گُلِ یاسمیں
لائبریرین
عشق نے جکڑا ہے مجھ کو اس کڑی زنجیر سے
جس کے حلقے کھل نہیں سکتے کسی تدبیر سے
اور ہی کچھ ہو شب فرقت کے کٹنے کی سبیل
دل تصور سے بہلتا ہے نہ اب تصویر سے
پیر نصیر الدین نصیر
عشق نے جکڑا ہے مجھ کو اس کڑی زنجیر سے
اگلا لفظ بھی دیجیے فوزیہ افضلیہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
مرزا غالب
دِل کو حصارِ رنج و اَلم سے نکال بھی
تعجب ان کو ہے کیوں میری خود کلامی پرخود کلامی میں کتنی وحشت ہے
کوئی دشمن ہو روبرو جیسے !!
جون ایلیا
خود کلامی
اگلا لفظ بھی دیجیے فوزیہ افضل
کچھ تو ہوا بھی سرد تھی کچھ تھا تیرا خیال بھیدِل کو حصارِ رنج و اَلم سے نکال بھی
کب سے بِکھر رہا ہوں مجھے اب سنبھال بھی
آہٹ سی اُس حسین کی ہر سُو تھی‘ وہ نہ تھا
ہم کو خوشی کے ساتھ رہا اِک ملال بھی
ملال
وقت رہتا نہیں کہیں ٹک کر
عادت ہی بنا لی تم نے تو منیر اپنیوقت رہتا نہیں کہیں ٹک کر
عادت اس کی بھی آدمی سی ہے
گلزار
عادت
خوشی محسوس کرتا ہوں نہ غم محسوس کرتا ہوں
نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں اور بال بناؤں کس کے لیے
زہر و بم سے ساز خلقت کے جہاں بنتا گیاخوشی محسوس کرتا ہوں نہ غم محسوس کرتا ہوں
مگر ہاں دل میں کچھ کچھ زیر و بم محسوس کرتا ہوں
بہزاد لکھنوی
زیر و بم
گلوں کو خار کہتے ہیں خلش کو شبنمی ٹھنڈکنئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں اور بال بناؤں کس کے لیے
وہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا میں باہر جاؤں کس کے لیے
جس دھوپ کی دل میں ٹھنڈک تھی وہ دھوپ اسی کے ساتھ گئی
ان جلتی بلتی گلیوں میں اب خاک اڑاؤں کس کے لیے
ناصر کاظمی
ٹھنڈک
داستان غم دل ان کو سنائی نہ گئی
غم ہی ایسا تھا کہ دل شق ہو گیا ورنہ فرازداستان غم دل ان کو سنائی نہ گئی
بات بگڑی تھی کچھ ایسی کہ بنائی نہ گئی
جگر مراد آبادی
غم
ہم کہ منت کشِ صیاد نہیں ہونے کے
سوز غم دے کے مجھے اس نے ارشاد کیاہم کہ منت کشِ صیاد نہیں ہونے کے
وہ جو چاہے بھی تو آزاد نہیں ہونے کے
دیکھ آ کر کبھی ان کو بھی جو تیرے ہاتھوں
ایسے اُجڑے ہیں کہ آباد نہیں ہونے کے
آزاد
میری آنکھوں کی التجاؤں کوہم کہ منت کشِ صیاد نہیں ہونے کے
وہ جو چاہے بھی تو آزاد نہیں ہونے کے
دیکھ آ کر کبھی ان کو بھی جو تیرے ہاتھوں
ایسے اُجڑے ہیں کہ آباد نہیں ہونے کے
آزاد
کروں کیا غیر کا شکوہ یہ خوبی اپنی قسمت کی
نہ سہی اور پر اتنی تو عنایت کرتے