آب حیات - مولانا محمد حسین آزاد (مرحوم)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۶۲

پر نواب کو موجب تفریح ہوتی تھیں۔ بعض دفعہ بمقضہائے طبیعت اصلی مکدر ہو جاتے تھے۔ خصوصاً جب کہ رخصت کے وقت خرچ مانگتے تھے۔ کیونکہ وہ شاہ عالم نہ تھا۔ سعادت علی خاں تھا۔

گر جاں طلبی مضائقہ نیست
زر مے طلبی سخن دریں است​

غضب یہ ہوا کہ ایک دن سرور بار بعض شرفائے خاندانی کی شرافت و نجابت کے تذکرے ہو رہے تھے۔ سعادت علی خاں نے کہا کہ کیوں بھئی ہم بھی نجیب الطرفین ہیں۔ اسے اتفاق وقت کہو یا یاوہ گوئی کا ثمرہ سمجھو۔ سیّد انشاء بول اٹھے کہ حضور بلکہ انجب، سعات علی خاں حرم کے شکم سے تھے وہ چپ اور تمام دربار درہم برہم ہو گیا۔ اگرچہ انھوں نے پھر اور (معتبر لوگوں کی زبانی معلوم ہوا کہ جب گُنّا بیگم دختر قزلباش خاں امید کے حسن و جمال، سلیقے، سگھڑاپے، حاضر جوابی اور موزونی طبع کی شہرت ہوئی تو نواب شجاع الدولہ نوجوان تھے، اسی سے شادی کرنی چاہی۔ بزرگوں نے حسبِ آئین بادشاہ سے اجازت مانگی۔ فرمایا کہ اس کے لئے ہماری تجویز کی ہوئی ہے۔ ایک خاندانی سید زادی لڑکی کو حضور نے بہ نظر ثواب خود بیٹی کر کے پالا تھا، اس کے ساتھ شادی کی۔ اور اس دھوم دھام سے کہ شاید کسی شہزادی کی ہوئی ہو، یہی سبب تھا کہ شجاع الدولہ اور تمام خاندان ان کی بڑی عظمت کرتےتھے۔ دلہن بیگم صاحبہ ان کا نام تھا اور آصف الدولہ کی والدہ تھیں۔ سعادت علی خاں کو بچپن میں منگلو کہتے تھے کہ منگل پیدا ہوئے تھے۔ بیگم کے دل میں جو خیالات ان کے باب میں تھے اکثر ظاہر بھی ہو ہی جاتے تھے، مگر زیرکی اور دانائی کے آثار بچپن ہی سے عیاں تھے۔ نواب شجاع الدولہ کہا کرتے تھے کہ بیگم اگر منگلو کے سر پر تم ہاتھ رکھو گی تو تمہارے دوپٹہ کا پھریرا لگائے گا۔ اور نربدا کے اس پار گاڑے گا۔)
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۶۳

باتیں بنا بنا کر بات کو مٹانا چاہا۔ مگرکمانِ تقدیر سے تیر نکل چکا تھا، وہ کھٹک دل سے نہ نکلی کہ

اب نواب کے انداز بدلنے لگے اور اس فکر میں رہنے لگے کہ کوئی بہانہ ان کی سخت گیری کے لئے ہاتھ آئے۔ یہ بھی انواع و اقسام کے چٹکلوں سے ان کے آئینہ غیات کو چمکاتے۔ مگر دل کی کدورت صفائی کی صورت نہ بننے دیتی تھی۔ ایک دن سید انشاء نے بہت ہی گرم لطیفہ سنایا، سعادت علی خاں نے کہا کہ انشاء جب کہتا ہے ایسی بات کہتا ہے کہ نہ دیکھی ہو نہ سنی ہو، یہ مونچھوں پر تاؤ دے کر بولے کہ حضور کے اقبال سے قیامت تک ایسے ہی کہے جاؤں گا کہ نہ دیکھی ہو نہ سنی ہو۔ نواب تو تاک میں تھے۔ چیں بچیں ہو کر بولے کہ بھلا زیادہ نہیں فقط دو لطیفے روز سنا دیا کیجیے۔ مگر شرط یہی ہے کہ نہ دیکھے ہوں نہ سنے ہوں۔ نہیں تو خیر نہ ہو گی۔ سیّد انشاء سمجھ گئے کہ یہ انداز کچھ اور ہیں۔ خیر اس دن سے دو لطیفے روز تو انھوں نے سنانے شروع کر دیئے مگر چند روز میں یہ عالم ہو گیا کہ دربار کو جانے لگتے تو جو پاس بیٹھا ہوتا اسی سے کہتے کہ کوئی نقل کوئی چٹکلا یاد ہو تو بتاؤ، نواب کو سنائیں۔ وہ کہتا کہ جناب بھلا آپ کے سامنے اور ہم چٹکلے کہیں۔ یہ کہتے کہ میاں کوئی بات چڑیا کی چڑنگل کی جو تمھیں یاد ہو کہہ دو، میں نون مرچ لگا کر اسے خوش کر لوں گا۔ اسی اثناء میں ایک دن ایسا ہوا کہ سعادت علی خاں نے انھیں بلا بھیجا۔ یہ کسی اور امیر کے ہاں گئے ہوئے تھے۔ چوبدار نے آ کر عرض کی کہ گھر نہیں ملے۔ خفا ہو کر حکم دیا کہ ہمارے سوا کسی اور کے ہاں نہ جایا کرو۔ اس قید بے زنجیر نے انھیں بہت دق کیا۔ زیادہ مصیبت یہ ہوئی کہ تعالی اللہ خاں نوجوان بیٹا مر گیا۔ اس صدمہ
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۶۴

سے حواس میں فرق آ گیا۔ یہاں تک کہ ایک دن سعادت علی خاں کی سواری ان کے مکان کی طرف سے نکلی، کچھ غم و غصہ کچھ دل بے قابو۔ غرض سرراہ کھڑے ہو کر سخت و سُست کہا۔ سعادت علی خاں نے جا کر تنخواہ بند کر دی، اب جنون میں کیا کسر رہی۔

سعادت یار خاں رنگین اس کے بڑے یار تھے اور دستار بدل بھائی تھے۔ چنانچہ سیّد انشاء خود کہتے ہیں۔

عجب رنگینیاں ہوتی ہیں کچھ باتوں میں اے انشاء
بہم مل بیٹھتے ہیں جب سعادت یار خاں اور ہم​

خاں موصوف کہا کرتے تھے کہ لکھنؤ میں سید انشاء کے وہ رنگ دیکھے جن کا خیال کر کے دُنیا سے جی بیزار ہوتا ہے۔ ایک تو وہ اوج کا زمانہ تھا کہ سعادت علی خاں کی ناک کے بال تھے۔ اپنی کمال لیاقت اور شگفتہ مزاجی کے سبب سے مرجع خلائق تھے، دروازے پر گھوڑے، ہاتھی، پالکی نالکی کے ہجوم سے رستہ نہ ملتا تھا۔ دوسری وہ حالت کہ پھر جو میں لکھنؤ گیا تو دیکھا کہ ظاہر درست تھا مگر درخت اقبال کی جڑ کو دیمک لگ گئی تھی۔ میں ایک شخص کی ملاقات کو گیا۔ وہ اثنائے گفتگو میں دوستان دنیا کی ناآشنائی اور بے وفائی کی شکایت کرنے لگے۔ میں نے کہا، البتہ ایسا ہے، مگر پھر بھی زمانہ خالی نہیں۔ انھوں نے زیادہ مبالغہ کیا۔ میں نے کہا کہ ایک ہمارا دوست انشاء ہے کہ دوست کے نام پر جان دینے کو موجود ہے۔

وہ خاموش ہوئے اور کہا کہ اچھا زیادہ نہیں۔ آج آپ ان کے پاس
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۶۵

جائیے اور کہیے ہمیں ایک تربوز بازار سے لا کر کھلا دو۔ موسم کا میوہ ہے، کچھ بڑی بات بھی نہیں ہے، میں نے کہا کہ بھلا یہ بھی فرمائش ہے۔ وہ بولے بس یہی فرمائش ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ وہ خود لا کر کھلائیں بلکہ چار آنے کے پیسے بھی آپ مجھ سے لے جائیں۔ میں اسی وقت اُٹھ کر پہنچا۔ انشاء عادت قدیم کے بموجب دیکھتے ہی دوڑے صدقہ قربان گئے۔ جم جم آئیے۔ نِت نِت آئیے۔ بلائیں لینے لگے۔ میں نے کہا یہ ناز و انداز ذرا طاق میں رکھو۔ پہلے ایک تربوز تو لا کر کھلاؤ۔ گرمی نے مجھے جلا دیا۔ انھوں نے آدمی کو پکارا۔ میں نے کہا کہ آدمی کی سہی نہیں۔ تم آپ جاؤ اور ایک اچھا سا شہدی تربوز دیکھ کر لاؤ۔ انھوں نے کہا کہ نہیں آدمی معقول ہے۔ اچھا ہی لائے گا۔ ------------------------------------------------------------------------ میں نے کہا نہیں کھاؤں گا تو تمہارا ہی لایا ہوا کھاؤں گا۔ انھوں نے کہا تو دیوانہ ہوا ہے! یہ بات کیا ہے۔ تب میں نے داستان سُنائی، اس وقت انھوں نے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور کہا بھائی وہ شخص سچا اور ہم تم دونوں جھوٹے، کیا کروں؟ ظالم کی قید میں ہوں سِوا دربار کے گھر سے نکلنے کا حکم نہیں۔ تیسرا رنگ میاں رنگین بیان کرتے ہیں کہ میں سوداگری کے لئے گھوڑے لر کر لکھنؤ گیا اور سرا میں اُترا۔ شام ہوئی تو معلوم ہوا کہ قریب ہی مشاعرہ ہوتا ہے۔ کھانا کھا کر میں بھی جلسہ میں پہنچا۔ ابھی دو تین سو آدمی آئے تھے۔ لوگ بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ حقے پی رہے تھے۔ میں بھی بیٹھا ہوں، دیکھتا ہوں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۶۶

کہ ایک شخص میلی کچیلی روئی دار مرزئی پہنے، سر پر ایک میلا سا پھنٹیا، گھٹنا پاؤں میں، گلے میں پیکوں کا توبڑا ڈالے ایک ککڑ کا حقہ ہاتھ میں لئے آیا اور سلام علیکم کہہ کر بیٹھ گیا۔ کسی کسی نے اس سے مزاج پرسی بھی کی۔ اس نے تو اپنے توبڑے میں ہاتھ ڈال کر تمباکو نکالا اور اپنی چلم پر سُلفا جما کر کہا، کہ بھئی ذرا سی آگ ہو تو اس پر رکھ دینا۔ اسی وقت آوازیں بلند ہوئیں، اور گڑگڑی سٹک پیچوان سے لوگ تواضع کرنے لگے۔ وہ بے دماغ ہر کو بولا کہ صاحب! ہمیں ہمارے حال پر رہنے دو۔ نہیں تو ہم جاتے ہیں۔ سب نے اس کی بات کے لئے تسلیم اور تعمیل کی۔ دم بھر کے بعد پھر بولا کہ کیوں صاحب ابھی مشاعرہ شروع نہیں ہوا۔لوگوں نے کہا، جناب لوگ جمع ہوتے جاتے ہیں، سب صاحب آ جائیں تو شروع ہو۔ وہ بولا کہ صاحب ہم تو اپنی غزل پڑھے دیتے ہیں۔ یہ کہہ کر توبڑے میں سے ایک کاغذ نکالا اور غزل پڑھنی شروع کر دی۔

کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں
بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں

نہ چھیڑ اے نکہت بادِ بہاری راہ لگ اپنی
تجھے اٹکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں

تصّور عرش پر ہے اور سر ہے پائے ساقی پر
غرض کچھ زور دھن میں اس گھڑی میخوار بیٹھے ہیں

بسان نقشِ پائے رہرواں کوئے تمنّا میں
نہیں اتھنے کی طاقت کیا کریں لاچار بیٹھے ہیں

یہ اپنی چال ہے افتادگی سے اب کہ پہروں تک
نظر آیا جہاں سے سایہ دیوار بیٹھے ہیں

کہاں صبر و تحمل آہ ننگ و نام کیا شے ہے
میاں رو پیٹ کر ان سب کو ہم بیکار بیٹھے ہیں

بھلا گردش فلک کی چین دیتی ہے کسے انشاء
غنیمت ہے کہ ہم صورت یہاں دو چار بیٹھے ہیں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۶۷

وہ تو غزل پڑھ، کاغذ پھینک سلام علیک کہہ کر چلے گئے۔ مگر زمین و آسمان میں سناٹا ہو گیا اور دیر تک دلوں پر ایک عالم رہا۔ جس کی کیفیت بیان نہیں ہو سکتی۔ غزل پڑھتے میں میں نے بھی پہچانا۔ حال معلوم کیا تو بہت رنج ہوا۔ اور گھر پر جا کر پھر ملاقات کی۔ چوتھی دفعہ لکھنؤ گیا تو پوچھتا ہوا گھر پہونچا۔ افسوس جس دروازے پر ہاتھی جُھومتے تھے وہاں دیکھا کہ خاک اڑتی ہے اور کُتّے لوٹتے ہیں۔ ڈیوڑھی پر دستک دی، اندر سے کسی بڑھیا نےپوچھا کہ کون ہے بھائی؟ (وہ ان کی بی بی تھیں) میں نے کہا کہ سعادت یار خاں دلّی سے آیا ہے۔ چونکہ سید انشاء سے انتہائی درجہ کا اتحاد تھا۔ اس عفیفہ نے پہچانا۔ دروازہ پر آ کر بہت روئیں اور کہا کہ بھیّا ان کی تو عجب حالت ہے۔ اے لو میں ہٹ جاتی ہوں۔ تم اندر آؤ اور دیکھ لو۔ میں اندر گیا دیکھا کہ ایک کونے میں بیٹھے ہیں۔ تن برہنہ ہے۔ دونوں زانوؤں پر سر دھرا ہے۔ آگے راکھ کے ڈھیر ہیں۔ ایک ٹوٹا سا حقہ پاس رکھا ہے، یا تو وہ شان و شوکت کے جمگھٹ دیکھے تھے۔ وہ گرمجوشی اور چہلوں کی ملاقاتیں ہوتی تھیں یا یہ حالت دیکھی، بے اختیار دل بھر آیا۔ میں بھی وہیں پر بیٹھ گیا۔ اور دیر تک رویا۔ جب جی ہلکا ہوا تو میں نے پکارا کہ سید انشاء، سر اٹھا کر اس نظرِ حسرت سے دیکھا جو کہتی تھی کیا کروں، آنکھوں میں آنسو نہیں، میں نے کہا، کیا حال ہے، ایک ٹھنڈی سانس بھر کر کہا کہ شکر ہے، پھر اسی طرح سر کو گھٹنوں پر رکھ لیا کہ نہ اُٹھایا۔

بعض فلاسفہ یونان کا قول ہے کہ مدّتِ حیات ہر انسان کی سانسوں کے شمار پر ہے۔ میں کہتا ہوں کہ ہر شخص جس قدر سانس یا جتنا رزق اپنا حصّہ
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۶۸

لایا ہے۔ اسی طرح ہر شے کہ جس میں خوشی کی مقدار اور ہنسی کا اندازہ بھی داخل ہے وہ لکھوا کر لایا ہے۔ سید موصوف نے اس ہنسی کی مقدار کو جو عمر بھر کے لئے تھی، تھوڑے وقت میں صرف کر دیا۔ باقی یا تو خالی رہا یا غم کا حصہ ہو گیا۔

غزلیات

جھڑکی سہی ادا سہی چین جبیں سہی
یہ سب سہی پر ایک نہیں کی نہیں سہی

مرنا مرا جو چاہے تو لگ جا گلے سے ٹک
اٹکا ہے دم مرا یہ دم واپسیں سہی

گر نازنین کے کہنے سے مانا بُرا ہو کچھ
میری طرف تو دیکھیے میں نازنین سہی

آگے بڑھے جو جاتے ہو کیوں کون ہے یہاں
جو بات ہم کو کہنی ہے تم سے نہیں سہی

منظور دوستی جو تمھیں ہے ہر ایک سے
اچھا تو کیا مضائقہ انشاء سے کیں سہی
*-*-*-*-*

یہ نہیں برق اک فرنگی ہے
رعد و باراں قشون جنگی ہے

کوئی دُنیا سے کیا بھلا مانگے
وہ تو بے چاری آپ ننگی ہے

واہ دلّی کی مسجد جامع
جس میں براق فرش سنگی ہے

حوسلہ ہے فراخ رندوں کا
خرچ کی پر بہت سی تنگی ہے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۶۹

لگ گئے عیب سارے اس کے ساتھ
یوں کہا جس کر مردِ بنگی ہے

ڈر و وھشت کی دھوم دھام سے تم
وہ تو اک دیونی و بنگی ہے

جوگی جی صاحب آپ کی بھی واہ
دھرم مورت عجب کو ڈھنگی ہے

آپ ہی آپ ہے پکار اُٹھتا
دل بھی جیسے گھڑی فرنگی ہے

چشم بد دُور شیخ جی صاحب
کیا ازار آپ کی اوٹنگی ہے

شیخ سعدیِ وقت ہے اِنشاء
تو ابوبکر سعدِ زنگی ہے
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

خیال کیجئے کیا آج کام میں نے کیا
جب ان نے دی مجھے گلای سلام میں نے کیا

کہا یہ صبر نے دل سےکہ لو خدا حافظ
کہ حق بندگی اپنا تمام میں نے کیا

جنوں یہ آپ کی دولت ہوئی نصیب مجھے
کہ ننگ و نام کر چھوڑا یہ نام میں نے کیا

لگا یہ کہنے کہ خیر، اختلاط کی کوبی
حوالے یار کے خالی جو جام میں نے کیا

جھڑک کے کہنے لگے لگ چلے بہت اب تم
کبھی جو بُھول کے ان سے کلام میں نے کیا

کیا زبانی دل کر بیاں، کہ کہتا ہے
صنم کو اپنے غرض اب تو رام میں نے کیا

کہیں نہ مانیو، بہتان ہے یہ سب اِس پر
ہنسی کے واسطے یہ اتہام میں نے کیا

تمہارے واسطے تم اپنے دل میں غور کرو
کبھی کسی سے نہ ہو جو مدام میں نے کیا

مقیم کعبہ دل جب ہوا تو زاہد کو
روانہ جانب بیت الحرام میں نے کیا

مزا یہ دیکھیے گا شیخ جی رُکے اُلٹے
جو ان کا بزم میں کل اِحترام میں نے کیا

عجب طرح کے مزے چاندنی میں دیکھ رات
قرار جا کے جر برپشتِ بام میں نے کیا

ہوس یہ رہ گئی صاحب نے پر کبھی نہ کہا
کہ آج سے تجھے انشاء غلام میں نے کیا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۷۰

دیوار پھاندنے میں دیکھو گے کام میرا
جب دھم سے آ کہوں گا صاحب سلام میرا

ہمسایہ آپ کے میں لیتا ہوں اک حویلی
اس شہر میں ہو اگر چندے مقام میرا

جو کچھ کہ عرض کی ہے سو کر دکھاؤنگا میں
واہی نہ آپ سمجھیں یونہی کلام میرا

اچھا مجھے ستاؤ جتنا کہ چاہو میں بھی
سمجھوں گا گر ہے انشاء اللہ نام میرا

میں غش ہوا کہا جو ساقی نے مجھ سے ہنسکر
یہ سبز جام تیرا اور سُرخ جام میرا

پوچھا کِسی نے مجھ کو اُن سے کہ کون ہے یہ
تو بولے ہنس کے یہ بھی ہے اِک غلام میرا

محشر کی تشنگی سے کیا خوف سیّد انشاء
کوثر کا جام دے گا مجھ کو امام میرا
*-*-*-*-*-*-*-*

ہیں زور حُسن سے وہ نہایت گھمنڈ پر
نامِ خدا نگاہ پڑے کیوں نہ ڈنڈ پر

تعویذ لعل ہی کے نہ پھریئے گھمنڈ پر
اک نیلا ڈورا باندھیے اس گورے ڈنڈ پر

یا رب سدا سہاگ کی مہندی رچا کرے
پتے نچیں۔ رہے آفت ارنڈ پر

دو تین دن تو ہو چکے اب پھر چلو وہیں
فیروز شہ کی لاٹھ کے اس چوتھے کھنڈ پر

وہ پہلوان سادہ لب جو پہ ڈنڈ پیل
بولا کہ کوئی غش ہو تو ایسے بھنڈ پر

گلبرگ تر سمجھ کے لگا بیٹھی ایک چونچ
بلبل ہمارے زخم جگر کے کھرنڈ پر

انشاءؔ بدل کے قافیئے رکھ چھیڑ چھاڑ کے
چڑھ بیٹھ ایک اور بچھڑے اکنڈ پر
*-*-*-*-*-*-*-*

یہ جو مہنت بیٹھے ہیں رادھا کے کنڈ پر
اوتار بن کے گرتے ہیں پریوں کے جھنڈ پر

اے موسمِ خزاں لگے آنے کو تیرے آگ
بلبل اداس بیٹھی ہے اک سوکھے ٹنڈ پر
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۷۱

شیو کے گلے سے پاربتّی جی لپٹ گئیں
کیا ہی بہار آج ہے برہما کے رنڈ پر

راجہ جی ایک جوگی کے چیلے پہ غش ہیں آپ
عاشق ہوئے ہیں واہ عجب لنڈ منڈ پر

انشاء نے سن کے قصّہ فرہاد یوں کہا
کرتا ہے عشق چوٹ تو ایسے ہی منڈ پر

غزل آزادوں کے لہجہ میں

جو چاہے تو مجھ سے ہنسوڑے کی خیر
تو یوں دیکھ اس گھوڑے جوڑے کی خیر

کداوے نشہ کے مرے رخش کو
میاں ساقی اس سلفے کوڑے کی خیر

دکھائی مجھے سیر باغِ ارم
الٰہی ہو اس سبزہ گھوڑے کی خیر

ہنسایا جو میں نے تو بولے نہیں
نظر آتی کچھ اس نگوڑے کی خیر

لگا بیٹھ انشاء کو ٹھوکر تو ایک
ارے اپنے سونے کے توڑے کی خیر

مستزاد

کو صُولت اسکندر و کُو حشمتِ دارا
اے صاحب فطرت

پڑھ فَاعتَبرُو بَاُولِی الاَبصَار کا آیا
تاہو تجھے عبرت

مستانہ جو میں نے قدح بھنگ چڑھایا
در عالمِ وحشت

تب خجر پکارا کہ ھنیاً و مَرّیاً
اب دیکھ حلاوت

ہے جی میں فقیروں کی طرح کھینچ لنگوٹا
اور باندھ کے ہمّت​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۷۲

جا کنج خرابات میں ٹک گھونٹیے سبزا
یوں کیجیے عبادت

اے حضرتِ عشق آئیے سائیں اجی مولا
یاں کیجیے عنایت

مرشد مرے مالک مرے ہادی مرے داتا
دیجیے مجھے نعمت

ماتھے پہ مرے خطِ الفت اللہ کا کھینچو
سونپو مجھے بستر

تم مونڈگر ہ پیر، یہ بندہ ہوا چیلا
جی سے کرے خدمت

میں خاک نشیں ہو گاگر دہِ فقراء سے
کیا سمجھے ہو مجھ کو

رومال چھڑی لیکے جو ٹک کھینچوں ادا
دکھلاؤں کرامت

گر سیر کناں دیر میں جا نکلوں تو بولوں
ناقوس کو سُن کر

ہاں برہمن بتکدہ عشق است صدارا
ہے تجھ سے بھی الفت

خوش رہتے ہیں چار ابرو کی بتلا کے صفائی
مانند قلندر

نہ ہم کو غم و زد نہ اندیشہ کالا
ہے خوب فراغت

درویش بلا نوش بلا چٹ ہیں میاں دوست
پینک میں جو آویں

افعی کو سہل کر کریں افیون کا گھولا
ہیں ایسے ہی آفت

گاڑھے ہیں ہم اس سے بھی کہ خشکے کو ہلا کر
للکارے تھا یوہیں

دیتا ہوں ہلا کنگرہ عرش معّلٰی
رکھتا ہوں یہ طاقت

آزادوں کے لہجہ میں غزل تو نے سُنائی
از بہر تفنن

اب اپنی تو بولی کے کچھ اشعار کہہ انشاء
ہو جس میں ظرافت

ہے نام خدا دا چھڑے کچھ زور تماشا
یہ آپ کی رنگت

گات ایسی عضب قہر پھبن اور جھمکڑا
اللہ کی قدرت
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۷۳

میں نے جو کہا ہوں میں ترا عاشق شیدا
اے کانِ ملاحت

فرمانے لگے ہنّس کے سُنو اور تماشا
یہ شکل یہ صورت

الحاد و تصوف میں جو تھا فرق بہم یاں
اصلا نہ رہا کچھ

پردہ جو تعین کو محبت نے اٹھایا !
کثرت ہوئی وحدت

تاثیر ہے کیا خاک میں اس نجد کی کہدے
تو مجھ کو تو بارے

ہر پھر کے جو آ نکلے ہے یاں ناقہ لیلٰی اے جذب محبت

کعبہ کا کروں طوف کہ بت خانہ کو جاؤں
کیا حکم ہے مجھ کو

ارشاد مرے حق میں بھی کچھ ہووے گا آیا
اے پیر طریقت

ہوں پرتوِ روح القدس اس عہد میں میں بھی
عیسیٰ کی طرح سے

یوں چاہیے بے ساختہ رہبانِ کلیسا
میری کرے بیعت

آئے جو مرے گھر میں وہ شب راہ کرم سے
میں مونددی کنڈی

منھ پھیر لگے کہنے تعجب سے کہ یہ کیا؟
ایں تیری یہ طاقت

لوٹا کریں اس طور مزے غیر ہمیشہ
ٹک سوچو تو دل میں

ترسا کرے ہر وقت یہ بندہ ہی تمہارا
اللہ کی قدرت

دیوار چمن پھاند کے پہنچے جو ہم اُن تک
اک تاک کی اوجھل

ترسا ہوں یہ فرمانے لگے کوٹ کے ماتھا
اے وائے فضیحت

خورشید چھپا شام ہوئی شیخ جی صاحب
اب دیکھتے کیا ہو

چڑیوں نے لیا آ کے درختوں پہ بسیرا
چوں چوں کرو حضرت

بے برق کی زنجیر کو ٹک سونڈ میں اپنی
اے ابر کے ہاتھی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۷۴

سیندورا لگا ماتھے پہ اس رنگ شفق کا
باعظمت و شوکت

چل آٹھوں کے میلے کی ذرا دید کریں ہم
ہے سیر کی جاگہ

سم بیٹھ چڑھا یاروں کے پھر میل رکددا
مت رعت کی سن دھت

شب محفل ہولی میں جو وارد ہوا زاہد
رندوں نے لپٹ کر

داڑھی کو دیا اس کی لگا بذر فطونا
اور بجنے لگی گت

تب مغبچے کہنے لگے ٹک پر بلونا چو
رکھ ناک پر اُنگلی

اور آئے جی آئے سے بُرا مانے سو بھڑوا
ہے موسمِ عشرت

کشمیری معلم کو جو اک طفل نے ناگہ
انگور کے دانے

لا کر دیئے اور اُن سے کہا کھایئے میوا
ہے قسم ولایت

لہجہ میں تکشمر کے مقطع ہو یہ بولے
شاگرد سے اپنے

چل سامنے سے میرے اتار کر ینیں لے جا
نیمیں نہیں لذّت

میسیاتھ انگر ناک ہے بر رو جیسے تجھ کو
سو کوڑی کے دس ہیں

بابا یہ تاکیا ہے چھٹا زانت ہے اس کا
کانا نہ لیے مت

اب اور ردیف اور قوانی میں غزل پرھ
لیکن اسی ڈھب سے

تا شاعروں کے آگے ہو اس بزم میں انشاء
ظاہر تری شوکت

لینے جو بلائیں لگے ہم آپ کی چٹ پٹ
تو بول اٹھے جھٹ

چل جا اے رے واؤ زیر رو سے پرے ہٹ
ہے یہ بھی بناوٹ

اِن آنکھوں کو میں حلقہ زنجیر کرونگا
ایسا ہی بلا ہوں

چھوڑوں ہوں کوئی اپ کے دروازہ کی چوکھٹ
جب تک نہ کھلے پٹ
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۷۵

مر جائے لہو چھانٹ نہ گونگا ہو وہ کیونکر
جو شخص کہ دیکھے

سُرخی تری آنکھوں کی اور ابرو کی کھچاوٹ
سرمہ کی گھلاوٹ

ہے معدنِ انوار آلہی دلِ عاشق
سوچو تو عزیزو

اس چھوٹی سی جاگہ میں یہ وسعت یہ سماوٹ
اللہ رے جمگھٹ

کیا پھبتی ہے اے نامِ خدا چھڑے آہا
ہونٹوں پہ تمہارے

اک بوسہ کے صدمے سے دھواں دھار نلاہٹ
مسی کی ادواہٹ

میں روپ بدل اور ہی چپکے سے جو پہنچا
بیٹھے تھے جہاں وہ

سُن کہنے لگے میرے دبے پاؤں کی آہٹ
ہے ایک تو نٹ کھٹ

تھی گرم یہ کچھ مجلس مے رات کہ ساقی
سب کہتے تھے زاہد

ہے توبہ شکن آج صراحی کی غٹاغٹ
بھلّہ رے جماوٹ

اے وائے رے بالیدگی اور چنپئی رنگت
یہ گات یہ سج دھج

اور جامہ شبنم کی وہ چولی کی پھساوٹ
بازو کی گلاوٹ

مت چھیڑو مجھے دیکھو ابھی کہنے لگو گے
اچھا کیا تم نے

چولی مری ٹکڑے ہوئی دامن بھی گیا پھٹ
لگ جائے گی یہ رٹ

ہے نور بصر مردمک دیدہ میں پنہاں
یوں جیسے کنہیا

سو اشک کے قطروں سے پڑا کھیلے ہے جھرمٹ
اور آنکھیں ہیں پنگھٹ

اے عشق اجی آؤ مہاراجوں کے راجہ
ڈنڈوٹ ہے تم کو

کر بیٹھے ہو تم لاکھوں کروڑوں ہی کے سرچٹ
اک آن میں جھٹ پٹ

پھرتا ہے سماں آنکھوں میں اب تک وہی انشاء
ہے ظالم ارے کیوں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۷۶

باہم وہ لپٹ سونے میں آ جانی رکاوٹ
وہ پیار کی کروٹ

وہ سیج بھری پھولوں کی مخمل کے وہ تکیئے
کمخواب کی پوشش

پردے وہ تمامی کے وہ سونے کا چھپرکھٹ
اور اس کی سجاوٹ

ہے یہ اس مہ جبین کی تصویر
یا کسی حُورِ عین کی تصویر

بن گئی دُودِ آہِ مجنوں میں
ایک محمل نشین کی تصویر

اپنے داغ جگر میں سُوجھی ہے
مجھ کو اس نازنین کی تصویر

دیکھ لے اس کی چین پیشانی
ہے یہ خاقان چین کی تصویر

نظر آتی ہے اشک انشاء میں
جبرئیلِ امین کی تصویر
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

مل گئے سینے سے سینے پھر یہ کیسا اضطراب
مر مٹے پر بھی گیا اپنے نہ دل کا اضطراب

کیوں پڑی تھلکیں نہ آنکھیں آنسوؤں کے بوجھ سے
ہے دلِ صد پارہ کو سیماب کا سا اضطراب

روح کا یہ حال ہے یاں قافلہ سے پڑ کے دُور
کر رہی ہو جس طرح محمل میں لیلےٰ اضطراب

پوچھتے کیا ہو کہ تیرے دل میں کیا ہے مجھے سے پوچھ
اور کیا یاں خاک ہو گی جوش ہے یا اضطراب

دم لگا گھٹنے اجی میں کیا کہوں کل رات کو
تم نہ آئے تو کیا یاں جی کیا کیا اضطراب

کیا غضب تھا پھاند کر دیوار آدھی رات کو
دھم سے میرا کودنا اور وہ تمہارا اضطراب

تھا وہ دھڑکا پر مزے کیساتھ صدقے اسکے جی
پھر کرے اپنے نصیب اللہ ویسا اضطراب

اسکی چاہت میں جوانی اپنی جو تھی چل بسی
ہے پر ابتک جی کو اک جیسے کا تیسا اضطراب

پیر و مرشد کا یہ مصرع حسب حال انشاء کے ہے
مر مٹے پر بھی گیا اپنے نہ دل کا اضطراب
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۷۷

پگڑی تو نہیں ہے یہ فراسیس کی ٹوپی
یاں وقت سلام اُترے ہے ابلیس کی ٹوپی

ہے شیخ کے سر ایسی ہے تلبیس کی ٹوپی
جس سے کہ پڑی کانپے ہے ابلیس کی ٹوپی

دیتے ہیں کلہ اپنے مریدوں کو جا صوفی
کہتے ہیں یہی تھی سر جرجیس کی ٹوپی

سو چکٹی ہوئی ہے یہ مُتعفِّن کہ جہاں میں
ایسی تو نہ ہو گی کِسی سائیس کی ٹوپی

ہُد ہُد کو کوشی تب ہوئی جس دم نظر آئی
ہاتھوں میں سلیمان کے بلقیس کی ٹوپی

کل سوزنِ عیسیٰ میں پر و خطّ شعاعی
خورشید نے سی حضرتِ ادریس کی ٹوپی

کیوں واسطے جراب کے میری نہ ہو حاضر
غلماں کی اور حورِ فراویس کی ٹوپی

پریوں کے گھروں میں وہی چوری کے مزے لیں
جن پاس ہو جنّوں کی جواسیس کی ٹوپی

ممکن ہو تو دھر دیجیے بنا کر ترے سر پر
زربفت مہ و زہرہ و برجیس کی ٹوپی

انگریز کے اقبال کی ہے ایسی ہی رسّی
آویختہ ہے جس میں فراسیس کی ٹوپی

انشاء مرے آغا کی سلامی کو جھکے ہے
سکانِ سرا پردہ تقدیس کی ٹوپی
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

مجھے کیوں نہ آوے ساقی نظر آفتاب اُلٹا
کہ پڑا ہے آج خم میں قدحِ شراب اُلٹا

عجب الٹے ملک کے ہیں اجی آپ بھی کہ تم سے
کبھی بات کی جو سیدھی تو ملا جواب اُلٹا

چلے تھے حرم کو رہ میں ہوے اک صنم کے عاشق
نہ ہوا ثواب حاصل یہ مِلا عذاب اُلٹا

یہ شبِ گذشتہ دیکھا وہ خفا سے کچھ ہیں گویا
کہیں حق کرے کہ ہووے یہ ہمارا خواب اُلٹا

ابھی جھڑ لگا دے بارش کوئی مست بھر کے نعرہ
جو زمیں پہ پھینک مارے قدحِ شراب اُلٹا

یہ عجیب ماجرا ہے کہ بروز عید قرباں
وہی ذبح بھی کرے ہے وہی لے ثواب اُلٹا

ہوئے وعدہ پر جو جھوٹے تو نہیں ملاتے تیور
اے لو دیکھا کچھ تماشا یہ سنو عتاب اُلٹا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۷۸

کھڑے چُپ ہو دیکھتے کیا مرے دل اُجڑ گئے کو
وہ گنہ تو کہدو جس سے یہ دہِ خراب اُلٹا

غزل اور قافیوں میں نہ کہے سو کیونکہ انشاءؔ
کہ ہوا نے خود بخود آورقِ کتاب اُلٹا
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

مجھے چھیڑنے کو ساقی نے دیا جو جام اُلٹا
تو کیا بہک کے میں نے اسے اک سلام اُلٹا

سحر ایک ماش پھینکا جو مجھے دکھا کے اُن نے
تو اشارہ میں نے تاڑا کہ ہے لفظ شام اُلٹا

یہ بلا دھواں نشہ ہے مجھے اس گھڑی تو ساقی
کہ نظر پڑے ہے سارا در و صحن و بام اُلٹا

بڑھوں اس گلی سے کیونکر کہ وہاں تو میرے دلکو
کوئی کھینچتا ہے ایسا کہ پڑے ہے گام اُلٹا

درمیکدہ سے آئی مہک ایسی ہی مزے کی
کہ پچھاڑ کھا گرا واں دل تشنہ کام اُلٹا

نہیں اب جو دیتے بوسہ تو سلام کیوں لیا تھا
مجھے اپ پھیر دیجیے وہ مرا سلام اُلٹا

لگے کہنے اب مولّع تجھے ہم کہا کریں گے
کہیں ان کے گھر سے بڑھکر جو پھرا غلام اُلٹا

مجھے کیوں نہ مار ڈالے تری زلف الٹ کے کافر
کہ سکھا رکھا ہے تو نے اسے لفظ رام اُلٹا

نرے سیدھے سادے ہم تو بھلے آدمی ہیں یارو
ہمیں کج جو سمجھے سو خود ولدالحرام اُلٹا

تو جو باتوں میں رکے گا تو یہ جانونگا کہ سمجھا
مرے جان و دل کے مالک نے مرا کلام اُلٹا

فقط اس لفافہ پر ہے کہ خط آشنا کو پہنچے
تو لکھا ہے اس نے انشاء یہ ترا ہی نام اُلٹا
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

پر تو سے چاندنی کے ہے صحنِ باغ ٹھنڈا
پھولوں کی سیج پر آ کر دے چراغ ٹھنڈا

شفقت سے ہاتھ تو دھر ٹک میرے دل پہ تا ہو
یہ آگ سا دہکتا سینہ کا داغ ٹھنڈا

مے کی صراحی ایسی لا برق میں لگا کر
جس کے دھوئیں سے ساقی ہووے دماغ ٹھنڈا

تجنیس جس دنی کی ہو جوشِ چشم یارو
ہم نے مدام پایا اس کا اوجاغ ٹھنڈا​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۷۹

ہیں ایک شخص لاتے خس کی شراب انشاء
دھو دھا گلاب سے تو کر رکھ ایاغ ٹھنڈا

شیخ غلام ہَمدانی مصحفیؔ

مصحفی تخلص، غلام ہمدانی نام، باپ کا نام ولی محمد۔ امروہہ کے رہنے والے تھے۔ آغاز جوانی تھا جو دلّی میں آ کر رہے۔ طالب علمی کی طبیعت میں موزونیت خداداد تھی۔ اس میں قوت بہم پہونچائی۔ ابتدا سے غربت اور مسکینی اور ادب کی پابندی طبیعت میں تھی۔ ساتھ اس کے خوش خلقی اور خوش مزاجی تھی۔ جس نے بزرگان دہلی کی صحبتوں تک رسائی دی تھی۔ مشاعرہ بھی کیا کرتے تھے۔ انہی سامانوں کا سبب تھا کہ سب شاعر اور معزز اشخاص اس میں شامل ہوتے تھے۔ دلی کا اس وقت یہ عالم تھا کہ خود وہاں کے گھرانے گھر چھوڑ چھوڑ کر نکلے جاتے تھے اس لئے انھیں بھی شہر چھوڑنا پڑا۔ یہاں وطن نہ تھا۔ مگر دلی میں خدا جانے کیا ہے کہ خود کہتے ہیں۔

دلّی کہیں ہیں جس کو زمانہ میں مصحفی
میں رہنے والا ہوں اُسی اجڑے دیار کا​

اسی طرح اپنے کلام میں اکثر جگہ دلّی کے رہنے کا فخر کیا کرتے ہیں۔ غرض آصف الدولہ کا زمانہ تھا کہ لکھنؤ پہونچے اور مرزا سلیمان شکوہ کی سرکار میں (جو
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۸۰

دلّی والوں کا معمولی ٹھکانا تھا) ملازم ہوئے چنانچہ اکثر غزلوں میں بھی اس کے اشارے ہیں۔ ایک شعر اُن میں سے ہے۔

تخت طاؤس پہ جب ہووے سلیماں کا جلوس
مورچھل ہاتھ میں ہیں بالِ ہما کا لے لوں​

غرض وہاں کثرتِ مشق سے اپنی اُستادی کو خاص و عام میں مسلم الثبوت کیا۔ علمیت کا حال معلوم نہیں۔ مگر تذکروں سے اور خود ان کے دیوانوں سے ثابت ہے کہ زبان فارسی اور ضروریات شعری سے باخبر تھے۔ اور نظم و نثر کی کتابوں کو اچھی طرح دیکھ کر معلومات وسیع اور نظر بلند حاصل کی تھی۔

شوق کمال کا یہ حال تھا کہ لکھنؤ میں ایک شخص کے پاس کلیات نظیری تھا۔ اس زمانہ میں کتاب کی قدر بہت تھی۔ مالک اس کا بہ سبب نایابی کے کسی کو عاریتًہ بھی نہ دیتا تھا۔ اُن سے اتنی بات پر راضی ہوا کہ خود آ کر ایک جزو لے جایا کرو وہ دیکھ لو تو واپس کر کے اور لے جایا کرو۔ ان کا گھر شہر کے اس کنارہ پر تھا ور وہ اس کنارہ پر۔ چنانچہ معمول تھا کہ ایک دن درمیان وہاں جاتے اور جزو بدل کر لے آتے۔ ایک دفعہ جب وہاں سے لاتے تو پڑھتے آتے، گھر پر آ کر نقل یا خلاصہ کرتے اور جاتے ہوئے پھر پڑھتے جاتے۔ ہو لوگوں کے حال پر افسوس ہے کہ آج چھاپہ کی بدولت وہ کتابیں دوکانوں پر پڑی ہیں، جو ایک زمانے میں دیکھنے کو نصیب نہ ہوتی تھی۔ مگر بےپروائی ہمیں آنکھ اُٹھا کر نہیں دیکھنے دیتی۔ تعجب ہے ان لوگوں سے جو شکایت کرتے ہیں کہ پہلے بزرگوں کی طرح اَب یہ لوگ
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۸۱

صاحبِ کمال نہیں ہوتے، پہلے جو لوگ کتاب دیکھتے تھے تو اس کے مضمون کو اس طرح دل و دماغ میں لیتے تھے جس سے اس کے اثر دلوں میں نقش ہوتے تھے، آج کل کے لوگ پڑھتے بھی ہیں تو اس طرح صفحوں سے عبور کر جاتے ہیں گویا بکریاں ہیں کہ باغ میں گھس گئی ہیں، جہاں منھ پڑ گیا ایک ایک بکٹّا بھی بھر لیا۔ باقی کچھ خبر نہیں۔ ہوس کا چرواہا اِن کی گردن پر سوار ہے اور دبائے لئے جاتا ہے۔ یعنی امتحان پاس کر کے ایک سند لو اور کوئی نوکری لیکر بیٹھ رہو اور افسوس یہ ہے کہ نوکری بھی نصیب نہیں۔

محاوزات قدیم میں انھیں میر سوزؔ، سودا اور میرؔ کا ایک آخری ہم زبان سمجھنا چاہیے۔ وہ سید انشاءؔ اور جرأت کی نسبت دیرینہ سال تھے یا تو بڑھاپے نے پرواز کی باز و ضعیف کر دئے تھے یا قدامت کی محّبت نئی شے کے حُسن کو حسین کر کے نہ دکھاتی تھی۔ جیسے آزاد ناقابل کہ ہزار طرح چاہتا ہے۔ مگر اس کا دل نئی شائستگی سے کسی عنوان اثر پذیر نہیں ہوتا۔ شیخ موصوف نے لکھنؤ میں صدہا شاعر شاگرد کئے مگر یہ اب تک کسی تذکرہ سے ثابت نہیں ہوا کہ وہ خود کس کے شاگرد تھے (سراپا سخن میں لکھا ہے کہ امانی کے شاگرد تھے)۔ انھوں نے بڑی عمر پائی (بڑھاپے نے بہرا بھی کر دیا تھا، چنانچہ ساتویں دیوان میں ہے "مصحفی آپ کو دانستہ بنایا ہے اصم۔ رنج نا مجھ نہ پہنچے سخن بدگو سے۔ عمر نے جب عشرہ ہشتم میں رکھا ہے قدم، مصحفی کیا ہو سکے گا مجھ ناتواں درار سے۔ آٹھواں دیوان اس کے بعد لکھا تو ۸۰ کے قریب مرے ہونگے۔) اور اپنے کلام میں اشارے بھی کئے ہیں۔ بڑھاپے میں پھر شادی کی تھی۔ طبیعت کی رنگینی نے مسّی کی مدد
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top