محمد وارث

لائبریرین
گر یار کند میل، ہلالی عجبے نیست
شاہاں چہ عجب گر بنوازند گدا را؟


ہلالی چغتائی

اے ہلالی، اگر دوست تیری طرف مائل ہے اور تجھ پر مہربانی کرتا ہے تو اِس میں کوئی عجیب بات نہیں کہ بادشاہ اگر گدا کو نواز دیں تو اس میں کیا عجب؟

(اس شعر کے دوسرے مصرعے کو علامہ اقبال نے اپنی ایک مشہور نظم "بڈھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو" میں استعمال کیا ہے)۔
 

حسان خان

لائبریرین
به غربت اندر اگر سیم و زر فراوان است
هنوز هم وطنِ خویش و بیت‌الاَحزان بِه
(ازرقی هروی)

غریب الوطنی میں خواہ سیم و زر فراواں ہو، تو بھی اپنا وطن اور غم خانہ بہتر ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
یوسفی یا ماهِ گردون یا فرشته یا صنم
دایماً عشاق را اندر گمان افکنده‌ای
(تاج‌الدین حسن متکلم نیشابوری)

تم یوسف ہو، یا ماہِ آسمان، یا فرشتہ، یا صنم؟۔۔۔ تم نے عاشقوں کو ہمیشہ گمان میں ڈالا ہوا ہے۔
 

لاریب مرزا

محفلین
رُباعی از شیخ ابوسعید ابوالخیر

در دیدہ بجائے خواب آب است مرا
زیرا کہ بدیدنت شتاب است مرا
گویند "بخواب تا بخوابش بینی"
اے بیخبراں چہ جائے خواب است مرا


میری آنکھوں میں نیند کی بجائے آنسو ہیں، اس وجہ سے کہ مجھے تیری دید کی خواہش اور جلدی ہے۔ (مجھ سے) کہتے ہیں کہ تُو سو جا تا کہ تُو اُس کے خواب دیکھے، اے بے خبرو یہ میرے لیے سونے کا کون سا موقع ہے (کہ میں تو اُس کے انتظار میں بیٹھا ہوں)۔
خوب!! :)
 

حسان خان

لائبریرین
تا نگویی که مرا از تو شکیبایی هست
یا دلِ غم‌زده را طاقتِ تنهایی هست
نی مپندار که از دوریِ رویِ تو مرا
راحتِ زندگی و لذتِ برنایی هست
مکن اندیشه که تا دور شدی از چشمم
دیده را بی رخِ زیبایِ تو بینایی هست
(تاج‌الدین حسن متکلم نیشابوری)

خبردار! مت کہنا کہ مجھے تم سے صبر ہے یا [میرے] غم زدہ دل کو طاقتِ تنہائی ہے۔
نہیں! مت سمجھنا کہ تمہارے چہرے کی دوری کے سبب مجھے زندگی کی راحت اور جوانی کی لذت ہے۔
مت سوچنا کہ جب سے تم میری چشم سے دور ہوئے ہو [میرے] دیدے میں تمہارے رُخِ زیبا کے بغیر بینائی ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
گهی اندر مساجد اعتکافی دارد عاشق، گه
ز عشقِ او شتابان خلوتِ میخانه می‌آید
چنان سرگشته است اندر کمندِ عشقِ آن دلبر
گهی کعبه رود گه جانبِ بت‌خانه می‌آید
(کاظم اردَبیلی)

عاشق گاہے مساجد کے اندر مُعتکِف رہتا ہے، گاہے اُس کے عشق کے سبب دوڑتے ہوئے میخانے کی خلوت میں آتا ہے؛ وہ اُس دلبر کے عشق کی کمند میں یوں سرگشتہ ہے کہ گاہے کعبہ جاتا ہے، گاہے جانبِ بُت خانہ آتا ہے۔
 

ضیاءالقمر

محفلین
قلزم فشانی مژہ از پہلوے دل است
ایں ابر را برات بہ دریا نوشتہ ایم

غالبؔ
لغت: طوفان اشک کو شاعر نے قلزم فشانی کہا ہے جو مرزا غالب کی جدت طرازی کی نشانی ہے دریا کا لفظ فارسی میں سمندر کے لیے آتا ہے۔
فراقِ دوست میں آنسوؤں کا جو طوفان مژگاں سے بہتا ہے اس کا سر چشمہ دل ہے۔گویا "پہلوےدل"ایک ابر ہے اس ابر کی قسمت میں سمندر ہی بنتا ہے۔
(مترجم و شارح :صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
 

ضیاءالقمر

محفلین
آئندہ و گزشتہ تمنا و حسرت است
یک کاشکے بود کہ بہ صد جا نوشتہ ایم

غالبؔ
لغت: کاشکے= کاش ایسا ہوتا۔
ہماری زندگی مستقبل سر تا پا تمنا ہے اور ماضی سراپا یاس وحسرت یوں سمجھ لیجیے کہ ایک ہی لفظ کاشکے ہے جو ہم نے سو جگہ لکھا ہے۔
یعنی ہم زندگی میں طرح طرح کی امیدیں باندھتے رہے اور وہ کبھی شرمندہء تکمیل نہ ہوئیں۔وقت گزرتا تو ہر تمنا حسرت بن کر رہ جاتی۔زندگی گزر گئی اور ہم یہی کہتے رہے کاشکے یہ تمنا پوری ہو،وہ تمنا پوری ہو جائے۔ گویا زندگی "کاشکے" لکھتے لکھتے گزر گئی۔
؎ ہوئی مدت کہ غالب مر گیا پر یاد آتا ہے
وہ ہر اک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا
(مترجم و شارح :صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
 

ضیاءالقمر

محفلین
با خضر اگر نمی رویم از بیم نا کسی است
ترسم ز ننگِ ہمرہی ما شود ھلاک

غالبؔ
اگر ہم خضر کے ہمراہ نہیں چل سکتے تو یہ ہمارے ناکس (نااہل)ہونے کی دلیل ہے۔
ہم اس بات سے ڈرتے ہیں کہ کہیں خضر ہماری ہمراہی کو اپنے لیے باعث ننگ سمجھ کر جان نہ دے دے۔
(مترجم و شارح :صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
 

محمد وارث

لائبریرین
مَردم برنگِ سرمہ دہندش بدیدہ جائے
معلوم شد غنیمتِ ما خاکپائے کیست


غنیمت کنجاہی

لوگ اُسے سرمے کی طرح آنکھوں میں جگہ دیتے ہیں سو معلوم ہو گیا کہ ہمارا غنیمت کس کی خاکِ پا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
با خضر اگر نمی رویم از بیم نا کسی است
غالبؔ
اگر ہم خضر کے ہمراہ نہیں چل سکتے تو یہ ہمارے ناکس (نااہل)ہونے کی دلیل ہے۔
میری نظر میں اِس کا ترجمہ یوں ہونا چاہیے تھا:
اگر ہم خضر کے ہمراہ نہیں چلتے تو اِس کا سبب ناکسی کا خوف ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
غالب سخن از هند برون بر که کس اینجا
سنگ از گهر و شعبده ز اعجاز ندانست
(غالب دهلوی)

اے غالب! اپنے کلام کو ہند سے باہر لے چل کہ یہاں تو کوئی موتیوں اور سنگریزوں نیز لفظی شعبدہ کاریوں اور معجزۂ فن میں تمیز نہیں کر سکتا۔
(مترجم: صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
 

حسان خان

لائبریرین
غالب ز هند نیست نوایی که می‌کشم
گویی ز اصفهان و هرات و قُمیم ما
(غالب دهلوی)

غالب یہ نوائے شعر، ہند کی نہیں ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم اصفہان و ہرات اور قُم کی سرزمین کے رہنے والے ہیں۔
یہ تینوں شہر، ایران کے مشہور شہروں میں سے ہیں اور مختلف ادوار میں ایرانی سلطنتوں کے پایۂ تخت اور ادبی مرکز رہے ہیں۔
(مترجم و شارح: صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)

× شہرِ ہِرات افغانستان میں واقع ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
صنم اندر بلدِ کفر پرستند و صلیب
زلف و رویِ تو در اسلام صلیب و صنمند
(سعدی شیرازی)

بلادِ کفر میں بُت اور صلیب کی پرستش کی جاتی ہے، [جبکہ] سرزمینِ اسلامی میں تمہاری زلف اور تمہارا چہرہ صلیب اور بُت ہیں (کہ عُشّاق اُن کی پرستش کرتے ہیں)۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اول مصرع میں می کشیم نہیں ہوگا؟؟
دیوانِ غالب میں 'می‌کشم' ہی ہے۔
میرے خیال میں تو می کشم درست ہی ہے۔ یہ شتر گربہ نہیں بلکہ پہلے مصرعے میں غالب صرف اپنی بات کر رہا ہے اور دوسرے مصرعے میں اپنے جیسے تمام ہندوستانی فارسی شعرا کی۔ اور غالب کی جو نازک مزاجی تھی اس کے مطابق یہ بھی کہ فی الوقت اس نوعیت کا وہ ایک ہی شاعر ہے پہلے کچھ گزرے ہونگے اس طرح کے :)
 

حسان خان

لائبریرین
میرے خیال میں تو می کشم درست ہی ہے۔ یہ شتر گربہ نہیں بلکہ پہلے مصرعے میں غالب صرف اپنی بات کر رہا ہے اور دوسرے مصرعے میں اپنے جیسے تمام ہندوستانی فارسی شعرا کی۔ اور غالب کی جو نازک مزاجی تھی اس کے مطابق یہ بھی کہ فی الوقت اس نوعیت کا وہ ایک ہی شاعر ہے پہلے کچھ گزرے ہونگے اس طرح کے :)
جس چیز کو ہمارے یہاں شتر گربہ کہا جاتا ہے، فارسی شاعری میں اُس کی کئی مثالیں ہیں، اور مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ فارسی میں اِسے عیب، یا کم از کم عیبِ فاحش و قبیح، نہیں مانا جاتا۔

اگر آن ترکِ شیرازی به دست آرد دلِ ما را

به خالِ هندویش بخشم سمرقند و بخارا را

اگر کسی کتاب میں اِس سے متعلق کچھ نظر آیا تو شریک کروں گا۔

میری رائے ہے کہ غالب مصرعِ ثانی میں بھی اپنی ہی بات کر رہے ہیں، کیونکہ اُنہیں یہ زعم تھا اُنہیں ایرانی اسلوب اور محاورے پر دیگر تمام برِ صغیری شعراء سے زیادہ تسلط حاصل ہے، اور وہ خود کے سوا شاید ہی کسی ہم عصر یا متقدّم برِ صغیری شاعر کو اصفہان، ہرات، یا قُم سے منسوب ہونے کی ادبی فضیلت کا مستحق سمجھتے تھے۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
جس چیز کو ہمارے یہاں شتر گربہ کہا جاتا ہے، وہ فارسی شاعری میں اُس کی کئی مثالیں ہیں، اور مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ فارسی میں اِسے عیب، یا کم از کم عیبِ فاحش و قبیح، نہیں مانا جاتا۔

اگر آن ترکِ شیرازی به دست آرد دل ما را

به خالِ هندویش بخشم سمرقند و بخارا را

اگر کسی کتاب میں اِس سے متعلق کچھ نظر آیا تو شریک کروں گا۔

میری رائے ہے کہ غالب مصرعِ ثانی میں بھی اپنی ہی بات کر رہے ہیں، کیونکہ اُنہیں یہ زعم تھا اُنہیں ایرانی اسلوب اور محاورے پر دیگر تمام برِ صغیری شعراء سے زیادہ تسلط حاصل ہے، اور وہ خود کے سوا شاید ہی کسی ہم عصر یا متقدّم برِ صغیری شاعر کو اصفہان، ہرات، یا قُم سے منسوب ہونے کی ادبی فضیلت کا مستحق سمجھتے تھے۔
اپنے سے پہلے ایک آدھ ہندوستانی شاعر کی شاید کہیں کچھ تعریف، بھولے سے کر ہی دی ہو :)
 
Top