محمد وارث
لائبریرین
وارث بھائی یہ شعر بمعہ ترجمہ میں کہیں اقتباس کی صورت میں پیش کر سکتا ہوں؟
جی قبلہ اس میں پوچھنے والی بات ہی کوئی نہیں، بسم اللہ۔
وارث بھائی یہ شعر بمعہ ترجمہ میں کہیں اقتباس کی صورت میں پیش کر سکتا ہوں؟
محترمہ ام نور العین صاحبہ ۔۔۔ ڈاکٹر صاحب کے بہت ہی خوبصورت ربعی ابیات منتخب کیے ہیں ۔۔۔۔ لیکن سگنیچر میں مکتوب شعر میں " اور " کا لفظ زائد ہے اور وزن کو متاثر کر رہا ہے۔بمنزل کوش مانند مہ نودریں نیلی فضا ہر دم فزوں شومقام خویش اگر خواہی دریں دیربحق دل بند و راہ مصطفی ﷺ رو
اقبال
نئے چاند کی طرح روز بروز اپنی منزل کی طرف بڑھو ،
اور اس نیلی فضا میں ہر روز (چاند کی مانند )بڑھتے جاؤ ،
اگر ایوانِ دنیا میں اپن مقام چاہتے ہو تو ،
حق سے دل لگا لو اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ پر چل نکلو ۔
نشان دہی کا بہت شکریہ ، تدوین کر دی ہے ۔ میرے ارسال کردہ فارسی ابیات کے مفہوم میں بھی کوئی سہو ہو تو ضرور بتائیے گا۔محترمہ ام نور العین صاحبہ ۔۔۔ ڈاکٹر صاحب کے بہت ہی خوبصورت ربعی ابیات منتخب کیے ہیں ۔۔۔ ۔ لیکن سگنیچر میں مکتوب شعر میں " اور " کا لفظ زائد ہے اور وزن کو متاثر کر رہا ہے۔
حضور، شاعر کا نام تو ہمیں بھی معلوم نہیں مگر مصرعِ ثانی یوں ہے:بہ احتیاط بدستِ خضر، پیالہ بگیر
مبادا آبِ حیاتد دہد، بجائے شراب
(نامعلوم)
حضرت خضر کے ہاتھ سے پیالہ احتیاط سے تھام ، کہیں وہ تجھے شراب کی بجائے آبِ حیات نہ پلاد یں -
حضور، شاعر کا نام تو ہمیں بھی معلوم نہیں مگر مصرعِ ثانی یوں ہے:
مَباد آبِ حیاتت دہد بجائے شراب!
یہ صائب تبریزی کا شعر ہے، اور پہلا مصرعہ یوں درج ہے:
بہ احتیاط ز دستِ خضر پیالہ بگیر
حضور، شاعر کا نام تو ہمیں بھی معلوم نہیں مگر مصرعِ ثانی یوں ہے:
مَباد آبِ حیاتت دہد بجائے شراب!
؎دل را بہ دامِ گیسوئے جاناں اسیر کن
وز بندِ راہ و رسمِ جہاں رستگار باش
سیّد نصیر الدین نصیر
دل کو گیسوئے جاناں کا قیدی بنا لے اور دنیا کے رسم و رواج کی قید سے آزاد ہو جا۔
آپ اردو اور فارسی شاعری کی اس روایت سے واقف ہوں گے جس کے تحت محبوب کے چہرے کو چاند یا سورج سے تشبیہ دی جاتی ہے یا استعارتاً چاند سورج ہی قرار دے دیا جاتا ہے۔ وجہِ تشبیہ محبوب کے رخِ زیبا کا نور یا چمک دمک ہوتی ہے۔ اہلِ فارس اس مطلب کے اظہار کے لیے تاب یا تابش کے سے الفاظ بھی استعمال کرتے ہیں جن میں تنویر کے ساتھ ساتھ حرارت، گرمی اور توانائی کا مفہوم بھی شامل ہے۔پرسید کسے منزلِ آں مہر گُسِل
گفتم کہ: دلِ من است او را منزل
گفتا کہ: دلت کجاست؟ گفتم بر او
پرسید کہ: او کجاست؟ گفتم: در دل
(ابو سعید ابوالخیر)
اک شخص نے مجھ سے اُس مہر گسل کی منزل پوچھی؛ میں نے کہا میرا دل اُس کی منزل ہے؛ اس نے کہا کہ تمہارا دل کہاں ہے؟ میں نے کہا اُس کے پاس؛ پھر اُس نے پوچھا کہ وہ کہاں ہے؟ میں نے کہا دل میں۔
'مہر گُسِل' کا یہاں کیا مطلب ہوگا؟ سورج کو گھسنے/پگھلانے والا یا محبت شکن؟
قبلہ،آپ لوگ بھی سوچتے ہوں گے کہ شعر فہمئِ عالمِ بالا معلوم شد۔آپ اردو اور فارسی شاعری کی اس روایت سے واقف ہوں گے جس کے تحت محبوب کے چہرے کو چاند یا سورج سے تشبیہ دی جاتی ہے یا استعارتاً چاند سورج ہی قرار دے دیا جاتا ہے۔ وجہِ تشبیہ محبوب کے رخِ زیبا کا نور یا چمک دمک ہوتی ہے۔ اہلِ فارس اس مطلب کے اظہار کے لیے تاب یا تابش کے سے الفاظ بھی استعمال کرتے ہیں جن میں تنویر کے ساتھ ساتھ حرارت، گرمی اور توانائی کا مفہوم بھی شامل ہے۔
ابوسعید ابولخیر نے اسی قاعدے کو ملحوظ رکھتے ہوئے مبالغہ کیا ہے اور محبوب کے روئے تاباں کو اس قدر روشن اور آتش افروز دکھایا ہے کہ جس سے سورج بھی پگھل کر رہ جائے۔ محبت شکنی کا مفہوم ہرگز مراد نہیں، بلکہ اگر یوں ہو تو رباعی کا سارا لطف غارت ہو سکتا ہے۔