حسان خان

لائبریرین
اپنے سے پہلے ایک آدھ ہندوستانی شاعر کی شاید کہیں کچھ تعریف، بھولے سے کر ہی دی ہو :)
ابتداء میں وہ امیر خسرو اور بیدل کی ستائش کیا کرتے تھے، بعد میں جب اُنہوں نے قتیل کے لسانی اجتہادوں پر تند و تیز تنقید کرنا شروع کی تو اُن دونوں کو بھی ایرانی شاعروں کے مقابل میں کمتر کہنے لگے۔ اور بالآخر اُن کی نظر میں ہند کے واحد مستند فارسی شاعر صرف وہ خود رہ گئے۔ :)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
هر خم از جعدِ پریشانِِ تو زندانِ دلی‌ست
تا نگویی که اسیرانِ کمندِ تو کمند
(سعدی شیرازی)

تمہاری پیچ دار و پریشاں زلف کا ہر خَم کسی دل کا زندان ہے؛ ہرگز مت کہنا کہ تمہاری کمندِ [عشق] کے اسیر کم ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
غالب از آب و هوایِ هند بسمل گشت نُطق
خیز تا خود را به اصفاهان و شیراز افگنم
(غالب دهلوی)


اے غالب! ہند کی آب و ہوا سے [میری] گویائی بسمل ہو گئی ہے؛ اٹھو تاکہ میں خود کو اصفہان و شیراز [کی خاک] پر گرا دوں۔
---------------------------
غالب! ہند کی آب و ہوا (فضا) میں رہ کر قوتِ گویائی بسمل ہوئی جاتی ہے اُٹھ کہ اصفاہان اور شیراز کا رخ کریں۔
یہاں تو بلند شعر گوئی کی داد تو اہلِ اصفاہان و شیراز ہی دے سکتے ہیں۔
(مترجم و شارح: صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
در مدحِ ناکسان نکنم کهنه تن به درد
زان باک نایدم که بُوَد کهنه پیرهن
(ازرقی هروی)

میں ناکَسوں کی مدح میں [اپنے] تن کو مشقّت سے فرسودہ نہیں کرتا؛ مجھے اِس سے خوف نہیں آتا کہ میرا پیرہن کہنہ رہ جائے گا۔

لغت نامۂ دہخدا میں یہ شعر یوں درج ہے:
در مدحِ ناکسان نکنم کهنه تن بنیز
زان باک نایدم که شود کهنه پیرهن
(ازرقی هروی)

میں ناکَسوں کی مدح میں [اپنے] تن کو ہرگز فرسودہ نہیں کروں گا؛ مجھے اِس سے خوف نہیں آتا کہ میرا پیرہن کہنہ ہو جائے گا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
گشت آن زمان دوتا کمرِ هفت خِنگِ چرخ
کز پشتِ ذوالجناح امامِ مبین فتاد
(صحبت لاری)

چرخِ فلک کے سات اسپوں کی کمر اُس وقت خمیدہ ہو گئی کہ جب ذوالجَناح کی پُشت سے امامِ مُبیں گرے۔
 

حسان خان

لائبریرین
شکست عهدِ من و گفت: هر چه بود گذشت
به گریه گفتمش: آری ولی چه زود گذشت
(ایرج دهقان)

اُس نے میرا عہد توڑ دیا اور کہا کہ: جو کچھ تھا، گذر گیا۔۔۔ میں نے گریے کے ساتھ اُس سے کہا: ہاں! لیکن کس قدر جلد گذر گیا!
 

حسان خان

لائبریرین
شبی به عمر گرَم خوش گذشت آن شب بود
که در کنارِ تو با نغمه و سرود گذشت
(ایرج دهقان)

اگر [میری] عمر میں کوئی شب خوش گذری ہے تو وہ شب تھی کہ جو تمہارے پہلو میں نغمہ و سُرود کے ساتھ گذری تھی۔
 

حسان خان

لائبریرین
شاہزادہ بایزید ابنِ سطان سلیمانِ اول قانونی عثمانی کی ایک فارسی غزل کی چند ابیات:
اگر تختِ سلیمانی میسّر می‌شود ما را

به تیغِ قهرَمانی برکُشایم رویِ غبرا را
سرِ تهماسب را از تن به ضربِ تیغ بردارم
به زیرِ حکمِ خویش آرم سمرقند و بخارا را
محبِ چاریار و آل و اصحابِ محمد شو
بیا ای رافِضی بر جانِ خود کن آن تبرّا را
(شاهزاده بایزید 'شاهی')
اگر ہمیں تختِ سلیمانی میسّر ہو گا تو میں [اپنی] پہلوانی تیغ سے روئے زمین فتح کر لوں گا، تہماسب صفوی کے سر کو بہ ضربِ تیغ تن سے جدا کر دوں گا اور سمرقند و بخارا کو اپنے زیرِ فرمان لے آؤں گا۔ حضرتِ محمد (ص) کے چار یار اور اُن کی آل و اصحاب کے محب بنو۔۔۔ اے رافضی! آؤ اور وہ تبرّا خود کی جان پر کرو۔
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
یادردو غمی کہ دادہ ای بازش گیر
یا جان و دلی کہ بردہ ای بازم دہ

رھی معیری
یا تو ،جو دردو غم (تم نے )دیا ہے وہ واپس لےلو ۔
یا پھر جو جان و دل تم نے لیے ہیں وہ واپس کرو۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
یا جان و دل کہ بردی ای بازم دہ
تصحیح: یا جان و دلی که برده‌ای بازم ده
----------------------------
(رباعی)
یا عافیت از چشمِ فسون‌سازم ده
یا آن که زبانِ شکوه‌پردازم ده
یا درد و غمی که داده‌ای بازش گیر
یا جان و دلی که بُرده‌ای بازم ده
(رهی معیِّری)
یا مجھے [اپنی] چشمِ فُسوں ساز سے عافیت دے دو، یا یہ کہ مجھے شکوہ کرنے والی زبان دے دو؛ یا تو جو درد و غم تم نے دیا ہے اُسے واپس لے لو، یا پھر جو جان و دل تم نے لیے ہیں مجھے واپس دے دو۔
 

محمد وارث

لائبریرین
خواہی کہ راہ یابی، بے رنج برسرِ گنج
می بیز ہر سحر گاہ، خاکِ درِ خرابات


شیخ فخرالدین عراقی

اگر تُو چاہتا ہے کہ تجھے بغیر رنج اور تکلیف کے (حقیقی) خزانے کا راستہ مل جائے، تو ہر روز سحر کے وقت خرابات کے دروازے کی خاک چھانتا رہ۔
 
ترجمہ ارشاد فرما دیں۔

گرد ِ جهان گردیده ام، خوبان ِ عالم دیده ام لطف ِ همه سنجیده ام، اما تو چیز ِ دیگری

آفاق را گردیده ام، مهر ِ بتان ورزیده ام بسیار خوبان دیده ام، اما تو چیز ِ دیگری

صورتگر ِ نقاش ِ چین! رو صورت ِ یارم ببین یا صورتی برکش چنین، یا ترک کن صورتگری

ای چهره ی زیبای تو، رشکِ بتانِ آذری هر چند وصفت می کنم، در حسن از آن زیباتری
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ترجمہ ارشاد فرما دیں۔
گرد ِ جهان گردیده ام، خوبان ِ عالم دیده ام ۔۔۔لطف ِ همه سنجیده ام، اما تو چیز ِ دیگری
میں دنیا کےگرد پھرا ہوں اور خوبان عالم کو دیکھا ہے۔۔۔ان سب کی خوبی کو جانچا ہے لیکن تو اور ہی چیز ہے۔
آفاق را گردیده ام، مهر ِ بتان ورزیده ام ۔۔۔بسیار خوبان دیده ام، اما تو چیز ِ دیگری
آفاق میں دیکھا اور مہرِ بتاں کو ازمایا ہے۔بہت سے خوباں کو دیکھا ہے لیکن تو اور ہی چیز ہے۔
صورتگر ِ نقاش ِ چین! رو صورت ِ یارم ببین۔۔۔ یا صورتی برکش چنین، یا ترک کن صورتگری
آے چین کو نقاشو اور صورتگرو!جاؤ میرے یار کی صورت دیکھو۔یا تو ایسی شکل بناؤ یا پھر صورت گری چھوڑ دو۔
ای چهره ی زیبای تو، رشکِ بتانِ آذری ۔۔۔هر چند وصفت می کنم، در حسن از آن زیباتری
اے کہ تیرا چہرہ زیب ا ہے،تو بتان آزر کے لیے باعث رشک ہے۔اگر چہ میں تیری ستائش کر رہا ہوں لیکن تو اس سے بھی بڑھ کر ہے۔
 
آخری تدوین:
اے دیدہ خون ببار و بسویش نظر مکن
زنہار شرمسار ازین بیشتر مکن


اے دیدہ! خون برسا اور اس کی جانب نظر مت کر۔ اس سے زیادہ شرمسار مجھے ہر گز مت کر۔

از نیشِ غم پر است مبادا شوی فگار
اے خوشدلی برو بہ دلِ من گذر مکن


میرا دل نیشِ غم سے پر ہے، اے خوشدلی! چلی جا اور یہاں سے گذر کر ہرگز اپنے آپ کو مجروح مت کر۔

عرفی شیرازی
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
تو را اگر مَلِکِ چینیان بدیدی رُوی
نماز بُردی و دینار برپراکندی
وگر تو را مَلِکِ هندوان بدیدی مُوی
سُجود کردی و بت‌خانه‌هاش برکندی
(شهید بلخی)

اگر چینیوں کا پادشاہ تمہارا چہرہ دیکھ لیتا تو وہ تعظیماً خَم ہوتا اور [تم پر] دینار افشاں کرتا؛ اور اگر ہندوؤں کا پادشاہ تمہاری زلف دیکھ لیتا تو وہ سجدہ کرتا اور اپنے بُت خانے نابود کر دیتا۔
 

حسان خان

لائبریرین
بیا که من ز خُمِ پیرِ روم آوردم
مَیِ سخن که جوان‌تر ز بادهٔ عَنَبی‌ست
(علامه اقبال لاهوری)

آؤ کہ میں پیرِ روم (مولانا رومی) کے خُم سے [وہ] مئے سخن لایا ہوں جو بادۂ انگوری سے زیادہ جوان [و تازہ] ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
کسی را که باشد به دل مِهرِ حیدر
شود سرخ‌رو در دو گیتی به آور
(رودکی سمرقندی)

جس شخص کے دل میں حُبِّ حیدر ہو وہ یقیناً دو جہاں میں سرخ رُو ہو گا۔
 

حسان خان

لائبریرین
نازم نگهِ شرم که دل‌ها ز میان بُرد
زان سان که خود آن چشمِ فُسون‌ساز ندانست
(غالب دهلوی)

مجھے محبوب کی نگہِ شرمگیں پر ناز ہے کہ جس نے ہزاروں دلوں کو موہ لیا لیکن اس طرح کہ خود اُس کی چشمِ سحر کار کو اس کا پتا نہ چلا۔
(مترجم: صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
 

حسان خان

لائبریرین
ارزنده گوهری چو من اندر زمانه نیست
خود را به خاکِ ره‌گذرِ حیدر افگنم
(غالب دهلوی)

لغت: "حیدر" بھی حضرت علی رض کا لقب تھا۔
"ارزندہ" = قیمتی، گراں بہا
"میرے جیسا قیمتی موتی کوئی اور زمانے میں نہیں۔ میں اپنے آپ کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خاکِ رہ میں ڈالتا ہوں۔"
شاعر، حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے قدموں پر اپنی زندگی نچھاور کرنے کو سب سے بڑی سعادت خیال کرتا ہے۔
(مترجم و شارح: صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
 

حسان خان

لائبریرین
در دفترِ زمانه فتد نامش از قلم
هر ملتی که مردمِ صاحب‌قلم نداشت
(فرُّخی یزدی)

جس بھی ملّت کے پاس صاحبِ قلم مردُم نہیں ہوتے، دفترِ زمانہ میں اُس ملّت کا نام حذف و فراموش ہو جاتا ہے۔
× دفتر = ڈائری
 
آخری تدوین:
Top