سوز غم دے کے مجھے اس نے ارشاد کیا
جا تجھے کشمکش دہر سے آزاد کیا
وہ کریں بھی تو کن الفاظ میں تیرا شکوہ
جن کو تیری نگاہ لطف نے برباد کیا
جوش ملیح آبادی
شکوہ
زہر و بم سے ساز خلقت کے جہاں بنتا گیا
یہ زمیں بنتی گئی یہ آسماں بنتا گیا
داستان جور بے حد خوں سے لکھتا رہا
قطرہ قطرہ اشک غم کا بے کراں بنتا گیا
فراق گورکھپوری
داستان
اٰ گے ہمارے عہد سے وحشت کو جا نہ تھی
دیوانگی کسو کی بھی زنجیر پا نہ تھی
بے گانہ سا لگے ہے چمن اب خزاں میں ہائے
ایسی گئی بہار مگر اشنا نہ تھی
میر تقی میر
زنجیر
وہ ادائے دلبری کہ نوائے عاشقانہ
جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتح زمانہ
یہ تیرا جمال کامل یہ شباب کا زمانہ
دل دشمناں سلامت دل دوستاں نشانہ
جگرمراد آبادی
زمانہ
بڑی دانائی سے انداز عیاری بلتے ہیں
بدلتے موسموں جو وفا داری بدلتے ہیں
گرانی ہو کہ ارزانی انہیں تو مل ہی جاتے ہیں
ضرورت جب بھی ہوتی ہے وہ درباری بدلتے ہیں
انداز