شاعری ، اپنی پسند کی ،

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

سارا

محفلین
اپنے خلاف شہر کے اندھے ہجوم میں
دل کو بہت ملال تجھے دیکھ کر ہوا

یہ ہم ہی جانتے ہیں جدائی کے موڑ پر
اس دل کا جو بھی حال تجھے دیکھ کر ہوا۔۔
 

سارا

محفلین
سمندروں کے مسافر تھے دربدر رہتے
تمہاری آنکھ نہ ہوتی تو کدھر رہتے

زہے نصیب کہ تم سا ملا ہے دوست ہمیں
وگرنہ درد کی لذت سے بے خبر رہتے۔۔
 

حجاب

محفلین
بارشوں کا موسم ہے
روح کی فضاؤں میں
غم زدہ ہوائیں ہیں
بے سبب اداسی ہے
اس عجیب موسم میں
بےقرار راتوں کی
بےشمار باتیں ہیں
ان گنت فسانے ہیں
جو بہت خموشی سے
دل پہ سہتے پھرتے ہیں
اور یہ امرِ مجبوری
سب سے کہتے پھرتے ہیں
آج موسم بہت اچھا ہے
آج ہم بہت خوش ہیں۔۔۔۔۔
 

سارہ خان

محفلین
حجاب نے کہا:
بارشوں کا موسم ہے
روح کی فضاؤں میں
غم زدہ ہوائیں ہیں
بے سبب اداسی ہے
اس عجیب موسم میں
بےقرار راتوں کی
بےشمار باتیں ہیں
ان گنت فسانے ہیں
جو بہت خموشی سے
دل پہ سہتے پھرتے ہیں
اور یہ امرِ مجبوری
سب سے کہتے پھرتے ہیں
آج موسم بہت اچھا ہے
آج ہم بہت خوش ہیں۔۔۔۔۔
:great:
 

شمشاد

لائبریرین
تم یہ کیسے جدا ہو گئے
ہر طرف ہر جگہ ہو گئے

اپنا چہرہ نہ بدلا گیا
آئینے سے خفا ہو گئے

جانے والے گئے بھی کہاں
چاند سورج گھٹا ہو گئے

بے وفا تو نہ وہ تھے نہ ہم
یوں ہوا بس جدا ہو گئے

آدمی بننا آسان نہ تھا
شیخ جی خدا ہو گئے​
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
یہ رنگِ خوں ہے گلوں پر نکھار اگر ہے بھی
حنائے پائے خزاں ہے بہار اگر ہے بھی

یہ پیش خیمۂ بیدادِ تازہ ہو نہ کہیں
بدل رہی ہے ہوا سازگار اگر ہے بھی

لہو کی شمیں جلاؤ قدم بڑھاتے چلو
سروں پہ سایۂ شب ہائے تار اگر ہے ابھی

ابھی تو گرم ہے میخانہ جام کھنکاؤ
بلا سے سر پہ کسی کا ادھار اگر ہے بھی

حیاتِ درد کو آلودۂ نشاط نہ کر
یہ کاروبار کوئی کاروبار اگر ہے بھی

یہ امتیاز من و تو خدا کے بندوں سے
وہ آدمی نہیں طاعت گزار اگر ہے بھی

نہ پوچھ کیسی گزرتی ہے زندگی ناصر
بس ایک جبر ہے یہ اختیار اگر ہے بھی

(ناصرکاظمی)

والسلام
جاویداقبال
 

شمشاد

لائبریرین
دلوں کی ماندگی پے کیا تعجب
کہ سورج بھی ڈھلنا چاہتا ہے

نشاطِ درد بدلی ہے تو اب دل
ذرا پہلو بدلنا چاہتا ہے

(دو امجدوں کے درمیاں پھنسا ہوا اسلام)
 

شمشاد

لائبریرین
ٹھکراؤ یا اب کے پیار کرو میں نشے میں ہوں
جو چاہو میرے یار کرو میں نشے میں ہوں

اب بھی دلا رہا ہوں یقینِ وفا مگر
میرا نہ اعتبار کرو میں نشے میں ہوں
 

شمشاد

لائبریرین
تجھی سے ابتدا ہے تُو ہی اک دن انتہا ہو گا
صدائے ساز ہو گی اور نہ ساز بےصدا ہو گا

ہمیں معلوم ہے ہم سے سنو محشر میں کیا ہوگا
سب اس کو دیکھتے ہوں گے وہ ہم کو دیکھتا ہو گا

سرِ محشر ہم ایسے ایسوں کا اور کیا ہو گا
درِ جنت نہ وا ہو گا درِ رحمت تو وا ہو گا

جہنم ہو کہ جنت جو بھی ہو گا فیصلہ ہو گا
یہ کیا کم ہے ہمارا اور اس کا سامنا ہو گا

نگاہِ قہر پر ہی جان و دل کھوئے بیٹھے ہے
نگاہِ مہر عاشق پر اگر ہو گی تو کیا ہوگا

یہ مانا بھیج دے گا ہمکو محشر سے جہنم میں
مگر جو دل پہ گزرے گی وہ دل ہی جانتا ہو گا

سمجھتا کیا ہے تُو دیوانگانِ عشق کو زاہد
یہ ہو جائیں گے جس جانب اسی جانب خدا ہو گا

‘ جگر ‘ کا ہاتھ ہو گا حشر میں اور دامنِ حضرت
شکایت ہو کہ شکوہ جو بھی ہو گا برملا ہو گا
 

شمشاد

لائبریرین
تجھ کو آتا ہی نہیں چھپانے کا انداز ابھی
میرے سینے میں ہے لرزاں تیری آواز ابھی
 

شمشاد

لائبریرین
ہم کو یاں در در پھرایا یار نے
لامکاں میں گھر بنایا یار نے

آپ اپنے دیکھنے کے واسطے
ہم کو آئینہ بنایا یار نے
 

شمشاد

لائبریرین
ہمسفر بن کے ہم ساتھ ہیں آج بھی
پھر بھی ہے یہ سفر اجنبی اجنبی

راہ بھی اجنبی موڑ بھی اجنبی
جائیں ہم کدھر اجنبی اجنبی
 

سارا

محفلین
کتنی اجڑی ہوئی رت ہے نہ سکوں ہے نہ جنوں ہے
اتنی بے فیض ہوئی ہے باد بہاری کیسے

نہ کہیں نوحئہ جاں ہے نہ کہیں نغمئہ دل !
کچھ تو بولو کہ شبِ درد گزاری کیسے۔۔
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،


پھول خوشبو سے جدا ہے اب کے
یارو یہ کیسی ہوا ہے اب کے

دوست بچھڑے ہیں کئی بار مگر
یہ نیا داغ کھلا ہے اب کے

پتّیاں روتی ہیں سر پیٹتی ہیں
قتلِ گل عام ہوا ہے اب کے

شفقی ہو گئی دیوارِ خیال
کس قدر خون بہا ہے اب کے

منظرِ زخمِ وفا کس کو دکھائیں
شہر میں قحطِ وفا ہے اب کے

وہ تو پھر غیر تھے لیکن یارو
کام اپنوں سے پڑا ہے اب کے

کیا سنیں شورِ بہاراں ناصر
ہم نے کچھ اور سنا ہے اب کے

والسلام
جاویداقبال
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top