سمندر کتنا گہرا ہے، کنارے سوچتے ہوں گے

الف عین

لائبریرین
فہیم۔ آصف سے مطلب آصف شفیع تھا جنہوں نے تفصیلی رائے دی تھی، اتفاق سے اشاروں کی طرف پہلے فرخ اشارے کر چکے تھے،لیکن میری مراد آصف کے سارے کومینٹس سے تھی۔ اشاروں والی بات اضافی تھی میری پوسٹ میں، محض وہی بات نہیں کہنا چاہ رہا تھا۔
 

محمداحمد

لائبریرین
محد احمد صاحب، غزل خوب ہے۔ لیکن بہتری کی گنجائش تو ہمیشہ رہتی ہی ہے۔ مطلع خوب ہے۔ دوسرے شعر میں درمیاں میں کے بجائے درمیاں ہونا چاہیے تھا۔ جیسے اس شعر میں دیکھیں:
محبت تیرا میرا مسئلہ ہے
زمانہ درمیاں کیوں آگیا ہے
تیسرا شعر مناسب ہے۔ چوتھے شعر میں ایسے لگ رہا ہے ( اشارے تو اشارے ہیں، اشارے سوچتے ہوں گے) جیسے اشاروں کا کام ہی سوچنا ہے۔ حالانکہ سوچنے سے اشاروں کا کوئی تعلق نہیں۔ اس غزل کا مسئلہ یہ ہے کی آپ نے ایک طویل ردیف منتخب کر لی ہے جسے نبھانا اکثر مشکل ہوتا ہے۔ اسی لیےردیف میں سوچنے کا عمل کہیں کہیں واضح نہیں ہو پایا۔چوتھا شعر رواں ہے( اگر نظارے سوچتے ہوں تو)۔ چھٹے شعر مٰیں آپ شاید یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ اگر شراروں کو پتہ ہوتا کہ آگ پورے جنگل کو نگل لے گی تو وہ یہ عمل نہ کرتے کیونکہ وہ تو جگنوؤں کی مانند ہیں جو امن کے سفیر ہوتے ہیں۔ لیکن یہ کون کہتا ہے کہ شرارے جگنوؤں کی مانند ہوتے ہیں اور کسی کو نقصان نہیں پہنچاتے۔ آخری شعر سے پہلے آپ مطلع کا پہلا مصرع دیکھیں۔" سمندر کتنا گہرا ہے، کنارے سوچتے ہوں گے" اب یہ مصرع تلازمے کے اعتبار سے مکمل ہے۔ لیکن آخری شعر میں آپ کہتے ہیں " سمندر سے جڑے سوکھے کنارے سوچتے ہوں گے" اب سمندر کے ساتھ کنارے کا جڑنا اس تلازمے کا حصہ نہیں کیونکہ سمند اور کنارہ بذاتِ خود لازم و ملزوم ہیں نہ کہ کنارے کو سمندر سےجوڑا جائے۔ مجموعی طور پر غزل اچھی ہے اور بحر پر آپ کی گرفت مضبوظ نظر آرہی ہے۔

آصف شفیع صاحب

مجھے خوشی ہوئی کہ آپ نے میری غزل کو اپنی بھرپور توجہ سے نوازا۔ یقیاً بہتری کی گنجائش تو ہمیشہ رہتی ہے۔ مجھے آپ کی بات سے اتفاق ہے کہ غزل کی ردیف کچھ بڑی ہے اور خصوصاً سوچنے کے عمل کی ردیف میں موجودگی ہر شعر کے مضامین اور مضامین کی ادائیگی کو دشوار بنا دیا ہے جس کے باعث کچھ اشعار بھرپور تاثر نہیں دے پائے ہیں۔ اس غزل میں سوچنے کا عمل حقیقی نہیں بلکہ تجریدی ہے شاید یہی وجہ ہے کہ ان اشعار کو حقیقی معنوں میں نہیں دیکھا جا سکتا بلکہ اس غزل سے لطف اندوز ہونے کے لیے اشہبِ تخیل کو مہمیز لگانا ضروری ہے۔ مثلاً یہ کہ اگر کنارے ، نظارے وغیرہ سوچ سکتے تو وہ کیا اور کیسے سوچتے۔

شراروں والے شعر میں شراروں کی اپنی ظاہری مماثلت کے اعتبار سے خوش گمانی کو رقم کیا گیا ہے عین ممکن ہے کہ مضمون کا ابلاغ بھرپور طریقے سے نہیں ہو سکا ہو۔

اسی طرح " سمندر سے جڑے سوکھے کنارے سوچتے ہوں گے" والے مصرعے میں میرا مطمحِ نظر صرف کنارے نہیں ہیں بلکہ وہ کنارے یا کناروں کا وہ حصہ ہے جن تک عام حالات میں لہروں کی رسائی نہیں ہو پاتی یا وہ دور ہونے کے باعث نسبتاٍ خشک ہوتے ہیں اور ہر لہر کے آنے اور لوٹنے کے عمل میں اُمید اور نا اُمیدی کی کیفیت سے گزرتے ہیں۔

بہر کیف، آپ کی بھرپور توجہ اور عنایت کے لیے ممنون ہوں۔ اُمید ہے آئیندہ بھی حوصلہ افزائی اور رہنمائی فرماتے رہیں گے۔

مخلص
محمد احمد
 

آصف شفیع

محفلین
شکریہ محمد احمد صاحب۔ میرا کہنے کا مطلب یہ ہے آپ کے ذہن میں جو اشعار کے مفہوم ہیں وہ اگر عام قاری پر بھی واضح ہو جائیں تو پھر ابلاغ کا عمل مکمل ہو جاتا ہے۔ اگر کہیں ابہام ہو تو پھر نظرِ ثانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کا نقطہ نظر واضح ہے۔ Then Well and Good.
 

محسن حجازی

محفلین
احمد بھیا!
بھئی کیا خوب سوچتی ہوئی غزل ہےکہ ہر شعر سوچنے پر مجبور و مشغول و مامور ہے۔
مغل صاحب کی برابری تو کسی طور ممکن نہیں، تاہم پھر بھی رسیدقبول فرمائیے کہ وجہ رخصت بجلی نہیں بلکہ عجلت ہے۔
تفصیلی پھر کبھی سہی تاہم:

سمندر کتنا گہرا ہے، کنارے سوچتے ہوں گے
زمیں سے آسماں تک استعارے سوچتے ہوں گے

محبت سوچتی ہوگی کہ ہم دونوں جدا کیوں ہیں
مقدر درمیاں میں ہے ستارے سوچتے ہوں گے

مطلع اور پھر دوسرے شعر میں کیا خوب تسلسل ہے اور وجہ فراق کا خوب بیان ہے یوں قدرت کو ملوث کیا ہے آپ نے سازش میں کہ کیا کہنے۔

نظارہ منظروں کی کئی پرتوں سے عبارت ہے
کوئی ہو دیدہء بینا نظارے سوچتے ہوں گے


گیا کہنے۔۔۔ نظاروں کا سوچنا بھی بجا ہے۔۔۔ ہر گرتا پتہ بھی اپنے اندر سبق رکھتا ہے اور شاید یہ نظارے یہی سوچتے ہوں گے جو آپ نے شعر میں بیان فرمایا۔

جو پسپا ہو کے لوٹی ہیں وہ لہریں پھر سے آئیں گی
سمندر سے جڑے سوکھے کنارے سوچتے ہوں گے


فلسفہ حیات ہی یہی ہے۔۔۔ اسی لیے تو ایک سانس کے بعد دوسرا سانس لیتے ہیں۔۔۔ شاید آج نہیں تو کل۔۔۔ کبھی تو مقدر ہوگی سحر بھی ۔۔۔۔۔ کبھی تو ٹلے گا یہ قہر بھی۔۔۔
اور جو سوکھے کنارے یہ نہیں سوچتے۔۔۔ شنید ہے خودکشی کر لیتے ہیں۔۔۔

برطور، یہ شاید کسی غزل پر ہماراپہلا سنجیدہ تبصرہ ہے، سخن فہمی کے دعویدار نہیں تاہم امید ہے ہم سے تہی دامن آدمی کے کہے کا برا نہ مانیں گے۔
 

زھرا علوی

محفلین
محسن آپ کے مراسلے کی آخری لائن پڑھنے تک میں حیرت میں غوطہ زن تھی کہ واقعی یہ محسن کا مراسلہ ہے یا میری نظر کا دھوکہ۔۔۔۔اتنا سنجیدہ تبصرہ۔۔۔۔:):)
آخری لائن پڑھ کر یقین ہو گیا کہ واقعی آپ سنجیدہ تبصرہ فرما رہے ہیں۔۔۔۔ویسے بہت خوب وضاحت کی آپ نے۔۔۔:hatoff:

بہت خوبصورت غزل ہے اور میرے خیال میں تو شاعر کے خیالات کی پھرپور نمائندگی بھی کر رہی ہے۔۔۔۔ویسے مجھے بھی ہر ہر چیز ایسے ہی کسی نا کسی سوچ میں مشغول نظر آتی ہے۔۔۔۔:)
 

محمداحمد

لائبریرین
شکریہ محمد احمد صاحب۔ میرا کہنے کا مطلب یہ ہے آپ کے ذہن میں جو اشعار کے مفہوم ہیں وہ اگر عام قاری پر بھی واضح ہو جائیں تو پھر ابلاغ کا عمل مکمل ہو جاتا ہے۔ اگر کہیں ابہام ہو تو پھر نظرِ ثانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کا نقطہ نظر واضح ہے۔ Then Well And Good.

آصف شفیع صاحب

بلاشبہ شعرگوئی کی غرض و غایت یہی ہوتی ہے کہ شاعر اپنے ذہن میں جنم لینے والے خیالات اور جمالیاتی پیکر کا حتی الوسع ابلاغ اپنے قاری تک کرسکے۔ اس غزل میں میں نے اپنی سی کوشش کی ہے اب میں مفاہیم کے ابلاغ میں کس حد تک کامیاب رہا ہوں اس کا فیصلہ تو آپ لوگ ہی کر سکتے ہیں اور آپ کی رائے میرے لیے بے حد اہم ہے جو یقیناً بہتری کا سبب بھی بنے گی۔ انشاء اللہ
 

مغزل

محفلین

مغل بھائی!
آداب :hatoff:

آپ کو اجازت کی کیا ضرورت ہے بھلا بس شروع :beating: ہو جائیے۔

رسیدیں تو آپ کی اس پہلے بھی ملتی رہیں ہیں۔ آپ جب بھی کسی کو رسید ارسال کرتے ہیں
تو مجھے بے ساختہ یہ شعر یاد آتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ :

بنتے ہیں تیرے چار سو فی الحال چار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے اُمیدِ بہار رکھ :grin:


دعا ہے کہ KESC والے آپ کے اور ہمارے حال پر رحم کریں۔ :roll:


میرے دوست مجھے تاخیر ہوگئی ۔۔
اور میرے لیے یہ سعادت بختی ہے کہ اس عرصے میں آصف شیخ اور آپ کے درمیان مکالمہ
نےمیرے ذہن میں اٹھنے والے سوالات اور جوابات کاوہ تشفی بھرکم منھ توڑ جواب دیا ہے۔۔
کہ مزا آگیا۔۔باقی اب آپ سے ملاقات پر ہی گفتگو ہوگی ۔۔ گو کہ ضرورت نہیں مگر آصف
شیخ صاحب کی اجازت ہو تو کچھ میں بھی عرض کرنا چاہوں گا۔ :grin1:
والسلام مع الکرام
م۔م۔مغل
 

محمداحمد

لائبریرین
غزل واقعی اچھی ہے احمد صاحب۔ آصف کی بات بھی درست ہے۔ اشاروں والا شعر مجھے بھی کچھ جما نہیں۔

اعجاز عبید صاحب!

غزل آپ کو کسی قابل نظر آئی یہ میری خوش بختی ہے۔ آپ کی رائے میرے لیے بڑی اہمیت کی حامل ہے امید ہے آئیندہ بھی آپ کی رہنمائی حاصل رہے گی۔
 

محمداحمد

لائبریرین
عجب لوگوں سے پالا پڑ گیا ہے دوستو میرا
یہ سب کچھ محمداحمد، بچارے سوچتے ہوں گے

واہ جی واہ..............کیا ہم بھی شاعر تو نہیں ہوگئے...؟ کوئی بتلائے ہمیں بھی؟

فاروقی بھائی

ہمارا پالا تو آپ سمیت سب ہی اچھے لوگوں سے پڑا ہے بس کچھ ہم سے ہی تقصیر ہوگئی ورنہ ہمیں خود بھی سوچنا چاہیے تھا کہ "اشاروں" پر تو اعتراض ہوتا ہی ہے :) وہ بھی ایک چھوڑ تین تین "اشارے"۔ :grin: سو یہ ہی وجہ ہے کہ

اشاروں ہی اشاروں میں اشارہ کردیا سب نے
کہ صاحب ان اشاروں سے بچا جائے تو بہتر ہے :rolleyes:


تو پھر ہم بھی کہے دیتے ہیں کہ:

سنو یارو! کہ تائب ہوگئے ہم بھی اشاروں سے
عقلمندوں کو یوں بھی اک اشارہ کافی ہوتا ہے :hatoff:


کیا خیال ہے آپ کا؟ :idea:

ہاں ان سب میں ہم یہ تو بھول ہی گئے کہ ہمیں آپ کو شاعر بننے کی مبارکباد دینی تھی۔ سو ہماری :congrats: باد قبول کیجے اور ہمیشہ خوش رہیے! :chill:
 

جیا راؤ

محفلین
محبت سوچتی ہوگی کہ ہم دونوں جدا کیوں ہیں
مقدر درمیاں میں ہے ستارے سوچتے ہوں گے

ستاروں کے تخیّل میں تو فُرقت دوریاں ہوں گی
مگر برعکس دریا کے کنارے سوچتے ہوں گے

واہ۔۔۔ بہت خوبصورت غزل ہے احمد صاحب !
یہ دو اشعار تو بہت ہی اچھے لگے۔۔
 

محمداحمد

لائبریرین
احمد بھیا!
بھئی کیا خوب سوچتی ہوئی غزل ہےکہ ہر شعر سوچنے پر مجبور و مشغول و مامور ہے۔
مغل صاحب کی برابری تو کسی طور ممکن نہیں، تاہم پھر بھی رسیدقبول فرمائیے کہ وجہ رخصت بجلی نہیں بلکہ عجلت ہے۔
تفصیلی پھر کبھی سہی تاہم:

سمندر کتنا گہرا ہے، کنارے سوچتے ہوں گے
زمیں سے آسماں تک استعارے سوچتے ہوں گے

محبت سوچتی ہوگی کہ ہم دونوں جدا کیوں ہیں
مقدر درمیاں میں ہے ستارے سوچتے ہوں گے

مطلع اور پھر دوسرے شعر میں کیا خوب تسلسل ہے اور وجہ فراق کا خوب بیان ہے یوں قدرت کو ملوث کیا ہے آپ نے سازش میں کہ کیا کہنے۔

نظارہ منظروں کی کئی پرتوں سے عبارت ہے
کوئی ہو دیدہء بینا نظارے سوچتے ہوں گے


گیا کہنے۔۔۔ نظاروں کا سوچنا بھی بجا ہے۔۔۔ ہر گرتا پتہ بھی اپنے اندر سبق رکھتا ہے اور شاید یہ نظارے یہی سوچتے ہوں گے جو آپ نے شعر میں بیان فرمایا۔

جو پسپا ہو کے لوٹی ہیں وہ لہریں پھر سے آئیں گی
سمندر سے جڑے سوکھے کنارے سوچتے ہوں گے


فلسفہ حیات ہی یہی ہے۔۔۔ اسی لیے تو ایک سانس کے بعد دوسرا سانس لیتے ہیں۔۔۔ شاید آج نہیں تو کل۔۔۔ کبھی تو مقدر ہوگی سحر بھی ۔۔۔۔۔ کبھی تو ٹلے گا یہ قہر بھی۔۔۔
اور جو سوکھے کنارے یہ نہیں سوچتے۔۔۔ شنید ہے خودکشی کر لیتے ہیں۔۔۔

برطور، یہ شاید کسی غزل پر ہماراپہلا سنجیدہ تبصرہ ہے، سخن فہمی کے دعویدار نہیں تاہم امید ہے ہم سے تہی دامن آدمی کے کہے کا برا نہ مانیں گے۔

محسن بھائی

یہ بلا شبہ آپ کا حسنِ ذوق ہے کہ آپ کو اس عاجز کی ادنٰی کاوش کسی قابل لگی۔ آپ اور سنجیدہ تبصرہ! اچھا بھی لگا اور نہیں بھی۔ اچھا اس لیے لگا کہ آپ نے اپنی رائے دی جو میرے لیے حوصلہ افزا ہے اور بُرا اس لیے لگا کہ آپ اپنے اصلی رنگ میں ہی اچھے لگتے ہیں۔ سو آئندہ ملا جُلا تبصرہ کردیجے گا تاکہ ہمیں اندازہ ہی نہ ہو سکے۔ :grin:

آپ کی توجہ اور محبت کے لئے ممنوں ہوں۔

خوش رہیے،

مخلص
محمد احمد
 

محمداحمد

لائبریرین
میرے دوست مجھے تاخیر ہوگئی ۔۔
اور میرے لیے یہ سعادت بختی ہے کہ اس عرصے میں آصف شیخ اور آپ کے درمیان مکالمہ
نےمیرے ذہن میں اٹھنے والے سوالات اور جوابات کاوہ تشفی بھرکم منھ توڑ جواب دیا ہے۔۔
کہ مزا آگیا۔۔باقی اب آپ سے ملاقات پر ہی گفتگو ہوگی ۔۔ گو کہ ضرورت نہیں مگر آصف
شیخ صاحب کی اجازت ہو تو کچھ میں بھی عرض کرنا چاہوں گا۔ :grin1:
والسلام مع الکرام
م۔م۔مغل

مغل بھائی

دیر سویر آپ کی تشفی ہو گئی مجھے اطمینان ہو گیا۔ اُمید ہے آئیندہ بھی کرم فرماتے رہیں گے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
اشاروں ہی اشاروں میں، گلے پڑتے ہیں دکھ کتنے
تبھی تو سارے روتے ہیں، کنوارے سوچتے ہونگے

;)

وارث بھائی

بس ایک یہی قافیہ رہ گیا تھا جو دوران غزل کئی مرتبہ مدِ مقابل آکر جم گیا اور بڑی مشکل سے جان چھڑائی ۔ ہمیں نہیں پتہ تھا کہ اس سے ہماری جان نہیں چھوٹے گی۔ :)
 

مغزل

محفلین

مغل بھائی

دیر سویر آپ کی تشفی ہو گئی مجھے اطمینان ہو گیا۔ اُمید ہے آئیندہ بھی کرم فرماتے رہیں گے۔

یہ کہیئے کہ ملاقات کا شرف کب عطا کر رہے ہیں۔۔
میں کئی ایک بار آپ کے دولت کدے کی زیارت کرچکا ہوں۔
مگر ہمت نہیں ہوئی کہ دستک دی جائے۔۔
:grin:
 

محمداحمد

لائبریرین
یہ کہیئے کہ ملاقات کا شرف کب عطا کر رہے ہیں۔۔
میں کئی ایک بار آپ کے دولت کدے کی زیارت کرچکا ہوں۔
مگر ہمت نہیں ہوئی کہ دستک دی جائے۔۔
:grin:

آج ہی مل لیتے ہیں۔ اور آپ آئے تھے آ جاتے تکلف کی کیا ضرورت تھی بھائی۔
 

محسن حجازی

محفلین
محسن آپ کے مراسلے کی آخری لائن پڑھنے تک میں حیرت میں غوطہ زن تھی کہ واقعی یہ محسن کا مراسلہ ہے یا میری نظر کا دھوکہ۔۔۔۔اتنا سنجیدہ تبصرہ۔۔۔۔:):)
آخری لائن پڑھ کر یقین ہو گیا کہ واقعی آپ سنجیدہ تبصرہ فرما رہے ہیں۔۔۔۔ویسے بہت خوب وضاحت کی آپ نے۔۔۔:hatoff:

بہت خوبصورت غزل ہے اور میرے خیال میں تو شاعر کے خیالات کی پھرپور نمائندگی بھی کر رہی ہے۔۔۔۔ویسے مجھے بھی ہر ہر چیز ایسے ہی کسی نا کسی سوچ میں مشغول نظر آتی ہے۔۔۔۔:)

دیکھئے احمد صاحب کو بھی یقین نہیں آرہا:grin:
ویسے یقین ہمیں بھی نہیں آرہا کہ سنجیدہ تبصرہ ہو کیسے گیا۔۔۔ :rolleyes:
احمد صاحب ہفتے کی خنک شام میں ستاروں تلے کسی کی یاد کے ساتھ آپ کی غزل کے پہلے دو اشعار بہت یاد آئے۔:)
 

محسن حجازی

محفلین
یہ کہیئے کہ ملاقات کا شرف کب عطا کر رہے ہیں۔۔
میں کئی ایک بار آپ کے دولت کدے کی زیارت کرچکا ہوں۔
مگر ہمت نہیں ہوئی کہ دستک دی جائے۔۔
:grin:

سوال یہ ہے کہ احمد صاحب نے ایسا کیا دولت کدے کے دروازے سے باندھ رکھا تھا؟
مغل صاحب اس قدر نہیں ڈرنا چاہئے۔
آپ ساتھ کوئی ہاکی چھتری لے جاتے تو کسی گزند کا کوئی امکان نہ تھا۔:grin:
 

محسن حجازی

محفلین
اشاروں ہی اشاروں میں، گلے پڑتے ہیں دکھ کتنے
تبھی تو سارے روتے ہیں، کنوارے سوچتے ہونگے

;)

اشاروں ستاروں اور استعاروں نے مروا دیا دوستو!
پہروں یوں شادی شدہ بے چارے سوچتے ہوں گے :grin:

اس پر ہم نے مسلسل غزل تیار کر رکھی تھی تاہم اسی تازہ بتازہ شعر پر گزارہ فرمائیے۔:)
 
Top