محمد وارث

لائبریرین
رُباعی

در میکدہ دوش زاہدے دیدم مست
تسبیح بہ گردن و صراحی بر دست
گفتم ز چہ در میکدہ جا کردی، گفت
از میکدہ ہم بہ سوئے حق راہے ہست

شیخ بہاءالدین محمد العاملی معروف بہ بہائی عاملی

کل رات میں نے میکدے میں ایک زاہد کو دیکھا کہ مست تھا، تسبیح گردن میں ڈالی ہوئی تھی اور ہاتھ میں صراحی تھی۔ میں نے پوچھا کہ تُو نے میکدے میں ٹھکانہ کس لیے کر لیا، بولا کہ حق کی طرف ایک راہ میکدے میں سے بھی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
ایک دن زیب النساء بیگم نے اپنے مصاحب ناصر علی کو یہ مصرع بھیجا:
از ہم نمے شود ز حلاوت جدا لبم
(حلاوت کے باعث میرے ہونٹ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتے)

ناصر علی نے بطور مزاح اس کے ساتھ یہ مصرع باندھ دیا:
گوئی رسیدہ بر لبِ زیب النساء لبم
(گویا میرے ہونٹ زیب النساء کے ہونٹوں پر پہنچ گئے ہوں)

زیب النساء کو اس جواب سے غصہ آ گیا اور اس نے ناصر علی کو یہ شعر لکھ کر بھیجا:
ناصر علی بہ نامِ علی بردہ ای پناہ
ورنہ بہ ذوالفقارِ علی سر بریدمے
(اے ناصر علی! تم نے علی کے نام کی پناہ لے لی ہے نہیں تو علی کی ذوالفقار سے تمہارا سر قلم کر چکی ہوتی۔)

(بحوالہ لغتنامہ دہخدا)
 
بمنزل کوش مانند مہ نو​
دریں نیلی فضا ہر دم فزوں شو​
مقام خویش اگر خواہی دریں دیر​
بحق دل بند و راہ مصطفی ﷺ رو​

اقبال​

نئے چاند کی طرح روز بروز اپنی منزل کی طرف بڑھو ،
اور اس نیلی فضا میں ہر روز (چاند کی مانند )بڑھتے جاؤ ،
اگر ایوانِ دنیا میں اپن مقام چاہتے ہو تو ،
حق سے دل لگا لو اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ پر چل نکلو ۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
بمنزل کوش مانند مہ نو​
دریں نیلی فضا ہر دم فزوں شو​
مقام خویش اگر خواہی دریں دیر​
بحق دل بند و راہ مصطفی ﷺ رو​

اقبال​

نئے چاند کی طرح روز بروز اپنی منزل کی طرف بڑھو ،
اور اس نیلی فضا میں ہر روز (چاند کی مانند )بڑھتے جاؤ ،
اگر ایوانِ دنیا میں اپن مقام چاہتے ہو تو ،
حق سے دل لگا لو اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ پر چل نکلو ۔
محترمہ ام نور العین صاحبہ ۔۔۔ ڈاکٹر صاحب کے بہت ہی خوبصورت ربعی ابیات منتخب کیے ہیں ۔۔۔۔ لیکن سگنیچر میں مکتوب شعر میں " اور " کا لفظ زائد ہے اور وزن کو متاثر کر رہا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
از خرقہ و عمامہ، من ہیچ نمی دانم
گہ گہ مگر ایں ساماں، در رہنِ شراب اولیٰ

جگر مُرادآبادی

خرقہ اور عمامہ کے متعلق میں کچھ بھی نہیں جانتا (اور مجھے ان سے کچھ لینا دینا بھی نہیں ہے)، ہاں مگر یہ کہ گاہے گاہے یہ سامان رہن رکھ کر شراب لینے کے لیے بہترین ہے۔
 
محترمہ ام نور العین صاحبہ ۔۔۔ ڈاکٹر صاحب کے بہت ہی خوبصورت ربعی ابیات منتخب کیے ہیں ۔۔۔ ۔ لیکن سگنیچر میں مکتوب شعر میں " اور " کا لفظ زائد ہے اور وزن کو متاثر کر رہا ہے۔
نشان دہی کا بہت شکریہ ، تدوین کر دی ہے ۔ میرے ارسال کردہ فارسی ابیات کے مفہوم میں بھی کوئی سہو ہو تو ضرور بتائیے گا۔
 

حسان خان

لائبریرین
خواہند عاشقاں دو مراد از خدائے خویش
ہجر از برائے غیر و وصال از برائے خویش
(ہلالی چغتائی)

عشاق اپنے خدا سے دو چیزیں طلب کرتے ہیں؛ غیروں کے لیے ہجر اور اپنے لیے وصال۔
 
بہ احتیاط بدستِ خضر، پیالہ بگیر
مبادا آبِ حیاتد دہد، بجائے شراب
(نامعلوم)
حضرت خضر کے ہاتھ سے پیالہ احتیاط سے تھام ، کہیں وہ تجھے شراب کی بجائے آبِ حیات نہ پلاد یں -
حضور، شاعر کا نام تو ہمیں بھی معلوم نہیں مگر مصرعِ ثانی یوں ہے:
مَباد آبِ حیاتت دہد بجائے شراب!
 

فرخ منظور

لائبریرین
یہ صائب تبریزی کا شعر ہے، اور پہلا مصرعہ یوں درج ہے:
بہ احتیاط ز دستِ خضر پیالہ بگیر

حضور، شاعر کا نام تو ہمیں بھی معلوم نہیں مگر مصرعِ ثانی یوں ہے:
مَباد آبِ حیاتت دہد بجائے شراب!

یہ کئی سال پہلے کی بات ہے کہ یہ شعر درج کیا گیا تھا اور صرف یاد داشت کی بنیاد پر ۔ تب مجھے شعر ٹھیک طور سے نہ تو یاد تھا اور نہ ہی شاعر کا نام معلوم تھا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
دل را بہ دامِ گیسوئے جاناں اسیر کن
وز بندِ راہ و رسمِ جہاں رستگار باش

سیّد نصیر الدین نصیر

دل کو گیسوئے جاناں کا قیدی بنا لے اور دنیا کے رسم و رواج کی قید سے آزاد ہو جا۔
 

حسان خان

لائبریرین
پرسید کسے منزلِ آں مہر گُسِل
گفتم کہ: دلِ من است او را منزل
گفتا کہ: دلت کجاست؟ گفتم بر او
پرسید کہ: او کجاست؟ گفتم: در دل
(ابو سعید ابوالخیر)

اک شخص نے مجھ سے اُس مہر گسل کی منزل پوچھی؛ میں نے کہا میرا دل اُس کی منزل ہے؛ اس نے کہا کہ تمہارا دل کہاں ہے؟ میں نے کہا اُس کے پاس؛ پھر اُس نے پوچھا کہ وہ کہاں ہے؟ میں نے کہا دل میں۔

'مہر گُسِل' کا یہاں کیا مطلب ہوگا؟ سورج کو گھسنے/پگھلانے والا یا محبت شکن؟
 

سید عاطف علی

لائبریرین
دل را بہ دامِ گیسوئے جاناں اسیر کن
وز بندِ راہ و رسمِ جہاں رستگار باش

سیّد نصیر الدین نصیر

دل کو گیسوئے جاناں کا قیدی بنا لے اور دنیا کے رسم و رواج کی قید سے آزاد ہو جا۔
؎
بہت خوب ۔
سوز غم دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا
جا تجھے ۔۔۔ کشمِشَ دہر سے ۔۔۔۔ آ زاد کیا
 

عمراعظم

محفلین
سر میرے خیال سے شعر کے دوسرے مصرے کا ترجمہ کچھ یوں ہونا چاہیے۔
یا رب ایسی خاک پریشاں میں کہاں سے لایا ہوں (یا یہ کہاں سے میرےساتھ ہو گیی ہے)۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ہر شبے با ہزار دیده سپہر
مانده در انتظار دیدا رت
یہ آسمان ہر رات ہزاروں آنکھیں لئے ۔ ( مدتوں ) تیری دید کے انتظار میں ہے۔ (شیخ عطار)
 
پرسید کسے منزلِ آں مہر گُسِل
گفتم کہ: دلِ من است او را منزل
گفتا کہ: دلت کجاست؟ گفتم بر او
پرسید کہ: او کجاست؟ گفتم: در دل
(ابو سعید ابوالخیر)

اک شخص نے مجھ سے اُس مہر گسل کی منزل پوچھی؛ میں نے کہا میرا دل اُس کی منزل ہے؛ اس نے کہا کہ تمہارا دل کہاں ہے؟ میں نے کہا اُس کے پاس؛ پھر اُس نے پوچھا کہ وہ کہاں ہے؟ میں نے کہا دل میں۔

'مہر گُسِل' کا یہاں کیا مطلب ہوگا؟ سورج کو گھسنے/پگھلانے والا یا محبت شکن؟
آپ اردو اور فارسی شاعری کی اس روایت سے واقف ہوں گے جس کے تحت محبوب کے چہرے کو چاند یا سورج سے تشبیہ دی جاتی ہے یا استعارتاً چاند سورج ہی قرار دے دیا جاتا ہے۔ وجہِ تشبیہ محبوب کے رخِ زیبا کا نور یا چمک دمک ہوتی ہے۔ اہلِ فارس اس مطلب کے اظہار کے لیے تاب یا تابش کے سے الفاظ بھی استعمال کرتے ہیں جن میں تنویر کے ساتھ ساتھ حرارت، گرمی اور توانائی کا مفہوم بھی شامل ہے۔
ابوسعید ابولخیر نے اسی قاعدے کو ملحوظ رکھتے ہوئے مبالغہ کیا ہے اور محبوب کے روئے تاباں کو اس قدر روشن اور آتش افروز دکھایا ہے کہ جس سے سورج بھی پگھل کر رہ جائے۔ محبت شکنی کا مفہوم ہرگز مراد نہیں، بلکہ اگر یوں ہو تو رباعی کا سارا لطف غارت ہو سکتا ہے۔
 
آپ اردو اور فارسی شاعری کی اس روایت سے واقف ہوں گے جس کے تحت محبوب کے چہرے کو چاند یا سورج سے تشبیہ دی جاتی ہے یا استعارتاً چاند سورج ہی قرار دے دیا جاتا ہے۔ وجہِ تشبیہ محبوب کے رخِ زیبا کا نور یا چمک دمک ہوتی ہے۔ اہلِ فارس اس مطلب کے اظہار کے لیے تاب یا تابش کے سے الفاظ بھی استعمال کرتے ہیں جن میں تنویر کے ساتھ ساتھ حرارت، گرمی اور توانائی کا مفہوم بھی شامل ہے۔
ابوسعید ابولخیر نے اسی قاعدے کو ملحوظ رکھتے ہوئے مبالغہ کیا ہے اور محبوب کے روئے تاباں کو اس قدر روشن اور آتش افروز دکھایا ہے کہ جس سے سورج بھی پگھل کر رہ جائے۔ محبت شکنی کا مفہوم ہرگز مراد نہیں، بلکہ اگر یوں ہو تو رباعی کا سارا لطف غارت ہو سکتا ہے۔
قبلہ،آپ لوگ بھی سوچتے ہوں گے کہ شعر فہمئِ عالمِ بالا معلوم شد۔
کل خدا جانے کس ترنگ میں کیا کچھ بکتا چلا گیا۔ چوں قضا آید طبیب ابلہ شود۔ شارح کی کیا مجال ہے۔ حسان بھائی، اس رباعی میں مہر گسل سے مراد محبت شکن و الفت نا شناس محبوب ہی مراد ہے۔ خورشید سوزی کا مفہوم ازحد غیر موزوں ہو گا کیونکہ پوری رباعی میں اس قسم کا کوئی اشارہ موجود نہیں۔ محبوب سے دوری پر شعرائے ہندوفارس گردونِ گرداں کے علاوہ خود محبوب کو بھی کوستے آئے ہیں۔ یہ اسی روایت میں گندھی ہوئی رباعی ہے۔ ندرت اور جدت اور لطف جس قدر ہے، دل کے محبوب کے پاس ہونے اور محبوب کے دل میں ہونے کے قولِ محال میں ہے۔
الٹے پاؤں پھر جانے پہ شرمندہ ہوں مگر قبلہ درست کرنا بھی ضروری تھا!
 

محمد وارث

لائبریرین
رُباعی از خواجہ الطاف حُسین حالی

سر بر مفراز، خاکِ پائے ہمہ باش
دلہا مخراش، در رضائے ہمہ باش
باخلق نیامیختن از خامیِ تُست
ترکِ ہمہ گیر و آشنائے ہمہ باش

اپنا سر مت اُٹھا (یعنی دوسروں کی تعظیم و تکریم کر) اور ہر کسی کی خاکِ پا بن جا، دلوں کو تکلیف مت پہنچا اور سب کی رضا حاصل کرنے میں لگا رہ۔ خلق کے ساتھ تیرا نہ ملنا جلنا (یعنی گوشہ گیر و زاویہ نشین و خلوت نشین ہونا) تیری خامیوں میں سے ہے۔ سب کچھ ترک کر دے اور سب کا آشنا بن جا۔

رباعی کی خصوصیات کے عین مطابق چوتھا مصرع عجب بہار دکھا رہا ہے اور یہ مصرع غبار خاطر میں مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی درج کیا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
نیاز ایں شیوہ را بدتر ز مرگِ خویش می دانم
کہ دردِ یار را درماں ز اغیار آرزو دارم

شاہ نیاز بریلوی رح

نیاز، میں اس روش کو اپنی موت سے بھی بدتر سمجھتا ہوں کہ دردِ یار کے درمان کی آرزو غیروں سے رکھوں۔
 
Top