تبصرہ کتب 20 نومبر 2011 - کتابوں کا اتوار بازار-ایک تعارف، ایک تبصرہ

Rashid Ashraf

محفلین
20 نومبر 2011 - کتابوں کا اتوار بازار-ایک تعارف، ایک تبصرہ

کتابوں کے اتوار بازار میں 20 نومبر 2011 کی صبح ہمیشہ کی طرح اپنے جلو میں گہماگہمی سمیٹے مسرت سے بھرپور طلوع ہوئی۔ اس مرتبہ قسمت بھی مہربان رہی اور اس سے زیادہ ایک رفیق مہربان ہوئے۔ آپ ایک بزرگ سرکاری ملازم ہیں، نام قیصر ہے، مزاج و اطوار میں نہ قیصر ہیں نہ ہی کسری ہیں, کتابوں کے دلدادہ، خودنوشت، خاکے اور سفرنامے، ان تین اصناف ادب پر ہماری طرح جان چھڑکنے والے!

اس روز خریدی جانے والی دو عدد کتابیں ایسی ہیں جو خاکہ نگاری کی صنف کی اہم کتابیں کہلاتی ہیں۔ مقبول جہانگیر کی یاران نجد اور رئیس احمد جعفری کی دید و شنید، یہ دونوں خاکوں کے مجموعے ہیں۔ قیصر صاحب گزشتہ دس برس سے دید و شنید کی تلاش میں تھے
ایک اصول کی بات یہ ہے کہ بازار میں جس کی نظر کتاب پر پہلے پڑے اور جو لپک کر اسے ہاتھ میں تھام لے، کتاب اسی کی ہوتی ہے، قیصر صاحب نے دید و شنید کی جانب توجہ مبذول کروائی، قیمت زیادہ تھی، انہوں نے بھاؤ تاؤ کا معاملہ مجھ پر چھوڑ دیا، اسی لمحے انسان کی فطری خودغرضی غالب ہوئی، کہہ بیٹھا کہ آپ کی اجازت ہو تو اسے میں خرید لوں ? وہ مروت کے مارے کیا کہتے، کمزور سے لہجے میں کہا "کیوں نہیں
بعد ازاں خیال آیا کہ یہ تو گستاخی ہوگئی، سو اس بددیانتی کا حل یہ سوچا کہ اس کی فوٹو کاپی بنوا کر قیصر صاحب کو اصلی کتاب پیش کردوں گا۔ جھینپ مٹانے کے لیے ان کی توجہ ظفر اللہ پوشنی کی کتاب "دوڑتا چلا گیا" کی جانب کرائی اور قیصر صاحب اس طرف کو "دوڑتے چلے گئے"

1
دید و شنید
خاکوں کا مجموعہ
رئیس احمد جعفری
دیباچہ: ڈاکٹر تحسین فراقی
ناشر: رئیس احمد جعفری اکیڈمی، کراچی
سن شاعت: 1987
صفحات: 373
رئیس احمد جعفری
پیدائش: 18 نومبر 1908
وفات: 27 اکتوبر 1968، لاہور
تدفین: سوسائٹی قبرستان، کراچی
گزشتہ دنوں پاکستان کے مشہور ماہر معاشیات ڈاکٹر عزیر سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا، دوران گفتگو انہوں نے بتایا کہ رئیس احمد جعفری ان کے قریبی رشتہ دار تھے، جعفری صاحب خود کو "حیوان کاتب" کہتے تھے۔

فیس بک پر اس کتاب کا تعارف شامل کرنے کی دیر تھی کہ احباب کے تقاضوں کی بھرمار ہوگئی، کوئی حضرت نوح ناروی کا خاکہ پڑھنا چاہتے تھے تو کسی نے مہاراجہ گوالیار کے خاکے کی فرمائش کی۔
کتاب میں درج خاکوں کو بہ ترتیب حروف تہجی بانٹا گیا ہے، 110 کے لگ بھگ خاکوں کو جن عنوانات کے تحت شامل کیا گیا ہے وہ یہ ہیں
:
مجاہدین صف شکن، علمائے کرام، صوفیہ عظام، رہنمایان ملت، کانگریس کے عبد و معبود، کمیونسٹ پارٹی کے رہنما، ارباب آئین و قانون، ماہرین تعلیمات، اصحاب ادب، شعرائے عصر، حکمائے حاذق، ممالک غیر کے سفرا، امرائے ذی وقار، کھلنڈرے اور دختران ملت۔

2
یاران نجد
مشاہیر ادب کے خاکے
مقبول جہانگیر
نسیم بک ڈپو، کچہری روڈ لاہور
سن اشاعت: اگست 1976
صفحات: 176
باز گو از نجد و از یاران نجد
تا در و دیوار را آ ر ی بوجد
اونٹ جب ہمیں تیز رفتاری سے مینفہ (چشمہ بنی تیم) اور ضمار (گاؤں) کی طرف لے جارہا تھا، تب میں نے اپنے ساتھی سے کہا: اعرار نجد (زرد رنگ کا ایک خوشبوردار پھول جو رات کی رات کھلتا ہے اور صبح ہونے تک مرجھا جاتا ہے) سے دل کھول کر لطف اندوز ہولے کیونکہ اس رات کے بعد اس کا ملنا محال ہے، نجد کے پھولوں کی مہک کس قدر نفیس ہے اور باش ہونے کے بعد اس کے گلستانوں کی رونق کتنی تر و تازہ ہے، نجد کے باسی محبت اور احترام کے لائق ہیں، اس کی فضا آنے والوں کے لیے بہترین ہے۔ یہاں آکر زمانے کی برہمی کا شکوہ ممکن نہیں، مہینے پر مہینے گزر رہے رہے ہیں، عیش و لطف کے باعث ہمیں آدھی رات اور پچھلے پہر کا پتہ نہیں چلتا کہ کب گزر گئے، ان مہینوں کی راتیں لاجواب راتیں ہیں اور ان کے دن نہایت چھوٹے ہیں۔" (یاران نجد)

اس سے قبل اپنے پسندیدہ مصنف مقبول جہانگیر کی اس کتاب سے واقف نہ تھا، شکاریات کے موضوع کے علاوہ ان کی مرتب کردہ ایک کتاب "یاد شاہد" (شاہد احمد دہلوی پر لکھے گئے خاکوں/یاداشتوں کا مجموعہ) نظر سے گزری تھی لیکن یاران نجد کو سرسری دیکھ کر اندازہ ہورہا ہے کہ مقبول جہانگیر ایک بہترین خاکہ نگار بھی تھے، کتاب کا اسلوب ایسا ہے کہ نصر اللہ خان کی خاکوں کی مشہور کتاب "کیا قافلہ جاتا ہے" کی برابری کرتا نظر آتا ہے

کتاب میں دیوان سنگھ مفتوں کا خاکہ بھی شامل ہے، دیوان صاحب سے مقبول جہانگیر کی صاحب سلامت دلی سے تھی، اس وقت مقبول صاحب نوعمر تھے اور ان کے ماموں کی دکان پر دیوان سنگھ کا اخبار ریاست فروخت کے لیے رکھا جاتا تھا۔ مقبول جہانگیر بلی ماراں میں کے ایک اسکول میں چوتھی جماعت میں پڑھتے تھے، ان کے ایک ہندو ہم جماعت پھول کا گھر محلہ چرخے والا میں تھا، اس محلے میں دیوان سنگھ مفتوں کا دفتر واقع تھا۔ مقبول جہانگیر اکثر دیوان سنگھ سے ملاقات کی غرض سے جایا کرتے تھے

تقسیم ہند کے مقبول جہانگیر لاہور آگئے اور 1960 میں دیوان سنگھ مفتوں سے ان کی ملاقات اس وقت ہوئی جب دیوان سنگھ، صدر ایوب خان کی دعوت پر پاکستان آئے اور لاہور میں واقع "نیڈوز ہوٹل" میں ٹھہرے، وہاں سے مقبول جہانگیر کو پیغام بھیجا کہ آ کر ملو۔ مقبول صاحب ہوٹل پہنچے اور دیوان سنگھ مفتوں کو دیکھ کر حیران رہ گئے،ان کے سامنے ہڈیوں کا ایک پنجر کھڑا تھا، انہوں نے اپنی نوعمری کے زمانے میں دیوان سنگھ کو قابل رشک صحت کے ساتھ دیکھا تھا، دیواں صاحب نے مقبول جہانگیر کو گلے لگالیا اور رونے لگے، مقبول جہانگیر کی آنکھیں بھی برس پڑیں۔

لیجیے وفیات اہل قلم سے مقبول جہانگیر کے بارے میں معلومات مل گئیں
مقبول جہانگیر (مقبول الہی)
پیدائش: 24 جنوری 1928 (سن پیدائش وہی جو ابن صفی صاحب کا تھا)
وفات: 24 اکتوبر 1985
یہ کتاب مقبول جہانگیر نے اخلاق احمد دہلوی کو 1976 میں تحفتا" پیش کی تھی، اندرونی صفحے پر لکھا پے
حضرت اخلاق احمد دہلوی کی نذر
مقبول جہانگیر
آٹھ نومبر 1976

حیران ہوں کہ 35 برس بعد یہ لاہور سے کراچی کیسے پہنچی
اخلاق دہلوی کی انتقال 1992 میں لاہور میں ہوا تھا۔ مقبول جہانگیر اور اخلاق دہلوی، دونوں ہی لاہور کے باسی تھے!

یہ دراصل مقبول جہانگیر کی ان تحریروں کا مجموعہ ہے جو روزنامہ امروز لاہور کے ہفتہ وار ایڈیشن میں جنوری 1974 سے جولائی 1974 تک بقول مقبول جہانگیر قلم برداشتہ یا دل برداشتہ لکھی گئیں۔ جن شخصیات پر خاکے لکھے گئے ان میں سے اکثر ایسے ہیں جو لاہور سے سینکڑوں میل دور پیدا ہوئے لیکن لاہور کی خاک انہیں وہاں کھینچ لے گئی
مقبول جہانگیر اس کتاب کے مرتب کیے جانے کے سترہ اٹھارہ برس قبل سے ، مہمات اور ہیبت ناک افسانوں کے علاوہ شکاریات پر کہانیاں ترجمہ کررہے تھے، یہ خاکے پڑھ کر یقین نہیں آتا کہ یہ وہی مقبول جہانگیر ہیں کہ ایسی بے داغ ادبی تحریروں کے مالک بھی ہوسکتے ہیں
یاران نجد میں ان شخصیات کے (یا ان سے متعلق) خاکے/یاداشتیں شامل ہیں:
احسان دانش،اشرف صبوحی،امتیاز علی تاج ،حبیب اشعر،حسن عباس،حفیظ جالندھری،حمید احمد خان،دیوان سنگھ مفتون،رئیس احمد جعفری،سراج نظامی،صلاح الدین احمد،عبدالرحمن چغتائی،عبدالعزیز خالد،عبدالمجید عتیقی،محمد طفیل،منصور الحق صدیقی

3- مولانا صلاح الدین احمد-شخصیت اور فن
مرتبین: وزیر آغآ/انور سدید
ناشر: انجمن ترقی اردو پاکستان
سن شاعت: 1990

4- ہماری منزل
ہماری منزل (انگریزی کی غالبا پہلی ایسی خودنوشت جس کا عنوان رومن اردو میں درج ہے)
خودنوشت
سید ہاشم رضا
ناشر: مصطفین مرتضین پرائیوٹ لمیٹڈ کراچی
سن اشاعت: 1991
صفحات: 669
سید ہاشم رضا
بیوروکریٹ
کراچی کے اولین منتظم اعلی - 1948 - 1951
پیدائش: 16 فروری 1910
وفات: 30 ستمبر 2003
تدفین: کراچی ڈیفنس قبرستان
 
Top