آب حیات - مولانا محمد حسین آزاد (مرحوم)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین

فہرست مطالب کتاب آب حیات

مضمون|صفحہ نمبر
دیباچہ|9
زبان اُردو کی تاریخ|15
سنسکرت کا تسلط ملک اور زبان پر|18
ہندوستانی اور ایرانی زبانیں حقیقی بہنیں ہیں|21
اُردو کی وجہ تسمیہ|31
زبانِ ریختہ|32
ایک نواب زادے کی گفتگوئے بے تکلف|32
محمد شاہی عہد کی نثر اردو کا نمونہ|34
سید انشاء کی گفتگو مرزا مظہر جانجاناں کے ساتھ|35
میر غفر غیبی کی گفتگو|132
اُردو کی تصانیف ابتدائی|37
برج بھاشا پر عربی فارسی نے کیا کیا اثر کئے|39
سنسکرت پر بھاشا نے کیا اثر کئے|47
پھر اُس پر اُردو نے کیا اثر کئے|47
عربی فارسی لفظوں پر اُردو نے تصرف کئے|48
انگریزی زبان بھی اپنی عملداری بڑھاتی چلی آتی ہے|52
اُردو نے ایجادی تصرف بھی کئے|53
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 4

مضمون|صفحہ نمبر
عربی فارسی محاوروں کے ترجمے ہو گئے|55
عربی ترکیبیں ظریفانہ طور پر|62
ہندی تشبیہیں جاتی رہیں|64
ہندی فارسی میں داخل ہو گئی|66
بھاشا اور فارسی کی انشاء پردازی میں کیا فرق ہے|67
فارسی کے خیالات غیر لوگوں کی سمجھ سے بہت دُور ہیں۔ اسی کی مختلف مثالیں|70
بھاشا کا انشاپرداز اپنا باغ سجاتا ہے|74
دونوں کی انشاپردازی کا مقابلہ|76
فارسی کی انشاپردازی کا شکریہ|77
اس سے کچھ ہرج بھی ہوئے|77
انشائے انگریزی کے عام اُصول|78
ہماری انشاءپردازی کیوں ایسی بدحال ہو گئی|80
اُردو کی خوش اقبالی|82
دہلی کی زبان اُردو کی ٹکسال کیوں ہے؟|82
نظم اُردو کی تاریخ|85
نظم اُردو کی ولادت|88
امیر خسرو اور اُن کے ایجاد|89
پہلا دور : تمہید|105
شمس ولی اللہ|107
کیا کیا الفاظ اُ ن کے عہد میں تھے کہ اب متروک ہیں|110
شاہ مبارک آبرو|118
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 5

مضمون|صفحہ نمبر
شیخ شرف الدین مضمون|123
محمد شاکر ناجی|125
محمد احسن، احسن|130
مصطفٰے خان یکرنگ|131
خاتمہ|135
دوسرا دور : تمہید|136
اصلاح زبان اُردو|137
شاہ حاتم|138
بانکوں کے باب میں سید انشاء کی تحقیق|139
شاہ تسلیم|140
سعات یار خاں رنگین|143
محمد امان نثار|143
میاں ہدایت|147
خان آرزو|148
اشرف علی خاں فغاں|151
تیسرا دور : تمہید|158
اس عہد کے الفاظ خاص جوکہ اب متروک ہیں۔ اس عہد کی رسم الخط|166
مرزا مظہر جانجاناں|167
میر عبد الحئی تاباں|170
مرزا محمد رفیع سودا|182
فدوی|189
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 6

مضمون|صفحہ نمبر
قیام الدین قائم|190
بقاء اللہ خان|202
مرزا فاخر کمیں|205
شیخ قائم علی قائم|207
سرقہ شاعرانہ کی تحقیق|210
بُلبل مذکر ہے یا مؤنث اور بعض دیگر الفاظ کی تحقیق|212
مجذوب خلف مرزا رفیع سودا|219
میر ضاحک|221
میر مہدی حسن فراغ (حاشیہ پر) |223
میر درد|225
سید محمد میر اثر|226
میر سوز|236
میر تقی میر|248
میر خاں کمترین (حاشیہ پر) |260
چوتھا دور : تمہید|284
اس عہد کے الفاظ جو اب متروک ہیں|285
شیخ قلندر بخش جرات|289
جعفر علی حسرت (حاشیہ پر) |291
میر حسن|310
پنڈت دیا شنکر صاحب گلزار نسیم|313
سید انشاء اللہ خاں انشاء|317
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 7

مضمون|صفحہ نمبر
میر ماشاء اللہ مصدر (حاشیہ پر) |317
شیخ ولی اللہ محب (حاشیہ پر) |321
مرزا عظیم بیگ عظیم|321
نواب امین الدولہ معین الملک|321
ناصر جنگ عرف مرزا میڈھو، اُن کے محاسن|321
اخلاق اور عالی ہمتی اور لطف مشاعرہ (حاشیہ پر) |326
تفضل حسین خاں علامہ|328
ملا عبد الحکیم اور نواب سعد اللہ خاں (حاشیہ پر) |329
ریختی کا ایجاد|332
لفظ شُہدے کی تحقیق (حاشیہ) پر|349
شیخ مصحفی|379
پانچواں دور : تمہید|416
اس عہد کے الفاظ جو اب متروک ہیں|418
مولوی محمد عظیم اللہ صاحب رغمی|419
شیخ ناسخ|422
آغا کلب حسین خاں صاحب (حاشیہ پر) |435
طالب علی خاں عیشی (حاشیہ) |456
دلی اور لکھنؤ کی زبان میں بعض الفاط فرق پیدا کرتے ہیں|457
میر مستحسن خلیق|465
میر مظفر حسین ضمیر|469
مرزا فصیح|470
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 8

مضمون|صفحہ نمبر
خواجہ حیدر علی آتش|470
میر دوست علی خلیل|479
شاہ نصیر نصیر|497
مومن خان مومن|521
نواب مصطفٰے خاں شیفتہ|526
نواب اکبر خاں|526
شیخ ابراہیم ذوق|541
حافظ غلام رسول شوق|544
شاہ وجیہ الدین منیر، خلف شاہ نصیر مرحوم|546
نواب الٰہی بخش خان معروف|555
حافظ احمد یار|574
حافظ غلام رسول ویران|577
حکیم آغا جان عیش (حاشیہ پر) |601
ہُد ہُد الشعراء (حاشیہ پر) |602
اسد اللہ خان غالب|625
اوج (حاشیہ پر) |644
مرزا سلامت علی دبیر|671
میرببر علی انیس|677
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 9

دیباچہ

آزاد ہندی نہاد کے بزرگ فارسی کو اپنی تیغِ زبان کا جوہر جانتے تھے۔ تخمیناً سو برس سے کل خاندان کی زبان اُردو ہے۔ بزرگوں سے لے کر آج تک زبانوں کی تحقیقات میں کمال سرگرمی اور جستجو رہی، اب چند سال سے معلوم ہوتا ہے اس ملک کی زبان ترقی کے قدم برابر آگے بڑھا رہی ہے، یہاں تک کہ علمی زبانوں کے عمل میں دخل پیدا کر لیا اور عنقریب بارگاہِ علم میں کسی درجہ خاص کیکرسی پر جلوس کیا چاہتی ہے۔ ایک دن اسی خیال میں تھا اور دیکھ رہا تھا کہ کس طرح اس نے ظہور پکڑا، کس طرح قدم بقدم آگے بڑھی، کس طرح عہد بعہد اس درجہ تک پہنچی۔ تعجب ہوا کہ ایک بچہ شاہجہانی بازار میں پھرتا ملے، شعراء اُسے اٹھا لیں اور ملکِ سخن میں پال کر پرورش کریں۔ انجام کو یہاں تک نوبت پہنچے کہ وہی ملک کی تصنیف و تالیف پر قابض ہو جائے۔

اس حالت میں اس کے عہد بعہد کی تبدیلیاں اور ہر عہد میں اس کے باکمالوں کی حالتیں نظر آئیں جس کی وقت بوقت کی تربیت اور اصلاح نے اس بچہ کی اُنگلی پکڑ کے قدم قدم آگے بڑھایا اور رفتہ رفتہ اس درجہ تک پہنچایا کہ جو آج حاصل ہے۔ صاف نظر آیا کہ ہر عہد میں وہ جُدا جُدا رنگ بدل رہا ہے اور اس کے باکمال تربیت کرنے والے وقت بوقت ترکیب اور الفاظ سے اس کے رفتار و اطوار میں اصلاحیں کر رہے ہیں۔ چنانچہ اس لحاظ سے پانچ جلسے سامنے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 10

آئے کہ مسلسل اور متواتر قائم ہوئے اور برخاست ہوئے۔ ایک نے دوسرے کو رخصت کیا اور اپنا رنگ نیا جمایا۔ یہاں تک کہ پانچویں جلسہ کا بھی دور آیا جو کہ اب پیشِ نظر موجود ہے۔ ہر ایک جلسہ میں صدر نشین اور ارکانِ انجمن نظرآئے کہ جن میں عہد بعہد کے بزرگوں کی رفتار و گفتار وضع لباس جُدا جُدا ہے مگر اصلاح کے قلم سے کسی کا ہاتھ خالی نہیں اور اس کام کو ہر ایک اپنا فرض سمجھے ہوئے ہے۔ باوجود اس کے اہلِ مجلس بھی شوق کے دامن پھیلائے ہیں اور قبول کے ہاتھ سینوں پر رکھے ہیں۔ زبان مذکور کی ہر ہر جلسہ میں نئی صورت نظر آئی۔ کبھی بچہ، کبھی لڑکا، کبھی نوجوان، مگر یہ معلوم ہوا کہ دیکھتا ہے تو انھیں کی آنکھوں سے دیکھتا ہے اور بولتا ہے تو انھیں کی زبان سے بولتا ہے۔

غرضیکہ اس زبان کے رنگ میں اُن کے رفتار گفتار اوضاع، اطوار بلکہ اُس زمانے کے سارے چال چلن پیشِ نظر تھے جس میں اُنہوں نے زندگی بسر کی اور کیا کیا سبب ہوئے کہ اس طرح بسر کی۔ اِن کے جلسوں کے ماجرے اور حریفوں کے وہ معرکے جہاں طبیعتوں نے تکلف کے پردے اُتھا کر اپنے اصلی جوہر دکھا دیئے۔ ان کے دلوں کی آزادیاں، وقتوں کی مجبوریاں، مزاجوں کی شوخیاں، طبیعتوں کی تیزیاں، کہیں گرمیاں، کہیں نرمیاں، کچھ خوش مزاجیاں، کچھ بے دماغیاں، غرض یہ سب باتیں میری آنکھوں میں اس طرح عبرت کا سُرمہ دیتی تھیں گویا وہی زمانہ اور وہی اہلِ زمانہ موجود ہیں۔

چونکہ میں نے بلکہ میری زبان نے ایسے ہی اشخاص کی خدمتوں میں پرورش پائی تھی، اس لئے ان خیالات میں دل کی شگفتگی کا ایک عالم تھا کہ جس کی کیفیت کو کسی بیان کی طاقت اور قلم کی زبان ادا نہیں کر سکتی لیکن ساتھ ہی افسوس آیاکہ جن جوہریوں کے ذریعے سے یہ جواہرات مجھ تک پہنچے وہ تو خاک میں مل گئے۔ جو لوگ باقی ہیں وہ بجھے چراغوں کی طرح
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 11

ایسے ویرانوں میں پڑے ہیں کہ ان کے روشن کرنے کی یا اُن سے روشنی لینے کی کسی کو پروا نہیں۔ پس یہ باتیں کہ حقیقت میں اثبات ان کے جوہر کمالات کے ہیں۔ اگر اسی طرح زبانوں کے حوالے رہیں تو چند روز میں صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گی اور حقیقت میں یہ حالات نہ مٹیں گے بلکہ بزرگانِ موصوف دنیامیں فقط نام کے شاعر رہ جائیں گے جن کے ساتھ کوئی بیان نہ ہو گا جو ہمارے بعد آنے والوں کے دلوں پر یقین کا اثر پیدا کر سکے۔ ہر چند کلام اُن کے کمال کی یادگار موجود ہیں۔ مگر فقط دیوان جو بکتے پھرتے ہیں بغیر اُن کے تفصیلی حالات کے، اس مقصود کا حق پورا پورا نہیں ادا کر سکتے۔ نہ اُس زمانہ کا عالم اس زمانہ میں دکھا سکتےہیں اور یہ نہ ہوا تو کچھ بھی نہ ہوا۔

سودا اور میر وغیرہ بزرگانِ سلف کی جو عظمت ہمارے دلوں میں ہےوہ آج کل کے لوگوں کے دلوںمیں نہیں۔ سبب پوچھیے تو جواب فقط یہی ہے کہ جس طرح ان کے کلاموں کو ان کے حالات اور وقتوں کی واردات نے خلعت اور لباس بن کر ہمارے سامنے جلوہ دیا ہے اس سے ارباب زمانہ کے دیدہ و دل بے خبر ہیں حق پوچھو تو انہی اوصاف سے سودا سودا، اور میر تقی میر صاحب ہیں ورنہ جس کا جی چاہے یہی تخلص رکھ دیکھے۔ خالی سودا ہے تو جنون ہے اور نرا میر ہے تو گنجفہ کا ایک پتا۔

میرے دوستو زندگی کے معنے کھانا، پینا، چلنا، پھرنا، سو رہنا اور منہ سے بولے جانا نہیں ہے۔ زندگی کے معنی یہ ہیں کہ صفات خاص کے ساتھ نام کو شہرتِ عام ہو اورر اُسے بقائے دوام ہو۔ اب انصاف کرو کہ یہ تھوڑے افسوس کا موقع ہے کہ ہمارے بزرگ خوبیاں بہم پہنچائیں۔ انھیں بقائے دوام کے سامان ہاتھ آئیں اور اسی پر نام کی زندگی سے محروم ہیں۔ بزرگ بھی وہ بزرگ کہ جن کی کوششوں سے ہماری ملکی اور کتابی زبان کا لفظ لفظ
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 12

اور حرف حرف گرانبارِ احسان ہو۔ اِن کے کاموں کا اس گمنامی کے ساتھ صفحہ ہستی سے مٹنا بڑے حیف کی بات ہے۔ جس مرنے پر اُن کے اہل و عیال روئے وہ مرنا نہ تھا۔ مرنا حقیقت میں ان باتوں کا مٹنا ہے جس سے اِن کےکمال مر جائیں گے اور یہ مرنا حقیقت میں سخت غمناک حادثہ ہے۔

ایسے بزرگانِ باکمال کے رویے اور رفتاروں کا دیکھنا اُنھیں ہماری آنکھوں کے سامنے زندہ کر دکھاتا ہے اور ہمیں بھی دنیا کے پیچیدہ رستوں میں چلنا سکھاتا ہےاور بتاتا ہے کہ کیونکر ہم بھی اپنی زندگی کو اتنا طولانی اورر ایسا گراں بہا بنا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ نئے تعلیم یافتہ جن کے دماغوں میں انگریزی لالٹینوں سے روشنی پہنچتی ہے، وہ ہمارے تذکروں کے اس نقص پر حرف رکھتے ہیں کہہ ان سے نہ کسی شاعری کی زندگی کی سرگزشت کا حال معلوم ہوتا ہے نہ اس کی طبیعت اور عادت و اطوار کا حال کھلتا ہے نہ اس کے کلام کی خوبی۔ اور صحت و سقم کی کیفیت کھلتی ہے۔ نہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کے معاصروں میں اوراس کے کلام میں کن کن باتوں میں کیا نسبت تھی۔ انتہا یہ ہے کہ سالِ ولادت اور سالِ وفات تک بھی نہیں کُھلتا۔ اگرچہ اعتراض ان کا کچھ اصلیت سے خالی نہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کی معلومات زیادہ تر خاندانوں اور خاندانی با کمالوں اور ان کے صحبت یافتہ لوگوں میں ہوتی ہیں، وہ لوگ کچھ تو انقلاب زمانہ سے دل شکستہ ہو کر تصنیف سے ہاتھ کھینچ بیٹھے۔ کچھ یہ کہ علم اور اُس کے تصنیفات کے انداز روز بروز کے تجربہ سے رستے بدلتے ہیں، عربی فارسی میں اس ترقی اور اصلاح کے رستے سالہا سال سے مسدود ہو گئے۔ انگریزی زبان ترقی اور اصلاح کا طلسمات ہے مگر خاندانی لوگوں نے اول اول اس کا پڑھانا اولاد کے لیے عیب سمجھا اور ہماری قدیمی تصنیفوں ککا ڈھنگ ایسا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 13

واقع ہوا تھا کہ وہ لوگ ایسی وارداتوں کو کتابوں میں لکھنا کچھ بات نہ سمجھتے تھے۔ ان چھوٹی چھوٹی باتوں کو زبانی جمع خرچ سمجھ کر دوستانہ صحبتوں کی نقل مجلس جانتے تھے۔ اس لئے وہ ان رستوں سے اور ان کے فوائد سے آگاہ نہ ہوئے اور یہ اُنھیں کیا خبر تھی کہ زمانہ کا ورق اُلٹ جائےے گا۔ پُرانے گھرانے تباہ ہو جائیں گے۔ ان کی اولاد ایسی جاہل رہے گی کہ اسے اپنے گھر کی باتوں کی بھی خبر نہ رہے گی۔ ا ور اگر کوئی بات ان حالات میں سے بیان کرے گا تو لوگ اُس سے سند مانگیں گے۔ غرض خیالات مذکورہ بالا نے مجھ پر واجب کیا کہ جو حالات ان بزرگوں کے معلوم ہیں یا مختلف تذکروں میں متفرق مذکور ہیں۔۔ انھیں جمع کر کے ایک جگہہ لکھوں اور جہاں تک ممکن ہو اس طرح لکھوں کہ ان کی زندگی کی بولتی چالتی، چلتی پھرتی تصویریں سامنے آن کھڑی ہون اور انھیں حیاتِ جاوداں حاصل ہوں۔ الحمد للہ کہ چند روز میں جس قدر پریشاں خیالات تھے بہ ترتیب جمع ہو گئے اسی وواسطے اس مجموعہ کا نام آبِ حیات رکھا اور زبان اُردو کی عہد بعہد کی تبدیلی کے لحاظ سے پانچ دور پر تقسیم کیا اس طرح کہ ہر ایک دور اپنے عہد کی زبان بلکہ اس زمانے کی شان دکھاتا ہے۔ خدا کی درگاہ میں دُعا ہے کہ بزرگوں کے ناموں اور کلاموں کی برکت سے مجھے اور میرے کلام کو بھی قبول عام اور بقائے دوام نصیب ہو۔

آمین یا رب العالمین۔

*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔*​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 14

فہرستِ مطالب

دیباچہ

1) تاریخ زبانِ اُردو

2) برج بھاشا پر جب فارسی نے دخل پایا تو کیا کیا اثر کئے اور آیندہ کیا اُمید ہہے۔

3) تاریخ نظم اُردو

4) آب حیات کا پہلا دور : جس میں ولی اورر ان کے قریب العصر باکمال جلسہ جمائے بیٹھے ہیں۔

5) آبِ حیات کا دوسرا دور : شاہ حاتم، خان آرزو، فغاں

6) آبِ حیات کا تیسرا دور : مرزا مظہر جانجاناں، میر سوز، میر تقی میر، مرزا رفیع سودا

7) آبِ حیات کا چوتھا دور : مصحفی، سید انشاء، جرات

8) آبِ حیات کا پانچواں دور : ناسخ، آتش، شاہ نصیر، مومن، ذوق، غالب

9) آبِ حیات کا خاتمہ

بندہ آزاد محمد حسین
عفی اللہ عنہ​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 15

زبان اُردو کی تاریخ

اتنی بات ہر شخص جانتا ہے کہ ہمارے اُردو زبان برج بھاشا سے نکلی ہے اور "برج بھاشا" خاص ہندوستانی زبان ہے۔ لیکن وہہ ایسی زبان نہیں کہ دنیا کے پردے پر ہندوستان کیساتھ آئی ہو۔ اس کی عمر آٹھ سو برس سے زیادہ نہیں ہے اور برج کا سبزہ زار اس کا وطن ہے۔ تم خیال کرو گے کہ شاید اس میراثِ قدیمی کی سند سنسکرت کے پاس ہو گی اورو وہ ایسا بیج ہو گا کہ یہیں پھوٹا ہو گا اور یہیں پَھلا پھولا ہو گا۔ لیکن نہیں، ابھی سراغ آگے چلتا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ ہندوستان اگرچہ بے ہمتی اور آرام طلبی کے سبب سے بدنام رہا۔ مگر باوجود اس کے مہذب قوموں کی آنکھوں میں ہمیشہ کُھپا رہا ہے۔ چنانچہ اس کی سرسبزی اور زرخیزی اور اعتدال نے بلائے جان ہو کر ہمیشہ اُسے غیر قوموں کی گھڑدوڑ کا میدان بنائے رکھا ہے۔ پس دانائے فرنگ کہ ہر بات کا پتہ پتال تک نکالنے والے ہیں۔ اُنھوں نے زبانوں اور قدیمی نشانوں سے ثابت کیا ہے کہ یہاں کےے اصلی باشندےے اور لوگ تھے۔ ایک زبردست قوم نے آ کر آہستہ آہستہ ملک پر قبضہ کر لیا۔ یہ فتحیاب غالباً جیحوں سیحوں کے میداانوں سے اُٹھ کر اورر ہمارے شمالی پہاڑ اُلٹ کر اس ملک میں آئے ہوں گے۔۔ اس زمانہ کے گیت اور پُرانی نشانیاں دیکھ کر یہ بھی معلوم کیا ہے کہ وہ لوگ دل کے بہادر، ہمت کےپُورے، صورت کے وجیہ، رنگ کے گورے ہوں گے، اور اس زمانہ کی حیثیت کے بموجب تعلیم یافتہ بھی ہوں گے۔ موقع کا مقام اور سبز زمین دیکھ کر یہیں زمین گیر ہوئے۔ اس قوم کا نام ایرین تھا اور عجب نہیں کہ ان کی زبان وہ ہو جو اپنے اصل سے کچھ کچھ بدلکر
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 16

اب سنسکرت کہلاتی ہہے۔ یہی لوگ ہیں جنہوں نے ہندوستان میں آ کر راجہ مہاراجہ کا خطاب لیا۔ ایران میں تاجِ کیانی پر درفش کا دیانی لہرایا۔ اپنے مذہب کا نادر طریقہ لے کر چین کو نگارخانہ بنایا۔ یونان کا طبقہ حکمت سے الگ جمایا، روما کی عالمگیر سلطنت کی بنیاد ڈالی، اندلس پہنچ کر چاندی نکالی۔ یورپ سے خبر آئی کہ کہیں دریا سے مچھلیاں نکالتے نکالتے گوہرِ سلطنت پائے، کہیں پہاڑوں سے دھات کھودتے کھودتے لعلِ بے بہا نکال لائے، تب اصلی رہنے والے کون تھے۔ اور اُن کی زبان کیا تھی؟ قیاس سے معلوم ہوتا ہے کہ جیسے پنجاب میں اب قطعہ قطعہ کی زبان کہیں کچھ کچھ اور کہیں بالکل اختلاف رکھتی ہے اور یہی حال اور اضلاعِ ہند میں ہے، اسی طرح اس عہد میں بھی اختلاف ہو گا اور اس ۔۔۔۔۔۔ کی نامی زبانیں وہ ہوں گی جن کی نشانی تامل، اوڑیا اور تلنگو وغیرہ اصلاعِ دکن اور مشرق میں اب تک یادگار موجود ہیں، بلکہ اس حالت میں بھی ان کی شاعری اور انشاپردازی کہتی ہے کہ یہ گٹھلی کسی لذیذ میوہ کی ہے اور سنسکرت سے ۔۔۔۔۔ لگاؤ تک نہیں۔

فتحیابی نے ہندوکش کے پہاڑ اتر کر پہلے ت پنجاب ہی میں ڈیرے ڈالے ہوں گے۔ پھر جوں جوں بڑھتے گئے ہوں گے، اصلی باشندے کچھ تو لڑتے مرتے دائیں بائیں جنگلوں کی گود اور پہاڑوں کے دامن میں گھستے گئے ہوں گے، کچھ بھاگے ہوں گے وہ دکن اور مشرق کو ہٹتے گے ہوں گے۔ کچھ فتحیابوں کی غلامی اور خدمتگاری میں کام آئے ہوں گے اور وہی شودر کہلائے ہوں گے۔ چنانچہ اب تک بھی اُن کی صورتیں کہے دیتی ہیں کہ یہ کسی اور بدن کی ہڈی ہیں۔

مدت دراز تک ایرین بھائیوں کے کاروبار ہندوستانی بھائیوں کے ساتھ ملے جُلے رہے ہوں گے۔ یہی سبب ہے کہ ایران کی تاریخ قدیم مہ آباد اور اُس کے زمانہ کی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 17

تقسیم برہما کے زمانے سے اور اُس کے رسوم و قواعد سے مطابقت دکھاتی ہے اور چارون برنوں کا برابر پتہ لگتا ہے۔۔ یہاں بدھ نے انھیں توڑا۔ وہاں زرقشت کے مذہب نے اُسے جلا کر خاک کیا۔ مگر ہندوں نے بدھ کے بعد پھر اپنے حال کو سنبھال لیا، ایرانی اپنی بدحالی نہ نہ سنبھال سکے۔

چار برنوں کی تقسیم اور ان کا الگ تھلگ رہنا دُور کے دیکھنے والوں کو غرور کے لباس میں نظر آیا مگر حق پوچھو تو یہہ کچھ بُری بات نہ تھی۔ اسی کی برکت ہے کہ آج تک چاروں سلسلے صااف الگ الگ چلے آتےہیں جو ہندو ہو گا، ماں باپ دونوں کی طرف سے خالص ہو گا اور برابر اپنی قوم کا پتہ بتا سکے گا، جو دوغلا ہو گا اُس کا سلسلہ الگ ہو جائے گا۔ اگر یہ قیدیں اس سختی کے ساتھ نہ ہوتیں تو تمام نسلیں خلط ملط ہو جاتیں۔ نجیب الطرفین آدمی چاہتے تو ڈھونڈھے سے نہ ملتا۔۔ فتحیابیوں کی ان سخت قیدوں نے آپس کی بندشون میں عجیب طرح کےپھندے ڈالے۔ چنانچہ سب نسلوں کی حفاظت کا پورا بندوبست کر چکے توو خیال ہوا کہ شودروں کے ساتھ آٹھ پہر بات چیت، رہنے سہہنے اور لین دین کرنے میں بزرگوں کی زبان دوغلی ہو جائے گی۔ اس واسطے کہا کہہ ہماری زبان زبان الٰہی ہے اور الٰہی عہد سے اسی طرھ چلی آئی ہے۔ چنانچہ اس کے قواعد اور اصول باندھے۔ اور ایسے جانچ کر باندھے جن میں نقطہ کا فرق نہیں آ سکتا۔ اس کی پاکیزگی نے غیر لفظ کو اپنے دامن پر ناپاک دھبا سمجھا اور سوا برہمن کے دوسرے کی زبان بلکہ کان تک گزرنا بھی ناجائز ہوا۔ اس سخت قانون نے بڑا فائدہ یہ دیا کہ زبان ہمیشہ اپنی اصلیت اور بزرگوں کی یادگار کا خالص نمونہ نمایاں کرتی رہے گی برخلاف ایرانی بھائیوں کے اُن کے پاس زبانی بھی سند نہ رہی۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۸

اسی بنیاد پر فتحیابوں کی بلند نظری نے اس کا نام سنسکرت رکھا (سن مکمل اور کرت بنائے ہوئے کو کہتے ہیں۔ سنسکرت مہذبوں کی بنائی ہوئی تھی۔ پراکرت کے معنی ہیں جو طبیعت سے نکلے، پس پراکرتیں وہ زبانیں ہیں جو طبیعت (نیچر) نے اپنی اپنی زمین میں پیدا کر دیں۔) جس کے معنی آراستہ پیراستہ، متقی، منزہ، مصفا، مقدس جو چاہو سمجھ لو، ان کے قواعدِ زبان بھی ایسے مقدس ہوئے کہ بزرگانِ دین ہی اُسے پڑھائیں تو پڑھائیں بلکہ اس طرح پکار کر پڑھنا بھی گناہ ہوا کہ شودر کے کان میں آواز پڑے۔ اس زبان کا نام دیوبانی ہوا یعنی زبانِ الٰہی۔ زبان شاہی دید کے سنہ ترتیب جس سے اس عہد کی زبان کا پتہ لگے، ۱۴ سو برس سنہ عیسوی خیال کرتے ہیں۔ اس وقت ان فتحیابوں کی باتیں اس ملک اور ملک والوں کے ساتھ ایسی سمجھ لو۔ جیسے ہندوستان میں پہلے پہلے مسلمانوں کی حالتیں اُن کے سنسکرت زبان کے مخرج اور تلفظ یہاں کے لوگوں میں آ کر کچھ اور ہو گئے ہوں گے۔ اس لئے گھروں اور بازاروں میں باتیں کرنے کو قطعہ قطعہ میں پراکرت زبانیں خودبخود پیدا ہو گئی ہوں گی۔ جیسے اسلام کے بعد اُردو، چنانچہ! گدی (پالی)، سورسینی، مہاراشٹری وغیرہ قدیمی پراکرتیں اب بھی اپنی قدامت کا پتہ بتاتی ہیں۔ ان کی سیاہی میں سینکڑوں لفظ سنسکرت کے چمکتے نظر آتے ہیں۔ مگر بگڑے ہوئے ہیں۔ دیکھا! پراکرت کے معنی ہیں طبیعت اور جو طبیعت سےنکلے چنانچہ ہیم چند لغاتِ سنسکرت کا جامع بھی یہی کہتا ہے۔ اس کے علاوہ سنسکرت مہذب اور مقدس اور پراکرت غیر مہذب لوگوں کو کہتے ہیں۔ پس ایسی باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ فہمیدہ لوگ تھے۔ ہر بات کو خوب سمجھتے تھے اور جو کچھ اُنہوں نے کیا ہے سمجھ کر کیا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۹

راجہ بھوج کے عہد کی ناستکپ پستکیں کہتی ہیں کہ ان عہدوں میں علمی، کتابی اور درباری زبان تو سنسکرت تھی۔ مگر چونکہ معاملہ خاص و عام سے پڑتا ہے، اس لئے گفتگو میں پنڈتوں کو بھی پراکرت ہی بولنی پڑتی تھی۔ پراکرت صاف سنسکرت کی بیٹی معلوم ہوتی ہے کیونکہ اس میں ہزاروں لفظ سنسکرت کے ہیں اور ویسے ہی قاعدے صرف و نحو کے بھی ہیں۔

سنسکرت کی اتنی حفاظت ہوئی پھر بھی منوسمرتی دیدوں کی ترتیب سے کئی سو برس بعد لکھی گئی تھی۔ اس میں اور دید کی زبان میں صاف فرق ہے اور اب اور بھی زیادہ ہو گیا، لیکن چونکہ سلطنت اور معتبر تصانیف پر مذہب کا چوکیدار بیٹھا تھا، اس لئے نقصان کا بہت خطرہ نہ تھا کہ دفعتہً ۵۴۳ برس قبل عیسوی میں بُدھ مذہب کے بانی شاک منی پیدا ہوئے۔ وہ مگدھ دیس اُٹھے تھے۔ اس لئے وہیں کے پراکرت میں وعظ شروع کیا۔ کیونکہ زیادہ تر کام عوام سے تھا۔ عورت مرد سے لیکر بچے اور بوڑھے تک سمجھتے تھے، یہی اُس دیس کی زبان تھی۔ ان کی آتش زبانی سے مذہب مذکور ایسا پھیلنا شروع ہوا جیسے بَن میں آگ لگے۔ دیکھتے دیکھتے دھرم حکومت، رسم و رواج، دین آئین سب کو جلا کر خاک کر دیا، اور مگدھ دیس کی پراکرت کل دربار اور کل دفتروں کی زبان ہو گئی۔ اقبال کی یاوری نے علوم و فنون میں بھی ایسی ترقی دی کہ تھوڑے ہی دنوں میں عجیب و غریب کتابیں تصنیف ہو کر اسی زبان میں علوم کے کتب خانے سج گئے اور فنون کے کارخانے جاری ہو گئے، کہیں کہیں کونے گوشے میں جہاں کے راجہ دید کو مانتے رہے، وہاں ویدوں کا اثر رہا۔ باقی راج دربار اور علمی سرکار سب ماگدھی ہی ماگدھی ہو گئی۔ ان کے حوصلے وسیع ہو کر دعوے بڑھے اور بآواز بلند کہہ دیا کہ ابتدائے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۰

عالم سے تمام زبانوں کی اصل ماگدی ہے۔ برہمن اور کل انسان بات کرنے کے لائق بھی نہ تھے۔ اصل میں ان کی بھی اور قادر مطلق بودھ کی زبان یہی ہے۔ اس کی صرف و نحو کی کتابیں بھی تصنیف ہوئی، خدا کی قدرت دیکھو! جو لونڈی تھی، وہ رانی بن بیٹھی اور رانی منھ چھپا کر کونے میں بیٹھ گئی۔

زمانے نے اپنی عادت کے بموجب (تخمیناً ۱۵ سو برس بعد) بودھ مذہب کو بھی رخصت کیا، اور اس کے ساتھ اس کی زبان بھی رخصت ہوئی۔ شنکر چارج کی برکت سے برہمنوں کا ستارہ ڈوبا ہوا پھر اُبھر کو چمکا اور سنسکرت کی آب و تاب بھی شروع ہوئی۔ راجہ بکرماجیت کے عہد میں جو روشنی اس کی فصاحت نے پائی، آج تک لوگوں کی آنکھوں کا اُجالا ہے، اس سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ دربار سلطنت اور اعلیٰ درجہ کے لوگوں کو سنسکرت بولنا اعتبار و افتخار کی سند تھا۔ اور پراکرت عوام کی زبان تھی، کیونکہ اس عہد میں کالی داس ملک الشعراء نے شکنتلا کا ناٹک لکھا ہے۔ سبھا میں دیکھ لو بادشاہ، اُمراء اور پنڈت سنسکرت بول رہے ہیں، کوئی عام آدمی کچھ کہتا ہے تو پراکرت میں کہتا ہے۔

گیارھویں صدی عیسوی سے پہلے راجہ بھرت کے عہد میں برج کے قطعہ کی وہ زبان تھی، جسے ہم آج کی برج بھاشا کی اصل کہہ سکتے ہیں، اس وقت بھی ہر قطعہ میں اپنی اپنی بولی عام لوگوں کی حاجت روائی کرتی تھی اور سنسکرت تصنیفات اور خواص کی زبانوں کے لئے باعثِ برکت تھی کہ دفعتہً زمانہ کے شعبدہ باز نے ایک اور رنگ بدلا۔ یعنی اسلام کا قدم ہندوستان میں آیا۔ اسنے پھر ملک و مذہب کو نیا انقلاب دیا اور اسی وقت سے زبان کا اثر زبان پر دوڑنا شروع ہوا۔

سنسکرت اور اصل فارس یعنی ژندواستا کی زبان ایرین کے رشتہ سے ایک دادا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 21

کی اولاد ہیں، مگر زمانہ کے اتفاق دیکھو کہ خدا جانے کہ سو برس یا کہ ہزار برس کی بچھڑی ہوئی بہنیں اس حالت سے آ کر ملی ہیں کہ ایک دوسرے کی شکل نہیں پہچان سکتیں۔

ہندوستانی بہن کی کہانی تو سُن چکے۔ اب ایرانی بہن کی داستان بھی سن لو کہ اس پر وہاں کیا گزری۔ اول تو یہی قیاس کرو کہ اس ملک نے جو ایران نام پایا شاید وہ ایرین ہی کی برکت ہو، پھر یہ بھی کچھ تھوڑے تعجب کا مقام نہیں کہ جس طرح ہندوستانی بہن پر وقت بوقت بودھ وغیرہ کے حادثے گزرے، اسی طرح اس پر بھی وہاں انقلاب پڑتے رہے۔ باوجود اس کے اب تک ہزاروں لفظ فارسی اور سنسکرت کے صاف ملتے جلتے نظر آتے ہیں۔

ایرانی بہن جب اس ملک میں جا کر بسی ہو گی، اول تو مدت تک اُن کے مذہب رسم و رواج اور زبان جیسے تھے ویسے ہی رہے ہوں گے۔ مگر اس زمانہ کی کوئی تصنیف ہاتھ نہیں آئی، کچھ ٹوٹا پھوٹا پتا ملتا ہے تو زرتشت کے وقت سے ملتا ہے جسے آج تخمیناً ۲۴ سو برس ہوئے اس نورانی موخذ نے شعلہ آتش کے پردہ میں توحید کے مسئلہ کو رواج دیا، مذہت مذکور نے سلطنت کے بازوؤں سے زور پکڑا اور ایران سے نکل کر دو سو برس کے قریب اطراف و جوانب کو دباتا رہا یہاں تک کہ یونان سے سکندر طوفان کی طرح اُٹھا اور ایشیا کے امن کو تہ و بالا کر دیا۔ جو مصیبت بودھ کے ہاتھ سے بید شاستر پر پڑی تھی، وہاں وہی مصیبت ژنداستا پر آئی۔ چنانچہ جس آگ نے زرتشت اور جاماسپ متبرک ہاتھوں سے آتش خانوں کو روشن کیا تھا جس کے آگے گشاسپ نے تاج اُتار کر رکھا، جس کی درگاہ میں اسفند یار نے گرز اور تلوار چڑھائی۔ وہ یونان کے آب شمشیر سے بجھائی گئی، اور آتش خانے راکھ ہو کر اُڑ گئے، افسوس یہ ہے کہ ژند و پاژند کے
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top