6 دسمبر - یوم سیاہ کے ساتھ اپنے اعمال کا محاسبہ بھی کریں

غفران ساجد قاسمی

6/ دسمبر 1992ء کا وہ سیاہ دن جس دن انسانیت کے دشمن اورمٹھی بھرنفرت کے پجاریوں نے انسانیت ،مذہب اوراخلاقیات کے تمام اصولوں،ضابطوں اوربندھنوں کوتوڑتے ہوئے اللہ کے گھرکوشہیدکردیا،تاریخ میں اسے بابری مسجدکے نام سے یادکیاجاتاہے۔بابری مسجدکی شہادت کاوہ منحوس دن ملت اسلامیہ ہندیہ کی تاریخ کاایک سیاہ باب بن چکا ہے جورہتی دنیاتک ملت اسلامیہ ہندیہ کوبالخصوص اورعالم اسلام کوبالعموم کچوکے لگاتارہے گا۔آج بابری مسجدکوشہیدہوئے تقریبا21/سال کاطویل عرصہ گذرچکاہے،اس عرصہ میں ہندوستانی تاریخ بہت الٹ پھیرکاشکارہوئی،جوکوئی بھی بالواسطہ یابلاواسطہ طورپربابری مسجدکی شہادت میں شریک تھااسے دنیامیں ہی تذلیل وتحقیرکاسامناکرناپڑا،بہت سے ایسے لوگ جوبابری مسجدکی شہادت کاایک اہم حصہ بنے تاریخ نے یہ دن بھی دیکھایاکہ اللہ نے انہیں ہدایت نصیب کی اوروہ توفیق خداوندی سے مشرف باسلام ہوئے اورآج مستقل طور پرمسجدوں کی تعمیرکاسامان کررہے ہیں،بابری مسجدکی شہادت جہاں ہندوستانی مسلمانوں کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہواکہ پوراہندوستان فسادات کی آگ میں جھلس پڑا، اور ہزاروں جانوں کے نقصان کے ساتھ ساتھ اقتصادی طورپرمسلمانوں کی کمرتوڑنے کی ہرممکن کوشش کی گئی،وہیں ہندوستانی سیاست کے لیے بھی اہم موڑ ثابت ہوااورایک ایسی سیاسی پارٹی جس نے ملک بھرمیں نفرت کی بیج بوئی تھی اسے بابری مسجد۔رام مندرتنازع کاوقتی طورپرفائدہ ہوااوروہ چندسالوں کے بعدمرکزمیں حکومت بنانے کے قابل ہوئی،لیکن جھوٹ،مکاری اورفریب کی بنیادوں پرکھڑی کی گئی یہ حکومت ریت کاگھروندہ ثابت ہوئی اورایک ہلکے جھٹکے نے اس کاکام تمام کردیا،یہ بابری مسجدکی شہادت کا ہی دلدوز سانحہ تھاکہ جس نے کانگریس کو بھی اس کی اوقات بتادی اورکانگریس کی طاقت کاایک بڑااورمضبوط حصہ سمجھاجانے والامسلمان کانگریس سے دورہوناشروع ہواجس کے نتیجہ میں کانگریس کی وہ حیثیت باقی نہ رہی جوکبھی نہرو،اندرااورراجیوکے زمانہ میں ہواکرتی تھی۔
تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتاہے کہ بابری مسجدکاتنازعہ آزادی سے تقریبا100/سال قبل 1857ء میں شروع ہواتھاجب انتہاپسندہندؤں نے یہ شوشہ چھوڑاکہ جس جگہ بابری مسجد کی تعمیرکی گئی ہے وہ دراصل رام کی جنم بھومی ہے ،لیکن اس وقت اس معاملہ نے زیادہ طول نہیں پکڑا۔بابری مسجدکومغل بادشاہ ظہیرالدین محمدبابرکے ایک خاص مصاحب میرباقی کے حکم سے 1528ء میں اجودھیامیں تعمیرکی گئی تھی اورظہیرالدین محمدبابرکے نام سے اس کومنسوب کیا گیا۔تاریخ نگاروں کے مطابق بابری مسجدکی تعمیرسے لے کرآزادی کے بعد1949ء تک باضابطہ طورپرمسجدمیں پنج وقتہ نمازکے علاوہ جمعہ کی نمازبھی ہوتی تھی،لیکن 1949ء کے دسمبر کی 22۔23 کی درمیانی شب میں کچھ شرپسندوں کے ذریعہ مسجدمیں مورتی رکھ دیے جانے کے بعدسے پھرنمازوں کاسلسلہ بندہوا۔مؤرخین کے مطابق اجودھیامیں سب سے پہلے1855ء میں ہنومان گڑھی سے متعلق تنازعہ کھڑا ہوا،ہنومان گڑھی میں ہندو بیراگیوں نے ڈیراڈال رکھاتھا،مسلمانوں نے شاہ غلام حسین کی قیادت میں ان بیراگیوں کووہاں سے نکالناچاہالیکن اس میں کامیاب نہ ہوسکے،یہ تھااجودھیامیں ہندومسلم کے درمیان پہلاتنازعہ،لیکن پھربھی یہ تنازعہ بابری مسجدکے لیے نہیں ہوا تھا۔ اس واقعہ کے ٹھیک دوسال بعد1857ء میں ہنومان گڑھی کے مہنت نے مسجدکی کچھ زمین پرقبضہ کرکے ایک چبوترہ بنالیاجس کے خلاف مولوی محمداصغرنے ایک مقدمہ دائرکیاجس کافیصلہ برٹش جج نے اس طرح کیاکہ درمیان میں ایک دیوارکھڑی کردی اور دونوں کواس جگہ عبادت کرنے کی اجازت دی اورکہاکہ مشرقی دروازہ سے ہندو داخل ہوں گے اورشمالی دروازہ سے مسلمان داخل ہوں گے،اس فیصلہ سے بہت حدتک بات یہ سمجھ میںآتی ہے کہ برٹش گورنمنٹ کایہی وہ متنازعہ فیصلہ تھاجس نے ہندوؤں کواتناجری کردیا کہ ان لوگوں نے بالآخر6/دسمبر1992ء کواس تاریخی اہمیت کی حامل بابری مسجدکوشہید کردیا۔ اگر اسی وقت برٹش حکومت اس مسئلہ کوحل کردیتی تو شایدہندوستانی تاریخ میں اس سیاہ باب کااضافہ نہ ہوا ہوتا،اس فیصلہ کے مضمرات کودیکھنے سے بہت حدتک یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ برٹش حکومت کی منشاء ہی یہی تھی کہ انہیں مذہبی جذبات کے نام پراس طرح بھڑکادیاجائے کہ انہیںآپس میں لڑنے سے فرصت ہی نہ ملے کہ وہ ہماری طرف متوجہ ہوں اورہم "لڑاؤ اور حکومت کرو"والی پالیسی کے تحت حکومت کرتے رہیں،ظاہرسی بات ہے کہ انگریز یہ جانتے تھے کہ اگرانہیں ہندوستان سے کوئی بھگاسکتاہے تووہ صرف اورصرف مسلم قوم ہے،اسی وجہ سے انہوں نے "لڑاؤ اور حکومت کرو"کی پالیسی بناکرہندوستانی مسلمانوں کوکہیںآپسی فرقہ بندی کے فروعی مسائل میں الجھاکر، کہیں ہندو مسلم مذہبی جذبات کو برانگیختہ کرکے آپس میں لڑاتے رہے اوروہ چین سے حکومت کرتے رہے،اس وقت بہت سارے فرقے ایسے ہیں جن کی بنیاداسی برٹش دورحکومت میں پڑی جس کی طویل داستان ہے۔یہ تنازع چلتارہایہاں تک کہ ملک آزادہوگیا،انگریزچلے گئے لیکن اپنے پیچھے ایسی بیج بوگئے جس کا پھل بعدمیں ہندوستان کے ہرباشندہ کو چکھنا پڑا،بابری مسجد میں نمازکاسلسلہ اسی طرح چل رہاتھاکہ 1949ء میں 22 ۔23دسمبرکی درمیانی شب میں کچھ شرپسندہندوؤں نے مسجدکے بیچ میں محراب کے پاس مورتی رکھ دی، یہی وہ وقت تھا جب حکومت کوایک موقع ہاتھ آیااوراس نے اسے متنازع مقام قراردے کرتالاڈلوادیااوراس طرح ایک آبادوشادمسجدکچھ شرپسندعناصرکی شرپسندی کی وجہ سے ہمیشہ ہمیش کے لیے بندکردی گئی۔
تاریخ نے اپنے دامن میں ہزاروں ایسے شواہدچھپارکھے ہیں جس سے صاف ظاہرہوتاہے کہ بابری مسجدکاتنازعہ کوئی مذہبی تنازعہ نہیں تھابلکہ کچھ شرپسندعناصرکی سوچی سمجھی سازش تھی جس کے ذریعہ وہ سیاسی فائدہ اٹھاناچاہتے تھے،اگریہ مذہبی معاملہ ہوتاتوجس زمانے میں مسجدکے اندرمورتی رکھی گئی اس وقت اس کے خلاف آوازاٹھانے والوں میں ایک غیرمسلم بھی تھے جوضلعی کانگریس کے ذمہ داراورگاندھی کے پیروکاروں میں تھے انہوں نے اس واقعہ کے خلاف مرکزوریاست کوخطوط لکھے،ساتھ ہی وہ اس کے لیے غیرمعینہ مدت تک بھوک ہڑتال پربیٹھ گئے،لیکن نہ تومرکزی حکومت اورنہ ہی ریاستی حکومت نے اس تنازع کاایماندارانہ تصفیہ کرنے کی کوشش کی بلکہ اس وقت کے ضلع مجسٹریٹ نے استعفیٰ دے کراپنے آپ کوالگ کرلیااورمسجدکومسلمانوں کے لیے توبندکردیاگیالیکن پوجاپاٹ اہتمام سے ہوتارہا،اوربالآخر40/سالوں بعدوہ منحوس گھڑی آگئی جس میں مٹھی بھرنفرت کے پجاریوں اورانسانیت ومذہب کے دشمنوں نے ساڑھے 4/سوسالہ قدیم تاریخی مسجدکوشہیدکردیا۔اس واقعہ سے ایک بات روزروشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کاکوئی دوست نہیں ہے اورنہ ہی خیرخواہ ہے،اگرملک کے رہنماؤں کوذرابھی اس اقلیت کے احساسات اورجذبات کاپاس ولحاظ ہوتاتووہ اس مسئلہ کواسی وقت حل کرلیتے جب کہ مسئلہ نے جنم لیاتھانہ کہ اسے پنپنے اوربڑھنے کے لیے چھوڑدیتے تاکہ ایک ایشوزندہ رہے جوتمام سیاسی جماعتوں کوہرانتخاب میں غذائیت پہونچاتارہے،آزادہندوستان کی تاریخ کایہ سیاہ باب ہے جورہتی دنیاتک اس ملک کے رہنماؤں کی منافقت کوبیان کرتارہے گا۔2010ء میں الٰہ آبادہائی کورٹ کی لکھنؤ بینچ کے فیصلہ نے یہ ثابت کردیا کہ ملک کی عدلیہ بھی مسلمانوں کے معاملہ میں تعصب کاعینک لگاکرفیصلہ صادرکرتی ہے،اورحالیہ دنوں میںیوپی کے اٹارنی جنرل نے توحدکردیاکہ اب مسلمانوں کے لیے بابری مسجدکوبابری مسجد کہنابھی جرم قرارپایا،گویاکہ مسلمان ہرطرف سے مظلوم ہے اوراس کے لیے وہ بہت تک خودبھی ذمہ دارہے۔
ہندوستان کی تاریخ ببانگ دہل یہ ثابت کرتی ہے کہ مسلمانوں کے دورحکومت میں کبھی بھی اورکہیں بھی کسی ادنیٰ رعایاپرظلم نہیں کیاگیا،چہ جائے کہ کسی غیرمسلم کواس لیے پریشان کیا گیاہوکہ وہ مسلمان نہیں ہے،ایسی کوئی تاریخ دستیاب نہیں ہے،چندمتعصب مؤرخین نے اورنگ زیب عالمگیرؒ کو ہندوؤں کامخالف بتایاہے جب کہ حقیقت سے وہ کوسوں دور ہے، اورنگ زیب عالمگیرؒ توانتہائی نیک اورعادل بادشاہ تھے ان سے اس طرح کے سلوک کاتصورہی نہیں کیاجاسکتا،تاریخ کے صفحات پرمغلیہ سلطنت کے بانی ظہیرالدین محمد بابر کی اپنے بیٹے ہمایوں کویہ نصیحت سنہرے الفاظ میں درج ہے کہ:"ہندوستان میں کوئی ایساقدم نہ اٹھایاجائے جس سے ہندوؤں کی دل آزاری ہو،یہاں تک کہ گائے بھی ذبح نہ کی جائے،اورہندوؤؤں کی عبادت گاہوں کااحترام کیاجائے۔"غورکریں بابرکے یہ الفاظ اورموازنہ کریں اس متعصب ذہنیت کاکہ بھلاایسابادشاہ جوغیرمسلم رعایاکااس درجہ خیال رکھتاہوکہ ذبیحہ گاؤسے منع کرتاہوبھلاوہ کیسے کسی مندرکوڈھاکراس پرمسجدتعمیرکرنے کاحکم دے سکتاہے۔
بہرحال!ایک بارپھرہمارے سامنے وہ سیاہ دن 6/دسمبرہے،یقینایہ دن تمام مسلمانوں کے لیے یوم سیاہ کی حیثیت رکھتاہے،ہروہ مسلمان جس کے دل میں ادنیٰ درجہ کابھی ایمان ہوگاوہ اس دن کویوم سیاہ سے تعبیرکرے گا،لیکن کیاکبھی ہم نے یہ بھی غورکیاہے کہ ایک مسجدجوکہ ہماری بداعمالیوں کی وجہ سے شہیدکردی گئی ،اس کے علاوہ ابھی بھی نہ جانے کتنی مساجدہیں جوغیرآبادہیں،تقسیم ہندوپاک کے وقت جب پنجابی مسلمان ہجرت کرکے پاکستان چلے گئے تووہاں کی سیکڑوں مساجدپرغیروں نے قبضہ کرلیا،الحمدللہ ان مساجدکی بازیافت کی کوششیں جاری ہیں اورابھی بھی بہت ساری مساجدہیں جوان کے قبضہ میں ہیں،6/دسمبرکادن ہمیں اس طرف بھی غوروفکرکی دعوت دیتاہے کہ جومساجدابھی غیروں کے قبضہ میں ہیں انہیںآزادکرانے کی مخلصانہ کوشش کی جائے،اسی طرح ایسی بہت ساری مساجدہیں جومقبوضہ تونہیں ہیں لیکن ہماری غفلت اوربے راہ روی کی وجہ سے وہ غیر آباد ہیں،ہمارے لیے یہ محاسبہ کادن ہے کہ ہم ان مساجدکواپنی نمازوں اورتلاوت سے آبادکریں تاکہ ہندوستان میں پھرکوئی دوسری مسجدبابری مسجدنہ بن سکے۔اس وقت ملک کے حالات بڑے نازک ہیں،مسلمان کی جان ومال اورعزت وآبرومحفوظ نہیں ہے،ہمیں ان سیاسی جماعتوں کے وعدوں اوردعوؤں پربھروسہ کرناچھوڑناہوگااورہمیں خوداپنے آپ پر اوراپنے اللہ پربھروسہ کرناہوگا،ہمیں اپنی مساجدکوآبادکرناہوگاتبھی ہم اس ملک میں عزت کی زندگی گذارسکیں گے،ورنہ اگرہم نے اپنی مددآپ کافارمولانہیں اپنایا،اللہ اوراس کے رسول کے احکامات پرعمل نہیں کیاتوپھروہ دن دورنہیں کہ ہرعلاقہ میں بابری مسجدکی تاریخ دوہرائی جائے گی اورپھراس ملک میں مسلمانوں کے لیے عرصۂ حیات تنگ سے تنگ تر کردیاجائے گا،لہٰذا6/دسمبرکوجہاں ہم یوم سیاہ مناتے ہیں وہیں ہم اپنامحاسبہ بھی کریں تبھی اللہ ہماراحامی ومددگارہوگا۔
ماخوز از:http://www.taemeernews.com/2013/12/6-December-black-day-analyze-your-actions.html
 

ابن رضا

لائبریرین
بے شک خود احتسابی بہت ضروری ہے

مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی تھا برسوں میں نمازی بن نہ سکا
 

زیک

مسافر
ہندوستان کی تاریخ ببانگ دہل یہ ثابت کرتی ہے کہ مسلمانوں کے دورحکومت میں کبھی بھی اورکہیں بھی کسی ادنیٰ رعایاپرظلم نہیں کیاگیا،چہ جائے کہ کسی غیرمسلم کواس لیے پریشان کیا گیاہوکہ وہ مسلمان نہیں ہے،ایسی کوئی تاریخ دستیاب نہیں ہے،چندمتعصب مؤرخین نے اورنگ زیب عالمگیرؒ کو ہندوؤں کامخالف بتایاہے جب کہ حقیقت سے وہ کوسوں دور ہے، اورنگ زیب عالمگیرؒ توانتہائی نیک اورعادل بادشاہ تھے ان سے اس طرح کے سلوک کاتصورہی نہیں کیاجاسکتا
واقعی؟؟

تقسیم ہندوپاک کے وقت جب پنجابی مسلمان ہجرت کرکے پاکستان چلے گئے تووہاں کی سیکڑوں مساجدپرغیروں نے قبضہ کرلیا،الحمدللہ ان مساجدکی بازیافت کی کوششیں جاری ہیں
جب مسلمان وہاں پنجاب سے چلے گئے تو اب ان مساجد کا کیا مقصد؟
 
Top