ﺧﻼ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﯿﻨﮏ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ ﺟﻼ ﺟﻼ ﮐﮯ ﭼﺮﺍﻍ
ﺑﻨﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ ﺳﺘﺎﺭﮮ ﮐﭽﮫ ﺁﺳﻤﺎﮞ ﮐﮯ لیے
ﻋﺪﯾﻢ ﮨﺎﺷﻤﯽ
فیصل آباد
 
مستانہ کر رہا ہوں رہِ عاشقی کو طے
لے جائے جذبِ شوق مرا اب جدھر مجھے

ڈرتا ہوں جلوۂ رُخِ جاناں کو دیکھ کر
اپنا بنا نہ لے کہیں میری نظر مجھے
(جگر مراد آبادی)
 
شکن نہ ڈال جبیں پر شراب دیتے ہوئے
یہ مُسکراتی ہوئی چیز مُسکرا کے پلا

سُرور چیز کی مقدار پر نہیں موقوف
شراب کم ہے تو ساقی نظر ملا کے پلا۔۔۔!
عدم
 
ﻟﻮﮒ ﭼﮩﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﺳﺠﺎﺋﮯ ﺭﺍﺕ ﺑﮭﺮ ﭘﮭﺮﺗﮯ ﺭﮨﮯ
ﺳﺎﻧﺤﮧ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ
ﺍﻓﻀﻞ ﺍﺣﺴﻦ ﺭﻧﺪﮬﺎﻭﺍ
فیصل آباد
 
جُرم آدم نے کیا اور نسلِ آدم کو سزا
کاٹتا ہوں زندگی بھر میں نے جو بویا نہیں
جانتا ہوں ایک ایسے شخص کو میں بھی منیر
غم سے پتھّر ہو گیا، لیکن کبھی رویا نہیں

منیر نیازی
 
Top