نظر لکھنوی غزل: یا رہے خاموش یا پھر بات ایمانی کرے ٭ نظرؔ لکھنوی

یا رہے خاموش یا پھر بات ایمانی کرے
سب کو گرویدہ ترے چہرے کی تابانی کرے

پردۂ اخفا میں رہ کر جلوہ سامانی کرے
اہلِ دل کے واسطے پیدا پریشانی کرے

تلخ گوئی چھوڑ کر بن جائیے شیریں سخن
یہ وہ نسخہ ہے کہ پتھر دل کو بھی پانی کرے

سوزِ دل بڑھ جائے تو آنکھوں میں آ جاتے ہیں اشک
اس کی قدرت ہے کہ پیدا آگ سے پانی کرے

حالِ دل مت پوچھیے اب ہو چکا ناگفتہ بہ
رحمتِ یزداں کرم کی اپنے ارزانی کرے

زاہدِ ناداں نہیں سمجھا ابھی طاعت کا راز
بیٹھ کر گوشہ میں وہ بس سبحہ گردانی کرے

دل پہ رکھتا ہوں کڑی نظریں ہمیشہ اے نظرؔ
گر کروں صرفِ نظر ظالم یہ من مانی کرے

٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
 
Top