ممنوعہ سرزمین: ایک پاکستانی کا سفرِ اسرائیل

صائمہ شاہ

محفلین
وہی سیکیورٹی کے حوالے سے کنٹرولڈ سوالات جو عموما ایئر پورٹس پر پورے جاتے ہیں: یہاں کیا کرنے آئے ہو، کہاں ٹھہرنا ہے، کتنے دن تک وغیرہ
یہ ذرا سیکیوریٹی سے اوپر کے سوالات ہوتے ہیں اس سے پہلے بھی کسی کا سفر نامہ پڑھا تھا جہاں اس خاتون کو گھنٹوں انتظار کروایا گیا کلئیرنس سے پہلے ۔
 

صائمہ شاہ

محفلین
وہ تو چلیں گورے تھے عرب ممالک میں بھی نسلی تعصب بہت ہے میری ساس پہلی دفعہ کویت آئی تو انھوں نے پاکستانی لباس شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی جب کے نیشنیلٹی امریکی تھی لیکن پھر بھی انہیں دو گھنٹے کے بعد انٹری ملی تھی کوئی سوال جواب نہیں کیا گیا بس دوگھنٹے بٹھائے رکھا
شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی تبھی اتنی دیر بٹھایا :)
 

arifkarim

معطل
اسرائیلی سوالات اس سے بڑھ کر ہوتے ہیں
یہ ذرا سیکیوریٹی سے اوپر کے سوالات ہوتے ہیں اس سے پہلے بھی کسی کا سفر نامہ پڑھا تھا جہاں اس خاتون کو گھنٹوں انتظار کروایا گیا کلئیرنس سے پہلے ۔
بندے بندے پر منحصر ہے۔ حال ہی میں کچھ نارویجن دوستوں کا ٹولہ اسرائیل گیا تھا جس میں پاکستانی نژاد بھی شامل تھے۔ کسی کو ایئر پورٹ پر تنگ نہیں کیا گیا۔
 

arifkarim

معطل
اچھی بات یہ ہے کہ غیر مسلم ہو کر بھی وہ آپ کو آنے جانے دیتے ہیں
یہ اچھی بات نہیں ہے۔ اصل بات ہی یہی ہے۔ مملکت خداداد اسرائیل میں تمام مذاہب کے پیروکاروں کو مکمل آزادی حاصل ہے۔ اسی لیئے وہاں قادیانی، بہائی، درزی مراکز بھی عام ہیں جیسے مسلمانوں، یہودیوں و مسیحیوں کے مذہبی مراکز ہیں۔ یہی قادیانی، بہائی، درزی فرقہ کے لوگ دیگر مسلمان ممالک میں جان بچاتے پھرتے ہیں۔ وہ یہودیوں کے ملک اسرائیل میں ہر لحاظ سے محفوظ ہیں۔
 

عارضی کے

محفلین
جب ملک کا اصل نام اسرائیل ہے تو اسے مقبوضہ یا مقتولہ فلسطین کیوں کہا جائے؟
یہ یہودیوں کا قبضہ کردہ فلسطین ہے۔ چاہے آپ اسے اسرائیل کا نام دیں یا کوئی اور۔ فلسطین یہودیوں کا اصل وطن نہیں بلکہ تاریخی طور پر یہ بھی حملہ آور ہوکر یہاں کے اصل قبائل سے برسرپیکار ہوئے اور وہاں قابض ہوئے۔ آپ جن کو حملہ آور مسلمان کہہ رہے ہیں یہ دوسری غلط فہمی ہے ، یہاں آباد اکثر مسلمان باہر سے نہیں آئے بلکہ یہیں کہ باشندوں نے اسلامی خلفاء کے دور میں اسلام قبول کیا اور مسلمان کہلائے۔ دنیا کے ہر ملک میں کہیں نہ کہیں سے لوگ آکر آباد ہوتے رہیں۔ اور یہاں بھی کچھ تعداد میں باہر سے مسلمان آئے ۔اور دلچسپ بات یہ کہ انہوں نے یہاں آباد ان احسان فراموش اور انبیاء کے قاتل یہودیوں کو کچھ بھی نہ کہا ان کو آباد رہنے دیا۔ برعکس عیسائیوں کے جنہوں نے ہمیشہ یہودیوں کو ان کی حقیقت بتائی اور ذلیل کرتے رہے، قتل کرتے رہے، چاہے وہ اسلامی عہد ِ رفتہ میں تھا، یا اس کے بعد، یہ تو ان کہنہ مشق اور عیار یہودی سن رسیدہ بزرگوں کے ذہن نے کام کیا جنہوں نے عیسائیوں سے بدلہ لینے کے لیے عیسائیت کا روپ اختیار کیا پہلے انہیں توڑا ان سے مذہب سے لگاؤ نکال باہر کیا پھر انہیں فحاشی وعریانی کے سیلاب میں ایسا دھکیلا کہ آج تک اور آئندہ تک ان کی جانب سے یہودی بے فکر ہوئے۔ اب جو کانٹا رہ گیا ہے وہ مسلمان ہے۔یہ احسان فراموش جب برطانوی اور امریکی آشیر باد سے فلسطین آئے (یاد رہے دوسری بار قابض قوم کی صورت میں ) تو پہلے سے نہتے کیے گیے مسلمانوں سے بنو قریظہ واقعہ کا بھڑاس نکالا خوب قتلِ عام کیا ، پھر ان کو دوسرے درجہ کا شہری قرار دے کر کیمپوں میں دھکیل باہر پھینکا۔ اور آج تک پتھر کا جواب گولی سے دے رہے ہیں، کیا آپ نے 1947-48 میں ان کی آمد کے متعلق نہیں پڑھا ؟ آپ پھر بھی چاہے تو تاریخ پڑھیں۔ اور کچھ نہیں تو آپ مجھے صرف تاریخ کا ایک ایسا حوالہ دے جس میں مسلمانوں نے یہودیوں کو یا تو ذلیل کیا ہو اور یا قتل ، صرف ایک حوالہ۔
بنو قریظہ کا حوالہ نہیں مانگ رہا کیوں کہ جو دوسروں کو قتل کرنے کی سازش کریں ان کی سزا بھی قتل ہے اور پھر جب مقتول کسی نبی کو بنایا گیا ہوتو اس کی سزا پھر اللہ مقرر کرتا ہے، بنو قریظہ کے واقعے کو یہ لوگ اپنی اسلام دشمنی کی بنیاد ٹھہراتے ہیں ، مجھے حیرت اس پر ہے کہ جب انہوں نے خود معاہدے کے وقت دھوکے کی صورت میں قتل ہونے کی سزا پر دستخط کیے تو مسلمانوں کو سزاوار ٹھہرانے کی کیا تُک رہ جاتی ہے، حالاں کہ اگر یہ اپنے منصوبے میں کامیا ب ہوجاتے تو آج ایک بھی مسلمان نہ ہوتا ، ان کی منصوبہ بندی پورے مسلمان قوم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی ایسی تھی کہ نبی کو قتل کرو تو قوم بھی ختم، لیکن اس وعدہ خلاف اور دھوکہ باز قوم کو اللہ نے اپنے ہی جال میں ایسا کسا کہ آج تک ہاتھ مل رہے ہیں، آخریہی کافی ہے کہ جو اپنے ہی انبیاء کو تکلیفیں دے دے کر خوش نہ ہوئے ہو تو وہ بنی اسماعیل میں کسی نبی کو کیسے برداشت کرسکتے ہیں، آپ ﷺ نے ان کے ساتھ پھر احسان کیا کہ صرف بنو قریظہ ہی کے جوانوں کے قتل کا حکم دیا باقی کسی یہودی قبیلے کو کچھ بھی نہ کہا۔
آخر کیوں اس سے پہلے اور بعد کے تاریخ میں کسی ایک بھی یہودی کے قتل کا واقعہ پیش نہیں آیا۔ اگر مسلمان چاہتے تو صلاح الدین ایوبی اور اسپین میں مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ دور میں ان کی بیخ اور بنیاد ختم کرسکتے تھے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ کیا ان احسان فراموشوں کے پاس کوئی ثبوت ہیں جو آج مسلمانوں پر چڑھ دوڑ رہے ہیں؟
 

زیک

مسافر
یہ یہودیوں کا قبضہ کردہ فلسطین ہے۔ چاہے آپ اسے اسرائیل کا نام دیں یا کوئی اور۔ فلسطین یہودیوں کا اصل وطن نہیں بلکہ تاریخی طور پر یہ بھی حملہ آور ہوکر یہاں کے اصل قبائل سے برسرپیکار ہوئے اور وہاں قابض ہوئے۔ آپ جن کو حملہ آور مسلمان کہہ رہے ہیں یہ دوسری غلط فہمی ہے ، یہاں آباد اکثر مسلمان باہر سے نہیں آئے بلکہ یہیں کہ باشندوں نے اسلامی خلفاء کے دور میں اسلام قبول کیا اور مسلمان کہلائے۔ دنیا کے ہر ملک میں کہیں نہ کہیں سے لوگ آکر آباد ہوتے رہیں۔ اور یہاں بھی کچھ تعداد میں باہر سے مسلمان آئے ۔اور دلچسپ بات یہ کہ انہوں نے یہاں آباد ان احسان فراموش اور انبیاء کے قاتل یہودیوں کو کچھ بھی نہ کہا ان کو آباد رہنے دیا۔ برعکس عیسائیوں کے جنہوں نے ہمیشہ یہودیوں کو ان کی حقیقت بتائی اور ذلیل کرتے رہے، قتل کرتے رہے، چاہے وہ اسلامی عہد ِ رفتہ میں تھا، یا اس کے بعد، یہ تو ان کہنہ مشق اور عیار یہودی سن رسیدہ بزرگوں کے ذہن نے کام کیا جنہوں نے عیسائیوں سے بدلہ لینے کے لیے عیسائیت کا روپ اختیار کیا پہلے انہیں توڑا ان سے مذہب سے لگاؤ نکال باہر کیا پھر انہیں فحاشی وعریانی کے سیلاب میں ایسا دھکیلا کہ آج تک اور آئندہ تک ان کی جانب سے یہودی بے فکر ہوئے۔ اب جو کانٹا رہ گیا ہے وہ مسلمان ہے۔یہ احسان فراموش جب برطانوی اور امریکی آشیر باد سے فلسطین آئے (یاد رہے دوسری بار قابض قوم کی صورت میں ) تو پہلے سے نہتے کیے گیے مسلمانوں سے بنو قریظہ واقعہ کا بھڑاس نکالا خوب قتلِ عام کیا ، پھر ان کو دوسرے درجہ کا شہری قرار دے کر کیمپوں میں دھکیل باہر پھینکا۔ اور آج تک پتھر کا جواب گولی سے دے رہے ہیں، کیا آپ نے 1947-48 میں ان کی آمد کے متعلق نہیں پڑھا ؟ آپ پھر بھی چاہے تو تاریخ پڑھیں۔ اور کچھ نہیں تو آپ مجھے صرف تاریخ کا ایک ایسا حوالہ دے جس میں مسلمانوں نے یہودیوں کو یا تو ذلیل کیا ہو اور یا قتل ، صرف ایک حوالہ۔
بنو قریظہ کا حوالہ نہیں مانگ رہا کیوں کہ جو دوسروں کو قتل کرنے کی سازش کریں ان کی سزا بھی قتل ہے اور پھر جب مقتول کسی نبی کو بنایا گیا ہوتو اس کی سزا پھر اللہ مقرر کرتا ہے، بنو قریظہ کے واقعے کو یہ لوگ اپنی اسلام دشمنی کی بنیاد ٹھہراتے ہیں ، مجھے حیرت اس پر ہے کہ جب انہوں نے خود معاہدے کے وقت دھوکے کی صورت میں قتل ہونے کی سزا پر دستخط کیے تو مسلمانوں کو سزاوار ٹھہرانے کی کیا تُک رہ جاتی ہے، حالاں کہ اگر یہ اپنے منصوبے میں کامیا ب ہوجاتے تو آج ایک بھی مسلمان نہ ہوتا ، ان کی منصوبہ بندی پورے مسلمان قوم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی ایسی تھی کہ نبی کو قتل کرو تو قوم بھی ختم، لیکن اس وعدہ خلاف اور دھوکہ باز قوم کو اللہ نے اپنے ہی جال میں ایسا کسا کہ آج تک ہاتھ مل رہے ہیں، آخریہی کافی ہے کہ جو اپنے ہی انبیاء کو تکلیفیں دے دے کر خوش نہ ہوئے ہو تو وہ بنی اسماعیل میں کسی نبی کو کیسے برداشت کرسکتے ہیں، آپ ﷺ نے ان کے ساتھ پھر احسان کیا کہ صرف بنو قریظہ ہی کے جوانوں کے قتل کا حکم دیا باقی کسی یہودی قبیلے کو کچھ بھی نہ کہا۔
آخر کیوں اس سے پہلے اور بعد کے تاریخ میں کسی ایک بھی یہودی کے قتل کا واقعہ پیش نہیں آیا۔ اگر مسلمان چاہتے تو صلاح الدین ایوبی اور اسپین میں مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ دور میں ان کی بیخ اور بنیاد ختم کرسکتے تھے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ کیا ان احسان فراموشوں کے پاس کوئی ثبوت ہیں جو آج مسلمانوں پر چڑھ دوڑ رہے ہیں؟
کیا زبردست تاریخ گھڑی ہے
 
Top