something light for corrections and suggestions - thank you!

یاں کچھ نہیں خوابوں کے سوا کیسے مان لوں
سب کاوشوں کا اس کو صلہ کیسے مان لوں

ہاتھوں کی لکیروں میں تیرا نام لکها ہے
میں تجھ کو بتا خود سے جدا کیسے مان لوں

جلتی رہی دنیا میری وہ دیکهتا گیا
میں ایسے رب کو اپنا خدا کیسے مان لوں

ہر چند گوارا نہیں اس کی دل ازاری
پر بار بار اس کا کہا کیسے مان لوں
 

الف عین

لائبریرین
اس میں بھی دو بحور کا اختلاط ہو گیا ہے۔
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلات
اور
فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن
ردیف ’کیسے مان لوں‘ (عول فاعلات) محض پہلی بحر کی متقاضی ہے۔
کاپی کر رہا ہوں
 

الف عین

لائبریرین
پہلی بات۔ اس کی بحر کون سی ہے۔ یہاں دو بحروں کا اختلاط ہے۔
مفعول فاعلات مفاعیل عفاعلن/ فاعلات
اور
مفعول مفاعیل مفاعل فعولن
ردیف محض پہلی بحر میں فٹ ہوتی ہے، جب کہ تمہارے زیادہ تر آدھے مصرع دوسری بحر میں آ رہے ہیں۔
یاں کچھ نہیں خوابوں کے سوا کیسے مان لوں
سب کاوشوں کا اس کو صلح کیسے مان لوں
//دوسرے مصرع میں شاید ’صلا‘ ہونا چاہئے، صلح نہیں۔
پہلے مصرع میں بھی کیا ماننے کی بات ہے؟ یہ واضح نہیں۔ اس لئے وزن میں کرنے کی کوشش نہیں کر رہا۔

ہاتھوں کی لکیروں میں تیرا نام لکها ہے
میں تجھ کو بتا خود سے جدا کیسے مان لوں
//پہلا مصرع مشکل ہے وزن میں کرنا، نہ بحر میں لکیریں آتا ہے نہ ریکھائیں۔ بس یہ ممکن ہے
ہاتھوں کی ہر لکیر میں لکھا ہے تیرا نام
یا
ہاتھوں میں جو خطوط ہیں، ان میں ہے تیرا نام
تجھ کو بھلا میں خود سے جدا۔۔۔

جلتی رہی دنیا میری وہ دیکهتا گیا
میں ایسے رب کو اپنا خدا کیسے مان لوں
///جب جل رہی تھی دنیا تو وہ دیکھتا رہا
ایسے خدا کو اپنا خدا ۔۔۔۔۔

ہر چند گوارا نہیں اس کی دل ازاری
پر بار بار اس کا کہا کیسے مان لوں
//درست یوں ہو گا
ہر چند یہ گوارا نہیں، اس کا دل دکھے
ہر بار لیکن اس کا کہا کیسے مان لوں
 
Top