شعر و شاعر (اشعار اور خالق)

طارق شاہ

محفلین

فسُوں ہے، فسُوں ہے ، جسے عِشق کہئیے
جنُوں ہے، جنُوں ہے، جوانی نہیں ہے

محبّت ازل سے مُقدّر پڑی تھی !
یہ اُفتادِ غم ناگہانی نہیں ہے

جِگؔر مُرادآبادی
 

طارق شاہ

محفلین

فانؔی دُعائے مرگ کی تکرار کیا ضرُور
غافِل نہیں، کہ اُن سے تقاضہ کرے کوئی

شوکت علی خاں فانؔی بدایونی
 

طارق شاہ

محفلین

کِس کو ہر دَم ہے لہُو رونے کا ہِجراں میں دماغ
دِ ل کو، اِک ربط سا ہے دِیدۂ خُونبار کے ساتھ

مِیر تقی مِیؔر
 

طارق شاہ

محفلین

فِراقؔ انگڑائیاں لینے لگا شہر خموشاں بھی
خِرامِ ناز کے صدقے، قیامت ایسی ہوتی ہے

فِراقؔ گورکھپوری
 

طارق شاہ

محفلین

سُنا ہے جِنسِ دِل پر بِک گئی ہے دَولتِ کونین!
زہے وہ خاک، جِس کی قدر و قیمت ایسی ہوتی ہے

فِراقؔ گورکھپوری
 

طارق شاہ

محفلین

تمھاری ذات، مِری ہر خوشی میں حائل تھی
تمھارے ساتھ مِری رُوح تک بھی گھائل تھی

کسی نے سچ بھی کہا تو، کہاں یقین کِیا !
کہے تمھارے ہر اِک جُھوٹ سے یُوں قائل تھی

شفیق خلشؔ
 
آخری تدوین:
Top