آب حیات - مولانا محمد حسین آزاد (مرحوم)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۲۲

پیش گاہ میں جلوہ گر ہو۔

شیخ امام بخش ناسخؔ کا حال شیخ صاحب کی شاعری کا وطن لکھنؤ ہے۔ مگر کمال سے لاہور کو فخر کرنا چاہیے، جو ان کے والد کا وطن تھا۔ خاندان کے باب میں فقط اس قدر کہہ سکتے ہیں کہ خدا بخش خیمہ دوز کے بیٹے تھے۔ اور بعض اشخاص کہتے ہیں کہ اس دولت مند لاولد نے متنبٰے کیا تھا۔ اصلی والد عالم غربت میں مغرب سے مشرق کو گئے۔ فیض آباد میں ان کی قسمت سے یہ ستارہ چمکا کہ فلکِ نظم کا آفتاب ہوا۔

خدا کی دین کا موسیٰ سے پوچھئے احوال
کہ آگ لینے کو جائیں پیمبری مل جائے​

غریب باپ سے صاحب نصیب بیٹھے کے سوا وہاں بھی نصیبہ نے رفاقت نہ کی، مگر اس دولت مند سوداگر نے کہ لاولد تھا بلند اقبال لڑکے کو فرزندی میں لے کر ایسا تعلیم و تربیت کیا کہ بڑے ہو کر شیخ امام بخش ناسخؔ ہو گئے اور اس مجازی باپ کی بدولت دُنیا کی ضروریات سے بے نیاز رہے، تو مر گیا تو اس کے بھائیوں نے دعوےٰ کیا، انھوں نے کہا کہ مجھے مال و دولت سے کچھ غرض نہیں، جس طرح ان کو باپ سمجھتا تھا، آپ کو سمجھتا ہوں کہ جس طرح وہ میری ضروریات کی خبرگیری کرتے تھے اس طرح آپ فرمائیے، انھوں نے قبول کیا۔

ناسخؔ فساد خون کے سبب سے ایک موقع پر فقط بیسنی روٹی گھی میں چور کر کھایا کرتے تھے۔ بدنیت چچا نے اس میں زہر دیا۔ لوگوں نے یہ مصالح لگایا کہ ایک جن ان کا دوست ہے۔ ان نے آگاہ کیا (حکایت عنقریب روایت
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۲۳

کی جاتی ہے) بہرحال کسی قرینہ سے انھیں معلوم ہو گیا، اسی وقت چند دوستوں کو بلا کر ان کے سامنے ٹکڑا کتّے کو دیا۔ آخر ثابت ہوا کہ فی الحقیقتہ اس میں زہر تھا۔ چند روز کے بعد وراثت کا جھگڑا عدالت شاہی تک پہونچا، جس کا فیصلہ شیخ مرحوم کی جیت پر ہوا۔ اس وقت انھوں نے چند رباعیاں کہہ کر دل خالی کیا۔ دو ان میں سے یہ ہیں۔

مشہور ہے گرچہ افترائے اعمام
پر کرتے نہیں غور خواص اور عوام

وارث ہونا دلیل فرزندی ہے
میراث نہ پا سکا کبھی کوئی غلام

کہتے رہے اعمام عداوت سے غلام
میراث پدر پائی مگر میں نے تمام

اس دعویٰ باطل سے ستمگاروں کو
حاصل یہ ہوا کر گئے مجھ کو بدنام​

غور کرو تو متنبٰے ہونا کچھ عیب کی بات نہیں۔ دنیا کی غریبی، امیری، جاڑے اور گرمی کی طرح بدلتی رہتی ہے۔ ایک امیر الامراء کو صرف چند پشت کے اندر دیکھو تو ممکن نہیں کہ ایک وقت اس کے گھر میں افلاس کا گزر نہ ہوا ہو، البتہ وہ بے استقلال قابل ملامت ہے کہ اس عالم میں رحمتِ الہٰی کا انتظار نہ کر سکے اور ایسے کام کر گزرے جو نام پر داغ دے جائیں۔ غرض شیخ صاحب کے اس معاملہ کو حریفوں نے بدرنگ لباسوں میں دکھایا ہے جس کا ذکر عنقریب آتا ہے، وہ فیض آباد میں تھے۔ لکھنؤ کے دارالخلافہ ہو جانے سے وہاں آئے اور وہیں عمر بسر کی۔ ٹکسال ایک محلہ مشہور ہے، اس میں بیٹھ کر شعر کے چاندی سونے پر سکّہ لگاتے تھے۔ اور کھوٹے کھرے مضمون کر پرکھتے تھے۔

فارسی کی کتابیں حافظ وارث علی لکھنوٰ سے پڑھی تھیں، اور علمائے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۲۴

فرنگی محل سے بھی تحصیلی کتابیں حاصل کی تھیں۔ اگرچہ عربی استعداد فاضلانہ نہ تھی مگر رواج علمی اور صھبت کی برکت سے فن شاعری کی ضروریات سے پوری واقفیت تھی اور نظم سخن میں ان کی نہایت پابندی کرتے تھے۔

شاعری میں کسی کے شاگرد نہ تھے۔ مگر ابتدا سے شعر کا عشق تھا (مولٰنا رغمی) فرماتے ہیں مجھ سے خود شیخ صاحب نے آغاز شاعری کا حال نقل فرمایا کہ میر تقی مرحوم ابھی زندہ تھے۔ جو مجھے ذوق سخن نے بے اختیار کیا۔ ایک دن اغیار کی نظر بچا کر کئی غزلیں خدمت میں لے گیا۔ انھوں نے اصلاح دی (انکی طبیعت اور زبان دونوں ان سے میل کھانے والی تھیں اور بے دماغی اسپر طرہ، افسوس میر صاحب نے جو الفاظ فرمائے ہونگے سننے کے قابل ہونگے مگر شیخ صاحب نے وہ کسی کو کب سنائے ہونگے۔)، میں دل شکستہ ہو کر چلا آیا، اور کہا، میرؔ صاحب بھی آخر آدمی ہیں۔ فرشتہ تو نہیں، اپنے کام کو آپ ہی اصلاح دوں گا۔ چنانچہ کہتا تھا اور کہہ چھوڑتا تھا، چند روز کے بعد پھر دیکھتا، جو سمجھ میں آتا اصلاح کرتا اور رکھ دیتا، کچھ عرصہ کے بعد پھر فرصت میں نظرثانی کرتا اور بناتا۔ غرض مشق کے سلسلہ برابر جاری تھا۔ لیکن کسی کو سناتا نہ تھا جب تک خوب اطمینان نہ ہوتا، مشاعرہ میں غزل نہ پڑھی، نہ کسی کو سنائی۔ مرزا حاجی صاحب (رقعات مرزا قتیل میں ان کا ذکر اکثر آتا ہے۔ نہایت رسا اور صاحب عقل اور باتدبیر شخص تھے۔ نواب سعادت علیخاں اور صاحب رزیڈنٹ کے درمیان میں واسطہ ہو کر مقدمات سلطنت کو روبراہ کرتے تھے۔ لاکھوں روپے کی املاک بہم پہنچائی تھی۔ اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے اہل عالم کو امیرانہ شان دکھاتے تھے۔ علم و فضل اور شعر و سخن کا شوق تھا۔ اسلئے اکثر اہل کمال انکے مکان پر جمع ہوتے تھے۔ )
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۲۵

کے مکان پر مشاعرہ ہوتا تھا، سید انشاءؔ، مرزا قتیل، جراءتؔ، مصحفیؔ وغیرہ سب شعراء جمع ہوتے تھے۔ میں جاتا تھا، سب کو سنتا تھا مگر وہاں کچھ نہ کہتا تھا۔ ان لوگوں میں جو لون مرچ سید انشاء اور جراءت کے کلام میں ہوتا تھا، وہ کسی زبان میں نہ تھا۔ غرض سید انشاءؔ اور مصحفی کے معرکے بھی ہو چکے۔ جراءت اور ظہور اللہ خاں نواؔ کے ہنگامے بھی طے ہو گئے۔

جب زمانہ سارے ورق اُلٹ چکا اور میدان صاف ہو گیا تو میں نے غزل پڑہنی شروع کی۔ اس موقع پر مرزا حاجی صاحب، مرزا قتیل اور حاجی محمد صادق اختر (اختر اپنے زمانہ کے ایک جامع الکمالات شخص تھے اور اکثر شاعرانہ اور عالمانہ تنازعہ ان کے سامنے آ کر فصیل ہوتے تھے۔) نے بڑی قدردانی کی۔ اور ان کے دل بڑھانے سے کلام نے روز بروز رنگ پکڑنا شروع کیا۔ لوگوں کے دلوں میں بھی یہاں تک شوق پیدا ہوا کہ چوغزلہ کہہ کر پڑھتا تھا۔ پھر بھی مشتاق رہ جاتے تھے منتظرؔ اور گرمؔ (منتظرؔ اور گرمؔ شیخ مصحفیؔ کے نامور شاگرد تھے۔)کے موت نے ٹھنڈا کیا۔ خواجہ حیدر علی آتشؔ، شیخ مصحفی کے ارشد تلامذہ نے محاورہ بندی میں نام نکالا۔ ایک دفعہ کئی مہینے بعد فیض آباد سے آئے۔ مشاعرہ میں جو میری غزلیں سنیں تو سانپ کی طرح پیچ و تاب کھایا اور اسی دن سے بگاڑ شروع ہوا، انھوں نے آتش رشک کی جلن میں اس جانکاہی اور سینہ خراشی سے غزلیں کہیں کہ سینہ سے خون آنے لگا۔

غرض شیخ صاحب کا شوق ہمیشہ مشاعرہ میں لے جا کر دل میں اُمنگ اور
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۲۶

طبیعت میں جوش بڑھاتا تھا، اور آسودہ حالی اکثر شعراء، اہل فہم اور اہل کمال کو ان کے گھر کھینچ لاتی تھی۔ ان کی صحبتوں میں طبیعت خود بخود اصلاح پاتی گئی۔ رفتہ رفتہ خود اصلاحیں دینے لگے۔ بعض سنِ رسیدہ اشخاص سے سنا گیا کہ ابتدا میں شیخ مصحفیؔ سے اصلاح لیتے تھے۔ مگر کسی شعر پر ایسی تکرار ہوئی کہ انھوں نے ان کا آنا بند کر دیا۔ یہ بطور خود غزلیں کہتے رہے اور تنہاؔ تخلص ایک شخص تھے اِن سے تنہائی میں مشورت کرتے رہے، جب اطمینان ہوا تو مشاعروں میں غزل پڑھنے لگے۔ لیکن مصحفیؔ والی روایت قابل اعتبار نہیں، کیوں کہ انھوں نے اپنے تذکرہ میں تمام شاگردوں کے نام لکھ دیئے ہیں۔ ان کا نام نہیں ہے (مولانا رغمی فرماتے ہیں) :-

پہلوان سخن کو ابتدائے عمر سے ورزش کا شوق تھا۔ خود ورزش کرتے تھے بلکہ احباب کے نوجوانوں میں جو حاضر خدمت ہوتے اور ان میں سے کسی ہونہار کو ورزش کا شوق دیکھتے تو خوش ہوتے اور چونپ دلاتے۔ ۱۲۹۷ دنٹر کا معمول تھا کہ یاغفور کے عدد ہیں۔ یہ وظیفہ قضا نہ ہوتا تھا، البتہ موقع اور موسم پر زیادہ ہو جاتے تھے۔ انھیں جیسا ریاضت کا شوق تھا ویسا ہی ڈیل بھی لائے تھے۔ بلند بالا، فراخ سینہ، مُنڈا ہوا سر، کھاردے کا لنگ باندھے بیٹھے رہتے تھے جیسے شیر بیٹھا ہے۔ جاڑے میں تن زیب کا کرتہ، بہت ہوا تو لکھنؤ کی چھیٹ کا دوہرا کرتا پہن لیا۔

دن رات میں ایک دفعہ کھانا کھاتے تھے۔ ظُہر کے وقت دسترخوان پر بیٹھتے تھے، اور کئی وقتوں کی کسر نکال لیتے تھے۔ پان سیر پختہ وزن شاہجہانی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۲۷

کی خوراک تھی، خاص خاص میووں کی فصل ہوتی تو جس دن کسی میوہ کو جی چاہتا اس دن کھانا موقوف، مثلاً جامنوں کو جی چاہا، لگن اور سینیاں بھر کر بیٹھ گئے، ۴، ۵ سیر وہی کھا ڈالیں۔ آموں کا موسم ہے تو ایک دن کئی ٹوکرے منگا کر سامنے رکھ لیے، ناندوں میں پانی ڈلوایا، ان میں بھرے اور خالی کر کے اُٹھ کھڑے ہوئے، بھّٹے کھانے بیٹھے تو گٹھلیوں کے ڈھیر لگا دیئے اور یہ اکثر کھایا کرتے تھے۔ دودھیا بھٹے چُنے جاتے، چاقو سے دانوں پر خط ڈال کر لون مرچ لگتا، سامنے بُھنتے ہیں، لیمو چھڑکتے ہیں، اور کھاتے جاتے ہیں۔ میوہ خوری ہر فصل میں دو تین دفعہ بس اور اس میں دو (۲) چار دوست بھی شامل ہو جاتے تھے۔

کھانا اکثر تخلیہ میں کھاتے تھے، سب کو وقت معلوم تھا، جب ظہر کا وقت قریب ہوتا تھا تو رخصت ہو جاتے تھے (رغمیؔ سلمہ اللہ فرماتے ہیں) مجھے چند مرتبہ ان کے ساتھ کھانے کا اتفاق ہوا، اس دن نہاری اور نان تافتان بھی بازار سے منگائی تھی۔ پانچ، چار پیالوں میں قورمہ، کباب، ایک میں کسی پرندہ کا قورمہ تھا، شلغم تھے، چقندر تھے۔ ارہر کی دال، دھوئی ماش کی دال تھی۔ اور وہ دسترکوان کا شیر اکیلا تھا۔ مگر سب کو فنا کر دیا، یہ بھی قاعدہ تھا کہ ایک پیالہ میں سے جتنا کھانا ہے خوب کھا لو اسے خدمتگار اٹھا لیگا دوسرا سامنے کر دے گا۔ یہ نہ ہو سکتا تھا کہ ایک نوالہ کو دو سالنوں میں ڈالکر کھا لو، کہا کرتے تھے کہ مِلا جلا کر کھانے میں چیز کا مزہ جاتا رہتا ہے۔ اخیر میں پلاؤ چلاؤ یا خشک کھاتے تھے۔ پھر دال اور ۵-۶ نوالوں کے بعد
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۲۸

ایک نوالہ چٹنی، اچار یا مربے کا، کہا کرتے تھے کہ تم جوانوں سے تو میں بڈھا ہی اچھا کھاتا ہوں۔ دسترخوان اٹھتا تھا، تو دو خوان فقط خالی باسنوں کے بھرے اٹھتے تھے، قوی ہیکل بلونت جوان تھے، ان کی صورت دیکھ کر معلوم ہوتا تھا کہ ۴، ۵ سیر کھانا ان کے لئے کیا کمال ہے۔

زمانہ کی زبان کون پکڑ سکتا ہے، بے ادب، گُستاخ، دم کٹے بھینسے کی پھبتی کہا کرتے تھے۔ اسی رنگ و روغن کی رعایت سے خواجہ صاحب نے چوٹ کی۔

رُو سیہ دشمن کا یوں پاپوش سے کیجئے فگار
جیسے سلہٹ کی سپر پر زخم ہو شمشیر کا​

شیخ صاحب نے خود بھی اس کا عذر کیا ہے اور شاگرد بھی روغن قاز مل ملکر اُستاد کے رنگ کو چمکاتے تھے، اور حریف کے رنگ کو مٹاتے تھے۔ فقیر محمد خاں گویاؔ نے کہا تھا :-

ہے یقیں گل ہو جو دیکھے گیسوئے دلبر چراغ
آگے کالے کے بھلا روشن رہے کیونکر چراغ

میں گو کہ حُسن سے ظاہر میں مثل ماہ نہیں
ہزار شکر کہ باطن مرا سیاہ نہیں

فروغِ حسن پہ کب زور زلف چلتا ہے
یہ وہ چراغ ہے کالے کے آگے جلتا ہے​

پہلوانِ سخن زور آزمائی کے چرچے اور ورزش کی باتوں سے بہت خوش ہوتے تھے۔ رغمی سلمٰہ اللہ کے والد بھی اِس میدان کے جوان مرد تھے، رغبتوں کے اتحاد ہمیشہ موافقت صھبت کے لئے سبب ہوتے ہیں۔ اس لیے محبت کے ہنگامے گرم رہتے تھے۔

آغا کلب حسین خاں مرحوم انھیں اکثر بلایا کرتے تھے۔ اور مہینوں مہمان
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۲۹

رکھتے تھے۔ ان سے بھی فقط ذوقِ شعر کا تعلق نہ تھا۔ وہ بھی ایک شہ زور شہسوار ورزشی جوان تھے۔ سامان امیرانہ اور مزاج دوستانہ رکھتے تھے، چنانچہ ایک موقع پر کہ آغاؔ صاحب سورام سرحد نوابی پر تحصیل دار ہو کر آئے، شیخ صاحب کو بلا بھیجا کہ چند روز سبزہ و صحرا کی سیر سے طبیعت کو سیرا ب فرمائیے، ایک دن بعض اقسام کے کھانے خاص شیخ صاحب کی نیت سے پکوائے تھے اس لیے وقت معمول سے کچھ دیر ہو گئی۔ شیخ صاحب نے دیکھا کہ حرم سرا کی ڈیوڑھی سے نوکر اپنے اپنے کھانے لے کر نکلے، بلا کر پوچھا کہ یہ کس کے لیے ہے؟ عرض کی ہمارا کھانا ہے۔ فرمایا اِدھر لاؤ۔ ان میں سے ۴، ۵ کا کھانا سامنے رکھوا لیا۔ چاٹ پونچھ کر باسن حوالے کئے اور کہا ہمارا کھانا آئے گا تو تم کھا لینا۔ آغا صاحب کو خبر جا پہنچی، اتنے میں آئے، یہاں کام ختم ہو چکا تھا۔

جناب مخدوم و مکرم آغا کلب عابد خاں صاحب (مرزا محمد تقی خاں اور محمد شفیع خاں دو بھائی نادر شاہ کے مصاحب تھے۔ ان میں سے محمد تقی خاں انکے دادا تھے۔ شاہ مذکور کا قہر و غضب عالم پر روشن ہے۔ محمد شفیع کو زندہ آگ میں جلوا دیا۔ یہ دل برداشتہ ہو کر ہندوستان میں آئے۔ نواب منصور علیخاں صفدر جنگ کے بزرگوں سے اور ان کے بزرگوں سے ایران میں اتحاد تھا چنانچہ اسی سلسلہ سے یہاں ملاقات ہوئی۔ نواب صاحب کمال محبت سے پیش آئے اور بادشاہ دہلی کے دربار سے کچھ خدمت دلوانی چاہی۔ جب انھوں نے منظور نہ کی تو علاقہ اوودھ سے دس ہزار روپیہ کی جاگیر کر دی۔ شیخ علی حزیں بنارس میں تھے۔ ان سے اور اُن سے وطن میں بہت دوستی تھی۔ اس لئے بنارس میں جا کر رہے۔ شیخ مرحوم ابھی زندہ تھے کہ انھوں نے انتقال کیا۔ شیخ نے جو سروایہ اپنے لئے بنوایا تھا اسکے پہلو میں دفن کیا اور بہت سے اپنے شعر قبر پر لکھے کہ ابتک قائم ہیں۔ ان کے بیٹے کلب علیخاں مرحوم نے سرکار انگریزی میں بزرگوں کی عزت کو روشن کیا۔ راجہ بنارس خورد سال تھے۔ان کے علاقہ کا کام سپرد ہوا۔ چنانچہ چار علاقے جن کی آمدنی ۴۹ لاکھ روپیہ تھی ان کے مالئے اور فوجداری کے کل اختیارات ان کے ہاتھ میں تھے۔ ان کے بیٹے ڈپٹی کلب حسین خانصاحب ہوئے۔ انکے بیٹے آغا کلب عابد خاں صاحب ہیں جو فی الحال امرت سر میں درجہ اول کے اکسٹرا اسسٹنٹ ہیں، قابلیت، متانت اور مروّت اور وضعداری میں ایک سندی یادگار بزرگان سلف کی ہیں۔) نے بھی اس حکایت کی تصدیق فرمائی اور کہا کہ ان کے مزاج میں شوریدگی ضرور تھی، اگرچہ ان دنوں خورد سال تھا، مگر ان کا بارہا آنا اور رہنا اور ان صحبتوں کی شعر خوانیاں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۳۰

خصوصاً مقام سورام کی کیفیتیں سب ہوبہو پیش نظر ہیں۔ انھیں بالا خانہ پر اتارا تھا، بعض دفعہ ایسا بھی ہوا کہ بیٹھے ہیں، کھاتے کھاتے سالن کا پیالہ اٹھایا اور کھڑکی میں سے پھینک کر مارا کہ وہ جا پڑا، سبب دیکھا تو کچھ نہ تھا۔

یہ بھی معمول تھا کہ پہر رات رہے سے ورزش شروع کرتے تھے۔ صبح تک اس سے فارغ ہوتے تھے۔ مکان مردانہ تھا، عیال کا جنجال رکھا ہی نہ تھا، اول نہائے اور پھر صحن میں کہ صفائی سے آئینہ رہنا تھا۔ مونڈھے بچھے ہیں۔ اندر ہیں تو فرش اور سامان آرائش سے آراستہ ہے، صبح سے احباب اور شاگرد آنے شروع ہوتے تھے۔ دوپہر کو سب رخصت اور دروازہ بند حضرت دسترخوان پر بیٹھے، یہ بڑا کام تھا۔ چنانچہ اس بھاری بوجھ کو اتھا کر آرام فرمایا۔ عصر سے پھر آمد شروع ہوئی، مغرب کیوقت سب رخصت، دروازہ بند، خدمتگار کر بھی باہر کیا اور اندر سے قفل جڑ دیا۔ کوٹھے پر ایک کمرہ خلوت کا تھا۔ وہاں گئے کچھ دیر سو رہے اور تھوڑی دیر بعد اٹھ کر فکر سخن میں مصروف ہوئے۔ عالم خواب غفلت میں پڑا تھا اور وہ خواب راحت کے عوض
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۳۱

کاغذ پر خون جگر ٹپکاتے تھے (اُستاد مرحوم کا ایک مطلع یاد آ گیا، جس کا مصرعہ آخر اِس پر نگینہ ہو گیا)۔

میر اگر یہ ترے رُخسار کو چمکاتا ہے
تیل اِس آگ پہ تل آنکھ کا ٹپکاتا ہے

شاگرد جو غزلیں اصلاح کو دیتے تھے۔ نوکر انھیں ایک کھاردے کی تھیلی میں بھر کر پہلو میں رکھ دیتا تھا، وہ بنایا کرتے تھے، جب پچھلا پہر ہوا تو کاغذ تہ ہوئے اور پھر وہی ورزش۔

حقّہ کا بہت شوق تھا۔ عمدہ عمدہ حقّے منگاتے تھے۔ تحفوں میں آتے تھے۔ انہیں موزوں نیچوں سے سجاتے تھے۔ کلیاں، گڑگڑیاں، سٹک، پیچوان چوگانی، مدرے وغیرہ وغیرہ ایک کوٹھری بھرے ہوئے تھی۔ یہ نہ تھا کہ جلسہ میں دو حقے ہیں وہ دورہ کرتے ہیں۔ ہر ایک کے موافق طبع الگ اس کے سامنے آتا تھا، ان صحبتوں میں بھی شاگردوں کے لئے اصلاح اور افادہ ہو جاتا تھا۔

آداب محفل کا بہت خیال تھا، آپ تکیہ سے لگے بیٹھے رہتے تھے، شاگرد جن میں اکثر امیر زادے شرفا ہوتے تھے، باادب بچھونے کے حاشیہ پر بیٹھتے جاتے، دم مارنے کی مجال نہ تھی۔ شیخ صاحب کچھ سوچتے، کچھ لکھتے جب کاغذ ہاتھ سے رکھتے تو کہتے ہوں! ایک شخص غزل سنانی شروع کرتا، کسی شعر میں کوئی لفظ قابل تبدیل ہوتا یا پس و پیش کے تغیر سے کام نکلتا تو اصلاح فرماتے، نہیں تو کہہ دیتے یہ کچھ نہیں نکال ڈالو، یا اس کا پہلا یا دوسرا مصرعہ اچھا نہیں، اسے بدلو، یہ قافیہ خوب ہے مگر اچھے پہلو سے نہیں بندھا۔ طبیعت پر زور ڈال کر کہو، جب وہ شخص پڑھ چکتا تو دوسرا پڑھتا اور کوئی بول نہ سکتا تھا۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۳۲

لکھنؤ کے امیرزادے جنھیں کھانے کے ہضم کرنے سے زیادہ کوئی کام دشوار نہیں ہوتا، ان کے وقت گزارنے کے لیے مصاحبوں نے ایک عجیب چورن تیار کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شیخ صاحب سے ایک جن کو محبت تھی۔ ان کا معمول تھا ورزش کے بعد صبح کو ایک سینی پراٹھا گھی میں ترتراتا کھایا کرتے تھے۔ اول اول ایسا ہوتا رہا، جب کھانے بیٹھتے، پراٹھا برابر غائب ہوتا چلا جاتا، یہ سوچتے مگر کوئی بات سمجھ میں نہ آتی، بالا خانہ میں دروازہ بند کر کے اکیلے ورزش کیا کرتے تھے، ایک دن مگدر ہلا رہے تھے دیکھتے کیا ہیں ایک شخص اور سامنے کھڑا مگدر ہلا رہا ہے۔ حیران ہوئے بدن میں جوانی اور پہلوانی کا بل تھا، لپٹ گئے، تھوڑی دیر زور ہوتا رہا، اسی عالم میں پوچھا کہ تو کون ہے۔ ان نے کہا تمھاری ورزش کا انداز پسند آیا ہے اسلئے کبھی کبھی اِدھر آ نکلتا ہوں، اکثر کھانے میں بھی شریک ہوتا ہوں، مگر بغیر اظہار کے محبت کا مزا نہیں آتا۔ آج ظاہر کیا، اس دن سے ان کی راہ ہو گئی۔ اسی نے ظاہر کے راز سے بھی آگاہ کیا تھا۔ بعض اشخاص کہتے ہیں پُر خوری کے سبب سے لوگ کہتے تھے کہ ان کے پیٹ میں جن ہے۔

کسی کی نوکری نہیں کی۔ سرمایہ خداداد اور جوہر شناسوں کی قدردانی سے نہایت خوش حالی کے ساتھ زندگی بسر کی۔ پہلی دفعہ الہ آباد میں آئے ہوئے تھے جو راجہ چندو لال نے ۱۲ ہزار روپے بھیج کر بلا بھیجا۔ انھوں نے لکھا کہ اب میں نے سیّد کا دامن پکڑا ہے اسے چھوڑ نہیں سکتا۔ یہاں سے جاؤں گا تو لکھنؤ جاؤں گا، راجہ موصوف نے پھر خط لکھا بلکہ پندرہ ہزار روپے بھیج کر
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۳۳

بڑے اصرار سے کہا کہ یہاں تشریف لائیے گا تو ملک الشعراء خطاب دلواؤں گا، حاضری دربار کی قید نہ ہو گی، ملاقات آپ کی خوشی پر رہے گی۔ انھوں نے منظور نہ کیا اور روپے آغا کلب حسین خاں کے پاس رکھوا دیے، جب ضرورت ہوتی منگا لیتے اور ان پر کیا منحصر ہے، نواب معتمد الدولہ اور ان کے بیٹے ہمیشہ خدمت کو حاضر تھے۔ تحفے نذرانے جابجا سے آتے رہتے تھے۔ یہ بھی کھاتے اور کھلاتے ہی رہتے تھے۔ سادات، اہل حج، اہل زیارت کو دیتے تھے اور آزادی کے عالم میں جہاں جی چاہتا وہاں جا بیٹھتے۔ جس کے ہاں جاتے وہ اپنا فخر سمجھتا تھا۔

سیّاحی کی مسافت فیض آباد سے لکھنؤ اور وہاں سے الہ آباد بنارس عظیم آباد، پٹنہ تک رہی، چاہا تھا کہ شیخ علی حزیںؔ کی طرح بنارس میں بیٹھ جائیں۔ چنانچہ الہ آباد سے وہیں گئے مگر اپنی ملّت کے لوگ نہ پائے اس لئے دل برداشتہ ہو کر عظیم آباد گئے۔ وہاں کے لوگ نہایت مروّت اور عظمت سے پیش آئے مگر ان کا جی نہ لگا، گھبرا کر بھاگے اور کہا یہاں میری زبان خراب ہو جائے گی۔ الہ آباد آئے۔ پھر شاہ اجمل کے دائرہ میں مرکز پکڑا اور کہا۔

ہر پھر کے دائرہ ہی میں رکھتا ہوں میں قدم
آئی کہاں سے گردش پرکار پاؤں میں​

لکھنؤ سے نکلنے کا سبب یہ ہوا تھا کہ غازی الدین حیدر کے عہد میں جب ان کی تعریفوں کی آوازیں بہت بلند ہوئیں تو انھوں نے نواب
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۳۴

معتمد الدولہ آغا میر اپنے وزیر سے کہا کہ اگر شیخ ناسخؔ ہمارے دربار میں آئیں اور قصیدہ سنائیں تو ہم انھیں ملک الشعراء کا خطاب دیں۔ معتمد الدولہ ان کے بااخلاص شاگرد تھے۔ جب یہ پیغام پہنچایا تو انھوں نے بگڑ کر جواب دیا کہ مرزا سلیمان شکوہ (مرزا سلیمان شکوہ اکبر شاہ کے بھائی تھے۔ دلّی چھوڑ کر لکھنؤ جا رہے تھے۔ سرکار لکھنؤ کی بدولت شکوہ و شان کی زندگی بسر کرتے تھے۔) بادشاہ ہو جائیں تو وہ خطاب دیں۔ یا گورنمنٹ انگلشیہ خطاب دے، ان کا خطاب لیکر میں کیا کروں گا۔ نواب مے مزاج میں کچھ وحشت بھی تھی۔ حسب الحکم شیخ صاحب کو نکلنا پڑا اور چند روز الہ آباد میں جا کر رہے۔ نواب مر گئے تو پھر لکھنؤ میں آئے، چند روز کے بعد حکیم مہدی جن کے بزرگ کشمیری تھے شاہ اودھ کی سرکار میں مختار تھے وہ ایک بدگمانی میں معزول ہو کر نکلے، چونکہ وہ نواب آغا میر کے رقیب تھے، شیخ صاحب نے تاریخ کہی، جس کا مادہ ہے ۔

مصرعہ : کاشو برائے پختن شلغم گریختہ​

مشکل یہ کہ چند روز کے بعد وہ پھر بحال ہو کر آ گئے۔ شاعر نے الہ آباد کو گریز کی۔ لیکن اکثر غزلوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جب لکھنؤ سے جدا ہوئے تڑپتے اور دن ہی گنتے رہے (ایک شعر میں بھی لکھا ہے)۔

دشت سے کب وطن کو پہنچوں گا
کہ چھٹا اب تو سال آ پہنچا​

حکیم مہدی کو دوبارہ زدال ہوا تو انھوں نے پھر تاریخ کہی، نیا انداز ہے اس لئے لکھتا ہوں :-
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۳۵

از جائے حکیم ہشت برگیر
سہ مرتبہ نصف نصف کم کن
(۱۲۴۸ھ)​

اب کی دفعہ جو آئے تو ایسے گھر میں بیٹھے کہ مر کر بھی نہ اُٹھے، گھر ہی میں دفن ہوئے۔ میر علی اوسط رشکؔ ان کے شاگرد رشید نے تاریخ کہی۔

مصرعہ : ولا شعر گوئی اٹھی لکھنؤ سے (۱۲۵۴ھ)​

لوگ کہتے ہیں ۶۴، ۶۵ برس کی عمر تھی۔ مگر رغمی سلمہ اللہ لکھتے ہیں کہ تقریباً سو برس کی عمر ہو گی، اکثر عہد سلف کے معرکے اور نواب شجاع الدولہ کی باتیں آنکھوں سے دیکھی بیان کرتے تھے۔

دیوان تین ہیں مگر دو (۲) مشہور ہیں۔ ایک الہ آباد میں مرتب کیا تھا۔ بے وطنی کا عالم، دل پریشان، غزلیں خاطر خواہ بہم نہ پہونچیں، اس لیئے دفتر پریشان نام رکھا۔ ان میں غزلوں، رباعیوں اور تاریخوں کے سوا اور قسم کی نظم نہیں۔ قصائد کا شوق نہ تھا چنانچہ نواب لکھنؤ کی تاریخ و تہینت میں بھی کبھی کچھ کہا ہے تو "لور قطعہ ہے ہجو کے کانٹوں سے ان کا باغ پاک ہے۔ ایک مثنوی حدیث مفصل کا ترجمہ ہے۔ میر علی اوسط رشک نے اسے ترتیب دیا اور اس کا تاریخی نام نظم سراج بھی رکھا ہے اور ایک مولود شریف بھی شیخ صاحب کی تصنیف ہے۔ عموماً کلام ان کا شاعری کے ظاہری عیبوں اور لفظی سقموں سے بہت پاک ہے، اور اس امر میں انھیں اتنی کوشش ہے کہ اگرچہ ترکیب کی چُستی یا کلام کی گرمی میں فرق آ جائے۔ مگر اُصول ہاتھ سے نہیں جانے دیتے اور بہ سلامت روی قرین مصلحت ہے کیونکہ نئے تصرف اور ایجاد انسان کو اکثر ایسے اعتراضوں کے نشانے پر لا ڈالتے ہیں جہاں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۳۶

سے سرکنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔

غزلوں میں شوکت الفاظ اور بلند پروازی اور نازک خیالی بہت ہے اور تاثیر کم، صائب کی تشبیہ و تمثیل کو اپنی صنعت میں ترکیب دے کر ایسی دستکاری اور مینا نگاری فرمائی کہ بعض موقع پر بیدلؔ اور ناصر علی حد میں جا پڑے اور اُردو میں وہ اس سے صاحب طرز قرار پائے۔ انھیں ناسخؔ کہنا بجا ہے، کیوں کہ طرز قدیم کو نسخ کیا، جس کا خود بھی انھیں فکر تھا۔

دیوان کے اخیر میں بہت سی تاریخیں ہیں، اور اکثروں میں نہایت عمدہ اور برجستہ مادے نکالے ہیں۔ شوکت الفاظ کہتی ہے کہ اگر وہ قصیدہ کہتے تو خوب کہتے، مگر افسوس کہ اس طرف توجہ نہ کی۔ (اُردوئے معلٰی میں غالبؔ مرحوم کا ایک خط مرزا حاتم علی مہرؔ کے نام ہے۔ اس میں لکھا ہے ناسخ مرحوم جو تمھارے استاد تھے اور میرے بھی دوست صادق الودود تھے مگر ایک فنی تھے صرف غزل کہتے تھے۔ قصیدہ اور مثنوی میں انہیں کچھ علاقہ نہ تھا۔ اسی کتاب میں چودھری عبد الغفورکے خط میں چند شعر منتخب اساتذہ متقدمین کے لکھ کر تحریر کیا ہے۔ ناسخ کے ہاں کمبر اور آتش کے ہاں بیشتر یہ تیز نشتر ہیں۔)

نظمِ سراج کی نظم و گوں کی رائے میں ان کے رتبہ عالی سے گرمی ہوئی ہے اور چونکہ یا بندی ترجمہ حدیث کی ہے، اس لئے اس پر گرفت بے جا ہے۔ چند شعر نمونے کے طور پر ہیں۔

کی خدا نے جو یہ زبان عطا
ہے بلا شک عطیہ عظمٰے

اس سے ہے مختلف مزوں کی تمیز
اس سے پاتے ہیں لذّتِ ہر چیز

کوئی کڑوی ہے کوئی ہے میٹھی
کوئی نمکین، کوئی کھٹ مِٹھی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۳۷

کوئی اچھی ہے کوئی زشت و زبوں
مزے سب چیزوں کے ہیں گونا گوں

سب مزوں سے زبان واقف ہے
نہیں اسرار کی یہ کاشف ہے

جو نہ ہو یہ تو کچھ نہ ہو معلوم
نہ ہو کوئی مزا کبھی مفہوم

اور بھی ہوتے ہیں زبان سے کام
ہے ممد وقت بلع آب و طعام

اس سے احکام بہر دنداں ہے
قوتِ تام بہر دنداں ہے​

کوئی ناواقف شخص شائق کلام آتا تو چند بے معنی غزلیں بنا رکھی تھیں۔ ان میں کوئی شعر پڑھتے یا اسی وقت چند بے ربط الفاظ جوڑ کر موزوں کر لیتے اور سناتے۔ اگر ہو سوچ میں جاتا اور چپ رہ جاتا تو سمجھتے تھے کہ کچھ سمجھتا ہے۔ اُسے اور سناتے تھے اور اگر اس نے بے تحاشاتعریف کرنی شروع کر دی تو اسی طرح کے ایک دو شعر پڑھ کر چپکے ہو رہتے تھے۔ مثلاً :

آدمی مخمل میں دیکھے مورچے بادام میں
ٹوٹی دریا کی کلائی زلف اُلجھی بام میں

تو نے ناسخؔ وہ غزل آج لکھی ہے کہ ہوا
سب کو مشکل ید بیضا میں سخن داں ہونا​

بلکہ اکثر خود سناتے بھی نہ تھے۔ جب کوئی آتا اور شعر کی فرمایش کرتا تو دیوان اٹھا کر سامنے رکھ دیتے تھے کہ اس میں سے دیکھ لیجیے۔ دو تین خوش نویس کاتب بھی نوکر رہتے تھے۔ دیوان کی نقلیں جاری تھیں۔ جس دوست یا شاگرد کو لائق اور شائق دیکھتے اسے عنایت فرماتے تھے۔

انھوں نے اور ان کے ہمعصر خواجہ حیدر علی آتشؔ نے خوبی اقبال سے ایسا زمانہ پایا جس نے ان کے نقش و نگار کو تصاویر مانی و بہزاد کا جلوہ دیا، ہزاروں صاحبِ فہم دونوں کے طرفدار ہو گئے، اور طرفین کو چمکا چمکا کر تماشے دیکھنے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۳۸

لگے، لیکن حق پوچھو تو ان فتنہ انگیزوں کا احسان مند ہونا چاہیے۔ کیوں کہ روشنی طبع کو اشتعالک دیتے تھے۔

ان دونوں صاحبوں کے طریقوں میں بالکل اختلاف ہے۔ شیخ صاحب کے پیر و مضمون دقیق ڈھونڈھتے ہیں، خواجہ صاحب کے معتقد محاورہ کی صفائی کلام کی سادگی کے بندے ہیں اور شعر کی تڑپ اور کلام کی تاثیر پر جان قربان کرتے ہیں۔ ان لوگوں کو شیخ صاحب کے کلام پر چند قسم کے اعتراض ہیں۔ اگرچہ ان میں سے بعض باتوں میں سینہ زوری اور شدت ہے، لیکن مورخ کو ہر امر کا اظہار واجب ہے۔ اس لیے قلم انداز بھی نہیں ہو سکتا۔

اوّل کہتے ہیں کہ شیخ صاحب کی اکثر نازک خیالیاں ایسی ہیں کہ کوہ کندن و کاہ برآوردن، چنانچہ اشعار مفصلہ ذیل نمونہ نازک خیالی ہیں۔

میری انکھوں نے تجھے دیکھ کے وہ کچھ دیکھا
کہ زبانِ مژہ پر شکوہ ہے بینائی کا

کھل گیا ہمپر عناصر جب ہوئے بے اعتدال
رابطہ واجب سے ممکن دوست دشمن میں نہیں

کی خدا نے کافروں پر اے صنم جنت حرام
درد کس کی آنکھ پڑتی تیرے ہوتے حُور پر

کوئے جاناں میں ہوں پر محروم ہوں دیدار سے
پائے خفتہ کندہ زن ہیں دیدہ بیدار پر

وہ آفتاب نہ ہو کس طرح سے لیے سایہ
ہوا نہ سر سے کبھی سایہ سحاب جُدا​

خواجہ صاحب کے معتقد کہتے ہیں کہ جن لوگوں نے غزل کے اصول کو سمجھا ہے یعنی فارسی میں خواجہ حافظؔ اور شیخ سعدیؔ اور اُردو میں سوزؔ، میرؔ اور جراءتؔ سے سند پائی وہ اسے غزل نہ کہیں گے، مگر یہ بات ایسی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۳۹

گرفت کے قابل نہیں، کیوں کہ فارسی میں بھی جلاؔ، اسیر، قاسمؔ مشہدی، بیدلؔ اور ناصر علی وغیرہ استاد ہو گزرے ہیں، جنھوں نے اپنے نازک خیالوں کی بدولت خیال بند اور معنی یاب لقب حاصل کیا ہے۔ شیخ صاحب نے ان کی طرز اختیار کی تو کیا بُرا ہے۔ یہ بھی واضح ہو کہ جن لوگوں کی طبیعت میں ایسی خیال بندیوں کا انداز پیدا ہوا ہے، اس کے کئی سبب ہوئے ہیں، اول یہ کہ بعض طبیعتیں ابتدا ہی سے پُرزور ہوتی ہیں۔ فکر ان کے تیز اور خیالات بلند ہوتے ہیں۔ مگر اُستاد نہیں ہوتا جو اس ہونہار بچھڑے کو روک کر نکالے اور اُصول کی باگوں پر لگائے، پھر اس خودشری کو ان کی آسودہ حالی اور بے احتیاطی زیادہ قوت دیتی ہے، جو کسی جوہر شناس یا سخن فہم کی پرواہ نہیں رکھتی وہ اپنی تصویریں آپ کھینچتے ہیں اور آپ ان پر قربان ہوتے ہیں بلکہ شوقین داد دینے والے جو کھوٹے کھرے کے پرکھنے والے یں۔ اور حقیقت میں پسند عام کے وکیل بھی وہی ہیں، ان نازک خیالوں کو ان کی بھی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ ان کی دولت مندی اپنے گھر پر اپنا دربار الگ لگاتی ہے۔ جس میں بعض اشخاص وقت پسندی اور باریک بینی میں ان کے ہم مزاج ہوتے ہیں۔ بعض فقط باتوں ہی باتوں میں خوش کر دینے کا شوق رکھتے ہیں۔ بعض کو اپنی گرہ کی عقل نہیں ہوتی۔ جس طرف لوگوں کو دوڑتے دیکھا آپ بھی دوڑنے لگتے ہیں، غرض ایسے ایسے سبب ہوتے ہیں جو بھلے چنگے آدمی کی آنکھوں پر پتی باندھ کر خود پسندی کے ناہموار میدانوں میں ڈہکیل دیتے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۴۰

دوسرا اعتراض اِن کے حریفوں کا اُن سخت اور سنگین الفاظ پر ہے جن کے بھاری وزن کا بوجھ غزل کی نزاکت و لطافت ہرگز برداشت نہیں کر سکتی اور کام بھّدا ہو جاتا ہے۔ چنانچہ کچھ اشعار اِس قبیل کے بھی لکھے جاتے ہیں۔

بے خطر یوں ہاتھ دوڑاتا ہوں زلفِ یار پر
دوڑتا تھا جسطرح ثعبان موسٰے مار پر

تو وہ خورشید ہے اُلٹے جو گلستاں میں نقاب
چہرہ گل میں تلّون ہووہیں حِربا کا

برنگِ گل جگر ہوتا ہے ٹکڑے سیر گلشن میں
ہوا ہے تیغ غم بے یار نظارہ سپر غم کا

آگے مجھ کامل کے ناقص ہے کمالِ مدّعی
درمیاں ہے فرق اسّد راج اور اعجاز کا

مِل گیا ہے عشق کا آزار قسمت سے مجھے
ہوں جو عیسٰی بھی ارادہ ہو نہ استعلاج کا

انڈا کھٹک کے نکلی ہے باہر تو کیا ہوا
بلبل کو جسم بیضئہ فولاد ہو گیا

ناسخؔ تمام رجس تناسخ سے پاک ہے
وہ شمع ہو گیا تو وہ پروانہ ہو گیا

قمر ہی کیا ترے آگے محاق میں آیا
کہ آفتاب ھی تو احتراق میں آیا

سوئے کعبہ تیرے عاشق سجدہ کرتے ہیں کوئی
تیرے ابرو کی طرف قبلہ محّول ہو گیا

باعثِ کریہ ہوئی فرقت میں مجھ کو مے کشی
ساقیا اشکوں سے مے کا استحالہ ہو گیا

بڑا اکال ہے ناسخؔ غمِ عالم فراہم کر
ارادہ ہے اگر اے چرخ اس کی مہمانی کا

نہ باطل خشک زاہد ہے نہ عاطل رند تر دامن
خدا نے اپنی حکمت سے کیا ہے خشک و تر پیدا

کسی حالت میں مجھے ہوش سے کچھ کام نہیں
چڑھ گئے انجرے نشہ کے جو سودا ترا

آغازِ خط میں اژدر فرعون ہے جو زلف
افسونِ خطِ مار ہی افسانہ ہو گیا

غیر کوثر کسی دریا کا میں سیّاح نہیں
بیشئہ شیر خدا بن کہیں سیّاح نہیں

ہے ہوس ہم سے ملے یار کرے غیر کو ترک
مطلب اپنا وہ ہے جو قابل انجاح نہیں​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴۴۱

ظلم طولِ شب فرقت کے تطاول نے کہا
دادرس کوئی بجز خالق الاصباح نہیں

روشنائی سے ہوئی روشنیِ خلوتِ فکر
جزم قلم اور مری بزم میں مصباح نہیں

بال توڑے تری زلفوں کے نہ بیدردی سے
حس مرے ہاتھ کی مانند ہوگر شانہ میں​

خیال بند طبائع اور مشکل پسند لوگ اگرچہ اپنے خیالوں میں مست رہتے ہیں مگر چونکہ فیض سخن کالی نہیں جاتا اور مشق کو بڑی تاثیر ہے، اس لیے مشکل کلام میں بھی ایک لطف پیدا ہو جاتا ہے، جس سے ان کے اوران کے طرفداروں کے دعووں کی بنیاد قائم ہو جاتی ہے۔

ان کے حریف کہتے ہیں کہ شیخ صاحب بھی خیال بندی اور دشوار پسندی کی قباحت کو سمجھ گئے تھے۔ اور اخیر کو اس کوچہ میں آنے کا ارادہ کرتے تھے۔ انہی دنوں کا ایک مطلع شیخ صاحب کا ہے، خواجہ صاحب کے سامنے کسی نے پڑھا اور انھوں نے لطف زبان کی تعریف کی۔

جنوں پسند ہے مجھ کو ہوا ببولوں کی
عجب بہار ہے ان زرد زرد پُھولوں کی​

مگر اول تو طبیعت کی مناسبت دوسرے عمر بھر کی وہی مشق تھی، اسلئے جب محاورہ کے کوچہ میں آ کر صاف صاف کہنا چاہتے تھے تو پُھس پُھس بندش اور پھسنڈے الفاظ بولنے لگتے تھے، چنانچہ اس کی سند میں اکثر اشعار پیش کرتے ہیں، جن میں سے چند شعر یہ ہیں۔

ناک رگڑے ہر گھڑی کیونکر نہ اسکے سامنے
بدلے نتھنی کے سلیماں کی ہے خاتم ناک میں

رنگ لالہ میں اگر ہے تو نہیں نام کو بُو
یاسمن میں ترے پنڈے سی ہے بو رنگ نہیں

ساقی بغیر مے یہ لہو تھوکتا نہیں
منھ سے شراب وصل نکلتی ہے ہجر میں
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top