حسان خان

لائبریرین
بر یادِ روزِ وصلِ تو ای دوست می‌کنیم
هر شب هزار ناله و هر دم هزار آه
(سیف فرغانی)

اے دوست! تمہارے روزِ وصل کی یاد میں ہم ہر شب ہزار نالے اور ہر دم ہزار آہیں کرتے ہیں۔
 
نشاطِ جم طلب از آسماں نہ شوکتِ جم
قدح مباش ز یاقوت بادہ گر عنبی ست


آسمان سے جمشید کی نشاط طلب کر، نا کہ جمشید کی شان و شوکت۔ اے قدح! اگر بادہ عنبی ہے تو تجھے یاقوتی نہیں ہونا چاہیے(یاقوت اور بادۂ عنبی کا رنگ یکساں ہوتا ہے)۔

غالب دہلوی

بشکریہ rahi صاحبہ!
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
نشاطِ جم طلب از آسماں نہ شوکتِ جم
قدح مباش ز یاقوت بادہ گر عنبی ست


آسمان سے جمشید کی نشاط طلب کر، نا کہ جمشید کی شان و شوکت۔ اے قدح! اگر بادہ عنبی ہے تو تجھے یاقوتی نہیں ہونا چاہیے(یاقوت اور بادۂ عنبی کا رنگ یکساں ہوتا ہے)۔

غالب دہلوی

بشکریہ rahi صاحبہ!

میں نے اپنے فہم کے مطابق اِس بیت کا یہ ترجمہ کیا تھا:
آسمان سے [نہ] نشاطِ جمشید طلب کرو، نہ شوکتِ جمشید۔۔۔ اگرچہ شراب انگوری ہو، [لیکن] تم یاقوتی قدح مت بنو۔
 

حسان خان

لائبریرین
(ترکی شعر)
وصل قدرین بیلمه‌دیم، فرقت بلاسېن چکمه‌دن
ظلمتِ هجر ائتدی چوخ مبهم ایشی روشن بنا
(محمد فضولی بغدادی)
جب تک میں نے فُرقت کی بلا نہیں اٹھائی تھی، میں وصل کی قدر نہیں جانتا تھا۔۔۔ ہجر کی تاریکی نے [ایک] بسیار مُبہَم امر کو مجھ پر روشن کر دیا۔
× بِسْیار = بہت

'ه. قربانی' نے اِس ترکی بیت کا منظوم فارسی ترجمہ یوں کیا ہے:
بی بلایِ هجر، قدرِ وصل را نشناختم

شامِ هجران کرد امورِ مبهمم روشن مرا
ہجر کی بلا کے بغیر میں وصل کی قدر کو نہ جانا۔۔۔ شامِ ہجراں نے میرے مُبہَم اُمور کو مجھ پر روشن کر دیا۔
 
آخری تدوین:
ما حالِ خویش بر پرِ عنقا نوشتہ ایم
در بالِ ہدہد و سرِ منقارِ زاغ نیست


ہم نے اپنا حال عنقا کے پر پہ لکھا ہے، ہدہد کے بال اور کوے کی چونچ پر نہیں۔

نظیری نیشاپوری
 
دادیم بہ معشوقہ و مے دنیا و دیں را
بدنام شدن در دو جہاں غایتِ نام است


ہم نے معشوقہ اور شراب کے لیے دین اور دنیا دے دیے۔ دونوں جہانوں میں بدنام ہونا شہرت کی انتہا ہے۔

نظیری نیشاپوری
 

محمد وارث

لائبریرین
چوں سایہ ہمرہیم بہ ہر سُو رواں شوی
باشد کہ رفتہ رفتہ بہ ما مہرباں شوی


قاسم کاہی کابلی

تُو جہاں کہیں بھی جائے، ہم سائے کی طرح تیرے ساتھ ساتھ ہیں، شاید کہ اسی طرح، رفتہ رفتہ تُو ہم پر مہرباں ہو جائے۔
 
هان ای دل عبرت بین از دیده نظر کن هان
ایوان مدائن را آیینهٔ عبرت دان


ہاں اے عبرت دیکھنے(پکڑنے) والے دل اپنی آنکھوں سے دیکھ اور ایوانِ مدائن(طاقِ کسریٰ) کو عبرت کا آئینہ جان۔

خاقانی شروانی

Taq Kasra - Wikipedia

pBnKxCU
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ایرانی شاعر سید محمد جوادی نے حضرتِ علی (رض) کو مخاطَب کر کے ایک نظم میں یہ کہا تھا:
تو اهلِ خاکِ حجازی من اهلِ ایرانم

اگرچه از عجمم دل‌بر از عرب دارم
(سید محمد جوادی)
تم اہلِ خاکِ حِجاز ہو، [اور] میں اہلِ ایران ہوں؛ اگرچہ میں عجم میں سے ہوں، [لیکن] میرا دلبر عرب میں سے ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
جهان بگشتم و دردا به هیچ شهر و ديار
نیافتم که فروشند بخت در بازار
(عُرفی شیرازی)

میں نے جہان گھوم لیا، [لیکن] افسوس کہ میں نے کسی بھی شہر و دیار میں بخت کو بازار میں فروخت ہوتے نہیں پایا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
گُلِ حیاتِ من از بس که هست پژمرده
اجل نمی‌زند از ننگ بر سرِ دستار
(عُرفی شیرازی)
میرا گُلِ حیات اتنا زیادہ پژمُردہ ہے کہ اجل [بھی] شرمساری کے باعث [اُس کو اپنی] دستار پر نہیں لگاتی۔
(یعنی میری بے مایگی کے سبب موت بھی میرے نزدیک آنے میں شرمساری محسوس کرتی ہے۔)
 

حسان خان

لائبریرین
عجوزِ بختم اگر زلفکان بيارايد
سفيد گردد زلفينِ شاهدانِ تتار
(عُرفی شیرازی)

[میری بدبختی کا یہ عالَم ہے] اگر میرے بخت کی پِیرزن [اپنی] زلفوں کی آرائش کرے تو تاتاری خُوب رُویوں کی زلفیں سفید ہو جائیں۔
× شاعر نے مصرعِ اول میں اپنے بخت کو پِیرزَن سے تشبیہ دی ہے۔
× پِیرْزَن = زنِ پِیر، بڑھیا، بوڑھی عورت
 

حسان خان

لائبریرین
یقین شِناس که منصور از آن انا الحق زد
که وارَهد ز زمانه به دست‌گیریِ دار
(عُرفی شیرازی)
یقین جانو کہ منصور نے اِس لیے [نعرۂ] انا الحق لگایا تھا تاکہ وہ دار کی مدد سے زمانے سے نجات پا لے اور رَہا ہو جائے۔
× دار = سُولی
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
عُرفی شیرازی حضرتِ علی (رض) کی مرقد کی ستائش میں کہتے ہیں:
زهی صفایِ عمارت که در تماشایش

به دیده باز نگردد نگاه از دیوار
(عُرفی شیرازی)
عمارت کی پاکیزگی کے کیا کہنے! کہ اُس کے تماشے کے دوران نگاہ دیوار سے چشم کی جانب واپس نہیں آتی۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
فردا ز تو چوں لالہ اثر نیست دریں باغ
امروز قدح گیر بشکرانہ کہ ہستی


اہلی شیرازی

کل، لالہ کے پھول کی طرح، اِس (دنیا کے) باغ میں تیرا کوئی اثر اور نام و نشان نہ ہوگا، لہذا آج شکرانے کا جام پی کہ تُو موجود ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
به کاوشِ مِژه از گور تا نجف بروم
اگر به هند به خاکم کنی وگر به تتار
(عُرفی شیرازی)

خواہ تم مجھے ہند میں دفن کرو یا خواہ تاتار میں، مَیں [اپنی] مِژگاں سے کھود کھود کر قبر سے نجف تک چلا جاؤں گا۔
× نجف میں حضرتِ علی (رض) کا مقبرہ ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
ترحّمی بکن آخر که عاجزم عاجز
نگاه کن که چه خون می‌چکانم از گفتار
(عُرفی شیرازی)

آخر ذرا رحم کرو کہ میں عاجز ہوں عاجز۔۔۔ نگاہ کرو کہ میں [اپنی] گُفتار سے کیسا خون ٹپکا رہا ہوں۔
 

حسان خان

لائبریرین
چه جرم رفت که با ما سخن نمی‌گویی
جِنایت از طرفِ ماست یا تو بدخویی

(سعدی شیرازی)
[ایسا] کیا جُرم واقع ہو گیا کہ تم ہمارے ساتھ گفتگو نہیں کرتے؟ جُرم ہماری طرف سے ہے، یا تم بدخُو ہو؟
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
قرنِ نہمِ ہجری کے گفتاری شیرازی زبانچے میں ایک بیت:
هَر اِی دَمُم اَگُشِ دِل نِدُی رِسُت از یار

که هر که یارِ مُهِن دست اُهِیتَن از اغیار
(شاه داعی شیرازی)
ہر اِک لمحے میرے گوشِ دل کی جانب یار کی ندا آتی ہے کہ جو بھی میرا یار ہے وہ اغیار سے دست کھینچ لے۔

اِی = یک و یای وحدت
هر ای دم = ھر دمی
ھر ای دمُم = هر دمیم
اَ = به
گُش = گوش
نِدُی (nedoy) = ندایی
رِسُت (resot) = رسد
مُه (mo) = من
هِن = است
اُهِیتَن = بکشد (معیاری ادبی فارسی میں اِس کا رشتہ دار لفظ 'آهیختن' استعمال ہوتا ہے۔)
 
آخری تدوین:
Top