شعر و شاعر (اشعار اور خالق)

طارق شاہ

محفلین

عجب ہیں وہ، جو دِل کی ناشکیبائی سے پِھرتے ہیں!
ہم اِس چشمِ حقیقت بِیں کی بینائی سے پِھرتے ہیں


بہادر شاہ ظفؔر
 

طارق شاہ

محفلین

دِلا، ہوتا ہے آشوبِ قیامت اُس جگہ برپا !
یہ خُوش قامت جہاں، انداز و رَعنائی سے پِھرتے ہیں


بہادر شاہ ظفؔر
 

طارق شاہ

محفلین

بہت بسیط ہے دشتِ جفا کی تنہائی
قریب و دُور کوئی آہُوئے وفا بھی نہیں

مجھے تو عہد کا آشوب کر گیا پتّھر
میں درد مند کہاں، درد آشنا بھی نہیں

عارف عبدالمتین


 

طارق شاہ

محفلین
اِلتجا

کہاں ہو، کہاں ہو،
نئی صُبح کی مہرباں نرم کِرنوں
مِرا جسم ، مجھ سے بغاوت پہ آمادہ ہے
کانپتی ہے مِری رُوح
آؤ بچاؤ
مجھے شب کے زِنداں سے باہر نکالو
مَیں دِن کے سمندر کی گہرائیاں ناپنا چاہتاہُوں !


شہریاؔر
 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین

آ ہی جاتا ہے بُرے وقت میں اپنوں کو خیال
کوئی ہوتا جو ہمارا بھی، تو پُرساں ہوتا

مولانا ابوالحسن ناطق گلاوٹھی
 

طارق شاہ

محفلین

وہ طبع یاس پروَر نے مجھے چشمِ عقِیدت دی!
کہ ،شامِ غم کی تاریکی کو بھی نُورِ سَحر جانا

پنڈت برج نرائن چکبست
 

طارق شاہ

محفلین

نہیں ہے اُن سے ہماری کوئی شناسائی
گلی میں شوقِ تجلّی میں آن بیٹھے ہیں

خُدا کرے، وہ حقِیقت میں ہم کو ہوں حاصِل
جنھیں، ہم اپناتصوّر میں مان بیٹھے ہیں

شفیق خلؔش
 
Top