حسان خان

لائبریرین
کاظمی اردبیلی کا حافظ شیرازی کے شعر پر تلمیح:
اِسے تلمیح نہیں، تضمین کہتے ہیں۔
'تلمیح' شعر میں کسی واقعے یا مَثَل کی جانب اشارہ کرنے کو کہتے ہیں۔

آتشِ بيداد را در صحنِ گلشن بر فروخت
بیداد = ظلم و ستم
اِس مصرعے میں بھی صیّاد کی بات ہو رہی ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
[میر حسن دہلوی کی مثنوی 'سحرالبیان' پر مرزا قتیل کا قطعۂ تاریخ]

-------------

مرے ایک مشفق ہیں مرزا قتیل
کہ ہیں شاہراہِ سخن کے دلیل
سنی مثنوی جب یہ مجھ سے تمام
دیا اس کی تاریخ کو انتظام
ز بس شعر کہتے ہیں وہ فارسی
ہر اک شعر اُن کا ہے جوں آرسی
اُنہوں نے شتابی اُٹھا کر قلم
یہ تاریخ کی فارسی میں رقم


(قطعۂ تاریخِ طبع‌زادِ مرزا قتیل)

به تفتیشِ تاریخِ این مثنوی
که گفتش حسن شاعرِ دهلوی
زدم غوطه در بحرِ فکرِ رسا
که آرم به کف گوهرِ مدعا
به گوشم ز هاتف رسید این ندا

برین مثنوی باد هر دل فدا
۱۱۹۹ھ
-------------


[مأخوذ از: مثنویِ سحرالبیان]


فارسی قطعے کا ترجمہ: اِس مثنوی کی تاریخ کی جستجو میں، کہ جسے دہلوی شاعر حسن نے کہا ہے، میں نے فکرِ رسا کے بحر میں غوطہ لگایا تاکہ گوہرِ مدعا حاصل کر سکوں۔ [پس،] میرے گوش میں ہاتف کی یہ ندا آئی کہ "اِس مثنوی پر ہر دل فدا ہو!"
 
عقل درپیچاک اسباب و علل
عشق چوگاں باز میدان عمل

(محمد اقبال)


عقل دلائل و اسباب میں پھنسی رہتی ہے،
جبکہ عشق میدان عمل میں چوگان (پولو) کا کھیل کھیلتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
از اشک مپُرسید که در دل چه خروش است
این قطره ز دریا چه خبر داشته باشد
(نامعلوم)

اشک سے مت پوچھیے کہ دل میں کیسا شور و خروش ہے؛ اِس قطرے کو دریا کی کیا خبر ہو گی؟
 

ضیاءالقمر

محفلین
بر سر راھش نشستم،بردرش راہم نبود
خویش را از خویشتن لختے نکوتر داشتم۔
غالب
اُس کے در تک تو رسائی نہ تھی اس کی راہ میں بیٹھ گیا۔
جو میری حیثیت تھی اس کے مقابلے میں میرے لیے یہ مقام میرے مرتبے سے کہیں بلند تر تھا۔
 
ﺟﮩﺎﻥ ﺍﺯ ﻋﺸﻖ ﻭ ﻋﺸﻖ ﺍﺯ ﺳﯿﻨﮧ ﺗﺴﺖ
ﺳﺮﻭﺭﺵ ﺍﺯ ﻣﮯ ﺩﯾﺮﯾﻨﮧ ﺗﺴﺖ
ﺟﺰ ﺍﯾﮟ ﭼﯿﺰﮮ ﻧﻤﯽ ﺩﺍﻧﻢ ﺯ ﺟﺒﺮﯾﻞ
ﮐﮧ ﺍﻭ ﯾﮏ ﺟﻮﮨﺮ ﺍﺯ ﺁﯾﻨﮧ ﺗﺴﺖ
(اقبال رحمۃاللہ علیہ)
ﯾﮧ ﺩﻧﯿﺎ ﻋﺸﻖ ﮐﯽ ﺑﺪﻭﻟﺖ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻋﺸﻖ آپ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سینہ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﺳﮯ ﮨﮯ
ﻋﺸﻖ ﮐﺎ ﺳﺮﻭﺭ آپ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم ﮐﯽ ﭘﺮﺍﻧﯽ ﺷﺮﺍﺏ ‏ﮐﮯ ﻃﻔﯿﻞ ﮨﮯ
ﻣﯿﮟ ﺟﺒﺮﯾﻞ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﻓﻘﻂ ﺍﺗﻨﺎ ﺟﺎﻧﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﻭﮦ
آپ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم ﮐﮧ ﺁﺋﯿﻨﮧ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﭼﻤﮏ ﮨﮯ
(ﯾﻌﻨﯽ ﺟﺒﺮﯾﻞ ﺑﮭﯽ ﺣﻀﻮﺭ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم ﮐﮯ ﻧﻮﺭ ﮐﮯ ﻃﻔﯿﻞ ﻣﻌﺮﺽ ﻭﺟﻮﺩ ﻣﯿﮟ ﺁﺋﮯ)
 
اِمروز روئے یار بسے خوبتر از دیست
اِمسال کارِ من بتر از پار بنگرید


شیخ سعدی شیرازی

آج کے دن میرے محبوب کا چہرہ کل کے مقابلے میں بہت زیادہ خوبصورت (لگ رہا) ہے، اِس سال میرا حال پچھلے سال کے مقابلے میں اور بھی زیادہ خراب دیکھنا۔
پہلے مصرع کی تقطیع کیسے ہوگی؟
 
کاظمی اردبیلی کا حافظ شیرازی کے ایک شعر پر تضمین:

در حسرتِ هجرانت دلخسته و بیماریم
تیرِ غمِ عشقت را بر سینه خریداریم
در حسرتِ دیدارت از هر مژه خونباریم

"در دایرهِ قسمت ما نقطهِ پرکاریم
لطف آنچه تو اندیشی، حکم آنچه تو فرمایی"


تیرے ہجر کی حسرت میں ہم پریشاں خاطر اور بیمار ہیں۔ہم تیرے عشق کے غم کے تیر کو سینے (پر لے کر) خریدار ہیں۔تیرے دیدار کی حسرت میں ہم ہر مژہ سے خونبار ہیں۔"ہم قسمت کے دائرے میں پُرکار کا نقطہ ہیں۔مہربانی وہی ہے جو تو خیال کرے،حکم وہ ہے جو تو دے۔"
 
تضمینِ کاظمی اردبیلی بر شعرِ حافظ شیرازی:

عشقِ دلدار بُوَد سایهِ عیشِ ازلی
جلوهِ یار بود نورِ حقِ لم یزلی
طلعتِ اوست چو خورشیدِ درخشنده جلی

"باده و مطرب و می جمله مهیاست ولی
عیش ،بی یار، مهیا نشود یار کجاست؟"


عشقِ دلدار ازلی عیش کا سایہ ہوتا ہے۔یار کا جلوہ جاوداں نورِ حق ہوتا ہے۔اس کا دیدار (یا طلوع ہونا) آفتابِ تاباں کی مثل ہویدا ہے۔"باده،خنیاگر اور مے مہیا ہے امّا یار کے بدون عیش مہیا نہیں ہے، یار کہاں ہے؟"
 

ضیاءالقمر

محفلین
اے متاع دو جہاں رنگ بعرض آوردہ
ھاں صلاے کہ ازیں جملہ دلے بردارم
غالب
تو نے دونوں جہاں کے جلوہ ہائے رنگا رنگ سامنے لا رکھے ہیں۔
ذرا ان (سے لذت اندوز ہوئے) کی دعوت تو دے (اور دیکھ ) کہ میں
ان سب سے کیسے دل برداشتہ ہوتا ہوں۔
 

ضیاءالقمر

محفلین
خجلت نگر که در حسناتم نيافتند
جز روزه درست ز صهبا گشوده اي
ميرزا اسدالله خان غالب
کتنی شرمندگی کی بات ہے کہ میری نیکیوں میں اس کے سوا
کچھ نہ ملا کہ میں نے ایک ٹھیک روزہ رکھ کر اُسے شراب سےکھولا تھا ۔
 

حسان خان

لائبریرین
جهل عیبی نیست گر باشد به آن، کس معترف
زآنکه هر عالِم که بینی در بدایت جاهل است
(محمد فضولی بغدادی)

اگر شخص [اپنے جہل] کا معترف ہو تو جہل کوئی عیب نہیں ہے؛ کیونکہ جس عالِم کو بھی دیکھو وہ آغاز میں جاہل ہوتا ہے۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
پہلے مصرع کی تقطیع کیسے ہوگی؟
اِمروز روئے یار بسے خوبتر از دیست

میرے خیال میں "از" کا الف ساقط کیا گیا ہے۔

امروز - مفعول
روئے یار - فاعلات
بسی خوب - مفاعیل
تر ز دیس - فاعلان

اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مصرعے میں "از" کی جگہ صرف "ز" ہو، یعنی گنجور اور پھر میری کتابت کی غلطی بھی ہو سکتی ہے۔ ویسے اس طرح الف ساقط کر دینا فارسی شاعری میں عام دیکھا ہے۔
 

ضیاءالقمر

محفلین
بخوں تپم بسرِ رہگزر دروغ دروغ
نشاں دہم برہت صد خطر دروغ دروغ ۔
غالب
میں تیری رہ گزر میں تڑپتا رہوں غلط ہے اور اس طرح تڑپنے سے
دنیا کو تیری راہ کے مصائب کی نشان دہی کروں سر تا پا غلط بات ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
چه نخل گویمت ای گُلبُنِ حدیقهٔ حُسن
که حاصلم ز تو، جز ناله‌ای و آهی نیست
(محمد فضولی بغدادی)

اے باغِ حُسن کے درختِ گُل، میں تمہیں کون سا شجر کہوں؟ کہ مجھے تم سے بجز اِک نالہ و آہ کوئی ثَمَرہ حاصل نہیں ہوتا۔
 
آخری تدوین:

ضیاءالقمر

محفلین
مرد صاحب نظر از کوي تو آسان نرود
هر که راجان بود، از خدمت جانان نرود
حضرت امیر خسروؒ
کوئی بھی اہل نظر شخص تیرے کوچے سے آسانی سے نہیں جا سکتا
جس شخص کے پاس طاقت ہے،وہ محبوب کی خدمت کے بغیر نہیں جا سکتا۔
 
Top