نظر لکھنوی غزل: ساغرِ توحید وہ دے، پیرِ میخانہ مجھے ٭ نظرؔ لکھنوی

ساغرِ توحید وہ دے، پیرِ میخانہ مجھے
تا ابد حاصل رہے اک کیفِ رندانہ مجھے

نورِ حق رہبر نہ ہوتا گر مجھے سوئے حرم
لغزشِ پا لے چلی تھی سوئے میخانہ مجھے

فی سبیل اللہ جاں دینے سے مجھ کو کیا گریز
لکھ کے دے رکھا ہے جب جنت کا پروانہ مجھے

دل کا کاشانہ کہ تھا پہلے جو گلشن آفریں
ایک مدت سے نظر آتا ہے ویرانہ مجھے

والہانہ عشق کا اور جذبۂ ایثار کا
درس دو دو دے گیا، اک ایک پروانہ مجھے

عہدِ محکم ہے کہ دوں گا سب کو جامِ سرخوشی
منتظم اب کے کریں اربابِ میخانہ مجھے

ہر متاعِ زندگی کو ان پہ قرباں کر دیا
اب سمجھتے ہیں تو سمجھیں لوگ دیوانہ مجھے

سینکڑوں سجدے بتوں کو روز و شب کرتا ہوں میں
بار ہے لیکن ادائے حقِ دوگانہ مجھے

بادۂ عشرت پیوں یا زہرِ غم اس سے پیوں
بس خدا رکھے، ہے کافی دل کا پیمانہ مجھے

پیروِ دینِ براہیمی سمجھ کر اے نظرؔ
دیکھتے ہیں گھور کر سب اہلِ بت خانہ مجھے

٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
 
Top