حسان خان

لائبریرین
کیفیتِ عُرفی طلب از طینتِ غالب
جامِ دگران بادهٔ شیراز ندارد
(غالب دهلوی)

عُرفی، شیرازی تھا اور غالب اس کا بہت مداح تھا۔ چنانچہ کہتا ہے:
کہ اگر تجھے عُرفی کے نشے کی کیفیت درکار ہے تو وہ غالب کے مزاج سے طلب کر۔ تجھے دوسروں کے جام میں بادۂ شیراز نہیں ملے گی۔
یعنی عُرفی کے کلام کا رنگ غالب کے رنگِ کلام میں موجود ہے۔
(مترجم و شارح: صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
کوکبم را در عدم اوجِ قبولی بوده‌است
شهرتِ شعرم به گیتی بعدِ من خواهد شدن
(غالب دهلوی)

میرے ستارۂ بخت کو عدم میں اوجِ قبول حاصل تھا۔ میری شاعری کی شہرت بھی اس دنیا میں میرے بعد ہی ہو گی یعنی جب میں مر جاؤں اور عدم میں چلا جاؤں گا۔
(مترجم و شارح: صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
 

حسان خان

لائبریرین
غالب از من شیوهٔ نُطقِ ظهوری زنده گشت
از نوا جان در تنِ سازِ بیانش کرده‌ام
(غالب دهلوی)

مرزا غالب نظیری، طالب، عُرفی کے ساتھ ساتھ ظہوری کے اسلوبِ بیان سے بہت متاثر تھے۔ چنانچہ انہوں نے ان بزرگوں کی غزلوں پر غزلیں کہی ہیں۔ حسبِ معمول اس مقطع میں ظہوری کے اسلوبِ بیان اور ساتھ ہی اپنے کلام کی تحسین کی ہے۔
غالب میری شاعری سے ظہوری کا اندازِ بیان زندہ ہوا۔
میں نے اپنے شاعرانہ نغموں (نوا) سے گویا اس کے سازِ سخن میں جان ڈال دی ہے۔
(مترجم و شارح: صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
 

ضیاءالقمر

محفلین
فریاد زاں شرمندگی کا رند چو در محشرم
گویند اینک خیرہ سر ،کز دوست فرماں خوش نہ کرد
غالب
ہائے وہ شرمندگی کا عالم! جب مجھے قیامت کے دن محبوب حقیقی کے حضور میں لایا جائے گا
اور یہ کہا جائے گا کہ یہ وہ سرپھرا انسان ہے جس نے دوست کے فرمان کو قبول نہ کیا ۔
عاشق ،عشق کا دعوی کرے اور پھر اس کی حکم عدولی کرے،شرمناک بات ہے
 

ضیاءالقمر

محفلین
با خرد گفتم نشان اھل معنی باز گو
گفت گفتارے کہ با کردار پیوندش بود
غالب
میں نے عقل سے اہل عرفان لوگوں کی نشانی پوچھی ۔
جواب ملا وہ لوگ جن کے قول و فعل میں ربط ہو ۔
(یعنی جو کہیں وہی کریں)
 

ضیاءالقمر

محفلین
برسر کوئے تو بےخود گشتنم از ضعف نیست
کشتہء رشکم نیارم دید خود را نیز، ہے
غالب
تیرے کوچے میں میرا بے خود ہو جانا ضعف و نا توائی کی وجہ سےنہیں ہے۔
افسوس میں رشک کا مارا ہوا ہوں میں اپنے کو بھی تیرے کوچے میں دیکھنے کی تاب نہیں لا سکتا
(یعنی مجھے اپنے پہ بھی رشک آتا ہے اس لیے میں نےاپنے آپ کو کھو دیا ہے)
 

ضیاءالقمر

محفلین
غالب بہ دکانے کہ بامید کشودیم
سرمایہ ء ما جز ہوس سود نیابی
غالب
غالب اُس دکان میں جو ہم نے بڑی اُمیدیں لے کر کھولی تھی
اب سوائے ہوس سود کے کوئی ہمارا سرمایہ نہیں رہا ۔
 

ضیاءالقمر

محفلین
از جنت و سر چشمہء کوثر چہ کشاید
خوں گشتہ دل و دیدہء خونابہ فشاں ہائے
غالب
یہ غم سے خوں ہوا ہوا دل اور یہ اشکبار آنکھیں،
جنت اور چشمہء کوثر کی فضا میں کیا شگفتہ ہو سکیں گی؟
 

محمد وارث

لائبریرین
گشتیم از مروّتِ لُطفت خراب تر
تعمیرِ ما مکن کہ در آب و گِلِ تو نیست


نورالدین ظہوری ترشیزی

(اے محبوب) ہم تیرے لطف و کرم و مروت سے خراب تر ہو گئے ہیں، تُو (اپنے لطف و کرم سے) ہمارے حال کی درستی اور تعمیر کی فکر مت کر کہ یہ چیز تیری آب و گِل، تیری سرشت ہی میں نہیں ہے۔
 

ضیاءالقمر

محفلین
ندارم بادہ غالب،گر سحر گاہش سر راہے
ببینی مست،دانی کز شبستانم نمی آید
غالب
غالب میرے پاس شراب نہیں ہے۔اگر صبح کے وقت وہ (محبوب) مستی کے عالم میں مل جائے تو سمجھ لو
وہ میری خواب گاہ سے اٹھ کر نہیں آیا (رقیب کے ہاں سے آیا ہے)۔
 

ضیاءالقمر

محفلین
عشق است و ناتوانی ،حسن است و سرگردانی
جور و جفا نتابم ، مہر و وفا ندارد
غالب
اِدھر عشق ہے اور میری ناتوانی،اُدھر حسن ہے اور اس کا غرور و نخوت
میں جور و جفا کی تاب نہیں لا سکتا !اور وہ مہر و وفا سے عاری ہے۔
 

ضیاءالقمر

محفلین
بگوئیدش غم و رنج من و دل
و لیکن از زبان ما مگو ئید
حضرت امیر خسروؒ
اس کو میرے رنج و غم اور دل کا حال کہ دینا
لیکن وہ ہماری زبان میں نہ کہنا۔​
 

حسان خان

لائبریرین
برسر کوئے تو بےخود گشتنم از ضعف نیست
کشتہء رشکم نیارم دید خود را نیز، ہے
غالب
تیرے کوچے میں میرا بے خود ہو جانا ضعف و نا توائی کی وجہ سےنہیں ہے۔
افسوس میں رشک کا مارا ہوا ہوں میں اپنے کو بھی تیرے کوچے میں دیکھنے کی تاب نہیں لا سکتا
(یعنی مجھے اپنے پہ بھی رشک آتا ہے اس لیے میں نےاپنے آپ کو کھو دیا ہے)

بسیار خوب انتخاب!
یہ ترجمہ و شرح صوفی غلام مصطفی ٰ تبسم کا ہے۔ اگر ہر جگہ مترجم و شارح کے نام کا بھی حوالہ دے دیا جائے تو بہتر ہے، تاکہ اُس کی زحمتوں کا اعتراف کیا جا سکے۔

بر سرِ کویِ تو بی‌خود گشتنم از ضعف نیست
کشتهٔ رشکم نیارم دید خود را نیز، هَی
(غالب دهلوی)

تیرے کوچے میں میرا بے خود ہو جانا ضعف و ناتوانی کی وجہ سے نہیں ہے۔ افسوس میں رشک کا مارا ہوا ہوں۔ میں اپنے کو بھی تیرے کوچے میں دیکھنے کی تاب نہیں لا سکتا (یعنی مجھے اپنے پہ بھی رشک آتا ہے اس لیے میں نے اپنے آپ کو کھو دیا ہے)۔
(مترجم و شارح: صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
 

حسان خان

لائبریرین
غالب از خاکِ کدورت‌خیزِ هندم دل گرفت
اصفهان هی، یزد هی، شیراز هی، تبریز هی

(میرزا غالب دهلوی)
اے غالب! میرا دل ہند کی خاکِ کدورت خیز سے ملول ہو گیا ہے۔۔۔ ہائے اصفہان! ہائے یزد! ہائے شیراز! ہائے تبریز!

(ہائے سمرقند! ہائے بخارا! ہائے ہرات! ہائے بلخ!)
غالب از خاکِ کدورت‌خیزِ هندم دل گرفت
اصفهان هَی، یزد هَی، شیراز هَی، تبریز هَی
(غالب دهلوی)

غالب ہند کی کدورت خیز خاک سے میرا دل اُچاٹ ہو گیا ہے۔ ہائے کہاں ہے اصفہان، کہاں ہے یزد، کہاں ہے شیراز، اور کہاں ہے تبریز، ہائے۔
(مترجم: صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
 

ضیاءالقمر

محفلین
چہ غم اربہ جد گرفتی زمن احتراز کردن
نتواں گرفت از من بگزشتہ ناز کردن
غالب
اگر تو نے ارادتاً مجھ سے پہلو تہی کر لی ہے تو کوئی غم نہیں۔
محبت کے ایام گزشتہ پر مجھے ناز ہے وہ تو تم مجھ سے نہیں چھین سکتے،
(محبت کی یادیں تو ہمیشہ تازہ رہیں گی)
 

ضیاءالقمر

محفلین
سوخت جگر تا کجا رنجِ چکیدن دہیم
رنگ شوائے خونِ گرم تا بپریدن دہیم
غالب
ہمارا جگر جل گیا ، کب تک اُسے (آنکھوں سے) قطرہ قطرہ ٹپکنے کا دکھ دیتے رہیں
اے خون گرم ،رنگ بن جا تاکہ ایک ہی بار اڑا کر اس سے نجات حاصل کریں۔
 
Top