سمندر کتنا گہرا ہے، کنارے سوچتے ہوں گے

الف عین

لائبریرین
نوید اور آصف۔
یہاں اب تک ’کلک رنجہ‘ نہیں فرمایا آپ لوگوں نے؟
ہماری کچی پکی غزل بھی اپنی پہلی آمد کے بعد ہی احباب کی نظرِ ’کرم‘ کی منتظر ہے۔ اب تم لوگوں کی آمد کے بعد امید کی جا سکتی ہے کہ اس پر بھی رائے کا اظہار ہوگا۔
اور آپ لوگوں کی طرحی غزل۔۔؟؟؟
 

محمداحمد

لائبریرین
نوید بھائی

بہت شکریہ کہ آپ نے بھی اس ناچیز کی غزل پر نظرِ عنایت فرمائی۔

میں تقریباً ایک ڈیڑھ دن سے غیر حاضر تھا آج آیا تو دیکھا کہ اس لڑی پر بہار آئی ہوئی ہے۔ اچھا لگا۔ :)


سمندر کتنا گہرا ہے، کنارے سوچتے ہوں گے
زمیں سے آسماں تک استعارے سوچتے ہوں گے

(دونوں مصرعوں کا آپس میں کیا ربط ہے؟
دوسرے " استعارے سوچتے ہوں گے؟"؟؟؟
پہلا مصرعہ خوب ہے۔ دوسرے پر محنت اور توجہ کی ضرورت ہے بحوالہء مفہوم)

نوید بھائی جیسا کہ وارث بھائی اور آصف بھائی نے کہا ہے اس شعر میں سوچنے کا عمل کناروں تک ہی ہے اور کنارے سمندر کی گہرائی کو اپنے طور پر استعارت کی مدد سے سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ باقی تمام لوگ اسی مفہوم تک باآسانی پہنچ گئے ہیں۔


محبت سوچتی ہوگی کہ ہم دونوں جدا کیوں ہیں
مقدر درمیاں میں ہے ستارے سوچتے ہوں گے

(بہت خوب!!)

بہت شکریہ!

ستاروں کے تخیّل میں تو فُرقت دوریاں ہوں گی
مگر برعکس دریا کے کنارے سوچتے ہوں گے

("فرقت " اور "دوریاں" ہم معنی الفاظ ہیں۔ دوریاں کی جگہ کچھ اور لانا ہو گا۔ دوسرا مصرعہ اپنی جگہ بھرپور ہے)

اس شعر میں اسی خیال کی نفی کی گئی ہے کہ ضروری نہیں کہ "فرقت"(جدائی ) ہمیشہ" دوریوں" (فاصلوں) کے باعث ہی ہو اور اسی حوالے سے دریا کے کناروں کی مثال دی گئی ہے۔


مِری کج فہمیاں منزل سے دوری کا سبب ٹھہریں
اشارے تو اشارے ہیں، اشارے سوچتے ہوں گے

( پہلا مصرعہ عمدہ ہے۔ دوسرے پر نظرثانی کر لیں)

یہ مصرعہ شروع سے ہی زیرِ بحث اور نتیجتاً زیرِ غور ہے :)

نظارہ منظروں کی کئی پرتوں سے عبارت ہے
کوئی ہو دیدہء بینا نظارے سوچتے ہوں گے

(وارث بھائی! یہ " کئ" نے کام خراب نہیں کر دیا۔ کسی زحاف کا کمال تو نہیں؟؟؟ میرے خیال میں تو یہاں "کتنی" ہونا چاہئے تھا)

دوستوں کی بحث سے مجھے بھی اس بات کا ادراک ہو گیا کہ یہاں وزن کا معمولی سا فرق ہے۔ یہاں ساتھ ساتھ یہ بھی عرض کردوں کہ علمِ عروض پر میری دلچسپی اور دسترس بہت ہی معمولی نوعیت کی ہے لیکن موجودہ صورتِ حال سے ترغیب بہرحال ملتی ہے۔ :) بہت زیادہ فکر اس لیے نہیں ہے کہ یہاں بہت سے احباب ہیں جن سے سیکھنے کو ملتا رہتا ہے۔

اُنہیں معلوم کب تھا آگ جنگل ہی نگل لے گی
شرارے مثلِ جگنو ہیں، شرارے سوچتے ہوں گے

شعر اچھا تھا اگر سوچنے کا کام شراروں کی بجائے کسی اور چیز سے لیا جاتا[/
color]

اگر قافیے پر غور کریں تو آپ بھی جان لیں گے کہ ایسا کرنا دشوار ہے۔

جو پسپا ہو کے لوٹی ہیں وہ لہریں پھر سے آئیں گی
سمندر سے جڑے سوکھے کنارے سوچتے ہوں گے

اچھا شعر ہے، بشرطیکہ لفظ " جڑے" نکال دیا جائے۔ سمندر کے کنارے یا سمندر سے جڑے ہوئے کنارے؟؟؟

اس سلسلے میں سوچا جا سکتا ہے۔



نوید بھائی ایک بار پھر شکریہ ادا کرنا چاہوں گا کہ آپ نے اس غزل کو اپنی بھرپور توجہ سے نوازا اور مختلف معاملات میں رہنمائی فرمائی۔

امید ہے آئیند بھی اس طرح حوصلہ افزائی فرماتے رہیں گے۔


مخلص

محمد احمد
 

محمداحمد

لائبریرین
نوید صاحب۔بہت خوب آپ نے تفصیلی بحث فرمائی۔ آپ کی رائے سے اتفاق ہے اور کچھ نکات کی طرف تو میں پہلے بھی اشارہ کر چکا ہوں لیکن پہلے شاعر سے پوچھ لینا چاہیے کہ وہ اس طرح کی تنقید یا بحث کے متحمل بھی ہیں یا نہیں۔

آصف صاحب،

میں یہ بات پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ آپ (سب ) کی رائے میرے لیے بے حد اہم ہے اور غزل کو پیش کرنے کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ اُس پر بات کی جائے ۔ آپ کی تسئلی کے لیے میں وہ حوالہ پھر سے نیچے درج کر رہا ہوں۔ یقیناً سیکھنے سکھانے کے یہی بہترین طریقہ ہے اور جب یہاں صاحبِ علم اور صاحبِ بصیرت دونوں طرح کے لوگ موجود ہیں تو اس سرگرمی میں شمولیت میرا اعزاز ہے چاہے اُس کے لیے تختہ ء مشق میری اپنی تخلیق ہی کیوں نہ ہو۔


آصف شفیع صاحب

بلاشبہ شعرگوئی کی غرض و غایت یہی ہوتی ہے کہ شاعر اپنے ذہن میں جنم لینے والے خیالات اور جمالیاتی پیکر کا حتی الوسع ابلاغ اپنے قاری تک کرسکے۔ اس غزل میں میں نے اپنی سی کوشش کی ہے اب میں مفاہیم کے ابلاغ میں کس حد تک کامیاب رہا ہوں اس کا فیصلہ تو آپ لوگ ہی کر سکتے ہیں اور آپ کی رائے میرے لیے بے حد اہم ہے جو یقیناً بہتری کا سبب بھی بنے گی۔ انشاء اللہ
 

محمداحمد

لائبریرین
آصف صاحب یہ غزل بحر ہزج مثمن سالم میں ہے (مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن)۔ اب مذکورہ شعر کو دیکھتے ہیں:

نظارہ منظروں کی کئی پرتوں سے عبارت ہے
کوئی ہو دیدہء بینا نظارے سوچتے ہوں گے

نظارہ من - مفاعیلن
ظرو کی کَ - (مفاعیل) جب کہ مفاعیلن چاہیئے
ی پرتو سے - مفاعیلن
عبارت ہے - مفاعیلن

کُ ئی ہو دی - مفاعیلن
دَ ء بینا - مفاعیلن
نظارے سو - مفاعیلن
چ تے ہو گے - مفاعیلن

'کئی' کا وزن آپ نے درست لکھا کہ 'فعو' جیسے میر کی اس غزل میں

گرم ہیں شور سے تجھ حسن کے بازار کئی
رشک سے جلتے ہیں یوسف کے خریدار کئی

لیکن یہاں بحر کو 'فعو' درکار نہیں ہے بلکہ 'فعل' درکار ہے، اسی لیئے شاید نوید صاحب نے لکھا تھا کہ 'کئی' کو اگر 'کتنی' کر دیا جائے تو وزن پورا ہو جائے گا۔

بہت شکریہ وارث بھائی کے آپ نے تقطیع کرکے اس طرف نشاندہی فرمائی۔ :hatoff:

رہنمائی کے لیے ممنون ہوں۔
 

مغزل

محفلین
خوش رہو احمد ۔۔ بہت اعلی غزل ہے ۔۔
اور بڑے فلسفیانہ انداز میں خوب سوچ سمجھ کر لکھی گئی ہے۔
اور ردیف میں خوب غچہ دیا ہے ۔۔ ہممم مزا آگیا ۔۔ بڑی استادانہ غزل کہی ہے۔
ایک ایک حرف نگینہ کی طرح جڑا ہوا ہے معنویت میں ایک غیر متزلزل کیفت کا چسکارہ
بھی بھرا ہے ۔۔ ناقدین کی رائے اور آپ کے مدافعانہ جوابات بھی خوب ہیں۔۔۔
داخلی کیفیات کو خارجی تجسیم کے سانچے میں ایک سفید رنگ
میں سات رنگوں کی دھنک کی حیثیت سے پیش کرنےکا عمل
لائقِ تحسین ہے۔۔ سدا سلامت رہیئے اور میری دعا ہے:
اللہ کرے زورِ قلم ، مشقِ سخن تیز۔
والسلام
آپ کا ’’ مداح ‘‘​
 

محمد وارث

لائبریرین
مغل صاحب مجھے بھی آپ کی رائے سے اتفاق ہے!

اصول کی بات تو یہ ہے کہ احمد صاحب کی غزل کم از کم 'سوچنے' پر تو مجبور کرتی ہے، اس میں خیال آفرینی ہے، اور اس غزل کی تخلیق اور تخلیق کے عمل کے دوران شاعر کی جو حالتِ قلبی رہی ہوگی وہ میں کسی حد تک سمجھ سکتا ہوں۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ احمد صاحب نے اس میں کچھ 'مختلف' اور خیال پیش کرنے کی کوشش کی ہے، بقولِ غالب شاعری قافیہ پیمائی کا نام نہیں ہے بلکہ خیال آفرینی کا نام ہے اور احمد صاحب کی غزل اسی مقصد کے تحت لکھی گئی ہے۔

وگرنہ بہت آسان ہے کہ ہمارے عہد کے چھائے ہوئے 'شاہ بادشاہوں' کو فالو کر کے معاملہ بندی کردی جائے اور کچھ ہجر، کچھ فراق، کچھ وصال، کچھ شام، کچھ چاند، کچھ پیڑ، کچھ کنگن، کچھ چوڑیاں، کچھ بندے ڈال کر 'بارہ مصالحوں' کی چٹ پٹی غزل تیار کر کے بیچ چوراہے کے رکھ دی جائے جس پر 'مکھیاں' بھنبھناتی رہیں!

اسکا یہ مطلب نہیں ہے کہ رومانوی اشعار کچھ کم حیثیت رکھتے ہیں بلکہ انکی اپنی حیثیت مسلم ہے، اور ہر شاعر کے ہاں ہیں، احمد صاحب کا اسی غزل کا شعر دیکھیئے کیا خوبصورت بات ہے:

محبت سوچتی ہوگی کہ ہم دونوں جدا کیوں ہیں
مقدر درمیاں میں ہے ستارے سوچتے ہوں گے

ایک روایتی بات کو احمد صاحب، ستاروں کے سوچنے تک لے گئے ہیں اور کیا خوبصورت شعر تخلیق ہوا ہے۔

پھر قافیہ اور ردیف کو منتخب کرنا ہی گویا شاعر نے اپنے لیئے ایک 'چیلنج' قبول کیا ہے اور اسکا ظہور جاندار مطلع ہے:

سمندر کتنا گہرا ہے، کنارے سوچتے ہوں گے
زمیں سے آسماں تک استعارے سوچتے ہوں گے

سَبُک سارانِ ساحل اور قعرِ دریا کے شناوروں کی حالت بھلا ایک سی کیسے ہو سکتی ہے، اس موضوع پر بہت لکھا گیا ہے لیکن اس تمثیل کو سمندر کی گہرائی اور کناروں کی سوچ میں بدل کر لکھنا گویا اپنی 'نئی صبح و شام' پیدا کرنے والی بات ہے۔

نظارہ منظروں کی کئی پرتوں سے عبارت ہے
کوئی ہو دیدہء بینا نظارے سوچتے ہوں گے

قطع نظر 'کئی' کے، اپنی جگہ پر یہ ایک خوبصورت شعر ہے، اس شعر میں ایک آفاقی سچائی بیان ہوئی ہے، مجھے اس شعر میں تلمیح کا مزہ آیا اور حدیثِ قدسی یاد آ گئی جسکا مفہوم کچھ یوں ہے کہ میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا اور چاہا تھا کہ پہچانا جاؤں سو تخلیق کی۔ یہ شاعر کا اعجاز ہے کہ اس نے ایک خوبصورت خیال کو نظارے اور دیدۂ بینا کی تمثیل میں بیان کر کے ایک منفرد شعر تخلیق کیا۔

مجموعی طور پر یہ ایک خوبصورت غزل ہے، اور احمد صاحب اس غزل پر داد کے مستحق ہیں۔ بہتری کی گنجائش تو ہر کام و کلام میں ہے اور رہے گی سوائے کلامِ ربانی کے، اور خیال آفرینی میں بعض اوقات تغزل کا دامن بھی چھوڑنا پڑتا ہے لیکن میرے نزدیک خیال آفرینی کی ایک غزل 'سطحی رومانویت' میں کہے ہوئے دیوان ھا سے بدرجہ اتم اولٰی و اعلٰی ہوتی ہے!
 

محمداحمد

لائبریرین
خوش رہو احمد ۔۔ بہت اعلی غزل ہے ۔۔
اور بڑے فلسفیانہ انداز میں خوب سوچ سمجھ کر لکھی گئی ہے۔
اور ردیف میں خوب غچہ دیا ہے ۔۔ ہممم مزا آگیا ۔۔ بڑی استادانہ غزل کہی ہے۔
ایک ایک حرف نگینہ کی طرح جڑا ہوا ہے معنویت میں ایک غیر متزلزل کیفت کا چسکارہ
بھی بھرا ہے ۔۔ ناقدین کی رائے اور آپ کے مدافعانہ جوابات بھی خوب ہیں۔۔۔
داخلی کیفیات کو خارجی تجسیم کے سانچے میں ایک سفید رنگ
میں سات رنگوں کی دھنک کی حیثیت سے پیش کرنےکا عمل
لائقِ تحسین ہے۔۔ سدا سلامت رہیئے اور میری دعا ہے:
اللہ کرے زورِ قلم ، مشقِ سخن تیز۔
والسلام
آپ کا ’’ مداح ‘‘​

مغل بھائی

بہت شکریہ! آپ کی محبت اور حوصلہ افزائی میرے شعری سفر میں مشعلِ راہ سے کم نہیں ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
مغل صاحب مجھے بھی آپ کی رائے سے اتفاق ہے!

اصول کی بات تو یہ ہے کہ احمد صاحب کی غزل کم از کم 'سوچنے' پر تو مجبور کرتی ہے، اس میں خیال آفرینی ہے، اور اس غزل کی تخلیق اور تخلیق کے عمل کے دوران شاعر کی جو حالتِ قلبی رہی ہوگی وہ میں کسی حد تک سمجھ سکتا ہوں۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ احمد صاحب نے اس میں کچھ 'مختلف' اور خیال پیش کرنے کی کوشش کی ہے، بقولِ غالب شاعری قافیہ پیمائی کا نام نہیں ہے بلکہ خیال آفرینی کا نام ہے اور احمد صاحب کی غزل اسی مقصد کے تحت لکھی گئی ہے۔

وگرنہ بہت آسان ہے کہ ہمارے عہد کے چھائے ہوئے 'شاہ بادشاہوں' کو فالو کر کے معاملہ بندی کردی جائے اور کچھ ہجر، کچھ فراق، کچھ وصال، کچھ شام، کچھ چاند، کچھ پیڑ، کچھ کنگن، کچھ چوڑیاں، کچھ بندے ڈال کر 'بارہ مصالحوں' کی چٹ پٹی غزل تیار کر کے بیچ چوراہے کے رکھ دی جائے جس پر 'مکھیاں' بھنبھناتی رہیں!

اسکا یہ مطلب نہیں ہے کہ رومانوی اشعار کچھ کم حیثیت رکھتے ہیں بلکہ انکی اپنی حیثیت مسلم ہے، اور ہر شاعر کے ہاں ہیں، احمد صاحب کا اسی غزل کا شعر دیکھیئے کیا خوبصورت بات ہے:

محبت سوچتی ہوگی کہ ہم دونوں جدا کیوں ہیں
مقدر درمیاں میں ہے ستارے سوچتے ہوں گے

ایک روایتی بات کو احمد صاحب، ستاروں کے سوچنے تک لے گئے ہیں اور کیا خوبصورت شعر تخلیق ہوا ہے۔

پھر قافیہ اور ردیف کو منتخب کرنا ہی گویا شاعر نے اپنے لیئے ایک 'چیلنج' قبول کیا ہے اور اسکا ظہور جاندار مطلع ہے:

سمندر کتنا گہرا ہے، کنارے سوچتے ہوں گے
زمیں سے آسماں تک استعارے سوچتے ہوں گے

سَبُک سارانِ ساحل اور قعرِ دریا کے شناوروں کی حالت بھلا ایک سی کیسے ہو سکتی ہے، اس موضوع پر بہت لکھا گیا ہے لیکن اس تمثیل کو سمندر کی گہرائی اور کناروں کی سوچ میں بدل کر لکھنا گویا اپنی 'نئی صبح و شام' پیدا کرنے والی بات ہے۔

نظارہ منظروں کی کئی پرتوں سے عبارت ہے
کوئی ہو دیدہء بینا نظارے سوچتے ہوں گے

قطع نظر 'کئی' کے، اپنی جگہ پر یہ ایک خوبصورت شعر ہے، اس شعر میں ایک آفاقی سچائی بیان ہوئی ہے، مجھے اس شعر میں تلمیح کا مزہ آیا اور حدیثِ قدسی یاد آ گئی جسکا مفہوم کچھ یوں ہے کہ میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا اور چاہا تھا کہ پہچانا جاؤں سو تخلیق کی۔ یہ شاعر کا اعجاز ہے کہ اس نے ایک خوبصورت خیال کو نظارے اور دیدۂ بینا کی تمثیل میں بیان کر کے ایک منفرد شعر تخلیق کیا۔

مجموعی طور پر یہ ایک خوبصورت غزل ہے، اور احمد صاحب اس غزل پر داد کے مستحق ہیں۔ بہتری کی گنجائش تو ہر کام و کلام میں ہے اور رہے گی سوائے کلامِ ربانی کے، اور خیال آفرینی میں بعض اوقات تغزل کا دامن بھی چھوڑنا پڑتا ہے لیکن میرے نزدیک خیال آفرینی کی ایک غزل 'سطحی رومانویت' میں کہے ہوئے دیوان ھا سے بدرجہ اتم اولٰی و اعلٰی ہوتی ہے!

وارث بھائی

بہت شکریہ کہ آپ کی تحریر میرے لیے بے حد حوصلہ افزا ہے اور مجھے مزید کچھ نہ کچھ کرنے کی تحریک فراہم کرتی ہے۔ آپ کی محبت اور توجہ کے لیے ممنون و متشکر ہوں۔

 
سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں

چلو آج ہم بھی دیکھیں کہ”وہ”کدھر دیکھتے ہیں

نہ کی اُس سے محبت اور نہ ہے اسکا مجھے شعور

ہم تو بس یونہی اُسے بچپن سے دیکھتے ہیں

گُزرتے ہیں روز اُس کی گلی سے یہ سوچتے ہوئے

شاہدٗ، چلو وہ نہیں اُس کے در و دیوار تو دیکھتے ہیں
 

عرفان سعید

محفلین
سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں

چلو آج ہم بھی دیکھیں کہ”وہ”کدھر دیکھتے ہیں

نہ کی اُس سے محبت اور نہ ہے اسکا مجھے شعور

ہم تو بس یونہی اُسے بچپن سے دیکھتے ہیں

گُزرتے ہیں روز اُس کی گلی سے یہ سوچتے ہوئے

شاہدٗ، چلو وہ نہیں اُس کے در و دیوار تو دیکھتے ہیں
ان اشعار کا محل اس لڑی میں کچھ سمجھ نہیں آیا۔
 
Top