Pakistan acid attack

wr08.jpg


اپنی بیٹی کو اپنے ہی ہاتھوں تیزاب ڈالکر مارنے والے والدین۔ اب پچھتار ہے ہیں

انھیں ڈر تھا کہ بڑی بیٹی کی طرح چھوٹی بھی خراب کردار کی نہ نکل جائے

خراب کردار کا ڈر تھا تو کردار سازی کیوں نہ کی؟ مذہب اسلام کے سچے راستے پر کیوں نہ چلے اور اولاد کوکیوں نہ چلایا۔ دن رات انڈینز فلمیں اور ڈرامے دیکھ کر بیٹی غیر مردوں کو نہ دیکھے گی تو کیا جھاڑو چولھا کرے گی؟ کیا اپنی بیٹی کو انھوں نے قران مجید کو ترجمہ کے ساتھ پڑھوایا تھا۔ کیا کوئی حدیث کی کتاب بھی پڑھوائی تھی۔ غربت ان چیزوں کو کرنے سے تو نہیں روک سکتی۔ کیا خود بھی قران پر چلنے کی کوشش کی تھی یا خود بھی ٹی وی ڈرامے اور فلموں کے شیدا تھے؟

جو بو کر گندم کیسے کاٹ سکتے ہو؟
 

نایاب

لائبریرین
پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں پولیس کا کہنا ہے کہ ایک پندرہ سالہ بچی کے ’غیرت کے نام پر‘ تیزاب پھینک کر قتل کرنے کے الزام میں ان کے والدین کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
حالیہ تاریخ میں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں اپنی نوعیت کا یہ پہلا واقعہ ہے جو منظرِ عام پر آیا ہے۔
’غیرت کے نام پر قتل‘ کے واقعات میں عموماً مردوں کا یہ خیال ہوتا ہے کہ متاثرہ خاتون، خاندان کے لیے بے عزتی کا سبب بنی ہیں۔
پاکستان کے انسانی حقوق کے کمشن کا کہنا ہے گذشتہ سال میں نو سو تنتالیس خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا تھا جو کہ سنہ دو ہزار دس کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ ہے۔
لیکن ایسے واقعات پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں بہت کم ہوتے ہیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ جنوبی ضلع کوٹلی کے ایک دور دراز گاؤں میں پیش آیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس کو اس واقعے کی اطلاع ہلاک ہونے والی لڑکی کی بڑی بہن نے دی۔
مقامی پولیس اہلکار طاہر ایوب نے بی بی سی کو بتایا کہ اس لڑکی کے والد کو اس وقت غصہ آیا جب پیر کے روز انھوں نے اپنی بیٹی کو موٹر سائیکل پر سوار دو لڑکوں کو غور سے دیکھتے ہوئے پکڑا کیونکہ ان کے والدین کو شک تھا کہ ان کی بیٹی کے ان لڑکوں میں سے ایک کے ساتھ مراسم ہیں۔
پولیس کے مطابق اس موقع پر وہ اپنی بیٹی کو گھر کے اندر لے کر گئے، انھیں مارا پیٹا اور پھر اور اپنی بیوی کی مدد سے اس پر تیزاب پھینک دیا۔
پولیس نے بتایا کہ اس کے بعد وہ اپنی بیٹی کو اگلی صبح تک ہسپتال نہیں لے کر گئے اور وہ منگل کی شام کو زخموں کا تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہوگئی۔
کوٹلی میں سرکاری ہسپتال کے سربراہ محمد جہانگیر نے ان کی ہلاکت کی تصدیق کر دی۔ ان کا کہنا تھا کہ جب لڑکی کو ہسپتال لایا گیا اس کا جسم پینتیس فیصد تک جلس چکا تھا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ لڑکی کی شادی شدہ بہن کو اس وقت شبہہ پڑا جب والدین سوگواروں کو میت کا چہرہ دیکھانے سے انکار کر دیا۔
اس سال مارچ میں حکومت نے تیزاب پھینکنے کے جرم کے لیے عمر قید اور دس لاکھ روپے جرمانے کی سزا متعین کی تھی۔

ربط

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں تیزاب سے جل کر ہلاک ہونے والی پندرہ سالہ لڑکی والدین نے کہا ہے کہ انھوں نےخاندان کی عزت کی خاطر اپنی بیٹی کا قتل کیا ہے۔
انوشہ ظفر کو گزشتہ ہفتے جنوبی ضلع کوٹلی کے گاؤں سید پور میں تیزاب پھینک کر ہلاک کیا گیا۔ پولیس نےلڑکی کے والدین کو گرفتار کر لیا ہے۔
کھوئی رٹہ کے تھانے کی حوالات میں بند محمد ظفر اور ان کی اہلیہ ذہین اختر نے بی بی سی سے بات چیت کرتے ہوئے اپنے بیٹی کو ہلاک کرنے کا اعتراف کیا۔
محمد ظفر نے بی بی سی کو بتایا کہ گزشتہ ہفتے منگل کی شام کو ان کی بیٹی نےگھر کے سامنے ایک نوجوان کی طرف دیکھا تو اس نے بیٹی کو منع کیا تھا کہ وہ راہ چلتے لوگوں کو نہ دیکھا کرے۔’ میں نے پہلے بھی اسے (انوشہ) یہ کہا تھا کہ بڑی بیٹی کی وجہ سے ہماری بے عزتی ہوئی تھی اور ہم نہیں چاہتے کہ ہم دوبارہ ذلیل ہوں لیکن اس نے بات نہیں سنی۔‘
تریپن سالہ محمد ظفر نے بتایا کہ رات گیارہ بجے کے قریب جب انوشہ پڑھ رہی تھی، تو میں نے اسے اپنے کمرے میں بلوایا۔ ’میں نے اس سے کہا کہ تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا اور میں نے اس کو دو تھپٹر مارے۔ اتنے میں میری بیوی نے تیزاب کی بوتل اس کے سر پر انڈیل دی۔‘
ساتھ ہی حوالات میں قید ان کی بیوی ذہین اختر یہ مانتی ہیں کہ انہوں نے بیٹی کے سر پر خود ہی تیزاب پھینکا اور انھیں ایسا کرنے کے لیے شوہر نے نہیں کہا تھا۔
ذہین اختر نے کہا ’انہوں ( شوہر) نے جب شکایت کی تو مجھے غصہ آیا اور میں نے خود اس کے سر پر تیزاب ڈال دیا۔‘
والدہ کہتی ہیں کہ اب انہیں احساس ہوتا ہے کہ انہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ والدین کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹی بہت تکلیف میں رہی۔
خود ماں کے دائیں بازو پر بھی تیزاب کے زخم کے نشان ہیں جبکہ لڑکی کے والد کے بازو، ہاتھ اور پاؤں تیزاب سے متاثر ہوئے ہیں۔
وہ کہتے ہیں رات ہونے کی وجہ سے وہ اپنی بیٹی کو بر وقت ہسپتال نہیں پہنچا سکے۔
اگلے روز جب وہ کوٹلی میں واقع ڈسٹرکٹ ہسپتال میں لے کرگئے تو انوشہ اسی شام کو زخموں کی وجہ ہسپتال میں دم توڑ گئی۔
ہلاک ہونے والی بچی آٹھویں جماعت کی طالبہ تھی۔
والدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کی بیٹی پڑھائی میں اچھی تھی اور انہیں کبھی بھی اسکول سے اس کی کوئی شکایت نہیں ملی اور اس کا رویہ بھی ٹھیک تھا۔
اب والدین یہ کہتے ہیں کہ وہ اپنی بیٹی کی موت پر دکھی ہیں اور ان سے غلطی ہوئی ہے اور اب ان کو اپنے کیے پر پچھتاوا ہے۔
بچی کی لاش کا پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹر محمد زبیر نے کہا کہ تیزاب کی وجہ سے ان کا جسم ساٹھ فیصد تک جھلسا ہوا تھا اور سر سب سے زیادہ متاثر ہوا تھا جبکہ چہرہ، سینہ، بازوں، ٹانگیں اور پاؤں بھی بری طرح سے جھلس گئے تھے اور ان کے جسم کا رنگ کالا ہوچکا تھا۔
محمد ظفر نے دو شادیاں کی تھیں اور ان کے بارہ بچے ہیں۔ پہلی بیوی سے چار بچے جبکہ ان کے ساتھ گرفتار ہونے والی اہلیہ سے ان کے آٹھ بچے تھے جن میں سے اب ایک اس دنیا میں نہیں رہیں جبکہ ایک بیٹی شادی شدہ ہیں۔
باقی دس بچے جن کی عمریں دو سال سے پندرہ سال کے درمیان ہیں گھر پر ہیں اور فی الوقت ان بچوں کی دیکھ بھال ان کے عزیز کرتے ہیں۔

ربط
wr08.jpg


اپنی بیٹی کو اپنے ہی ہاتھوں تیزاب ڈالکر مارنے والے والدین۔ اب پچھتار ہے ہیں

انھیں ڈر تھا کہ بڑی بیٹی کی طرح چھوٹی بھی خراب کردار کی نہ نکل جائے

خراب کردار کا ڈر تھا تو کردار سازی کیوں نہ کی؟ مذہب اسلام کے سچے راستے پر کیوں نہ چلے اور اولاد کوکیوں نہ چلایا۔ دن رات انڈینز فلمیں اور ڈرامے دیکھ کر بیٹی غیر مردوں کو نہ دیکھے گی تو کیا جھاڑو چولھا کرے گی؟ کیا اپنی بیٹی کو انھوں نے قران مجید کو ترجمہ کے ساتھ پڑھوایا تھا۔ کیا کوئی حدیث کی کتاب بھی پڑھوائی تھی۔ غربت ان چیزوں کو کرنے سے تو نہیں روک سکتی۔ کیا خود بھی قران پر چلنے کی کوشش کی تھی یا خود بھی ٹی وی ڈرامے اور فلموں کے شیدا تھے؟

جو بو کر گندم کیسے کاٹ سکتے ہو؟
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
پوری قوم بلکہ مسلم امت کے لئے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔
اگر ابھی اس کی روک تھام کے لئے کچھ نہیں کیا گیا تو پھر صورتحال کچھ ایسی ہو گی بقولِ احمد فراز
بستیاں چاند ستاروں پہ بسانے والو
کرہ ارض پر بجھتے چلے جاتے ہیں چراغ
 
کتنے ظالم ہیں یہ لوگ۔

میرا بس چلے تو میں ان کو تیزاب میں ہی ڈبو کر مار ڈالوں۔

اگر اپ ایسا کریں گے تو اپ بھی وہی کریں گے جو انھوں نے کیا ہے۔

غلطی ان کی نہیں بلکہ پاکستان معاشرے کی ہے جو دیکھتا، سنتا اور اپناتا تو وہ ہے جو بالی وڈ میں ہوتا ہے اور چاہتا ہے ان کی اولاد بن جائے مکہ و مدینہ
 

arifkarim

معطل
مقامی پولیس اہلکار طاہر ایوب نے بی بی سی کو بتایا کہ اس لڑکی کے والد کو اس وقت غصہ آیا جب پیر کے روز انھوں نے اپنی بیٹی کو موٹر سائیکل پر سوار دو لڑکوں کو غور سے دیکھتے ہوئے پکڑا کیونکہ ان کے والدین کو شک تھا کہ ان کی بیٹی کے ان لڑکوں میں سے ایک کے ساتھ مراسم ہیں۔​
پولیس کے مطابق اس موقع پر وہ اپنی بیٹی کو گھر کے اندر لے کر گئے، انھیں مارا پیٹا اور پھر اور اپنی بیوی کی مدد سے اس پر تیزاب پھینک دیا۔​
اگر مرد عورت کو غور سے دیکھے تو عورت کو زبردستی حجاب پہنا دیا جاتا ہے۔ چونکہ یہاں لڑکی نے لڑکے کو غور سے دیکھا ہے تو مرد کو کیوں زبردستی حجاب نہیں پہنایا گیا؟ دونوں صورتوں میں قصوروار ہمیشہ لڑکی کیوں ہوتی ہے؟

محمد ظفر نے بی بی سی کو بتایا کہ گزشتہ ہفتے منگل کی شام کو ان کی بیٹی نےگھر کے سامنے ایک نوجوان کی طرف دیکھا تو اس نے بیٹی کو منع کیا تھا کہ وہ راہ چلتے لوگوں کو نہ دیکھا کرے۔’ میں نے پہلے بھی اسے (انوشہ) یہ کہا تھا کہ بڑی بیٹی کی وجہ سے ہماری بے عزتی ہوئی تھی اور ہم نہیں چاہتے کہ ہم دوبارہ ذلیل ہوں لیکن اس نے بات نہیں سنی۔‘​
تریپن سالہ محمد ظفر نے بتایا کہ رات گیارہ بجے کے قریب جب انوشہ پڑھ رہی تھی، تو میں نے اسے اپنے کمرے میں بلوایا۔ ’میں نے اس سے کہا کہ تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا اور میں نے اس کو دو تھپٹر مارے۔ اتنے میں میری بیوی نے تیزاب کی بوتل اس کے سر پر انڈیل دی۔‘​
اگر بڑی بیٹی نے اپنی مرضی سے کہیں شادی کر لی ہے تو اسمیں بے عزتی والی کیا بات ہے؟ ماں باپ کوتو خوش ہونا چاہئے کہ انکی اولاد اب اپنی زندگی خود اعتمادی کیساتھ گزار سکتے ہیں اور انکا محتاج نہیں رہے۔ یہ بھیانک تہذیب کہاں سے آگئی کہ لڑکا اور لڑکی اگر اپنی مرضی سے شادی کر لیں تو ماں باپ اسمیت پورے خاندان کی سڑی ہوئی ناک کٹ جاتی ہے؟
 
Top