آب حیات - مولانا محمد حسین آزاد (مرحوم)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۰۲

تو کوتوال ہی بس ان سے اب سمجھ لے گا
یہ دمبدم کی شکایت کی ہے عبث تحریر

یہ وہ مثل ہے کہ جس طرح سارے شہر کے بیچ
بلند قامتی اپنی سے مہتم ہو بعیر

سو مُہتم مجھے ناداں نے ہجو شہ سے کیا
قباحت اس کی جو شہ سمجھے اس کو دے تعزیر

ولے مزاج مقدس جو لااُبالی ہے
نہیں خیال میں آتا خیال حرف حقیر

جو کچھ ہوا سو ہوا مصحفیؔ بس اب چپ رہ
زیادہ کر نہ صداقت کا ماجرا تحریر

خدا پہ چھوڑ دے اس بات کو وہ مالک ہے
کرے جو چاہے، جو چاہا کیا بہ حکم قدیر

سیّد انشاء پھرتے چلتے دلّی میں آئے تھے اور کچھ عرصہ رہے تھے اور جو لوگ ان معرکوں میں ان کے فریق تھے ان میں سے اکثروں نے دلّی کی شکل بھی نہیں دیکھی تھی۔ چنانچہ ایک موقع پر شیخ مصحفی نے یہ قطعہ کہا جس کے چند شعر ساتویں دیوان میں ہیں۔

بعضوں کا گماں یہ ہے کہ ہم اہل زباں ہیں
دلّی نہیں دیکھی ہے زباں داں یہ کہاں ہیں

پھر تسپہ ستم اور یہ دیکھو کہ عروضی
کہتے ہیں سدا آپکو اور لاف زناں ہیں

سیفی کے رسالہ پہ بنا انکی ہے ساری
سو اس کے بھی گھر بیٹھے وہ آپ ہی نگراں ہیں

اک ڈیڑھ ورق پڑھ کے وہ جامی کا رسالہ
کرتے ہیں گھمنڈ اپنا کہ ہم قافیہ داں ہیں

نہ (۹) حرف جو وہ قافیہ کے لکھتے ہیں اس میں
دانا جو انھیں سُنتے ہیں یہ کہتے ہیں ہاں ہیں

تعقید سے واقف نہ تنافر سے ہیں آگاہ
نہ (۹) حرف یہی قافیہ کے در و زباں ہیں

کرتے ہیں کبھی ذکر وہ ایطائے خفی کا
ایطائے جلی سے کبھی پھر حرف زناں ہیں

اوّل تو ہے کیا شعر میں ان باتوں سے حاصل
بالفرض جو کچھ ہو بھی تو یہ سب پہ عیاں ہیں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۰۳

حاصل ہے زمانہ میں جنھیں نظم طبیعی
نطم ان کی کے اشعار بہ از آبِ روا ں ہیں

پرواہ انھیں کب ہے ردیف اور روی کی
کب قافیہ کی قید میں اتش نفساں ہیں

مجھ کو تو عروض آتی ہے نہ قافیہ چنداں
اک شعر سے گرویدہ مرے پیرو جواں ہیں​

اس قطعہ کے مطلع پر خیال کرو کہ دلّی اس وقت کیا شے تھی۔ چند روز وہاں رہ جانا گویا زبان دانی کا سرٹیفکٹ ہوتا تھا۔ خیر اب شیخ صاحب کے اقسام سخن سے لطف حاصل کرنا چاہیے۔ باوجودیکہ شیخ مصحفیؔ بہت سن رسیدہ تھے۔ مگر سید انشاء کے مرنے کا انھیں افسوس کرنا پڑا۔ چنانچہ ایک غزل کے مقطع میں کہا ہے۔

مصحفی کس زندگانی پر بھلا میں شاد ہوں
یاد ہے مرگِ قتیلؔ و مردن انشاؔ مجھے

کیا کیا فساد کیا کیا شور و شر ہوئے
کیسے کیسے خاکے ڈرے انجام یہ کہ خاک

شیخ مصحفی کا قصیدہ نعت میں

حنا سے ہے یہ تری سُرخ اے نگار انگشت
کہ ہو نہ پنجہ مرجاں کہ نینہار انگشت

ضعیف اتنا ہوا ہوں کہ میرے ہاتھوں میں
نہیں یہ پنجہ طاقت سے بھلہ دار انگشت

ہلال و بدر ہوں یک جا عرق فشانی کو
رکھے جبیں پہ جو تو کر کے تابدار انگشت

فراق ہو کراں سے میں یہ ہوا باریک
کہ ہو گئیں مری سوزن صفت ہزار انگشت

زبسکہ زشت ہے دنیا میں ہاتھ پھیلانا
رکھے ہے سمٹی ہوئی اپنی پشت خار انگشت

وہ جب لگائے ہے فندق تو دیکھ دیکھ مجھے
رکھے ہے منھ میں تاسف کی روزگار انگشت
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۰۴

شمار داغ سے کب اتنی مجھ کو فرصت ہے
کہ رکھ سکوں بسر و چشم اشکبار انگشت​

چند شعر کے بعد گریز کرتے ہیں۔

بیان ضرور ہے اب دست و تیغ کا اسکی
نکل گئی سپرِ مہ سے جس کی پار انگشت

محمد صلی اللہ علیہ وسلم عربی معجزوں کا جس کے کبھی
نہ کر سکے فلکِ پیر کا شمار انگشت

چمن میں اسکی رسالت کا جب کچھ آئے ہے ذکر
علم کرے ہے شہادت کی شاخسار انگشت

وظیفہ جس کا پرھے ہے یہ دانہ شبنم
دعا میں جس کی کھولے ہوئے چنار انگشت

اگر ہو مہرہ گہوارہ سنگ فرش اس کا
نہ چوسے اپنی کبھی طفل شیر خوار انگشت

اٹھا دے گر کفِ افسوس ملنے کی وہ رسم
نہ ہووے پھر کبھی انگشت سے دو چار انگشت

کرے جو وصف وہ اس تاج انبیا کے رقم
قلم کی جوں نے نرگس ہو تاجدار انگشت

غزلیات

دن جوانی کے گئے موسمِ پیری آیا
آبرو خواب ہے اب وقت حقیری آیا

تابہ و طاقت رہے کیا خاک کے اعضا کے تئیں
حاکمِ ضعف سے فرمان تغیری آیا

سبق نالہ تو بلبل نے پڑھا مجھ سے ولے
نہ اُسے قاعدہ تازہ صفیری آیا

شاعری پر کبھی اپنی جو گئی اپنی نظر
دضمیر اپنے میں اس وقت ضمیری آیا

درد پڑھنے جو اٹھا صبح کو سب سے پہلے
مکتبِ عشق میں ہونے کو وہ میری آیا

اسکے در پر میں گیا سوانگ بنائے تو کہا
چل بے چل دور ہو کیا لے کے فقیری آیا

پوچھ مت معرکہ عشق کا ہنگامہ کہ واں
قیس مارا گیا وامق باسیری آیا

اے سلیماں ہو مبارک تجھے یہ شاہی تخت
تیرا آصف بھی بسامان وزیری آیا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۰۵

چشم کم سے نہ نظر مصحفی خستہ پہ کر
وہ اگر آیا تو مجلس میں نظیری ایا​

غزل مذکورہ ذیل سید انشاء کی غزل پر ہے۔

پیری سے ہو گیا یوں اس دل کا داغ ٹھنڈا
جس طرح صبح ہوتے کر دیں چراغ ٹھنڈا

سیر گرم سیر گلشن کیا خاک ہوں کہ اپنا
نزلہ سے ہو رہا ہے آپ ہی دماغ ٹھنڈا

بلبل کے گرم نالے جب سے سنے ہیں اس نے
دیوار گلستاں پر بولے ہے زاغ ٹھنڈا

کیا کیا خوشامدی نِت پنکھا لگے ہلانے
کشتی سے جب ہوا وہ کر کے فراغ ٹھنڈا

صرصر سے کم نہیں کچھ وہ تیغ تیز جس نے
لاکھوں کا کر دیا ہے دم میں چراغ ٹھنڈا

کشمیری ٹولے میں ہم جاتے تھے روز لیکن
جی آج ٹک ہوا ہے کر کے سراغ ٹھنڈا

گرمی کی رُت ہے ساقی اور اشک بلبلوں نے
چھڑکاؤ سے کیا ہے سب صحن باغ ٹھنڈا

ایسے میں اک صراحی شورے لگی منگا کر
لبریز کر کے مجھ کو بھر دے ایاغ ٹھنڈا

کیا ہم ٹکڑ گدا ہیں جو مصحفیؔ یہ سوچیں
ہے گرم اس کا چولھا اس کا اجاغ ٹھنڈا​

جراءت اور سیّد انشاء کے مستزاد بھی دیکھو کہ مشاعرہ کے معرکے میں پڑھے گئے تھے۔

غزل مستزاد

خوشبوئی سے جن کی ہو خجل عمبر سارا
ہم مشک کی نگہت

بال اُلجھے ہوئے ہیں وکہ ریشم کا ہے لچّھا
اللہ ری نزاکت

پاؤں میں کفک اور لگے ہاتھوں میں مہندی
از خونِ مُحبّان​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۰۶

چہرہ وہ پری کہئے جسے نُور کا بقعہ
رنگ آگ کی صورت

تلوار لئے ابروئے کج قتل پہ مائل
لب خون کے پیاسے

پھولوں کی چھڑی ہاتھ میں اور کان میں بالا
چتون میں شرارت

مسّی کی دھڑی اک تو جمی ہونٹوں پہ کافر
اور ترشی سے پونچھے

پھر تس پہ ستم ان کا وہ پائوں کا مکھوڑا
جوں خون کی ہو رنگت

پاؤں میں انی دار پڑی کفش زری کی
دل جس سے ہو زخمی

اور سر پر شرارت سے بندھا بالوں کا جوڑا
سچ دھج سو اک آفت

خونخوار نگہ عربدہ جو آپ سو کیفی
سرشار نشہ میں

اک ہاتھ میں ساغر تو پھر اک ہاتھ میں مینا
مستوں کی سی حالت

آیا مرے گھروی مرے دروازہ پہ دستک
میں گھر سے نکل کر

دیکھوں تو سرِ کوچہ اک آشوب ہے پیدا
آئی ہے قیامت

تب میں نے کہا اس سے کہ اے مایہ خوبی
کیا جی میں یہ ایا

اس وقت جو آیا تو مرے پاس اکیلا
سمجھا نہ قباحت

تو سُن کے لگا کہنے کہ اے مصحفیؔ سُن بات
گھر سے مرے مجھ کو

لایا ہے ترا جاذبہ ہی کھینچ کے اِس جا
تھی کس کو یہ قدرت
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

سر شام اس نے منھ سے جو رُخِ نقاب اُلٹا
نہ غروب ہونے پایا وہیں آفتاب اُلٹا

جو کسی نے دیکھنے کو اسے لا کے دی مصّور
نہ حیا کے مارے اُس نے ورقِ کتاب اُلٹا

میں حساب بوسہ جی میں کہیں اپنے کر رہا تھا
وہ لگا مجھے سے کرنے طلب اور حساب اُلٹا

مہ چاردہ کا عالم میں دکھاؤں گا فلک کو
اگر اس نے پردہ منھ سے شبِ ماہتاب اُلٹا​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۰۷

جو خفا ہوا میں جی میں کسی بات پر شبِ وصل
سحر اٹھ کے میرے آگے وہی اُسنے خواب اُلٹا

بسوال بوسہ اُسنے مجھے روک کے دی جو گالی
میں ادب کے مارے اُسکو نہ دیا جواب اُلٹا

کہیں چشم مہر اس پر تو نہ پڑ گئی ہو یارب
جو نکلتے صبح گھر سے وہ پھرا شتاب اُلٹا

میں ہوا ہوں جس پر عاشق یہ شنگرف ماجرا ہے
کہ مرے عوض لگا ہے اُسے اضطراب اُلٹا

کسی مست کی لگی ہے مگر اس کے سر کو ٹھوکر
جو پڑا ہے میکدہ میں یہ خمِ شراب اُلٹا

یہ مقامِ آفریں ہے کہ بزور مصحفیؔ نے
انہی قافیوں کو پھر بھی بصد آب و تاب اُلٹا
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

جو پھرا کے اس نے منھ کو بقضا نقاب اُلٹا
اِدھر آسمان اُلٹا اُدھر آفتاب اُلٹا

نہ قفس میں ایسے مجھ کو تو اسیر کیجو صیاد
کہ گھڑی گھڑی وہ ہووے دمِ اضطراب اُلٹا

مرے حال پر مغاں نے یہ کرم کیا کہ سُن سُن
مرے پی کے سر پہ رکھا قدح شراب اُلٹا

ترا تشنہ لب جہاں سے جو گیا لحد پہ اسکی
پس مرگ بھی کسی نے نہ سبوئے آب اُلٹا

مری آہ نے جو کھولی بعبوق آہ کی برق
وہیں برق رعد لے علم سحاب اُلٹا

جو خیال میں کسو کے شبِ ہجر سو گیا ہو
نہ ہو صبح کو آلہی کبھی اس کا خواب اُلٹا

مرے دم الٹنے کی جو خبر اسکو دی کسی نے
وہیں نیم رہ سے قاصد بصد اضطراب اُلٹا

جو علی کا حکم نافذ نہ فلک پہ تھا تو پھر کیوں
بگہ غروب آیا نکل آفتاب اُلٹا

اب اسی میں توسہِ غزلہ جو کہے تو کام بھی ہے
نہیں مصحفی مزا کیا جو دور و کتاب اُلٹا
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

یہ دم اسکے وقت رخصت بصد اضطراب اُلٹا
کہ بسوئے دل مژہ سے وہیں خونِ ناب اُلٹا

سر لوح اسکی صورت کہیں لکھ گیا تھا مانی
اُسے دیکھ کر نہ میں نے ورق کتاب اُلٹا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۰۸

میں عجب یہ رسم دیکھی مجھے روزِ عید قربان
وہی ذبح بھی کرے ہے وہی لے ثواب اُلٹا

یہ عجب ہے مری قسمت کہ جو دل کسی کو دوں میں
وہ مرے ہی سر سے مارے اسے کر خراب اُلٹا

یہ نقاب پوش قاتل کوئی زور ہے کہ جس نے
کئے خون سینکڑوں اور نہ ذرا نقاب اُلٹا

جو بوقت غسل اپنا وہ پھرالے واں سے منھ کو
تو پھراتے ہی منھ اُسکے لگے بہنے آب اُلٹا

میں لکھا ہے خط تو قاصد پہ یہ ہو گا مجھ پہ احساں
انھیں پاؤں پھر کے تو آ جو ملے جواب اُلٹا

ترے آگے مہرتاباں ہے زمیں پہ سر بسجدہ
یہ ورق ہے گنجفہ کا نہیں آفتاب اُلٹا

نہیں جائے شکوہ اس سے ہمیں مصحفیؔ ہمیشہ
کہ زمانہ کا رہا ہے یوہیں انقلاب اُلٹا​

غزل ہائے مرقومہ ذیل پر شاہ نصیر کی بھی غزل دیکھو۔

صاف چولی سے عیاں ہے بدن سُرخ ترا
نہیں چُھپتا تہِ شبنم چمن سُرخ ترا

یہی عالم ہے اگر اس کا تو دکھلا دے گا
بارشِ خوں کا سماں پیرہن سُرخ ترا

وائے ناکامی کہ عاشق کو ترے موت آئی
قابل بوسہ ہوا جب دہن سُرخ ترا

تا کمر خون شہیدوں کے بہے گلیوں میں
جب سے پاجامہ بنا گلبدن سُرخ ترا

خون سے آلودہ ہو آتا ہے تو اے اشک سفید
نام ہم کیوں نہ رکھیں یاسمن سُرخ ترا

آتشِ تیز میں ٹھہرا ہے کہیں یوں بھی سپند
کہہ رہا ہے یہی خالِ ذقن سُرخ ترا

مصحفی خوش ہو کہ مانگے گا ترے قاتل سے
خوں بہا روز قیامت کفن سُرخ ترا
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

کیسہ مالی سے ہوا گل بدن سُرخ ترا
طالب آب نہ ہو کیوں چمنِ سُرخ ترا

یہی پوشاک کا ہے رنگ تو اے گل ہو گا
تشنہ خون چمن پیرہن سُرخ ترا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۰۹

کیوں نہ ہو مردہ ہوس زندہ بنے جب اے شوخ
پان سے بیربُہیٹّی دہن سُرخ ترا

مجھ سے انکار ستم فائدہ اے گرگ فلک
واں ہے بچہ خوری پر دہن سُرخ ترا

کاش اے کشتہ تو محشر میں اُٹھے ہو کے فقیر
گیروا مٹی میں ہووے کفن سُرخ ترا

لب پان کوردہ کی اس گل کے جو سرخی دیکھی
رنگ اڑ جائے گا اے ناردن سُرخ ترا

سر پہ تابش میں تو رکھے تو دِل عاشق میں
آگ بھڑکائے نہ کیوں بادزن سُرخ ترا

مصحفیؔ چاہیے کیا اس کو دلیلِ قاطع
سبز ہے خود بہ تخلص سخن سُرخ ترا
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

اک تو تھا آتشِ سوزاں بدن سُرخ ترا
شعلہ بر شعلہ ہوا پیرہن سُرخ ترا

پان کھانے کی ادا یہ ہے تو ایک عالم ہے
خوں رُلا دے گا مری جاں دہن سُرخ ترا

گوئے خورشید شفق رنگ کو دیتا ہے فشار
پنجہ رشک سے سیب ذقن سُرخ ترا

شمع گلگوں غمِ پروانہ میں خوں اتنا نہ رو
طشتِ آتش تو بنا ہے لگن سُرخ ترا

سُرخ عیار سے تو کم نہیں اے دُردِ حنا
کفِ رنگین بتاں ہے دہن سُرخ ترا

یوہیں اے کشتہ جو آیا تو صفِ محشر میں
آگ دیوے گا لگا واں کفن سُرخ ترا

تو اگر ناقہ آہو ہے تو عقدہ زلف
ہے وہ رخسارہ رنگیں ختن سُرخ ترا

اُسکے موباف سے بھی شانہ نے شب پوچھا تھا
دام شب رنگ ہے کیوں اے رسن سُرخ ترا

ہر پری چہرہ ہے پوشیدہ لباس گلگوں
میں تو دیوانہ ہوں اے انجمن سُرخ ترا

مصحفیؔ زخم ہے تیشہ کا ترے ہر مُو پر
نام ہم کیوں نہ رکھیں کوہکن سُرخ ترا
*-*-*-*-*

رنگ پان سے جو ہوا گل دہن سُرخ ترا
مر گئی دیکھ کے بلبل دہن سُرخ ترا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۱۰

پان کھا کر جو مسی زیب کئے تو نے دو لب
بن گیا مزرع سنبل دہن سُرخ ترا

سُرخ تو تھا ہی ولے اور ہوا گلناری
پی گئے اے گل قدح مُل دہن سُرخ ترا

تب ہو عاشق کی شب وصل تسلی اے گُل
مصرفِ بوسہ ہو جب گل دہن سُرخ ترا

غنچہ ساں وا نہ ہوا عالمِ مے نوشی میں
سُن کے شیشہ کی بھی قلقل دہن سُرخ ترا

شانہ کرتے جو سرِ جعد تو دانتوں میں رکھے
ہو نہ خونخوارہ کاکل دہن سُرخ ترا

تیغ مریخ پہ چھٹتی ہے ہوائی اب تک
کہیں دیکھا تھا سرِ پل دہن سُرخ ترا

مصحفیؔ تو نے زبس گل کے لئے ہیں بوسے
رشک سے دیکھے ہے بلبل دہنِ سُرخ ترا
*-*-*-*-*-*-*-*

جو گستاخانہ کچھ اس سے میں بولا
تو بس ابرو نے تیغا دو ہیں تولا

چُنے عاشق نہ کیوں اُسکے ممولے
کہ چشم شوخ ہے اس کی ممولا

جزاک اللہ بنایا تو نے صیّاد
قفس میں ازپئے بلبل ہنڈولا

نہ مارے دست و پا تا اس کا بسمل
آلہی مار جاوے اس کو جھولا

لب اس گل کے ہیں جام بادہ لعل
مسی نے اُن میں آ کر زہر گھولا

یہ وہ گلشن ہے جس میں غم کے مارے
تبسّم سے کلی نے مجھ نہ کھولا

مری پتلی نے اشک خیرہ سر کو
بنایا ہے ہتھیلی کا پھپھولا

کہیں ملتے ہیں ایسے مصحفیؔ یار
نہ آوے دل کے مرنے کا ممولا​

آتش کی غزل کو بھی دیکھنا۔

نگاہِ لطف کے کرتے ہی رنگ انجمن بگڑا
محبت میں تری ہم سے ہر اک اہل وطن بگڑا​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۱۱

کچھ اسکی وضع بگڑی کچھ ہے وہ پیمان شکن بگڑا
یہ سج دھج ہے تو دیکھو کے زمانہ کا چلن بگڑا

خدا کہتا تھا روزِ محشر میں تجھ سے سمجھ لوں گو
ترے تیشہ سے گر شیریں کا نقش اے کوہکن بگڑا

میں سمجھا گریہ سے تاثیر اُس دم سمع مجلس کی
یہ موتی اشک کا جاتے ہوئے جب تا لگن بگڑا

جو چنگ نالہ کو ہن نے اُڑایا ہجر کی شب میں
کہیں گے سب کہ تیرا کھیل اب چرخ کہن بگڑا

جسے سب بانکے اور ٹیڑھے کریں تھے دور سے مُجرا
وہی رستہ میں آخر ہم سے کر کے بانکپن بگڑا

تری مژگاں کی راوت چڑھ گئی جب انپہ لڑنے کو
پڑی پونہ کے اندر کھلبلی سارا دکن بگڑا

بُری صورت سے رہنا ننگ ہے دنیا میں انساں کو
وہ گڑ جاتا ہے خود جیتا جو کوڑھی کا بدن بگڑا

ہمیشہ شعر کہنا کام تھا والا نژادوں کا
سفیہوں نے دیا ہے دخل جب سے بس یہ فن بگڑا

مکان تنگ میں پائی نہ جا کلکِ تخیل نے
بنا سب خال و خط مانی سے اسکا پر دہن بگڑا

نہیں تقصیر کچھ درزی کی اس میں مصحفیؔ ہر گز
ہماری نادرستی سے بدن کی پیرہن بگڑا
*-*-*-*-*-*-*-*-*

دُعا دینے سے میرے شب وہ ترکِ تیغ زن بگڑا
سپاہی زادوں کا بھی دیکھوں ہوں میں کچھ چلن بگڑا

سخن سیدھی طرح اور وضع سادی بے مسی دانداں
بھلا کتنا لگے ہے مجھ کو اسکا سادہ پن بگڑا

کیا تاراج یوں پیری نے حُسن نوجوانی کو
بوقتِ صبح آرائش کا ہووے جوں چمن بگڑا

سوئی جس کو لگائی زید کی معشوقہ نے اپنی
سبھی سنوری وہی مجنوں کا بس اک پیرہن بگڑا

کمال حسن خالق نے دیا ہے اس پریزد کو
نہ چتون کج ہوئی اسکی نہ گاتے میں دہن بگڑا

یہ تصویر میں عجب نواب نے کوٹھی میں بنوائیں
کسی کی ہے پھری ٹھوڑی کسی کا ہے دہن بگڑا

نہ مارے حق کسی کو کر کے مفلس وائے رسوائی
جہاں کو تہ ہوا کپڑا کفن کا وہ کفن بگڑا

رواج اُس نے نہ پایا بسکہ عہدِ زلف مشکیں میں
دھرا نافہ میں جو برسوں رہا مشک ختن بگڑا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۱۲

عجائب اور غرائب باتیں اب سننے میں آئی ہیں
خم نیلی ترا شاید کہ اے چرخِ کہن بگڑا

خلل انداز جو لکنت ہوئی اسکی فصاحت میں
زباں پر اس بُتِ الکن کی آیا جو سخن بگڑا

ہمیں تکلیف نظم شعر کی دینے سے کیا حاصل
زمانہ ہم سے ان رعزوں ہے یاران وطن بگڑا

بہ ہمت جس سے شکلِ کافر شیریں بنائی تھی
اُسی تیشہ سے پھر آخر کو کار کوہکن بگڑا

رہی اے مصحفیؔ تا صبح اسکی اُس پہ جھنجھلاہٹ
بنانے میں جو مشاطہ سے شب حال ذقن بگڑا
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

نہ گیا کوئی عدم کو دلِ شاداں لے کر
یاں سے کیا کیا نہ گئے حسرت و ارماں لیکر

جی ہی جی بیج بہت شاد ہوا کرتی ہیں
تیری عارض کی بلائیں تیری مژگاں لیکر

کیا خطا مجھ سے ہوئی رات کہ اس کافر کا
میں نے خود چھوڑ دیا ہاتھ میں داماں لیکر

باغ وہ دشتِ جنوں تھا کہ کبھی جس میں سے
لالہ و گل گئے ثابت نہ گریباں لیکر

طُرفہ سوجھی یہ جنوں کو ترے دیوانے کی
راہ میں پھینک دیئے خار مغیلاں لیکر

زلف و رخسار کا عالم ہے غضب ہے اسکے
شاد ہو کیوں نہ دل گبرو مسلماں لیکر

پردہ خاک میں سُو سُو رہے جا کر افسوس
پردہ رخسار پہ کیا کیا مہ تاباں لیکر

ابر کی طرح سے کر دیویں گے عالم کو نہال
ہم جدھر جاویں گے یہ دیدہ گریاں لیکر

پھر گئی سوئے اسیرانِ قفس بادِ صبا
خبر آمدِ ایّام بہاراں لے کر

دوستی تھی مجھے ہر اک سے گئے تا در قبر
دوش پر نعش مری گبرو مسلماں لیکر

رنج پہ رنج جو دینے کی ہے خو قاتل کو
ساتھ آیا ہے بہم تیغ و نمکداں لیکر

مصحفیؔ گوشہ عزلت کو سمجھ تخت شہی
کیا کرے گا تو عبث ملک سلیماں لیکر
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۱۳

یار بن باغ سے ہم آتے ہیں دُکھ پائے ہوئے
اشک آنکھوں میں بھرے ہاتھ میں گل کھائے ہوئے

آنکھ سیدھی نہیں کرتا کہ مقابل ہو نگاہ
آرسی ناز سے وہ دیکھے ہے شرمائے ہوئے

کس کے آنے کی خبر ہے جو چمن میں گلچیں
جوں صبا چار طرف پھرتے ہیں گھبرائے ہوئے

ہم تو ترسے ہیں صنم اک نگہِ دُور کو بھی
بخت انکے ہیں جو ہر دم تیرے ہمسائے ہوئے

حُسن خجلت زدہ کیا ر نگ دکھاتا ہے نئے
آرسی بھی اسے اب دیکھے ہے للچائے ہوئے

اس کے کوچہ سے جو اُٹھ آتے ہیں ہم دیوانے
پھر انھیں پاؤں چلے جاتے ہیں بورائے ہوئے

مصحفیؔ کیونکہ عناں گیر ہو اس کا جوں برق
تو سنِ ناز کو جب جائے وہ چمکائے ہوئے
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

خامش ہیں ارسطو و فلاطوں مرے آگے
دعویٰ نہیں کرتا کوئی موزوں مرے آگے

دانش پہ گھمنڈ اپنی جو کرتا ہے بشدّت
واللہ کہ وہ شخص ہے مجنوں مرے آگے

لاتا نہیں خاطر میں سخن بیہودہ گو کا
اعجاز مسیحا بھی ہے افسوں مرے آگے

دشوار ہے رتبہ کو پیمبر کے پہنچنا
ہے موسیٰ عمران بھی ہاروں مرے آگے

باندھے ہوئے ہاتھوں کو بامید اجابت
رہتے ہیں کھڑے سیکڑوں مضموں مرے آگے

جب موج پہ آ جائے ہے دریائے طبیعت
قطرے سے بھی کم ٹھہرے ہے جیجوں مرے آگے

بدبینی پہ آؤں تو سبھی اہل صفا کے
ہو جاویں شبہ سب درِ مکنوں مرے آگے

اُستاد ہوں میں مصحفیؔ حکمت کے بھی فن میں
ہے کودکِ نو درس فلاطوں مرے آگے
*-*-*-*-*

ہے جام طرب ساغرِ پُرخوں مرے آگے
ساقی تو دلانا سے گلگوں مرے آگے

ٹک لب کے ہلا دینے میں حسان عجم کا
ہو جاوے ہے احوال وگرگوں مرے آگے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۱۴

سمجھوں ہوں اسے مہرہ بازیچہ طفلاں
کس کام کا ہے گنبد گردوں مرے آگے

جب تیزی پہ آتا ہے مرا تو سنِ خامہ
بنجاویں ہیں تب کوہ بھی ہاموں مرے آگے

میں گوز سمجھتا ہوں سدا اسکی صدا کو
گو بول اُٹھے ادھی کی چوں چوں مرے آگے

سب خوشہ ربا ہیں مرے خرمن کے جہاں میں
کیا شعر پڑھے گا کوئی موزوں مرے آگے

قدرت ہے خدا کی کہ ہوئے آج وہ شاعر
طفلی میں جو کل کرتے تھے غاں غوں مرے آگے

موسیٰ کا عصا مصحفیؔ ہے کامہ مرا بھی
گو خصم بنے اسودِ افیوں مرے آگے

خاتمہ

اے فلک نہ یہ جلسہ برہم ہونے کے قابل تھا، نہ آج رات کا سماں صبح ہونے کے قابل تھا۔ پھر ایسے لوگ کہاں! اور ایسے زمانے کہاں! سیّد انشاء اور جراءت جیسے زندہ دل شوخ طبع باکمال کہاں سے آئیں گے۔ شیخ مصحفیؔ جیسے مشاق کیوں کر زندہ ہو جائیں گے۔ اور آئیں تو ایسے قدرداں کہاں! اچھے لوگ تھے کہ اچھا زمانہ پایا، اور اچھی گزار گئے۔ وہ جوش و خروش، وہ شوخیاں وہ چہنیں اب کہاں؟

گیا حُسن کوبان دل خواہ کا
ہمیشہ رہے نام اللہ کا​

میرا دل خدا جانے کس مٹی کا بنا ہے۔ کسی کی جدائی کا نام لیا یہ پگھل گیا، کسی عزیز کا ذکر کیا اس سے خون ٹپک پڑا اور سخت جانی دیکھو کہ نہ پانی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۱۵

ہو کر بہہ جاتا ہے نہ خاک ہو کر رہ جاتا ہے۔ تماشا یہ ہے کہ کتنے کتنے صدمے اٹھا چکا ہے، پھر بھی ہر داغ نیا ہی صدمہ دیتا ہے، مگر انصاف کرو۔ وہ عزیز بھی تو دیکھو، کیسے تھے اور کون تھے۔ عالم کے عزیز تھے۔ اور دل کے عزیز تھے۔ اپنی باتوں سے عزیز تھے۔ آزاد! بس رونا دھونا موقوف، اب آنسو پونچھ ڈالو، ادب کی آنکھیں کھولو اور سامنے نگاہ کرو۔

*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۱۶

پانچواں دَور

تمہید

دیکھنا! وہ لالٹینیں جگمگانے لگیں۔ اٹھو اٹھو استقبال کر کے لاؤ۔ اس مشاعرہ میں وہ بزرگ آتے ہیں جن کے دیدار ہماری آنکھوں کا سُرمہ ہوئے، اس میں دو قسم کے باکمال نظر آئیں گے، ایک وہ کہ جنھوں نے اپنے بزرگوں کی پیروی کر دین آئین سمجھا۔ یہ اُن کے باغوں میں پھریں گے۔ پرانی شاخیں زرد پتے کاٹیں بھاٹیں گے۔ اور نئے رنگ نئے ڈھنگ کے گلدستے بنا بنا کر گلدانوں سے طاق و ایوان سجائیں گے۔ دوسرے وہ عالی دماغ جو فکر کے دخان سے ایجاد کی ہوائیں اڑائیں گے، اور برج آتشبازی کی طرح اس سے رتبہ عالی پائیں گے۔ انھوں نے اس ہوا سے بڑے بڑے کام لئے۔ مگر یہ غضب کیا کہ گرد و پیش جو وسعت بے انتہا پڑی تھی اس میں سے کسی جانب میں نہ گئے۔ بالاخانوں میں سے بالا بالا اڑ گئے چنانچہ تم دیکھو گے کہ بعض بلند پرواز ایسے اوج پر جائیں گے جہاں آفتاب تارا ہو جائے گا۔ اور بعض ایسے اڑیں گے کہ اڑ ہی جائیں گے۔ وہ اپنے آئین کا نام خیال بندی اور نازک خیالی رکھیں گے۔ مگر حق یہ ہے کہ شاعری انکی ساھری اور خود اپنے وقت کے سامری ہوں گے۔ ساتھ اسکے صاحبِ اقبال
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۱۷

ایسے ہوں گے کہ انھیں پرستش کرنے والے بھی ایسے ہی ہاتھ آئیں گے۔ ان بزرگوں کی نازک خیالی میں کچھ کلام نہیں لیکن اتنا ہے کہ اب تک مضمون کا پھول اپنے حسن خداداد کے جوبن سے فصاحت کے چمن میں لہلہاتا تھا۔ یہ اس کی پنکھڑیاں لیں گے اور اُن پر موقلم سے ایسی نقاشی کریں گے کہ بے عینک کے نہ دکھائی دے گی۔ اس خیال بندی میں یہ صاحب کمال اس قدرتی لطافت کی بھی پروا نہ کریں گے جسے تم حسنِ خداداد سمجھتے ہو، کیوں کہ ان کی صنعت بے اس کے اپنا رنگ نہیں دکھا سکتی۔

پہلے بزرگ گرد و پیش کے باغوں کا پتّا پتّا کام میں لا چکے تھے۔ اب نئے پھول کہاں سے لاتے، آگے جانے کی سڑک نہ تھی اور سڑک نکالنے کے سامان نہ تھے۔ ناچار اِس طرح اُستادی کا نقارہ بجایا۔ اور ہمعصروں میں تاج افتخار پایا۔ یہ آخری دور کی مصیبت کچھ ہماری ہی زبان پر نہیں پڑی۔ فارسی کے متقدمین کو اسکے متاخرین سے مطابق کر لو۔ شعرائے جاہلیت کا متاخرین عرب سے مقابلہ کرو۔ انگریزی اگرچہ میں نہی ں جانتا۔ مگر اتنا جانتا ہوں کہ اس کے متاخرین بھی اس درد سے نالاں ہیں۔ پس معلوم ہوا کہ زبان جب تک عالمِ طفولیت میں رہتی ہے تبھی تک شیر و شربت کے پیالے لنڈھاتی ہے۔ جب پختہ سال ہوتی ہے تو خوشبو عرق اس میں ملاتی ہے۔ تکلف کے عطر ڈھونڈھ کر لاتی ہے پھر سادگی اور شیریں ادائی تو خاک میں مل جاتی ہے۔ ہاں دواؤں کے پیالے ہوتے ہیں۔ جس کا جی چاہے پیا کرے۔

اِس موقع پر یہ کہنا واجب ہے کہ ان سے پہلے جو صاحب کمال لکھنؤ میں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۱۸

تھے وہ دلی کے خانہ برباد تھے۔ وہ یا ان کی اولادیں اس وقت تک دلّی کو اپنا وطن سمجھتے تھے اور اہل لکھنؤ ان کی تقلید کو فخر سمجھتے تھے نہ کہ عیب۔ کیوں کہ وہاں اب تک کوئی صاحب کمال اس درجہ کا پیدا نہ ہوا تھا، اب وہ زمانہ آتا ہے کہ انھیں خود صاحب زبانی کا دعویٰ ہو گا اور زیبا ہو گا۔ اور جب ان کے اور دلی کے محاورہ میں اختلاف ہو گا تو اپنے محاورے کی فصاحت اور دلّی کے اہل انصاف بھی تسلیم کریں گے۔ بلکہ انہی کے بعض بعض نکتوں کو دلّی کے اہل انصاف بھی تسلیم کریں۔ ان بزرگوں نے بہت قدیمی الفاظ چھوڑ دیئے۔ جن کی کچھ تفصیل چوتھے دیباچہ میں لکھی گئی اور اب جو زبان دلّی اور لکھنؤ میں بولی جاتی ہے وہ گویا انہی کی زبان ہے۔ البتہ شیخ ناسخؔ کے دیوان میں ایک جگہ زور کا لفظ بہت کے معنوں میں دیکھا گیا۔ شاید یہ ابتاد کا کلام ہو۔

عابد و زاہد چلے آتے ہیں پینا ہے شراب
اب تو ناسخؔ زور رندِ لا اُبالی ہو گیا​

اساتذہ دہلی کے کلام میں آئے ہے، اور جائے ہے، اکثر ہے مگر اخیر کی غزلوں میں انھوں نے بھی بچاؤ کیا ہے۔

شاہ نصیر مرحوم سن رسیدہ شخص تھے، آغاز شاعری کا کفارہ جراءت اور سید انشا سے مِلا ہوا تھا اور انجام کی سرحد ناسخؔ، آتشؔ اور ذوقؔ میں واقع ہوئی تھی، اس لئے ابتدائی غزلوں میں کہیں کہیں ٹک بول جاتے ہیں اور جس طرح جمع مؤنث کے فعلوں کو الف نون کے ساتھ چوتھے طبقہ میں بے تکلف بولتے تھے۔ اِن کی ابتدائی غزلوں میں کہیں کہیں ہے، چنانچہ میر کی غزل
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۱۹

مطلع ہے۔

جفائیں دیکھ لیاں بیوفائیاں دیکھیں
بھلا ہوا کہ تری سب برائیاں دیکھیں

کبھی نہ اُس رُخ روشن پہ جھائیاں دیکھیں
گھٹائیں چاند پہ سو بار آئیاں دیکھیں​

اسی طرح موصوف جمع ہو اور صفت لفظ ہندی ہو تو اب موصوف کی مطابقت کے لیے صفت کو جمع بولنا خلاف فصاحت سمجھتے ہیں، مگر خواجہ صاحب فرماتے ہیں :-

عہد طفلی میں بھی تھا میں بسکہ سودائی مزاج
بیڑیاں منّت کی بھی پہنی تو میں نے بھاریاں

تمہید شیخ امام بخش ناسخ کے حال کی

بزرگان قدیم کی عمدہ یادگار مخدومی مولوی محمد عظیم اللہ صاحب ایک صاحب فضل و عاشق کمال غازی پور زمینہ (زمانیہ) کے رئیس ہیں۔ اگرچہ بزرگوں کا حال بہ تفصیل معلوم نہیں مگر اتنا جانتا ہوں کہ قاضی القضاۃ مفتی اسد اللہ صاحب کی ہمشیرہ یعنی شاہ اجمل صاحب کی نواسی سے ان کی شادی ہوئی۔ مولوی صاحب موصوف کے والد کی شیخ امام بخش ناسخؔ سے نہایت دوستی تھی۔ میرے دوستو! اگلے وقتوں کی دوستیاں کچھ اور دوستیاں تھیں۔ آج تمھارے روشنی کے زمانہ میں ان کی کیفیت بیان کرنے کو لفظ نہیں ملتے جن سے ان کے خیالوں کا دلوں میں عکس جماؤں۔ ہائے اُستاد ذوقؔ
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۲۰

اب زبان پر بھی نہیں آتا کہیں الفت کا نام
اگلے مکتبوں میں کچھ رسم کتابت ہو تو ہو​

غرض جذب جنسیت اور اتحاد طبیعت ہمیشہ مولوی صاحب کے والد کو غازی پور سے لکھنؤ کھینچ کر لے جاتا تھا۔ مہینوں وہیں رہتے تھے۔ مولوی صاحب کا پانچ برس کا سِن تھا۔ یہ بھی والد کے ساتھ ہوتے تھے۔ اسوقت سے شیخ ناسخؔ کی خدمت میں رہے اور سالہا سال فیض حضوری سے بہرہ یاب ہوئے۔ رغمی تخلص انھیں نے عنایت فرمایا۔ جس سے ۱۲۵۰؁ھ سال تلمذ نکلتے ہیں۔ عربی، فارسی کی کتب تحصیلی الہ آباد اور لکھنؤ میں حاصل کیں۔ اُردو فارسی کی انشاء پردازی میں ککئی مجلد لکھ کر چھوڑے ہیں۔ جانتے ہیں کہ ان کی فصل اب بالکل نئی نکل گئی۔ ہوا مخالف ہے، اسلئے آپ گوشہ عافیت سے نکلتے ہیں۔ نہ انھیں نکالتے ہیں، عہد جوانی میں سرکار سے بھی بااقتدار اور معزز عہدے حاصِل کئے۔ اب بڑھاپے نے پنشن خوار بنا کر خانہ نشین کر دیا ہے، بندہ آزاد کو اسی آب حیات کی بدولت اُن کی خدمت میں نیاز حاصل ہوا۔ انھوں نے بہت حالات شیخ موصوف کے لکھ کر گرانبار احسان فرمایا جو کہ اب طبع ثانی میں درج ہوتے ہیں۔ آزادؔ ان کا صدق دل سے ممنون احسان ہمیشہ عنایت ناموں سے ممنون فرماتے رہتے ہیں جن کے حرف حرف سے محبت کے آب حیات ٹپکتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ ہم لوگ اس زمانہ کے لیے بالکل اجنبی ہیں، نئی روشنی والے کہتے ہیں کہ روشنی نہیں، روشنی نہیں، جناب رغمیؔ اور بندہ آزادؔ کی آنکھوں سے کوئی دیکھے کہ دُنیا اندھیر ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۲۱

سراغ یک نگاہِ آشنا ازکس نمے یا بم
جہاں چوں نرگستاں بے تو شہر کورمے باشد​

اب تک زیارت نہیں ہوئی۔ (رغمی سلمٰہ اللہ فرماتے ہیں انکے والد لاہور گئے تھے۔ بنفشہ اور زعفران وغیرہ اشیائے قیمتی کابل و کشمیر کی تجارے کرتے تھے۔ شیخ مرحوم بعالم خورد سالی ہمراہ تھے۔) مگر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جیسے کوئی انجان آدمی ایک نئے ملک میں جا پڑے، جہاں وہ نہ کسی کی سمجھے نہ کوئی اس اور وہ ہکّا بکّا ایک ایک کا منھ دیکھے۔ اسی طرح وہ بھی آج کل کے لوگوں کا منھ دیکھ رہے ہیں۔ کجا ناسخّ و آتش کے مشاعرے اور کجا کمیٹیوں کے جلسے شیخ صاحب اور خواجہ صاحب کے حالات جو انھوں نے لکھ کر بھیجے ہیں معلوم ہوتا ہے کہ آنکھوں کے آنسو تھے۔ حرفوں کے رنگ میں بہہ نکلے ہیں، یہ درد کوئی آزادؔ کے دل سے پوچھے کہ جب شیخ ابراہیم ذوقؔ کا نام آتا ہے چھاتی پر سانپ لوٹ جاتا ہے۔

بنال بلبل اگر بامنت سر یاری ست
کہ مدع و عاشقِ زا ریم کار ما زاری ست​

شیخ ناسخؔ کا حال لکھتے لکھتے کہتے ہیں "کیا کہوں کہ میرے حال پر کیسی شفقت فرماتے تھے۔ دو دیوان کود لکھ کر مجھے دیئے، ایک مہر عقیق پر کھدوا کر مجھے دی، اب تک موجود ہے۔ رغمی سلمٰہ اللہ نے جونپور اور غازی پور وغیرہ کے حالات بھی بھیجے ہیں۔ جن کی بدولت دربار اکبری ہمیشہ شکر گزار رہے گا۔ خدا کرے کہ جلد وہ مرقع سج کر اہل نظر کی
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top