عباد اللہ
محفلین
پھر یقینا پگھل گیا ہو گا
چاہے جتنا رہا ہو زشت نہاد؟
پھر یقینا پگھل گیا ہو گا
ہم میاں صبر ہیں ، مجسم صبر!!
کب رہی خوئے شیون و فریاد؟
کوئی تفہیم اس کی کیجئے گا
یہ سیل آب جانے کب تلک پرکھ کرے
کنارے سے چٹان ساتھ جو بہا چلے
پھر یقینا پگھل گیا ہو گا
چاہے جتنا رہا ہو زشت نہاد؟
وہ تو کہئے کہ بھر گیا ہے مگرشمع گھل کے نشان کھو ہے گئی
زخم اب ہم دکھائیں بھی کیسے
عمر بھر زخم ساتھ لے کے چلوںوہ تو کہئے کہ بھر گیا ہے مگر
زخم کچھ اتنا معتبر بھی نہ تھا
وہ تو کہئے کہ بھر گیا ہے مگر
زخم کچھ اتنا معتبر بھی نہ تھا
ہم کو نسبت ہے درد سے پیارےعمر بھر زخم ساتھ لے کے چلوں
درد سے اتنا پیار ہی نہیں ہے!!!
یعنی طوفاں پرکھ کرے کب تککوئی تفہیم اس کی کیجئے گا
تا کہ ہم کچھ تو کر سکیں ارشاد
وہی شوق ہے وہی خستگی ، وہی ذوق و تابِ شکستگیمداوا غمِ دل کا ہو گا بھی کیسے
کہ زخموں سے ہونے لگی ہے محبت
نہی ہے زخموں کو گننے کی عادتوہی شوق ہے وہی خستگی ، وہی ذوق و تابِ شکستگی
کوئی زخم ہے تو عطا کرو ، ہمیں درد سے سروکار ہے
(پرانا شعر)
اے خوشا سادہ دلی ٹوٹ کے فرماتے ہیں عشقیعنی طوفاں پرکھ کرے کب تک
سنگ اسکے پتھر بھی تو بہ چلے
-
نہی ہے زخموں کو گننے کی عادت
کہ اسکو درد دینے کی ہے عادت
چراغاں چار سو غالب نظر ہے
یہ زخموں کا مرے اعجاز تو ہے
مسیحائی کا کس کو شوق ہے اب
کہ مرہم کی بھی کس کو تاب ہے اب
اذیتوں کے تمام نشتر میری رگوں میں اتار کر وہ،اے خوشا سادہ دلی ٹوٹ کے فرماتے ہیں عشق
اور آزار کو امکان میں رکھتے ہی نہیں
چاہ ارمان سے کرتے ہیں کوارے شادیاے خوشا سادہ دلی ٹوٹ کے فرماتے ہیں عشق
اور آزار کو امکان میں رکھتے ہی نہیں
پھر خزاں آ رہی ہے گلشن پراذیتوں کے تمام نشتر میری رگوں میں اتار کر وہ،
بڑی محبت سے پوچھتا ہے تمہاری آنکھوں کو کیا ہوا ہے
ارے واہ واہ واہ اس پر نثری داد قبول کرو استاد محفل لوٹ لیچاہ ارمان سے کرتے ہیں کنوارے شادی
" اور آزار کو امکان میں رکھتے ہی نہیں"
اگر محبت سے پوچھ لیتا وہ میری آنکھوں کو کیا ہوا ہےاذیتوں کے تمام نشتر میری رگوں میں اتار کر وہ،
بڑی محبت سے پوچھتا ہے تمہاری آنکھوں کو کیا ہوا ہے