e=mc2 (نظم از عاطف بٹ)

عثمان

محفلین
میرا خیال ہے کہ مجھے اس پر کافی کچھ پڑھنا پڑے گا کیونکہ میں نے ابھی تک ملٹی ورس پر "دست شفقت" نہیں پھیرا۔ چونکہ اس تھیوری میں عدم سے براہ راست کائناتیں وجود میں آ رہی ہیں، اس لئے فی الوقت یا مستقبل قریب میں میں اس پر بات نہیں کر سکوں گا کہ اسے پڑھتے ہوئے کافی وقت لگے گا اور ابھی میں اس یونیورس کے بارے طفل مکتب ہوں۔ یہ میری لاعلمی کا اعتراف ہے۔ البتہ ایک یونیورس تک محدود رہیں تو بات جاری رہے گی :)

میں بھی ان ضخیم موضوعات پر طفل مکتب ہی ہوں۔ :)
 

عثمان

محفلین
فی الحال دو کہکشاؤں کےایک دوسرے سے دور ہٹنے کی رفتار معلوم کرنے کے لئے Hubble کا قانون موجود ہے، اور حساب لگانے پر یہ رفتار روشنی کی رفتار سے کم بنتی ہے۔
ہبل کا قانون ایک پیرا میٹر واضح کرتا ہے جس کی مدد سے آپ کسی دو کہکشاؤں کے مابین فاصلے کا اندازہ کرتے ہیں۔
اب یہ منحصر ہے کہ آپ کن دو کہکشاؤں کی بات کر رہے ہیں۔ قریبی کہکشاؤں کی ہم سے دور جانے کی رفتار زیادہ تیز نہیں۔
البتہ بہت دور کی کہکشائیں ہم سے بہت تیزی سے دور جا رہی ہیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
ہبل کا قانون ایک پیرا میٹر واضح کرتا ہے جس کی مدد سے آپ کسی دو کہکشاؤں کے مابین فاصلے کا اندازہ کرتے ہیں۔
اب یہ منحصر ہے کہ آپ کن دو کہکشاؤں کی بات کر رہے ہیں۔ قریبی کہکشاؤں کی ہم سے دور جانے کی رفتار زیادہ تیز نہیں۔
البتہ بہت دور کی کہکشائیں ہم سے بہت تیزی سے دور جا رہی ہیں۔
آپ ریڈ شفٹ کی بات کر رہے ہیں؟

مجھے اس اتفاق پر حیرت ہوتی ہے کہ ہر کہکشاں ہم سے دور جا رہی ہے۔ حالانکہ ہم مرکز تو ہونے سے رہے۔ پھر دوسری طرف یہ پتہ چلتا ہے کہ چند ارب سال بعد اینڈرومیڈا اور ملکی وے ایک دوسرے سے ٹکرا جائیں گی :)
 

قیصرانی

لائبریرین
انفلیشن تھیوری میں ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ جہاں روشنی کی رفتار سے زیادہ تیز پھیلاؤ کا ذکر ہے تو یہ صرف خلا کے لئے ہے، مادے کے لئے نہیں، خاص طور پر کائنات کے ابتدائی دور میں، بگ بینگ کے کوئی 34- ^ 10 سیکنڈز کے اندر اندر۔
فی الحال دو کہکشاؤں کےایک دوسرے سے دور ہٹنے کی رفتار معلوم کرنے کے لئے Hubble کا قانون موجود ہے، اور حساب لگانے پر یہ رفتار روشنی کی رفتار سے کم بنتی ہے۔
یہ عمل تو 10 کی طاقت منفی 34 سے شروع ہو کر کہتے ہیں کہ دس کی طاقت منفی 32 سیکنڈ پر ختم ہو گیا تھا۔ اس وقت کئی کہکشائیں ایسی ہیں جو ہم سے کم از کم اسی ارب نوری سال دور موجود ہیں جبکہ کائنات کو بنے تیرہ اعشاریہ سات ارب سال ہوئے ہیں۔ اب وہ اتنی دور کیسے پہنچ سکتی ہیں؟ کافی کنفیوزنگ بات ہے

دوسرا کائنات کے پھیلاؤ کا عمل تو بعد کی بات ہے یہ دیکھیں کہ اتنی بڑی مقدار میں مادہ اتنے چھوٹے سے نقطے پر جمع کیسے ہوا؟
 

عثمان

محفلین
مجھے اس اتفاق پر حیرت ہوتی ہے کہ ہر کہکشاں ہم سے دور جا رہی ہے۔ حالانکہ ہم مرکز تو ہونے سے رہے۔ پھر دوسری طرف یہ پتہ چلتا ہے کہ چند ارب سال بعد اینڈرومیڈا اور ملکی وے ایک دوسرے سے ٹکرا جائیں گی :)
یہ منحصر ہے کہ کتنے فاصلے پر جا کر انفلیشن کی قوت کشش ثقل کی قوت پر غالب آتی ہے۔ یقینا ملکی وے اور ہمسایہ کہکشاں کے مابین فاصلہ اتنا نہ ہوگا کہ انفلیشن کی قوت کشش ثقل پر قابو پا سکے۔

یہ عمل تو 10 کی طاقت منفی 34 سے شروع ہو کر کہتے ہیں کہ دس کی طاقت منفی 32 سیکنڈ پر ختم ہو گیا تھا۔ اس وقت کئی کہکشائیں ایسی ہیں جو ہم سے کم از کم اسی ارب نوری سال دور موجود ہیں جبکہ کائنات کو بنے تیرہ اعشاریہ سات ارب سال ہوئے ہیں۔ اب وہ اتنی دور کیسے پہنچ سکتی ہیں؟ کافی کنفیوزنگ بات ہے​
انفلیشن کی قوت نے وقت کے محض انتہائی مختصر لمحے میں کائنات کا حجم اتنا وسیع کر دیا کہ وہ ہماری آبزرویبل یونیورس سے بھی کہیں زیادہ تھا۔ اسی ارب نوری سال دور کہکشاؤں کا نقطہ تخلیق انفلیشن کے مرہون منت اتنے فاصلے پر چلا گیا۔
آپ کنفیوژ اس لئے ہورہے ہیں کہ آپ کائنات کی عمر کو کائنات کے حجم سے کنفیوژ کر رہے ہیں۔ یہ راست متناسب نہیں۔
 

رانا

محفلین
ثابت شدہ سائنس کے مطابق مادہ روشنی یا نور کی رفتار کے 90 فیصد تک جا سکتا ہے اس سے زیادہ آگے نہیں کہ پر جل سکتے ہیں
دراصل سائنس کے مطابق جوں جوں رفتار روشنی کی رفتار کے قریب ہوتی جائے گی، مادے کا وزن بڑھتا جائے گا۔ 90 فیصد روشنی کی رفتار پر پہنچ کر مادہ اتنا بھاری ہو جائے گا کہ اسے حرکت میں رکھنے کے لئے موجود توانائی باقی نہیں رہے گی اور وغیرہ وغیرہ
آئن اسٹائن نے شائد وزن کی بجائے کمیت بڑھنے کی بات کی تھی۔ اگر میری یاداشت دھوکا نہیں دے رہی تو۔
 

رانا

محفلین
خیر مذہب اور سائنس کے ملاپ کا مسئلہ اتنا سادہ نہیں۔ اور نہ ہی اس سے کچھ حاصل ہوگا۔
دونوں کو الگ الگ رکھ کر ہی اپروچ کریں تو بہتر ہے۔ :)
عثمان ، قیصرانی صاحب اور zeesh بھائی
تھوڑی سی فرصت ملے تو اس کتاب کے باب چہارم کے درج زیل عنوانات کو اسٹڈی کیجئے گا۔
قرآن کریم اور کائنات
عنطراپی اور محدود کائنات
قرآن کریم اور غیر ارضی حیات
اسکے علاوہ باب پنجم اور ششم کا مطالعہ بھی دلچسپی کا باعث ہوگا۔

مجھے کیوں کہ اچھی لگی اس لئے آپ دوستوں سے شئیر کررہا ہوں۔ کہ سائنس اور مذہب کے ملاپ کے حوالے سے کچھ ڈسکس کیا گیا ہے۔ شئیرنگ کا مقصد کوئی نئی بحث کھولنا نہیں صرف آپ دوستوں کی دلچسپی کے حوالے سے ایک دوستانہ شئرنگ ہے۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
عائشہ عزیز ، ویسے اگر علی عباس جلالپوری کی پنجابی کتاب 'وحدت الوجود تے پنجابی شاعری' مل جائے تو وہ بھی پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے اس حوالے سے۔
بھیا پنجابی بکس پڑھنے کی کوشش کی ایک دو دفعہ لیکن مجھے لگتا ہے بولنے سے زیادہ پڑھنا مشکل ہے۔
 
اب چونکہ بات e=mc2 سے ہوتی ہوئی نظم اور پھر ایٹم کے سٹاپ پر پہنچنے کے بعد کہکشاوں تک جا نکلی ہے ، تو کوئی دوست بتانا پسند کرے گا کہ یہ ، Planet X یا NIBIRU کی کیا حقیقت ہے ، یا یہ ایک فرضی سیارہ ہے ؟

قیصرانی
عثمان
zeesh
 

سید ذیشان

محفلین
اب چونکہ بات e=mc2 سے ہوتی ہوئی نظم اور پھر ایٹم کے سٹاپ پر پہنچنے کے بعد کہکشاوں تک جا نکلی ہے ، تو کوئی دوست بتانا پسند کرے گا کہ یہ ، Planet X یا NIBIRU کی کیا حقیقت ہے ، یا یہ ایک فرضی سیارہ ہے ؟

قیصرانی
عثمان
zeesh
سائنس فکشن کہہ سکتے ہیں۔
 

عاطف بٹ

محفلین
ایک بار میرے ایک پڑھے لکھے بزرگ عزیز سے ان کے کسی ان پڑھ رشتے دار نے کافی دیر تک ان کی باتیں سننے کے بعد کہا، "بھا جی، بندے نوں ایڈا لَیق وی نئیں ہونا چاہی دا!"
میری نظم کے دھاگے میں جو انتہائی پُر مغز بحث آپ بزرگان (@قیصرانی ، عثمان ، رانا ، zeesh ، نمرہ ) نے چھیڑی ہے اس کے بعد میرا آپ سب سے یہی کہنے کو دل چاہ رہا ہے کہ "بندے نوں ایڈا لَیق وی نئیں ہونا چاہی دا!" :p ;) :)
 

نایاب

لائبریرین
E=mc2

آئن سٹائن کا یہ مشہور سا کلیہ ہے
کہ ای مساوی ایم سی اسکوئیر کے ہوتا ہے
یعنی مادہ نور کی چاہت میں
خود کو نور بنا سکتا ہے چاہے تو
بس اپنی رفتار بڑھانی ہے اس کو
اور یوں مادہ خود بھی نور ہی بن جاتا ہے

تیری میری پیار کہانی بھی کچھ ایسی ہے
یعنی تو اک نور کا پیکر ہے
اور میں مادہ، جو بس تجھ سا بننے کو
شب و روز رفتار بڑھائے جاتا ہے
واہہہہہہہہہہ
کیا خوب نظم کیا ہے سائنس اور روحانیات کو بٹ صاحب
فزکس سے تو انجان ہوں اس لیئے اس مساوات سے بھی تشریحی تعارف نہیں ہے میرا ۔
مادہ جب سفر میں ہو تو کیسے رگڑ کا شکار ہوتا ہے اور جل کر روشن لکیر بنتا ہے ۔
بچپن میں تارہ ٹوٹتے دیکھتے تو بڑے بزرگ بتاتے کہ شیطانوں کو گرز پڑ رہے ہیں ۔
کچھ بڑے ہوئے تو یہ شہاب ثاقب کا گرنا ٹھہرا ۔
میرے خیال سے آپ نے
" اس کائنات کی ازلی و ابدی اس پراسرار طاقت کو جو کہ " مادے اور توانائی " پر اثر انداز ہوتے اس کی حالت بدل دیتی ہے ۔
اپنی نظم کا استعارہ بناتے " انسانی " جسم خاکی میں مقید روح " سے کلام کیا ہے ۔ کہ اگر " بظاہر بے جان مادہ جب روشنی کی رفتار کا تعاقب کرتا ہے تو اس رفتار کو پاتے پاتے اپنا وجود جلا کر راکھ کر دیتا ہے ۔ اور اک شعلہ سے جل کر خود روشنی کی مثال ٹھہرتا ہے ۔
تو یہ جسم خاکی جو مادیت کی علامت ہے اگر روشنی بننا چاہے تو اسے اپنے مرکز نور کے اتباع میں اپنی خواہش نفس سے چھٹکارہ پانے کے لیئے کڑی ریاضت میں الجھنا لازم ہے ۔
 

عاطف بٹ

محفلین
واہہہہہہہہہہ
کیا خوب نظم کیا ہے سائنس اور روحانیات کو بٹ صاحب
فزکس سے تو انجان ہوں اس لیئے اس مساوات سے بھی تشریحی تعارف نہیں ہے میرا ۔
مادہ جب سفر میں ہو تو کیسے رگڑ کا شکار ہوتا ہے اور جل کر روشن لکیر بنتا ہے ۔
بچپن میں تارہ ٹوٹتے دیکھتے تو بڑے بزرگ بتاتے کہ شیطانوں کو گرز پڑ رہے ہیں ۔
کچھ بڑے ہوئے تو یہ شہاب ثاقب کا گرنا ٹھہرا ۔
میرے خیال سے آپ نے
" اس کائنات کی ازلی و ابدی اس پراسرار طاقت کو جو کہ " مادے اور توانائی " پر اثر انداز ہوتے اس کی حالت بدل دیتی ہے ۔
اپنی نظم کا استعارہ بناتے " انسانی " جسم خاکی میں مقید روح " سے کلام کیا ہے ۔ کہ اگر " بظاہر بے جان مادہ جب روشنی کی رفتار کا تعاقب کرتا ہے تو اس رفتار کو پاتے پاتے اپنا وجود جلا کر راکھ کر دیتا ہے ۔ اور اک شعلہ سے جل کر خود روشنی کی مثال ٹھہرتا ہے ۔
تو یہ جسم خاکی جو مادیت کی علامت ہے اگر روشنی بننا چاہے تو اسے اپنے مرکز نور کے اتباع میں اپنی خواہش نفس سے چھٹکارہ پانے کے لیئے کڑی ریاضت میں الجھنا لازم ہے ۔
نایاب بھائی، بےحد شکریہ اور میں واقعی منتظر تھا کہ ابھی تک آپ کی طرف سے تبصرہ نہیں ہوا میری نظم پر۔
 
Top