مجھے ایک مثال یاد آئی بے نظیر کی وزارت عظمی کے دور میں حکومت نے ناموس رسالت قانون میں ترمیم کا ارادہ ظاہر کیا۔ تو ملی یکجہتی کونسل نے اس قانون میں ترمیم کے خلاف ملک گیر پہیہ جام ہڑتال کی کال دے دی۔ جس کے نتیجے میں ہڑتال اتنی کامیاب ہوئی کہ حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور قانون کو بدلنے کا ارادہ ترک کر دیا۔
مذہبی شدت پسندی کے حق میں تمام پاکستانی کھڑے ہو جاتے ہیں البتہ جب نظام کی تبدیلی کیلئے کال دی جائے تو اعتراضات اور تضحیک شروع کر دیتے ہیں کہ سول نافرمانی ہے :)

ایسا نہیں ہے۔ یہی وہ آئین ہے جس نے سارے انتظامی یونٹوں کو ایک لڑی میں پرو کر رکھا ہوا ہے۔ اب بیک جنبش قلم اسے رد نہیں کر سکتے۔ اگر عوام کی اکثریت اس کے خلاف ہوتی تو یہ کب کا دفن ہو چکا ہوتا۔
عوامی اکثریت کی رائے کا احترام 1970 کے الیکشن کے بعد سے آج تک کبھی یہاں ہوا ہے؟ ہر الیکشن میں تو باقاعدگی کیساتھ دھاندلی ہوتی رہی ہے۔

آپ کسی کی گردن پر چھری رکھ کر اس سے وقتی طور پر بہت کچھ منوا سکتے ہیں، لیکن چھوٹتے ہی وہ اپنا بھی اور آپ کا بھی اس سے بڑا نقصان کر دے گا، جس سے بچنے کے لیے آپ نے اس کی گردن پر چھری رکھی تھی۔ ہمارے یہی موجودہ سیاستدان اور ان کے بعد آنے والے لوگ اس نظام کو ٹھیک کرنے کے لیے خود بخود مجبور ہوتے جائیں گے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ انھیں اس ارتقائی عمل سے گزرنے کا موقع دیں۔
بھائی جان، نون لیگ اور پیپلز پارٹی کو اور کتنے ارتقائی عوامل سے گزارنا ہے؟ پنجاب، سندھ اور مرکز میں باریاں لیتے ہوئے انہیں کتنی دہائیاں ہو گئی ہیں؟ جس نے تیسری بار وزیر اعظم بن کر کچھ نہیں سیکھا تو اس سے آئندہ کیا امید لگانی؟

کو نسا قانون جو ملک کے لیے کالاباغ جیسا اہم ڈیم بنانے پر کسی حکومت کو مجبور نہیں کر سکتا۔ ملک گیر پہیہ جام ہڑتال جو لاکھوں کروڑوں کی دیہاڑی کو داؤ پر لگا دے، وہ تو جمہوری ہے لیکن ایک شہر کے ایک چھوٹے سے حصے میں دھرنا غیر جمہوری ہے ؟؟
سو فیصد متفق! لگتا آپ بھی میری طرح نون لیگی "منطق" سے چڑچڑے پن کا شکار ہیں! :) پہیا جام ہڑتال، جس میں زیادہ تر ملکی املاک کا نقصان ہوتا ہے، قانونی دباؤ کا طریقہ ہے۔ جب کہ سول نافرمانی جہاں آپکے پاس اختیار ہوتا ہےکہ اسپر عمل کریں نہ کریں، یہ انکے نزدیک احتجاج کا غیر قانونی طریقہ ہے :)

عوام کی اکثریت کو تو یہ بھی نہیں معلوم کے آئین میں شقیں کتنی ہیں، آئین کا کیا خاک علم ہو گا۔ 280 کے قریب جو شقیں آئین میں موجود ہیں، ان کی اکثریت تو صرف یہ بتاتی ہے کہ کون کیسے الیکٹ یا سلیکٹ ہو گا، کس کا تقرر کون اور کیسے کرے گا۔ سارے حکومت بنانے اور حکومت میں رہنے کے گرُ ہیں۔ عوام کے حقوق تو برائے نام ہیں، اور ان پر بھی پورے کا پورا عمل نہیں ہوتا، بلکہ اکثر پر عمل نہیں ہوتا۔
یہ تو آپ علامہ قادری والی باتیں کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے کہ آپ کیخلاف کوئی فتویٰ جاری ہو، بہتر ہے خاموشی اختیار کر لیں :)

بھائی اور کتنا دھیرج رکھیں، میاں برادران کو قریباً سات مواقع دے چکے پنجاب اور مرکز میں، ان سے زیادہ کام تو ایک باری میں پرویز الہٰی نے پنجاب میں کر دیا تھا۔ کیا آپ کو ابھی تک سمجھ نہیں آئی کہ اگر انہوں نے تبدیلی لانی ہوتی تو اب تک لا چکے ہوتے۔ موجود ہ حکومت کا کوئی ایک ہی بڑا کارنامہ بتا دیں، اب یہ نہ کہیے گا کہ دھرنے کی وجہ سے موقع نہیں ملا ورنہ ڈیم بنادیتے۔
زبردست! جیتے رہئے!

معاشرئے میں بیروزگاری اتنی پھیل چکی ہے کہ مالک سے تنخواہ بڑھانے کے لئیے کہتا ہوں تو وہ کہتا ہے زیادہ نخرئے نہ دکھاو تم سے بھی کم تنخواہ میں لوگ کام کرنے کے لئیے تیار ہیں۔
یاد رکھئیے گا میری بات جس دن بھی عوام کے اندر پکا ہوا یہ لاوا پھٹا اس روز ان دس پرسنٹ مراعات یافتہ لوگوں کے ساتھ ساتھ عوام آپکی بھی پگڑیاں نہیں، سر اچھالے گی۔ اس سے پہلے کہ مفتی صاحب مزید کچھ کہتے وہ شخص کمرے سے جاچکا تھا۔
میں نے آج تک محفل کی کسی پوسٹ کو ریٹنگ نہیں دی البتہ آپکی یہ تحریر پڑھ کر آنسو آگئے اور مجبوراً آپکو ریٹنگ سے نوازنا پڑا :)

جو خرابیاں آپ نے گنوائی ہیں وہ نظام کی خرابیاں ہیں۔ نظام کو نواز نے سوا سال میں خراب نہیں کیا البتہ اس نظام کی اصلاح حکومت کا فرض ضرور ہے۔
نطام کی اصلاح آپ مزید لاقانونیت پھیلا کر نہیں کر سکتے۔ اس سے محض انارکی میں اضافہ ہوگا میرے بھائی فائدہ کچھ بھی نہیں۔
انارکی تو حکومت کی نااہلی کی وجہ سے پھیلی ہوئی ہے۔ دھرنے والے اگر چاہتے تو انارکی پھیلا سکتے تھے لیکن وہ سابقہ حزب اختلاف قوتوں کی طرح پہیا جام ہڑتال کرنا نہیں جانتے کہ اس سے نقصان ملک کا ہی ہوتا ہے۔

وہ ہڑتال جس میں لوگ اپنی مرضی سے شرکت کریں وہ غیر قانونی نہیں ہوتی۔ دھرنا غیر قانونی نہیں مگر سول نافرمانی کی تحریک غیر قانونی ہے۔ ایسے ہی ریاستی اداروں پر حملہ غیرقانونی ۔
سول نافرمانی کی تحریک غیر قانونی نہیں ہے۔ آئین کی کونسی شک ہے جہاں یہ لکھا ہے کہ آپ ایک کرپٹ دھاندلی کی پیداوار حکومت کیخلاف سول نافرمانی نہیں کر سکتے؟ یہ پہیا جام سے تو بہتر ہی ہے جہاں بلاوجہ عام عوام کا نقصان ہی ہوتا ہے۔

سات باریوں میں نظام کی اصلاح نہیں کر سکے تو یہ لوگ آئند ہ کب کریں گے ؟ نجانے آپ یہ بات کب جانیں گے کہ اس نظام کی اصلاح ہو بھی جائے تو کوئی بہت بڑا فائدہ نہیں ہے۔
متفق!

چلیں تھوڑی دیر کے لیے مان لیتے ہیں کہ دھرنا صحیح طریقہ نہیں ہے نظام کی اصلاح کا، آپ یہ بتا دیں کہ پی پی اور ن لیگ کے پاس کون سی گیڈر سنگھی ہے جو آپ انہیں باریوں پر باریاں دیے جا رہے ہیں ؟؟؟؟
اسٹیبلشمنٹ، بیروکریسی اور نورا کشتی کی گیدڑ سنگھی! :grin:
 
آخری تدوین:
نجانے آپ یہ بات کب جانیں گے کہ اس نظام کی اصلاح ہو بھی جائے تو کوئی بہت بڑا فائدہ نہیں ہے۔
تو کیا آپ ملکی نظام کو ختم کرنا چاہتے ہیں؟
چلیں تھوڑی دیر کے لیے مان لیتے ہیں کہ دھرنا صحیح طریقہ نہیں ہے نظام کی اصلاح کا،
میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ دھرنا مطلقاً غیر قانونی ہوتا ہے۔ دھرنا بلکل اپوزیشن کا جمہوری حق ہے۔ مگر دھرنے کے نام پر لوگ اکٹھے کر کے ریاستی اداروں پر حملہ آور ہونا غیر قانونی اور غیر جمہوری۔
کس قانون کے تحت آپ سول نافرمانی کو غیر قانونی کہہ رہے ہیں،
شاید آپ سول نافرمانی کے معنی سے واقف نہیں ہیں بھائی جان :)
ریاستی اداروں پر حملہ بالکل اچھی بات نہیں ہے جیسا کہ ماضی میں سپریم کورٹ پر کیا گیا
سپریم کورٹ کی عمارت میں ن لیگ کے ورکروں نے جو ہلڑ بازی وہ ایک غلط اور ناجائز کام تھا۔ اور مشرف نے ججوں کو غیر آئینی طریقے سے برطرف کیا وہ بہت ہی برا اور بڑا جرم تھا۔
لیکن یہ ادارے عوام کے لیے بنائے گئے ہیں، عوام کی خدمت نہیں کرتے تو ان کا وجود بے معنی ہے۔
تو کیا ان اداروں کو ختم کر دینا چاہتے ہیں آپ؟ یا ان کی اصلاح چاہتے ہیں؟
 

نایاب

لائبریرین
مجرمانہ خاموشی
ایک دلگداز تحریر
محترم ابن رضا بھائی آپ کی شریک کردہ اس تحریر نے رلا بھی دیا اور ڈرا بھی دیا ۔
بلاشبہ اک سچی تحریر ہے ۔ علمائے کرام اور ذاکرین کرام کی ان مسائل بارے خاموشی قابل مواخذہ ہے ۔
پاکستان کے تمام قابل احترام مفتیوں علماؤں علاماؤں اور مولاناؤں کو یہ تحریر زبردستی پڑھانی چاہیئے ۔جو ہر بات پر فتوی سامنے لے آتے ہیں ۔
بہت دعائیں
 
تو پہیا جام ہڑتال سول نافرمانی نہیں ہے؟
نہیں۔! آپ سے کس نے کہا اپنی مرضی سے کی جانے والی ہڑتال غیر قانونی ہوتی ہے۔؟
یعنی پہیا جام ہڑتال اب قانونی ہو گئی؟ کیا تب ملکی معیشت و سالمیت کو نقصان نہیں ہوگا؟
ہوگا ملکی معیشت کو نقصان لیکن اگر کوئی بندہ اپنی مرضی سے اپنا روزگار نا کمائے تو آپ اس سے زبر دستی نہیں کر سکتے۔ کیا آپ ثابت کر سکتے ہیں کہ اپنی مرضی سے کی جانے والی ہڑتال غیر قانونی ہے؟
البتہ جب نظام کی تبدیلی کیلئے کال دی جائے تو اعتراضات اور تضحیک شروع کر دیتے ہیں کہ سول نافرمانی ہے
سول نا فرمانی کی کال عمران کے اپنے الفاظ ہیں۔ :) کمال ہے آپ اپنے ممدوح کی بات بھول بھی گئے۔
لیکن وہ سابقہ حزب اختلاف قوتوں کی طرح پہیا جام ہڑتال کرنا نہیں جانتے کہ اس سے نقصان ملک کا ہی ہوتا ہے۔
کیا آپ کو علم نہیں کہ ریاستی اداروں پر ان دھرنیوں کے حملے کی وجہ سے ملک کی کتنی تضحیک ہوئی؟ اور کہا گیا کہ ریاست پاکستان ڈس فنکشنل ہو گئی! چین کا صدر جو 30 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے کرنے آرہا تھا اس کا دورہ ملتوی ہوگیا۔
آئین کی کونسی شک ہے جہاں یہ لکھا ہے کہ آپ ایک کرپٹ دھاندلی کی پیداوار حکومت کیخلاف سول نافرمانی نہیں کر سکتے؟
سول نا فرمانی ریاست کے خلاف ہوتی ہے حکومت کے خلاف نہیں۔
 

arifkarim

معطل
محترم ابن رضا بھائی آپ کی شریک کردہ اس تحریر نے رلا بھی دیا اور ڈرا بھی دیا ۔
بلاشبہ اک سچی تحریر ہے ۔ علمائے کرام اور ذاکرین کرام کی ان مسائل بارے خاموشی قابل مواخذہ ہے ۔
پاکستان کے تمام قابل احترام مفتیوں علماؤں علاماؤں اور مولاناؤں کو یہ تحریر زبردستی پڑھانی چاہیئے ۔جو ہر بات پر فتوی سامنے لے آتے ہیں ۔
بہت دعائیں
اگر یہ سب محفل کے رُکن ہوتے تو ضرور انکو ٹیگ کر دیتا :)۔ آپنے درست کہا کہ تمام قومی و معاشرتی مسائل کا حل یہ مذہبی فتوے نہیں ہیں۔ انکے لئے درست اور دیرپا منطقی بنیادوں پر پالیسی بنانا بھی ضروری ہے۔

سول نا فرمانی کی کال عمران کے اپنے الفاظ ہیں۔ :) کمال ہے آپ اپنے ممدوح کی بات بھول بھی گئے۔
کال تو بیشک اسی کی تھی لیکن اس پر عمل درآمد کرنا خود عوام کا کام تھا۔ کسی کے ساتھ پہیا جام ہڑتال کر ظلم تو نہیں کیا اس نے۔ پشاور میں آج لوگوں نے خود ہی مشتعل ہو کر بجلی کے بل جلا دیجئے۔

کیا آپ کو علم نہیں کہ ریاستی اداروں پر ان دھرنیوں کے حملے کی وجہ سے ملک کی کتنی تضحیک ہوئی؟ اور کہا گیا کہ ریاست پاکستان ڈس فنکشنل ہو گئی! چین کا صدر جو 30 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے کرنے آرہا تھا اس کا دورہ ملتوی ہوگیا۔
یہ پراپیگنڈا کیا عوام نے کیا یا نون لیگیوں نے؟ دھرنیوں نے تو کھلے دل کیساتھ چین کے صدر کی پاکستان آمد کو قبول کیا تھا اور خود انکا خیر مقدم کرنے کی پیشکش بھی کی تھی۔ وہ تو خود ہی چینی حکام نے اس دورے کو ملتوی کیا تھا۔ ہو سکتا ہے آئندہ وہ دوبارہ چکر لگائیں لیکن دھرنا تو ختم نہیں ہوگا چاہے جو مرضی غیر ملکی آئے یا جائے۔ اگر ملک کو بیرونی امداد و سرمایہ کاری پر ہی چلانا ہے تو بہتر ہے حکومت بھی انہی کو دے دیں۔

سول نا فرمانی ریاست کے خلاف ہوتی ہے حکومت کے خلاف نہیں۔
ضروی نہیں ہے۔ جنوبی افریقہ میں اپارٹہائیڈ کی حکومت کیخلاف نیلسن مینڈیلا نے سول نافرمانی کی تحریک چلائی تھی:
http://www.nonviolent-conflict.org/...es?sobi2Task=sobi2Details&catid=17&sobi2Id=29
 

منقب سید

محفلین
اگر ہمیں بھی مکالمے میں شامل رکھیں گے تو بہت بہت نوازش ہو گی۔
عباس بھائی پہلے عارف بھائی اور میں باہمی مکالمہ کر لیں پھر اسے انشاللہ مرتب کر کے باقاعدہ اوپن کر دیا جائے گا۔ امید ہے آپ موضوع کی حساسیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ہماری اس مجبوری کو سمجھ پائیں گے۔
 
عوام کی اکثریت کو تو یہ بھی نہیں معلوم کے آئین میں شقیں کتنی ہیں، آئین کا کیا خاک علم ہو گا۔ 280 کے قریب جو شقیں آئین میں موجود ہیں، ان کی اکثریت تو صرف یہ بتاتی ہے کہ کون کیسے الیکٹ یا سلیکٹ ہو گا، کس کا تقرر کون اور کیسے کرے گا۔ سارے حکومت بنانے اور حکومت میں رہنے کے گرُ ہیں۔ عوام کے حقوق تو برائے نام ہیں، اور ان پر بھی پورے کا پورا عمل نہیں ہوتا، بلکہ اکثر پر عمل نہیں ہوتا۔
کیا آپ ایک بار میں سب کچھ الٹ پلٹ کر کے ٹھیک کر سکتے ہیں؟ کبھی نہیں۔
آپ کسی غلط نقشے پر بنے گھر کو ڈائنامائیٹ لگا کر پلک جھپکتے میں اڑا تو سکتے ہیں، لیکن دوبارہ بننے میں اس نے اچھا خاصا وقت لینا ہے۔
یہی مثال ملکوں کی لیے ہے۔ آپ کو پتہ ہے کہ نئے سرے سے آپ اس کو دوبارہ نہیں بنا سکتے تو آہستہ آہستہ کر کے اس میں آلٹریشن کریں، رینوویشن کریں اور اس کو اس شکل میں لے آئیں جو سب کو قابل قبول ہو۔
اگر ہم ان لوگوں اور سیاستدانوں کا اتنا ہی حصہ ڈالیں تو یہ پچاس پچا س فیصد ہوا، ملک کو یہاں تک پہنچانے میں۔
اب ذرا ترقی دلانے والے منصوبے اور پالیسیز کا بھی بتا دیں کہ "ان" لوگوں نے کتنا حصہ ڈالا اور آپ کے سیاستدانوں نے کتنا حصہ ڈالا ؟
جنرل ایوب خان اور جنرل یحیئ خان کی ترقی کے ساتھ ملک کا دو لخت ہونا بھی شمار کی جیے۔ جنرل ضیاالحق اور اس کی ترقی کے ساتھ لاکھوں افغان مہاجرین، کلاشنکوف کلچر اور منشیات کو بھی یاد رکھیے اور آخری گدی نشین کے ساتھ سب سے بڑے مسئلے دہشت گردی کو بھی ملالی جیے۔ اب اس ترقی کو لے کر اس نقصان کا حساب کر لی جیے۔ یقیناً سودا خسارے کا ہی دکھے گا۔
بھائی اور کتنا دھیرج رکھیں، میاں برادران کو قریباً سات مواقع دے چکے پنجاب اور مرکز میں، ان سے زیادہ کام تو ایک باری میں پرویز الہٰی نے پنجاب میں کر دیا تھا۔ کیا آپ کو ابھی تک سمجھ نہیں آئی کہ اگر انہوں نے تبدیلی لانی ہوتی تو اب تک لا چکے ہوتے۔ موجود ہ حکومت کا کوئی ایک ہی بڑا کارنامہ بتا دیں، اب یہ نہ کہیے گا کہ دھرنے کی وجہ سے موقع نہیں ملا ورنہ ڈیم بنادیتے۔
میاں برادران کو مواقع عوام نے ہی دئیے ااور آئندہ بھی اگر وہ حکومتیں بناتے ہیں تو بھی سر پر بیٹھانے والی عوام ہی ہو گی۔ تو اصل مسئلہ میاں برادران نہیں، ہم عوام خود ہیں۔
 
بدقسمتی یا خوش قسمتی سے مجھے افریقہ کے خانہ جنگی زدہ ممالک میں اچھا خاصا وقت گزارنے کا موقع ملا ہے۔ اور آپ میں سے بےشمار معزز اراکین جو کچھ سنتے یا پڑھتے ہیں وہ میرے ذاتی مشاہدے میں ہے۔ آپ زیادہ دور نہ جائیں، صرف پچھلی صدی کی آخری دہائی اور اس صدی کے اوائل میں افریقہ میں شروع ہوئی خانہ جنگیاں دیکھ لیں وہ انھی مسائل اور ان پر پیدا ہونے والے اختلافات سے شروع ہوئیں، پھر ان میں کہیں لسانی فیکٹر ابھر آیا، کہیں نسلی اور کہیں معدنیات تنازع کی بڑی وجہ بن گئے۔۔۔ پھر اردگرد کے ممالک جن کے ساتھ ہمیشہ سے چھوٹے موٹے تنازعات چلتے رہتے ہیں انھوں نے بھی مواقع سے فائدہ اٹھایا، اور اپنا اپنا حصہ ڈالتے اور وصول کرتے گئے ۔۔۔اور دیکھتے ہی دیکھتے لاکھوں بے گناہ انسان ان ملکوں کے خیر خواہوں کی بھینٹ چڑھ گئے ۔ 5، 7، 10 سالوں کی خانہ جنگی کے بعد حاصل جمع کچھ بھی نہیں۔ اقوام متحدہ کی چھتری تلے سول بیوروکریسی اور افواج کہیں 10 سال کہیں 15 سال سے ڈیرے ڈالے بیٹھی ہیں اور ملک کی عوام ان سے مانگ مانگ کر کھا رہی ہے۔

اگر آپ بھی کسی ایسے انجام تک پہنچنے کے خوائش مند ہیں تو بصد شوق کل نہیں آج ہی دھڑن تختہ کر دی جیے۔ لیکن اس سے پہلے اپنے ملک کے مختلف خطوں میں پھیلی لسانی، نسلی، مسلکی منافرت، سیاسی تقسیم اور آئے روز اس کے نتیجے میں ہونے والے واقعات کو بھی مد نظر رکھیے۔ بلوچوں، طالبانوں، جنوبی پنجاب، ہزارہ صوبے، سندھ کے دو حصے کرنے کے خوائشمندوں کو بھی یاد رکھیے اور سرحدوں کے ساتھ بیٹھے ان دشمنوں کو بھی سوچیے جو ہر وقت کسی سخت کمزور لمحےکے منتظر رہتے ہیں۔

اس ملک کو دھیرے دھیرے ٹھیک ہونا ہے، پچھلے اڑسٹھ سالوں میں یہاں کبھی کوا سفید ہو جاتا رہا اور کبھی سیاہ اور اس کی تصدیق ہم جیسے لوگ ہی زندہ باد کے نعرے لگا کر کرتے رہے ہیں۔ دنیا میں فی الوقت مملکت چلانے کا سب سے بہتر نظام جمہوریت ہی ہے۔ ہم اس رواں تو ہونے نہیں دینا چاہتے اور پھر یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ سب کچھ ایک دم سے اس طرح ٹھیک ہو جائے جیسا ہم مغربی ممالک میں دیکھتے ہیں۔ وہاں بھی اس نظام کے متواتر چلنے سے ہی بہتری آئی ہے۔۔ وہ بھی ہم جیسے حالات کا شکار ہوتے رہتے تو ان میں اور ہم کوئی زیادہ فرق نہیں ہونا تھا۔
 
آخری تدوین:
کال تو بیشک اسی کی تھی لیکن اس پر عمل درآمد کرنا خود عوام کا کام تھا۔ کسی کے ساتھ پہیا جام ہڑتال کر ظلم تو نہیں کیا اس نے۔
پہیہ جام ہڑتال میں بھی لوگ اپنی مرضی سے شریک ہوتے ہیں۔ زبردستی ہڑتال پر مجبور کرنا تو ویسے بھی جرم ہے۔
یہ پراپیگنڈا کیا عوام نے کیا یا نون لیگیوں نے؟
میرا ذاتی مشاہدہ ہے ۔ ٹی وی پر ایک بھارتی نے پاکستان کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ دھرنے کی وجہ سے پاکستانی ریاست ڈس فنکشنل ہوگئی اور پاکستان کے سب سے قریبی دوست چین کے صدر نے سیکیورٹی کی بنا پر اپنا اہم ترین دورہ ملتوی کر دیا۔
 

عباس اعوان

محفلین
عوامی اکثریت کی رائے کا احترام 1970 کے الیکشن کے بعد سے آج تک کبھی یہاں ہوا ہے؟ ہر الیکشن میں تو باقاعدگی کیساتھ دھاندلی ہوتی رہی ہے۔
بھائی جان، نون لیگ اور پیپلز پارٹی کو اور کتنے ارتقائی عوامل سے گزارنا ہے؟ پنجاب، سندھ اور مرکز میں باریاں لیتے ہوئے انہیں کتنی دہائیاں ہو گئی ہیں؟ جس نے تیسری بار وزیر اعظم بن کر کچھ نہیں سیکھا تو اس سے آئندہ کیا امید لگانی؟
متفق !
حامد میر کو 3 گولیوں لگی تھیں کمر میں۔ اگر وہ آج بھی زندہ ہے تو اسکی خوش قسمتی کہہ سکتے ہیں۔
چلیں اس ذکر کو فی الحال چھوڑے دیتے ہیں :)
سو فیصد متفق! لگتا آپ بھی میری طرح نون لیگی "منطق" سے چڑچڑے پن کا شکار ہیں! :) پہیا جام ہڑتال، جس میں زیادہ تر ملکی املاک کا نقصان ہوتا ہے، قانونی دباؤ کا طریقہ ہے۔ جب کہ سول نافرمانی جہاں آپکے پاس اختیار ہوتا ہےکہ اسپر عمل کریں نہ کریں، یہ انکے نزدیک احتجاج کا غیر قانونی طریقہ ہے :)
بھلا اب ایسی منطق کا آدمی جواب بھی کیا دے۔
یہ تو آپ علامہ قادری والی باتیں کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے کہ آپ کیخلاف کوئی فتویٰ جاری ہو، بہتر ہے خاموشی اختیار کر لیں :)
قادری صاحب نے اگر درست بات کہی تو ہمیں ان کی سپورٹ کرنی چاہیے۔ اور قادری صاحب کو غلط فتاویٰ پر در گزر کرنا چاہیے۔ فتاویٰ تو حضرت ڈاکٹر علامہ اقبال اور محترم قائدِ اعظم پر بھی لگے تھے :)
اسٹیبلشمنٹ، بیروکریسی اور نورا کشتی کی گیدڑ سنگھی! :grin:
ہو سکتا ہے کہ یہ لوگ سمجھتے ہوں کہ اسٹیلشمنٹ ان کی مکمل حمایت کرتی ہے۔ وہ اسٹیبلشمنٹ ہی کیا جو غیر مشروط طور پر ان لوگوں کی مکمل حمایت کرے جن کے اثاثے اور انٹرسٹ باہر ہیں۔
بیورو کریسی تو خود ان کی اپنی لگائی ہوئی ہے، اور وہ ان لوگوں کے سامنے پر بھی نہیں مار سکتے۔ اور نورا کشتی میں ہی تو ان لوگوں کی بقاء ہے :)
 

عباس اعوان

محفلین
میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ دھرنا مطلقاً غیر قانونی ہوتا ہے۔ دھرنا بلکل اپوزیشن کا جمہوری حق ہے۔ مگر دھرنے کے نام پر لوگ اکٹھے کر کے ریاستی اداروں پر حملہ آور ہونا غیر قانونی اور غیر جمہوری۔
شاید آپ سول نافرمانی کے معنی سے واقف نہیں ہیں بھائی جان :)
سپریم کورٹ کی عمارت میں ن لیگ کے ورکروں نے جو ہلڑ بازی وہ ایک غلط اور ناجائز کام تھا۔ اور مشرف نے ججوں کو غیر آئینی طریقے سے برطرف کیا وہ بہت ہی برا اور بڑا جرم تھا۔
اب پھر غیر ضروری بحث چھڑ جائے گی کہ واقعی حملہ ہوا تھا یا نہیں و غیرہ و غیرہ۔
جب پار لیمنٹ میں کھڑے ہو کر ممبران اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ دھاندلی ہوئی ہے، تو اس دھاندلی کے ذریعے آئی حکومت کیونکر قانونی ہو سکتی ہے ؟
جب آئینی اور قانونی رستہ اپنایا تھا کہ چار حلقے کھول دیں، اس وقت تو کان پر جوں تک نہیں رینگی، بارہا کہنے کے باجود یہ لوگ انصاف، قانونی اور جمہوری حق دینے پر راضی نہیں ہوئے تو دھرنا تو بنتا ہے۔
آپ لاہور میں 110 لوگوں کو گولیاں مار دیں اور ایف آئی آر تک نہ کاٹیں، کیا خوبصورت حکمرانی ہے آئین اور قانون کی۔
آئین اور قانون کو یہ لوگ خود نہیں مانتے تو ہم کیوں مانیں ؟؟؟
یہ کیا بات ہوئی کہ حلقے نہیں کھولے، سال سے اوپر کا سٹے آرڈر آپ کے سپیکر لے کر بیٹھے ہوئے ہیں، اور اسی طرح مدت پوری کرنے کے چکر میں ہیں۔
آئین کہتا ہے کہ بلدیاتی انتخابات کروائے جائیں، آج 6 سال سے اوپر ہو گئے ہیں اور بلدیاتی انتخابات نہیں ہوئے۔ 6 سال محترم 6 سال۔
کیا آئین اور قانون صرف ہم لوگوں کے لیے ہے ؟
خود اگر آئین اور قانون نہ مانیں تو کوئی مسئلہ نہیں، اور ہم اپنے جائز اور عین قانونی و آئینی مطالبات منوانے کے لیے ، بعد از قانونی راستہ استعمال کرنے کے، حکومت کے خلاف سول نا فرمانی کا کہیں تو بات غیر قانونی ہو جاتی ہے۔
تو کیا آپ ملکی نظام کو ختم کرنا چاہتے ہیں؟
تو کیا ان اداروں کو ختم کر دینا چاہتے ہیں آپ؟ یا ان کی اصلاح چاہتے ہیں؟
آپ کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ کتا نکالے بغیر جتنے مرضی ڈول پانی کے نکال لیں، کنواں پاک نہیں ہو گا۔
 

عباس اعوان

محفلین
کیا آپ کو علم نہیں کہ ریاستی اداروں پر ان دھرنیوں کے حملے کی وجہ سے ملک کی کتنی تضحیک ہوئی؟ اور کہا گیا کہ ریاست پاکستان ڈس فنکشنل ہو گئی! چین کا صدر جو 30 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے کرنے آرہا تھا اس کا دورہ ملتوی ہوگیا۔
بالکل ، ملک میں دودھ کی نہریں بہنے لگتیں اس 30 ارب ڈالر سے۔
محترم جب یہ مکمل 30 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہو گئی تو بھی اس کی مثال اونٹ کے منہ میں زیرہ ہو نی ہے۔
عین قانونی تجازات ہٹانے کے لیے، 110 افراد کو گولیاں مارنا تو ریاست کے فنکشنل ہونے کا ثبوت ہے، لیکن اس مظلوم آمنہ کو انصاف نہ فراہم کرنے کے پر آپ کی حکومت پولیو زدہ نہیں کہلاتی۔
وزیرِ اعظم کا موٹر کیڈ 2 منٹ لیٹ ہو جا ئے تو فوراً لوگ معطل کر دیے جاتے ہیں، اور تھر میں بچے بھوک کے مارے مرتے چلے جائیں تو بھی آپ کی حکومت و ریاست اپاہج (ڈس فنکشنل )نہیں کہلاتی۔
آپ کو سلام ہے صاحب۔
 

عباس اعوان

محفلین
عباس بھائی پہلے عارف بھائی اور میں باہمی مکالمہ کر لیں پھر اسے انشاللہ مرتب کر کے باقاعدہ اوپن کر دیا جائے گا۔ امید ہے آپ موضوع کی حساسیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ہماری اس مجبوری کو سمجھ پائیں گے۔
سرِ تسلیم خم ہے سید بادشاہ۔
 

عباس اعوان

محفلین
کیا آپ ایک بار میں سب کچھ الٹ پلٹ کر کے ٹھیک کر سکتے ہیں؟ کبھی نہیں۔
آپ کسی غلط نقشے پر بنے گھر کو ڈائنامائیٹ لگا کر پلک جھپکتے میں اڑا تو سکتے ہیں، لیکن دوبارہ بننے میں اس نے اچھا خاصا وقت لینا ہے۔
یہی مثال ملکوں کی لیے ہے۔ آپ کو پتہ ہے کہ نئے سرے سے آپ اس کو دوبارہ نہیں بنا سکتے تو آہستہ آہستہ کر کے اس میں آلٹریشن کریں، رینوویشن کریں اور اس کو اس شکل میں لے آئیں جو سب کو قابل قبول ہو۔
اگر ہم تھوڑی دیر کے لیے آپ کی یہ بات مان لیں تو آپ کو یہ کیوں نظر نہیں آتاکہ پی پی اور ن لیگ کے ہاتھوں میں جو تعمیر کا نقشہ ہے، وہ یا سڑک کا ہے یا مینار کا، جبکہ ہم لوگوں نے گھر تعمیر کرنا ہے، آپ لوگ انہیں ابھی نہیں روکیں گے تو خدا نخواستہ اوپر کی ساری دیواریں گرا کر عمارت اس بنیاد سے تعمیر کرنے پڑے گی جو حضرت علامہ اقبال اور قائدِ اعظم نے رکھی تھی۔
جنرل ایوب خان اور جنرل یحیئ خان کی ترقی کے ساتھ ملک کا دو لخت ہونا بھی شمار کی جیے۔ جنرل ضیاالحق اور اس کی ترقی کے ساتھ لاکھوں افغان مہاجرین، کلاشنکوف کلچر اور منشیات کو بھی یاد رکھیے اور آخری گدی نشین کے ساتھ سب سے بڑے مسئلے دہشت گردی کو بھی ملالی جیے۔ اب اس ترقی کو لے کر اس نقصان کا حساب کر لی جیے۔ یقیناً سودا خسارے کا ہی دکھے گا۔
میں یہ نہیں کہتا کہ ان کے سارے اقدامات بالکل درست تھے ، لیکن امریکہ کے ساتھ دو افغان جنگوں کے لیے دو جرنیلوں نے اگر تعاون کیا تھا تو آپ کے سیاستدان تو ان کے آگے لیٹ جاتے، ان لوگوں میں کبھی انکار کا حوصلہ نہ تھا اور نہ ہے۔ کارگل تو آپ کو یاد ہی ہو گا، جس میں محترم نواز شریف نے صرف فون کال پر ہی فوج کو واپسی کا حکم دے دیاتھا۔
میاں برادران کو مواقع عوام نے ہی دئیے ااور آئندہ بھی اگر وہ حکومتیں بناتے ہیں تو بھی سر پر بیٹھانے والی عوام ہی ہو گی۔ تو اصل مسئلہ میاں برادران نہیں، ہم عوام خود ہیں۔
کون کہتا ہے کہ عوام نے مواقع دیے ؟؟؟
ذرا حلقے کھلوائیں اور پھر ثابت کریں کہ عوام نے ان کو ہی ووٹ دیے تھے۔ تقریباً ڈیڑھ کروڑ سے بھی کم ووٹ لے کر 20 کروڑ لوگوں کی قسمت کا فیصلہ کرنے مختار بنا دیا آپ نے۔
اور عوام کا اتنا قصور نہیں ہے۔ یہ لوگ عوام میں اگر تعلیم عام کر دیں تو عوام بہتر فیصلے لینے لگ پڑے، اور ظاہری بات ہے، ایسے میں ان لوگوں کا کام کیسے چلنا ہے ؟؟؟
 

عباس اعوان

محفلین
بدقسمتی یا خوش قسمتی سے مجھے افریقہ کے خانہ جنگی زدہ ممالک میں اچھا خاصا وقت گزارنے کا موقع ملا ہے۔ اور آپ میں سے بےشمار معزز اراکین جو کچھ سنتے یا پڑھتے ہیں وہ میرے ذاتی مشاہدے میں ہے۔ آپ زیادہ دور نہ جائیں، صرف پچھلی صدی کی آخری دہائی اور اس صدی کے اوائل میں افریقہ میں شروع ہوئی خانہ جنگیاں دیکھ لیں وہ انھی مسائل اور ان پر پیدا ہونے والے اختلافات سے شروع ہوئیں، پھر ان میں کہیں لسانی فیکٹر ابھر آیا، کہیں نسلی اور کہیں معدنیات تنازع کی بڑی وجہ بن گئے۔۔۔ پھر اردگرد کے ممالک جن کے ساتھ ہمیشہ سے چھوٹے موٹے تنازعات چلتے رہتے ہیں انھوں نے بھی مواقع سے فائدہ اٹھایا، اور اپنا اپنا حصہ ڈالتے اور وصول کرتے گئے ۔۔۔اور دیکھتے ہی دیکھتے لاکھوں بے گناہ انسان ان ملکوں کے خیر خواہوں کی بھینٹ چڑھ گئے ۔ 5، 7، 10 سالوں کی خانہ جنگی کے بعد حاصل جمع کچھ بھی نہیں۔ اقوام متحدہ کی چھتری تلے سول بیوروکریسی اور افواج کہیں 10 سال کہیں 15 سال سے ڈیرے ڈالے بیٹھی ہیں اور ملک کی عوام ان سے مانگ مانگ کر کھا رہی ہے۔

اگر آپ بھی کسی ایسے انجام تک پہنچنے کے خوائش مند ہیں تو بصد شوق کل نہیں آج ہی دھڑن تختہ کر دی جیے۔ لیکن اس سے پہلے اپنے ملک کے مختلف خطوں میں پھیلی لسانی، نسلی، مسلکی منافرت، سیاسی تقسیم اور آئے روز اس کے نتیجے میں ہونے والے واقعات کو بھی مد نظر رکھیے۔ بلوچوں، طالبانوں، جنوبی پنجاب، ہزارہ صوبے، سندھ کے دو حصے کرنے کے خوائشمندوں کو بھی یاد رکھیے اور سرحدوں کے ساتھ بیٹھے ان دشمنوں کو بھی سوچیے جو ہر وقت کسی سخت کمزور لمحےکے منتظر رہتے ہیں۔

اس ملک کو دھیرے دھیرے ٹھیک ہونا ہے، پچھلے اڑسٹھ سالوں میں یہاں کبھی کوا سفید ہو جاتا رہا اور کبھی سیاہ اور اس کی تصدیق ہم جیسے لوگ ہی زندہ باد کے نعرے لگا کر کرتے رہے ہیں۔ دنیا میں فی الوقت مملکت چلانے کا سب سے بہتر نظام جمہوریت ہی ہے۔ ہم اس رواں تو ہونے نہیں دینا چاہتے اور پھر یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ سب کچھ ایک دم سے اس طرح ٹھیک ہو جائے جیسا ہم مغربی ممالک میں دیکھتے ہیں۔ وہاں بھی اس نظام کے متواتر چلنے سے ہی بہتری آئی ہے۔۔ وہ بھی ہم جیسے حالات کا شکار ہوتے رہتے تو ان میں اور ہم کوئی زیادہ فرق نہیں ہونا تھا۔
میں آپ کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ اتحاد بہت ضروری ہے۔
لیکن جب آپ تمام کے تمام فیصلے اور فنڈز 5 اکائیوں تک ہی محدود رکھیں گے تو نیچے عوام تک ثمرات کیسے پہنچیں گے ؟ آئین کے مطابق بلدیاتی انتخابات تو آپ نے کروانے نہیں، کیونکہ ایسے فنڈز آپ کے ہاتھوں میں سے نکل جانے ہیں اور کرپشن کے چانسز کم ہو جائیں گے۔ یہ جو تقسیم جو آپ کو نظر آ رہی ہے، یہ بہت حد تک کم ہوتی اگر ملک میں 4 کے بجائے 35 صوبے ہوتے۔ کم علاقے اور لوگوں کو سنبھالنا آسان ہے، بہ نسبت اتنے بڑے بڑے صوبے ایک شہر میں سے بیٹھ کر سنبھالنے سے۔
اور میں جمہورت کو بہترین نظام نہیں سمجھتا۔ جو جمہوریت مغربی ممالک میں ہے، وہ تو ویسے بھی پاکستان میں نافذ العمل نہیں ہے۔ مسلمان جب تمام دنیا پر حکومت کر رہے تھے تو اس وقت جمہوریت کا دور دور تک نام نشان بھی نہیں تھا۔
اور یہ مت کہیے گا کہ اب حالات بدل گئے ہیں اور جمہوریت لازمی ہے، وغیرہ و غیرہ۔
آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے انداز گلستاں پیدا
 

قیصرانی

لائبریرین
آپ آغاز سے ہی اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی کے کردار کے بارے میں سوالات کرتے آئے ہیں۔ مجھے حیرت اس بات پر ہے کے آج کی سیاست پر ہلکی سی بھی نظر رکھنے والا شخص اس سے نابلد کیوں ہو سکتا ہے؟ ان دونوں کو سیاسی عمل میں گھسیٹنے کی ذمہ داری سابق آمروں اور کچھ ناعاقبت اندیش سیاسی رہنماؤں کی ہے۔ اب ان دونوں کو اقتدار کا نشہ لگ گیا ہے۔ ہر سیاسی یا غیر سیاسی دور حکومت میں ان ہاتھیوں کو حسب ضرورت خوراک اور آزادی دی گئی۔ جہاں کہیں رکاوٹ بنی ان ہاتھیوں نے سب کچھ تہس نہس کر دیا۔ پڑوسی ملک میں سیاست دانوں نے کبھی انہیں اتنا طاقتور ہونے ہی نہیں دیا کہ وہ پلٹ کر انہیں ہی نقصان پہنچا سکیں۔ آئندہ ان کا اثر ختم کرنے کا واحد حل یہی ہے کہ برسر اقتدار حکمران ان دونوں کی عملداری ختم کرنے کا باقاعدہ کوئی انتظام کریں۔ مجھے وہ وقت یاد ہے جب سپریم کورٹ نے اسٹیبلشمنٹ کے فرشتوں کا اپنے احاطے میں داخلہ بند کیا تھا۔ تب ایک حد تک انہیں نکیل تو پڑی تھی اسی طرح انہیں آگے بھی سنبھالا جاسکتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی کو ہر اس سیاستدان سے اختلاف ہے جو ان کے مفادات سے متصادم ہے۔ کاش عوامی طاقت اور کروڑوں ٹائیگرزکی کوشیں رنگ لائیں اور کاش خونی انقلاب کے بنا ہی سب بہتر ہو سکے۔ خیبر پختونخواہ میں کامیابی توازن برابر کرنے کے لئے ہضم کی گئی ہے۔ صاحب اقتدار کے گلے میں ہڈی بھی تو پھنسانی تھی نا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ خان کے حامی اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی میں بھی موجود ہوں گے لیکن ان کی تعداد یا طاقت اتنی نہیں کہ وہ دھرنا ارینج کروا سکیں یا اس دھرنے کو بنیاد بنا کر حکومت کو گرا سکیں۔
حقیقی چہروں کا ادراک ان کے براہ راست ہو تو بہتر ہوتا ہے کسی سے سُن کر ادراک نہیں ہوا کرتا۔ آپ سیاست سے تائب نہ ہوں بلکہ اس میدان میں وسعت نظری پیدا کریں۔ اپنا مشاہدہ زمینی حقائق کے پیش نظر کریں اور گھٹیا تنقید یا زبان کے جواب میں مثبت تنقید کا طریقہ ہی اپنائے رکھیں۔ یہ بات یاد رکھیں کہ آج کے دور میں دلائل سے کسی کو بھی مطمئن نہیں کیا جا سکتا۔ مچھلی کے لئے پتھر چاٹنا لازم ہے۔ لہذا بلاوجہ کی بحث سے اجتناب کریں۔ آپ کے دلائل کسی کو انہیں ماننے پر مجبور تو کر سکتے ہیں لیکن ایسا ماننا مستقل نہیں ہوتا۔ مستقل وہی ہوتا ہے جو اپنے مشاہدے سے حقیقت تسلیم کرے۔ یہ برادرانہ نصیحتیں ہیں جن کو ماننا یا نہ ماننا آپ کی اپنی مرضی ہے۔ میں مجبور نہیں کروں گا۔ اگر کچھ بُرا لگا ہو تو معذرت۔
میرا نکتہ نظر یہ ہے کہ اگر ہم قومی مفادات کو دیکھیں تو ہر طرف ہمیں بیوروکریسی کی ہی وجہ سے مسئلہ ہوتا ہے۔ عوامی سطح کے مسائل انہی سے پیدا ہوتے ہیں۔ فوجی ادارے میں اپنی مرضی کا سربراہ لانا ہو یا کوئی تبدیلیاں، ہمیشہ سیاسی حکومت ہی کرتی ہے اور پھر بھگتتی بھی ہے۔ تاہم جب بیوروکریسی، پاکستانی سویلین حکومت اور فوجی اداروں کی بات آتی ہے تو میں ان میں سے صرف فوجی اداروں کو ہی وفادار سمجھتا ہوں۔ باقی سب وہی غدار ہوتے ہیں جن کے پاس ایک سے زیادہ ملکوں کی شہریت اور ایک سے زیادہ ملکوں میں پھیلے کاروبار اور بینک اکاؤنٹس ہوتے ہیں۔ اگر کسی کو سویلین حکومت اور بیوروکریسی پر غداری کا ٹھپہ برا لگے تو اس چاہیئے کہ وہ بھی فوجی اداروں کو غداری کا طعنہ دینے سے باز آ جائے۔ البتہ حکومت ہو یا بیوروکریسی، ان میں بھی اچھے افراد اتنی ہی تعداد میں ملتے ہیں جتنی تعداد میں فوجی اداروں میں نااہل اور غلط کار :)
 
Top