زیادہ علم والے کو اختیار ہونا چاہیے کہ وہ فیصلہ کرے۔
حدیث بخاری ہے کہ
علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ اس حدیث میں غور طلب الفاظ، نبی، وارث اور عالم ہیں۔
نبی غیب کی خبر دینے والے کو کہتے ہیں۔
وارث اسے کہتے ہیں جو کہ اصلی مالک کی چھوڑی ہوئی متعاع سے اپنی قربت کے لحاظ سے کم یا زیادہ حصہ پاتا ہے۔ یہ کم و زیادہ علم کا لحاظ قرآن میں اس طرح واضح کیا گیا
12:76 اور ہر صاحبِ علم سے اوپر (بھی) ایک علم والا ہوتا ہے۔ یعنی صاحبان علم درجہ بہ درجہ ایک کے اوپر ایک ہیں۔ جہاں تک علم کی بات ہے نبی دیگر علوم کے علاوہ خاص کر تلاوت، آیات، تزکیہ، حکمت اور غیب کا علم بتانے میں ممتاز ہوتے ہیں۔ جیسا کہ طریقہ رسول ﷺ کے بارے میں فرمایا
2:129 اے ہمارے رب! ان میں انہی میں سے (وہ آخری اور برگزیدہ) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث فرما جو ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے (کر دانائے راز بنا دے) اور ان (کے نفوس و قلوب) کو خوب پاک صاف کر دے، بیشک تو ہی غالب حکمت والا ہے۔چنانچہ رسول پر جو غیب کھولا گیا وہ بھی علم عالم کو وراثت میں ملتا ہے۔ یا جس حکمت سے رسول آراستہ ہیں اسکا کوئی حصہ وراثت میں عالم کو ملتا ہے۔ یا تزکیہ کرنے کے طریقے عالم کو وراثت میں ملتے ہیں۔ یا آیات کی تفصیل یا ان سے نکلنے والے احکام کا علم عالم کو وراثت میں ملتا ہے۔ یا کم از کم آیات کی صحیح تلاوت کرنا بھی ایک انسان کو عالم بناتی ہے۔ ایک اور جگہ سنت رسول ﷺ کو واضح کیا
2:151 اسی طرح ہم نے تمہارے اندر تمہیں میں سے (اپنا) رسول بھیجا جو تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں (نفسًا و قلبًا) پاک صاف کرتا ہے اور تمہیں کتاب کی تعلیم دیتا ہے اور حکمت و دانائی سکھاتا ہے اور تمہیں وہ (اَسرارِ معرفت و حقیقت) سکھاتا ہے جو تم نہ جانتے تھے۔ یا اسی طرح ایک اور مقام پر رسول ﷺ کا امتی سے تعلق بیان فرمایا کہ
62:2 وہی ہے جس نے اَن پڑھ لوگوں میں انہی میں سے ایک (با عظمت) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجا وہ اُن پر اُس کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں اور اُن (کے ظاہر و باطن) کو پاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں۔
یہ یاد رہے کہ اللہ کسی خاص ضرورت کے تحت اس غیب کا کچھ حصہ کسی رسول پر کھولتا ہے تاکہ اللہ کی طرف ہدایت کرنے میں رسول کے معاون ہو۔
3:179 اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ غیب پر مطلع فرما دے لیکن اللہ اپنے رسولوں سے جسے چاہے چن لیتا ہے۔ پچھلی قوموں کے حالات ہوں یا دور دراز مقامات کی خبر ہو یہ وحی کے ذریعے اس رسول پر کھولی جاتیں ہیں۔ یہی علم رسول قربت کے لحاظ سے عالم کا ورثہ بن جاتی ہیں۔ جو رسول کے جتنا قریب ہو گا وہی ورثے میں سب سے زیادہ حصہ پائے گا۔ یہ قربت، بدنی قربت سے زیادہ باطنی پاکیزگی کی قربت ہے۔ اویس قرنی دور ہونے کے باوجود علم رسول کا وہ حصہ پاتے رہے جو مدینے کے بدوی پاس ہونے کے باوجود نہ پا سکے۔
49:14 بدویوں نے کہا ہم ایمان لے آئے ہیں، کہہ دو تم ایمان نہیں لائے لیکن تم کہو کہ ہم مسلمان ہو گئے ہیں اورابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔ پاکیزگی میں سب سے بڑھ کر اہلبیت ہیں یہی وجہ ہے کہ انہوں نے علم رسول ﷺ سے پورا پورا حصہ حاصل کیا۔
34:33 بس اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے (رسولﷺ کے) اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا میل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے۔ یہی وجہ ہے کہ آل رسول ﷺ زکوۃ و صدقہ نہیں استعمال کرتی بلکہ انکا حصہ خمس کا پانچواں ہے۔
حدیث مسلم ہے کہ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سر کو نیچا کیا، اور فرمایا: ”
یہ صدقہ تو لوگوں (کے مال) کا میل (کچیل) ہے، اور یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آل (و اولاد) کے لیے حلال نہیں ہے، (یعنی بنو ہاشم کے لیے صدقہ لینا درست نہیں ہے)"۔ بلکہ اہل بیت کی پاکیزگی اور علم رسول ﷺ سے اسکا تعلق مذید واضح کرنے کے لیے فرمایا
34:33 اور تم اللہ کی آیتوں کو اور (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی) سنت و حکمت کو جن کی تمہارے گھروں میں تلاوت کی جاتی ہے۔
81:24 اور وہ (حبیبِ مکرّم ﷺ) غیب (کے بتانے) پر بالکل بخیل نہیں ہیں۔ اسی صحبت رسول ﷺ کی وجہ سے اہل بیت اور صحابہ میں علم رسول ﷺ کی وراثت منتقل ہوئی اور سنت رسول ﷺ کو جاری رکھنے کے لیے یہ سلسلہ آج تک امت میں بغیر کسی بخل کے جاری و ساری ہے۔ کیونکہ علم رسول ﷺ کی میراث پانے کا واحد طریقہ پاکیزگی ہے اسی لیے امت میں روحانی سلسلے جاری ہوئے جو گئے گزرے دور میں امت کا تزکیہ فرماتے ہیں۔ عام مومنین کے تزکیے پر صبر کی وجہ سے ان پرحق القاء ہوتا رہتا ہے۔ مثلاً دور قریب کے لوگوں کی اچھی بری نیت، تحریر اور کلام میں کجی یا حق ہونا۔
34:48 فرما دیجئے: میرا رب حق کا القاء فرماتا ہے سب غیبوں کو خوب جاننے والا ہے۔ جیسے سابقہ امتوں میں اللہ کی سنت احکام کے بارے میں امت محمدیہ ﷺ سے کچھ کچھ مختلف تھی اسی طرح علم لدنی، علم نیت یا علم غیب کی تقسیم کی سنت بھی خضر علیہ السلام یا دور کے نبی کے بجائے علماء محمدیہ ﷺکی ذمہ داری بنی۔ فرمایا کہ
2:106 ہم جب کوئی آیت منسوخ کر دیتے ہیں یا اسے فراموش کرا دیتے ہیں (تو بہرصورت) اس سے بہتر یا ویسی ہی (کوئی اور آیت) لے آتے ہیں۔ آیت نشانی کو کہتے ہیں۔ جناب خضر علیہ السلام بھی اللہ کی ایک نشانی ہی ہیں اور اب اس سے بہتر نشانی یہ ہے کہ امت محمدیہ ﷺ کے علماء علم لدنی سے آراستہ ہیں۔ جیسا کہ فرمایا
48:23 (یہ) اﷲ کی سنت ہے جو پہلے سے چلی آرہی ہے، اور آپ اﷲ کے دستور میں ہرگز کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے۔
17:77 اور آپ ہمارے دستور میں کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے۔ اور فرمایا
17:77 اور آپ ہمارے دستور میں کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے۔
33:62 اور آپ اللہ کے دستور میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ پائیں گے۔ یہ یاد رہے کہ عالم رجس سے پاک ہو۔ طاہر و مطہر ہو۔ اور ان کاموں میں مشغول ہو کہ جس کی تعلیم رسول اللہ ﷺ نے عطا فرمائی۔
3:164 بیشک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے (عظمت والا) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے، اگرچہ وہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔
مذید
یہاں دیکھیں