ممنوعہ سرزمین: ایک پاکستانی کا سفرِ اسرائیل

عارضی کے

محفلین
کیا زبردست تاریخ گھڑی ہے
آپ تو مرثیہ اندلس میں بھی یہی ادھر ادھر کی ہانک رہے ، آپ نے جو تاریخ گھڑی ہو ،یا گھڑنے جارہے ہیں وہ پیش کردے۔ یا صرف مراسلے کے آخر میں سوال کا جواب دیں۔ کیوں پریشان ہوتے ہیں صاحب۔
 

عارضی کے

محفلین
اسوقت سب سے زیادہ ظلم شام و عراق میں ہو رہا ہے۔
اس وقت سے مراد گھنٹوں یا سیکنڈوں کا حساب نہیں بلکہ حالیہ دور کی تاریخ ہے۔ شام وعراق میں تو آپ کے یہودیوں اور عیسائیوں کا احسان ہے جو 2003 سے مسلمانوں کو سبق سکھایا جارہا ہے ، فلسطین میں یہ سب کچھ یہودیوں کے قبضے کے وقت سے ہی ہورہا ہے۔
 

squarened

معطل
اس سفرنامے میں لکھنے والے نے اسے مقدس سرزمین کہا تو عجیب لگا
غالبا قرآن کی اقتداء میں کہا ہے
یَا قَوْمِ ادْخُلُوا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِیْ کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ

اس کے علاوہ بھی جا بجا اس خطہ کو برکتوں والا خطہ کہا گیا ہے
سُبْحَانَ الَّذِی اَسْرَی بِعَبْدِہِ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصیٰ الَّذِی بَارَکْنَا حَوْلَہُ

وَاَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِیْنَ کَانُوا یُسْتَضْعَفُوْنَ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَمَغَارِبَہَا الَّتِیْ بَارَکْنَا فِیْہَا

یاد رہے نزول قرآن کے وقت موجودہ شام،فلسطین ،لبنان اور اردن ایک ہی ملک شام ہوا کرتے تھے
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
غالبا قرآن کی اقتداء میں کہا ہے
یَا قَوْمِ ادْخُلُوا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِیْ کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ

اس کے علاوہ بھی جا بجا اس خطہ کو برکتوں والا خطہ کہا گیا ہے
سُبْحَانَ الَّذِی اَسْرَی بِعَبْدِہِ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصیٰ الَّذِی بَارَکْنَا حَوْلَہُ

وَاَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِیْنَ کَانُوا یُسْتَضْعَفُوْنَ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَمَغَارِبَہَا الَّتِیْ بَارَکْنَا فِیْہَا

یاد رہے نزول قرآن کے وقت موجودہ شام،فلسطین ،لبنان اور اردن ایک ہی ملک شام ہوا کرتے تھے
متفق !!
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
یہ ذرا سیکیوریٹی سے اوپر کے سوالات ہوتے ہیں اس سے پہلے بھی کسی کا سفر نامہ پڑھا تھا جہاں اس خاتون کو گھنٹوں انتظار کروایا گیا کلئیرنس سے پہلے ۔
اس کی وجوہات صاف ظاہر ہیں۔ زیادہ تر لوگ اسرائیلیوں کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتے۔ دنیا کا دوسرا بڑا مذہب اسلام جو دنیا میں سب سے تیز رفتاری سے پھیلا اور پھیل رہا ہے، اس کے ماننے والوں کی اکثریت اسرائیل کو ناپسندیدہ ملک مانتی ہے۔ یہاں سیکورٹی کے انتظامات سخت ترین ہونا ان کے نزدیک وقت کی ضرورت ہے، اور کچھ نہیں۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
57 ممالک میں مسلمانوں کی حکومت ہے۔ صرف ایک ملک ایسا ہے جہاں یہودیوں کی حکومت ہے۔ یہ بھی ہضم نہیں ہو رہا۔ لالچ بری بلا ہے۔
فی الحال تو بری بلا کچھ اور دکھائی دیتی ہے۔ 57 ممالک میں مسلمانوں کی حکومت ان کے لالچ کی وجہ سے ہے، یہ آپ کیسے ثابت کریں گے؟ میرے خیال کے مطابق تو یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ مسلمان توسیع پسندانہ عزائم رکھتے ہیں۔۔ انہیں یہودیوں کی حکومت بری لگتی ہے، اس کی وجہ فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم ہیں۔ اس کا اعتراف نہ کریں تو تردید کرنا بھی درست نہیں ہوگا۔
 
آخری تدوین:

arifkarim

معطل
شام وعراق میں تو آپ کے یہودیوں اور عیسائیوں کا احسان ہے جو 2003 سے مسلمانوں کو سبق سکھایا جارہا ہے ، فلسطین میں یہ سب کچھ یہودیوں کے قبضے کے وقت سے ہی ہورہا ہے۔
کیا شام و عراق میں یہود و نصاریٰ کی آمد سے قبل کوئی جنگ نہیں ہوئی؟ خود مسلمانوں کے مابین کئی خانہ جنگیں انہی ممالک میں کئی بار ہو چکی ہیں جب مغربی اقوام کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔
 

arifkarim

معطل
فلسطين نام ریاست اسرائیل سے پہلے کا ہے اور طویل عرصہ یہی نام رہا!
نام فلسطین اور اسرائیل کی تاریخ قریبا ایک جتنی قدیم ہے البتہ اسرائیل کا نام آثار قدیمہ کے حوالہ سے زیادہ پرانا ہے۔ مختلف اقوام نے اس علاقہ کو الگ الگ نام سے یاد کیا ہے۔
 

arifkarim

معطل
فی الحال تو بری بلا کچھ اور دکھائی دیتی ہے۔ 57 ممالک میں مسلمانوں کی حکومت ان کے لالچ کی وجہ سے ہے، یہ آپ کیسے ثابت کریں گے؟ میرے خیال کے مطابق تو یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ مسلمان توسیع پسندانہ عزائم رکھتے ہیں۔۔ انہیں یہودیوں کی حکومت بری لگتی ہے، اس کی وجہ فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم ہیں۔ اس کا اعتراف نہ کریں تو تردید کرنا بھی درست نہیں ہوگا۔
وہ بات میں نے ایچ اے خان کے اسرائیل میں مسلمانوں کی حکومت کے خواب دیکھنے کی وجہ سے کی تھی۔ غزہ کی پٹی میں مسلمانوں کی حکومت ہے پر اس وجہ سے وہاں پر ہونے والے مظالم جو حماس کر رہی ہے، کم نہیں ہوئے۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
وہ بات میں نے ایچ اے خان کے اسرائیل میں مسلمانوں کی حکومت کے خواب دیکھنے کی وجہ سے کی تھی۔ غزہ کی پٹی میں مسلمانوں کی حکومت ہے پر اس وجہ سے وہاں پر ہونے والے مظالم جو حماس کر رہی ہے، کم نہیں ہوئے۔
اسرائیل میں مسلمانوں کی حکومت کے خواب اگر ہیں تو ان کا ایک مذہبی پس منظر موجود ہے۔ قیامت کے آثار کو بیان کرتی ہوئی ایک ڈاکومنٹری میں ڈاکٹر شاہد مسعود نے جو لڑائی کا نقشہ کھینچا اور میدان بیان کیا ہے، وہاں بنیادی مدعا ہی اسرائیل میں موجود مقامات ، بلکہ پوری دنیا کی مسلمانوں کے ہاتھ میں حکومت کا آنا ہے لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ جس قسم کی حکومت مسلمان حکمران آج کل کر رہے ہیں ، ایسے حالات میں تو مسلمانوں کے ہاتھ جو ملک ہیں، وہ بھی ان انگریزوں اور غیر ملکیوں کے ہاتھ میں ہوتے جنہوں نے اسلامی شعائر کو ہم سے زیادہ اپنا رکھا ہے اور امانت، دیانت اور سچائی کو اپنے سینوں میں جگہ دے کر اعمال کا بنیادی جزو بنا لیا ہے، تو زیادہ بہتر تھا۔مذہبی پیش گوئیاں اسلام کی پوری سچائی کے ساتھ واپسی کو بیان کرتی ہیں۔ حکومت تو اس کے بعد آتی ہے اور اگر خواب ایسی حکومت کا تھا، تو وہ حکومت سے زیادہ رعایا کی فلاح و بہبود سے مشروط ہے جس میں لالچ کی کوئی گنجائش نہیں!
 

arifkarim

معطل
اسرائیل میں مسلمانوں کی حکومت کے خواب اگر ہیں تو ان کا ایک مذہبی پس منظر موجود ہے۔ قیامت کے آثار کو بیان کرتی ہوئی ایک ڈاکومنٹری میں ڈاکٹر شاہد مسعود نے جو لڑائی کا نقشہ کھینچا اور میدان بیان کیا ہے، وہاں بنیادی مدعا ہی اسرائیل میں موجود مقامات ، بلکہ پوری دنیا کی مسلمانوں کے ہاتھ میں حکومت کا آنا ہے لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ جس قسم کی حکومت مسلمان حکمران آج کل کر رہے ہیں ، ایسے حالات میں تو مسلمانوں کے ہاتھ جو ملک ہیں، وہ بھی ان انگریزوں اور غیر ملکیوں کے ہاتھ میں ہوتے جنہوں نے اسلامی شعائر کو ہم سے زیادہ اپنا رکھا ہے اور امانت، دیانت اور سچائی کو اپنے سینوں میں جگہ دے کر اعمال کا بنیادی جزو بنا لیا ہے، تو زیادہ بہتر تھا۔مذہبی پیش گوئیاں اسلام کی پوری سچائی کے ساتھ واپسی کو بیان کرتی ہیں۔ حکومت تو اس کے بعد آتی ہے اور اگر خواب ایسی حکومت کا تھا، تو وہ حکومت سے زیادہ رعایا کی فلاح و بہبود سے مشروط ہے جس میں لالچ کی کوئی گنجائش نہیں!
اسرائیلی یہود بھی قیامت کا نقشہ موعود مسیح کی واپسی اور دنیا میں یہودیوں کی بدولت قیام امن نیز اسرائیل کو تمام مذاہب کاگھر بنانے سے منسوب کرتے ہیں۔ انکے مطابق دو ہزار سال بعد اسرائیل کی واپسی منشاء الٰہی کا مظہر ہے۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
۔
اسرائیلی یہود بھی قیامت کا نقشہ موعود مسیح کی واپسی اور دنیا میں یہودیوں کی بدولت قیام امن نیز اسرائیل کو تمام مذاہب کاگھر بنانے سے منسوب کرتے ہیں۔ انکے مطابق دو ہزار سال بعد اسرائیل کی واپسی منشاء الٰہی کا مظہر ہے۔
بے شک۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں، سوائے اس کے کہ مسلمان، عیسائی اور یہودی، تینوں ہی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ بالآخر فتح ان کی ہوگی۔ لہٰذا ایک طرح سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہی وہ میدان ہے جہاں کون سچا ہے اور کون جھوٹا، اس بات کا فیصلہ ہوگا اور سب اس جنگ کو جیتنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیں گے۔
 

arifkarim

معطل
۔

بے شک۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں، سوائے اس کے کہ مسلمان، عیسائی اور یہودی، تینوں ہی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ بالآخر فتح ان کی ہوگی۔ لہٰذا ایک طرح سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہی وہ میدان ہے جہاں کون سچا ہے اور کون جھوٹا، اس بات کا فیصلہ ہوگا اور سب اس جنگ کو جیتنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیں گے۔
مسلمان تو فی الحال یہ جنگ جیتنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں جبکہ یہود و نصاریٰ کا اتحاد اس قدر پختہ ہے کہ ان کے درمیان اب مزید کوئی جنگ ہونا ممکن نہیں ہوگا۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
مسلمان تو فی الحال یہ جنگ جیتنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں جبکہ یہود و نصاریٰ کا اتحاد اس قدر پختہ ہے کہ ان کے درمیان اب مزید کوئی جنگ ہونا ممکن نہیں ہوگا۔
اتحاد جتنا بھی پختہ ہو، اسلام، عیسائیت اور یہودیت جو دنیا کے تین اہم مذاہب سمجھے جاتے ہیں، ان کی مذہبی پیشن گوئیاں متفقہ بھی ہیں اورغیر متفقہ بھی اور سب سے بڑی غیر متفقہ پیشن گوئی آخری جنگ کے اختتام کی ہے جس میں دراصل ایک ہی بات ہے کہ جو حق پر ہوگا اس کی جیت ہوگی۔ ہر ایک اپنے آپ کو حق پر سمجھتا ہے اور یہی اختلاف کی بات ہے۔ جنگ کے میدان میں ایک ساتھ کھڑے ہونے کے باوجود یہ مذہبی اختلاف کسی بھی ایک فریق کو کسی بھی دوسرے کے ساتھ ہونے کے باوجود الگ سوچنے پر مجبور کرے گا۔ یہاں درست سوال یہ نہیں کہ مسلمان فی الحال جنگ جیتنے کی پوزیشن میں ہیں یا نہیں، درست سوال یہ ہے کہ جب یہ آخری معرکہ ہوگا، اس وقت مسلمان کہاں ہوں گے، عیسائیوں اور یہودیوں کا کیا حال ہوگا؟ وہ مستقبل کی بات ہے، آپ چاہے اسے مستقبل قریب بھی کہیں، لیکن یہ وہ حالت ہے جسے کسی نے نہیں دیکھا۔ دیکھے بغیر رائے کیسے دی جاسکتی ہے؟
 

ربیع م

محفلین
نام فلسطین اور اسرائیل کی تاریخ قریبا ایک جتنی قدیم ہے البتہ اسرائیل کا نام آثار قدیمہ کے حوالہ سے زیادہ پرانا ہے۔ مختلف اقوام نے اس علاقہ کو الگ الگ نام سے یاد کیا ہے۔

چلیں آپ کم ازکم اس پر تو آئے کہ فلسطین اور اسرائیل کی تاریخ ایک جتنی قدیم ہے ، پہلے تو آپ کا یہی موقف تھا کہ یہ ہمیشہ سے یہودیوں کا وطن ہے اور رہے گا ۔
یہاں میں فلسطین کی وجہ تسمیہ کی تھوڑی سی وضاحت کرتا چلوں اور یہ بھی بتا دوں کہ فلسطین نام ہی قدیم ہے ۔

اور یہودیوں کی ریاست اس علاقے میں جدید اسرائیل سے قبل لگ بھگ محض 100 سال تک ہی قائم رہی۔


فلسطین کی وجہ تسمیہ کے بارے میں بہت سے اقوال وآراء ملتی ہیں ، ان میں راجح قول اور جس کی جانب اکثریت کا رجحان ہے وہ یہ کہ اس کا نام قبیلہ "بلستۃ" یا" فلستۃ "کی نسبت سے فلسطین ہے، یہ کنعانی قبیلہ تھا جو کہ بحرابیض متوسط کے کناروں پر فلسطینی ساحل پر رہائش پذیر تھا ، انھوں نے غزۃ ، عسقلان اور دوسرے فلسطینی ساحلی شہروں کی بنیاد رکھی۔


اسی طرح ایک اور توجیہہ میں اس کی نسبت ان اقوام کی جانب ہے جو بحرمتوسط کے جزائر خصوصا جزیرہ کریٹ سے آئیں ، یہ معروف و مشہور جزیرہ ہے ، معلوم ہوتا ہے کہ ان جزیروں کی اقوام کو قحط یا مخصوص حالات نے آلیا ،جس کی وجہ سے انھوں نے شام ومصر کے سواحل پر حملہ کیا ، جنہیں سب سے پہلے رمسیس سوم نے مشہور معرکہ" لوزین" میں روکا ، جو کہ مصر میں بپا ہوا ، رمسیس نہیں چاہتا تھا کہ یہ مصر میں آباد ہوں ، بات چیت کے بعد یہ طے ہو ا کہ یہ لوگ فلسطین کی جانب کوچ کر جائیں ، رمسیس نے انھیں حکم دیا کہ وہ جنوبی فلسطین میں"بلست" کے علاقے میں رہائش اختیار کریں ، تاریخی اور مقدس کتابوں میں اس کا تذکرہ ملتا ہے ، اسی نام کے ساتھ یہاں کے باسی منسوب ہوئے اور انھیں بلستینیون کہہ کر پکارا جانے لگا ، اور یہاں سے بلستین سے یہ نام فلسطین میں تبدیل ہو گیا ، یہ اقوام آگے چل کر کنعانیوں اور یبیوسیوں میں ملتی گئیں جو کہ اس علاقے کے اصلی باشندے تھے ، پھر ان کے نسب اور نام آپس میں خلط ملط ہوگئے ، اور یہ یہاں کی اصلی قوم جو کہ تعداد اور تہذیب میں ان سے برتر تھے ان میں گھل مل گئے ۔


اس مرحلہ تک یہود یا ان کی اقوام کا کوئی ظہور نہ تھا۔


جبکہ دوسرے قول کے مطابق "فلسطین " کی نسبت فلسطین بن کاسخولین بن کنعان بن سام بن نوح کی جانب ہے ،یہ قول حقیقت سے کافی بعید ہے ۔


جبکہ ایک اور قول کے مطابق فلسطین کا مطلب کنعانی زبان میں "زبردست قوت والا" ہے ، یہ اہل علاقہ کا لقب تھا کیونکہ وہ طاقتور اور جفاکش لوگ تھے ۔


پہلی یہودی مملکت تقریبا 995 قبل مسیح میں وجود میں آئی ، جب کنعانی او یبیسیون اس سے بہت پہلے تقریبا 2600 قبل مسیح اسے اپنا وطن بنا چکے تھے ، اور انھوں نے ہی اس کانام فلسطین رکھا اور عرصہ دراز تک انھوں نے اس علاقہ پر حکومت کی ،اور یہ بھی یاد رہے کہ داؤد علیہ السلام اس کے بعد ان کے بیٹے سلیمان علیہ السلام کی حکومت فلسطین میں 90 سال سے زائد نہیں رہی ، اس کے بعد پھر یہودی زمین کے مختلف حصوں میں بکھر گئے ۔

اچھا یہ بھی بڑی دلچسپ حقیقت ہے ایک جانب تو یہودی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اللہ کی پسندیدہ قوم ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ کی مبارک ومقدس سرزمین (فلسطین ) کے سب سے زیادہ حقدار وہی ہیں جبکہ دوسری جانب جب بھی یہود کیلئے ارض فلسطین لوٹنے کا موقع میسر آیا انھوں نے اس سے انکار کیا ، جس کی پہلی بڑی مثال حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں ان کا ارض مقدس جانے سے لیت و لعل سے کام لینا جس کے نتیجے میں یہ کئی سال صحرائے سینا میں بھٹکتے رہے اور پھر كئی دہائیوں بعد کہیں جا کرطالوت علیہ السلام کے دور میں القدس شہر میں داخل ہوسکے ۔

دوسری مثال 539 قبل مسیح میں :اس سے پہلے بخت نصر کے دور میں یہودیوں کو فلسطین سے نکالا جا چکا تھا اور ان کی اکثر
یت بابل میں بس رہی تھی اور فلسطین میں ان کا داخلہ بند تھا ، یہاں تک 539 قبل مسیح میں فارس و عراق کے بادشاہ "سائرس " نے مملکت بابل پر قبضہ کرکے اسے اپنی سلطنت میں شامل کیا اور فلسطین وشام بھی اس کے زیر تسلط آگئے یہ عظیم فارس سلطنت کی ابتداء تھی۔


سائرس نے یہودیوں کو جو کہ بابل میں بس رہے تھے القدس جانے کی اجازت دے دی جہاں اس سے قبل بابلیوں کے دورحکومت میں ان کا جانا ممنوع تھا ، لیکن یہودیوں کو بابل میں رہتے ہوئے دسیوں سال گزر چکے تھے ، ان کے ہاں مال و دولت کی فراوانی تھی ، ان کی تعداد بڑھ چکی تھی ، چنانچہ ان میں سے چند ایک ہی واپس فلسطین لوٹے جبکہ ان کی اکثریت نے ہجرت نہ کی ، کیونکہ بابل اس وقت اقتصادی لحاظ سے ایک اہم مرکز تھا چنانچہ یہود نے اپنے مفادات اور مال ودولت کو ترجیح دی ۔


اسی طرح آج بھی باوجودیکہ صہیونی حکومت یہود نوآبادکاروں کو نت نئی سہولیات فراہم کر رہی مختلف لالچ دے کر انھیں ارض فلسطین آنے کی جانب راغب کیا جاتاہے اس کے باوجود یہودیوں کی اکثریت فلسطین میں نہیں ہے ، بلکہ ان کی بہت بڑی تعداد امریکہ میں بستی ہے اسی طرح کافی تعداد میں روس میں بھی موجود ہیں ، اور ان کی تعداد فلسطین میں موجود یہودیوں سے زیادہ ہے ۔

اچھا اس ساری بحث سے قطع نظر کیا "جدیدنام نہاد مہذب دنیا" اتنی وسیع ظرف ، کشادہ دل اور انصاف پسند ہو گئی ہے کہ کسی علاقے یا ملک کی ملکیت کا فیصلہ ان کے حقیقی باشندوں کے حق میں کر سکے ؟

اگر ایسا ہے تو پھر نوید صبح نو ہے اور مبارک ہو ریڈ انڈینز کو !!!
 

arifkarim

معطل
اچھا اس ساری بحث سے قطع نظر کیا "جدیدنام نہاد مہذب دنیا" اتنی وسیع ظرف ، کشادہ دل اور انصاف پسند ہو گئی ہے کہ کسی علاقے یا ملک کی ملکیت کا فیصلہ ان کے حقیقی باشندوں کے حق میں کر سکے ؟
1922 میں خلافت عثمانیہ کی شکست کے بعد برطانوی فلسطین مینڈیٹ کی بنیاد رکھی گئی جس میں موجودہ عرب مملکت اردن شامل تھی۔ اسی سال اسے باقی ماندہ مینڈیٹ سے الگ کر کے ٹرانس اردن اور پھر 1946 میں آزاد مملکت اردن بنا دیا گیا۔ باقی بچے کچھے فلسطین پر یہود کو مقامی حکومت دینے کی کوشش کی گئی جس میں فلسطینی عربوں کی رضامندی شامل نہ ہونے کی وجہ سے 1937 میں پیل کمیشن نےدو الگ ریاستوں میں تبدیل کرنے کا پلان بنایا ۔ البتہ عرب لیڈران نے اس کمیشن پربھی رضا مندی ظاہر نہ کی۔
اسکے معا بعد دوسری جنگ عظیم کا آغاز ہوگیا اور یہ تنازع 1947 تک تعطل کا شکار رہا جب اقوام متحدہ کے زیر نگرانی فلسطین کو ایک عرب اور ایک یہود ریاست میں بانٹنے کی قرارداد منظور کی گئی۔ یہاں بھی عرب ممالک نے اس قرار داد کی مخالفت کر دی جس پر وہاں موجود عرب اور یہود آبادیوں میں خانہ جنگی کا آغاز ہو گیا۔
برطانیہ نے 14 مئی 1948 کو فلسطین سے انخلا کیا اور اسی روز فلسطینی یہودیوں نے آزاد و خودمختار یہودی ریاست اسرائیل کا اعلان کر دیا۔ جس پر اگلے ہی روز 5 عرب ممالک نے اسے بزور جنگ ختم کرنے کی کوشش کی مگر کامیابی حاصل نہ کر سکے اور تب سے فلسطینی عرب دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ جبکہ وہ فلسطینی جو اسرائیل کی حدود کے اندر رہے وہ آج اسرائیل کے شہری ہیں۔ جبکہ فلسطینی عرب آج تک اپنی ریاست قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
 

ربیع م

محفلین
1922 میں خلافت عثمانیہ کی شکست کے بعد برطانوی فلسطین مینڈیٹ کی بنیاد رکھی گئی جس میں موجودہ عرب مملکت اردن شامل تھی۔ اسی سال اسے باقی ماندہ مینڈیٹ سے الگ کر کے ٹرانس اردن اور پھر 1946 میں آزاد مملکت اردن بنا دیا گیا۔ باقی بچے کچھے فلسطین پر یہود کو مقامی حکومت دینے کی کوشش کی گئی جس میں فلسطینی عربوں کی رضامندی شامل نہ ہونے کی وجہ سے 1937 میں پیل کمیشن نےدو الگ ریاستوں میں تبدیل کرنے کا پلان بنایا ۔ البتہ عرب لیڈران نے اس کمیشن پربھی رضا مندی ظاہر نہ کی۔
اسکے معا بعد دوسری جنگ عظیم کا آغاز ہوگیا اور یہ تنازع 1947 تک تعطل کا شکار رہا جب اقوام متحدہ کے زیر نگرانی فلسطین کو ایک عرب اور ایک یہود ریاست میں بانٹنے کی قرارداد منظور کی گئی۔ یہاں بھی عرب ممالک نے اس قرار داد کی مخالفت کر دی جس پر وہاں موجود عرب اور یہود آبادیوں میں خانہ جنگی کا آغاز ہو گیا۔
برطانیہ نے 14 مئی 1948 کو فلسطین سے انخلا کیا اور اسی روز فلسطینی یہودیوں نے آزاد و خودمختار یہودی ریاست اسرائیل کا اعلان کر دیا۔ جس پر اگلے ہی روز 5 عرب ممالک نے اسے بزور جنگ ختم کرنے کی کوشش کی مگر کامیابی حاصل نہ کر سکے اور تب سے فلسطینی عرب دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ جبکہ وہ فلسطینی جو اسرائیل کی حدود کے اندر رہے وہ آج اسرائیل کے شہری ہیں۔ جبکہ فلسطینی عرب آج تک اپنی ریاست قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

یہ موضوع کچھ تفصیل طلب ہے اس پر ان شاء اللہ جلد بات کریں گے ۔
 

arifkarim

معطل
یہ موضوع کچھ تفصیل طلب ہے اس پر ان شاء اللہ جلد بات کریں گے ۔
میری کل Palestine For Dummies نامی کانفرس میں شرکت ہے جہاں اس موضوع پر تفصیلی گفتگو ہو گی۔ وہاں کوئی نئی انفارمیشن ملی تو آپ سے ضرور شیئر کروں گا۔ یاد رہے کہ اس تنازع کا حل اسرائیل کے پاس نہیں فلسطینی عربوں کے پاس ہے۔
 

سعد848

محفلین
فلسطین میں مسجد اقصیٰ ہے جس کے خلاف یہودیوں کی سازشیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں،،اور مسجداقصیٰ مسلمانوں کا قبلہءاول ہے اس لئے اس کا تذکرہ کرنا اور اس کی آزادی کے لئے حتی الوسع کوشش کرنا ہر مسلمان کا اخلاقی و دینی فریضہ ہے۔۔۔۔ باقی رہی یہ بات کہ مسلمانوں کی اتنی تعداد ہونے کے باوجود مسلمان اس کو آزاد کیوں نہیں کرواسکے؟؟ ۔۔؟ تو س کا جواب یہ ہے کہ ہر قوم پر عروج وزوال کے کچھ اسباب ہوتے ہیں ۔مسلمانوں کی ۱۴سو سالہ تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں سے مقصود اسلام پر عمل ہے ۔جب تک مسلمان قرآن و سنت پر عمل پیرا رہے اللہ پاک نے دنیاوی فتوحات کادروازہ بھی ان کے لئے کھول دیا ۔۔اور جب دین کو چھوڑا تو دنیا میں بھی پیچھے رہ گئے۔۔۔ حضرت ابوبکر ؓو عمرؓ سےلیکر سلطان فاتح و عالمگیر ِؒ تک یہی اصول رہا ۔ اور تھوڑا بہت انتشار مجموعی حالات پر اثر انداز نہیں ہوتا۔
 
Top