تبصرہ کتب 1984 از جارج آرویل

یاز

محفلین

یہ ایک غیرمعمولی ناول ہے، جس کو نقاد حضرات بیسویں صدی میں لکھے گئے فکشن کی بہترین کتابوں میں شمار کرتے ہیں۔بلاشبہ جارج آرویل اپنے وقت کا اور اپنی نوعیت کا انوکھا جینئس ترین انسان تھا۔ اپنے محدود مطالعے کی وجہ سے میں یہ سمجھنے میں خود کو حق بجانب پاتا ہوں کہ عہدِ حاضر یا ماضی قریب میں جارج آرویل جیسا کوئی دوسرا شخص شاید ہی پیدا ہوا ہو۔

جارج آرویل نے یہ ناول انیس سو پچاس میں لکھا تھا۔ ناول کی سیٹنگ اس وقت کے حساب سے مستقبل یعنی انیس سو چوراسی کا زمانہ ہے۔ اور مزید سیٹنگ کچھ یوں ہے کہ دوسری جنگِ عظیم یا کسی بڑی سی جنگ و جدل کے بعد عالمی منظرنامہ کچھ یوں ہے کہ دنیا میں تین ہی بڑے بڑے ملک ہیں، جن کو سپر سٹیٹس کہا گیا ہے۔ ان کے نام یہ ہیں

یوریشیا
ایسٹیشیا
اوشیانا

ناول کا مرکزی کردار اوشیانا کا باشندہ ہے۔ اوشیانا بنیادی طور پہ مغربی یورپ (انگلینڈ، فرانس وغیرہ) اور امریکہ سے مل کے بنا ہے۔ اور ناول کے مطابق یہاں انگلش سوشلزم یعنی اینگساک کا نظام قائم ہے۔

یہ تو ہوئی ناول کی سیٹنگ، لیکن سب سے زیادہ دل ہلا دینے والی جو بات اس میں بیان کی گئی ہے کہ کیسے یہ ریاست اپنے باشندوں کی دماغی دھلائی یعنی برین واشنگ کا سامان کرتی ہے۔ ریاست میں منسٹری آف ٹرتھ کے نام سے ایک بہت بڑا ادارہ قائم ہے جو کہ صرف اور صرف تاریخ اور حالات و واقعات کو حسبِ ضرورت تبدیل کرنے کا کام سر انجام دیتا ہے۔ جیسے ایک منظرنامہ یوں ہے کہ اوشیانا ہمیشہ دوسری سٹیٹس میں سے ایک کے ساتھ اتحاد کر کے دوسری کے خلاف جنگ میں مصروف ہوتا ہے۔ اور یہ اتحاد اور جنگ والی ریاستیں ہر کچھ سال بعد بدل جاتی ہیں۔ یعنی اگر ابھی ایسٹیشیا کے ساتھ مل کر یوریشیا کے خلاف جنگ ہے تو ہو سکتا ہے کہ اگلے سال یوریشیا کے ساتھ مل کر ایسٹیشیا کے خلاف جنگ ہونے لگے۔ ایسے وقت میں منسٹری آف ٹرتھ فوری طور پہ تمام کتابوں میں تبدیلی کر کے اس طرح کی بات شامل کر دیتا ہے کہ اوشیانا ہمیشہ ہمیشہ سے اس ریاست کے ساتھ جنگ کر رہا ہے۔ ریاست کے سربراہ نے گزشتہ کچھ عرصے میں حریف ریاست کے خلاف جو بیانات دیئے ہوتے ہیں، ان کی تمام فائلز میں دشمن بدل جانے کے بعد فوری طور پہ تبدیلی کر کے دوسری ریاست کا نام ڈال دیا جاتا ہے۔
اسی طرح جنگی بحران کی وجہ سے اگر کسی چیز کے راشن سکیل میں کمی کر دی جائے تو فوری طور پہ ماضی کے تمام ریکارڈ میں ایسی تبدیلی کر دی جائے گی کہ موجودہ کم شدہ سکیل اضافہ شدہ نظر آئے۔ یعنی اگر چینی کا سکیل 100 گرام سے کم کر کے 80 گرام کر دیا گیا، تو خبر کچھ یوں ہو گی کہ حکومت نے چینی کا سکیل 60 گرام سے بڑھا کر 80 گرام کر دیا ہے۔ عوام اس پہ شاداں و فرحاں وغیرہ ہیں اور مختلف جگہوں پہ جشن اور تشکرانہ جلوسوں کا سماں ہے۔

الغرض اس طرح کی بہت سی مثالیں اور واقعات اس ناول میں بیان کئے گئے ہیں کہ کیسے ریاستی سطح پہ سچ کا کلا دانستہ طور پہ گھونٹا جاتا ہے۔

اور سب سے کمال بات جو مجھے پسند آئی، وہ یہ کہ مصنف نے بیان کیا کہ کیسے حکومت نے کچھ مخصوص الفاظ ڈکشنری اور کتابوں وغیرہ سے یکسر ختم کر دیئے۔ اس کے پیچھے یہ لاجک دکھائی گئی کہ جو لفظ موجود ہی نہیں ہو گا، تو اس کی بابت لوگوں کی سوچ بھی نہیں جائے گی۔ جیسے بدعنوانی یا دھاندلی کا لفظ ختم کر دیا جائے تو بہت سے لوگ ان چیزوں کی بات سوچنے یا بات کرنے سے ہی قاصر ہو جائیں گے۔ سوچیں یہ بہت گہری بات ہے۔

المناک بات یہ ہے کہ اس سے ملتا جلتا کام ہمارے ہاں بھی ہوتا رہتا ہے۔ خصوصا" نصابی کتابوں میں جھوٹ کو ایسا بھر بھر کے ٹھونسا جاتا ہے کہ جب تک بندہ اس جھوٹ کو پڑھ کے گریجویٹ یا پوسٹ گریجویٹ ہو چکتا ہے، اس کو اس پہ ایسا یقینِ کامل ہو چکا ہوتا ہے کہ اس کے خلاف ہر بات کو مکمل جھوٹ اور ملک و ملت و مذہب سے غداری قرار دینے میں ایک منٹ نہیں لگاتا۔
ہمارے ایک گمنام ٹائپ لیکن پڑھے لکھے شخص کے کے عزیز نے مرڈر آف ہسٹری کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے، جس میں اسی المیے کی جانب توجہ دلائی ہے۔

جاوج آرویل کا ناول انیس سو چوراسی اور کے کے عزیز کی مرڈر آف ہسٹری میں کافی کچھ مشترک ہے۔ دونوں کتابیں پڑھ لی جائیں تو رونگٹے بھی کھڑے ہو سکتے ہیں۔

انیس سو چوراسی کے بارے میں مزید یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ یہ کوئی تھرلر قسم کا ناول نہیں ہے، بلکہ کافی بور اور خشک قسم کی چیز ہے۔ اس لئے اس کو پڑھنا کافی دشوار بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ تاہم حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ ناول زیادہ ضخیم نہیں ہے بلکہ صرف سو کے لگ بھگ صفحات (سوفٹ کاپی کے) پہ مشتمل ہے۔

جارج آرویل کے اس ناول کے مخصوص اندازِ بیاں اور اس میں بیان کیا گیا فلسفے نے ادب، سیاست اور سوشلزم وغیرہ کی دنیا میں ایسی شہرت پائی کہ "آرویلیئن" کے نام سے ایک اصطلاح بھی مروج ہو گئی ہے۔ جیسے کہا جائے کہ فلاں ملک میں آرویلیئن طرز کا نظامِ حکومت قائم ہے۔ اسی طرح ڈبل تھنک (یعنی دو خیالی) جیسی اصطلاحات نے بھی کافی شہرت پائی۔

جاوج آرویل ہی کا ایک اور ناول "اینیمل فارم" بھی بہت مشہور ہے، تاہم میں نے یہ ابھی تک نہیں پڑھا۔
1984-by-george-orwell-eye.jpeg

جارج آرویل
George-Orwell-radio_EDIIMA20140103_0413_4.jpg
 
آخری تدوین:

یاز

محفلین
کچھ لوگ شاید نہ جانتے ہوں کہ جارج آرویل بھارت میں پیدا ہوا۔ یہ ریاست بہار میں ایک چھوٹا سا بنگلہ (یا گھر) تھا جس میں 25 جون 1903 کو جارج آرویل پیدا ہوا۔ ذیل میں اس گھر کی حالیہ تصویر دیکھئے۔

گھر سے باہر جارج آرویل کے بارے میں بورڈ اور آرویل کے اوپری دھڑ کا مجسمہ بھی نصب کیا گیا ہے۔
GEORGE_ORWELL__1724374f.jpg


09orwell4.jpg
 
آخری تدوین:
ریاست میں منسٹری آف ٹرتھ کے نام سے ایک بہت بڑا ادارہ قائم ہے جو کہ صرف اور صرف تاریخ اور حالات و واقعات کو حسبِ ضرورت تبدیل کرنے کا کام سر انجام دیتا ہے۔
ویسے کم و بیش یہی کام آج کل الیکٹرانک میڈیا انجام نہیں دے رہا؟
 

یاز

محفلین
ویسے کم و بیش یہی کام آج کل الیکٹرانک میڈیا انجام نہیں دے رہا؟

تابش بھائی! میں ایسے ہی تو جنابِ جارج آرویل کی حمدوثنا میں رطب اللساں نہیں ہوا جا رہا۔ اس جینئس انسان نے 1950 میں اس پہلو کو آشکار کیا تھا یا اس کا تخیل کیا تھا، جس کو نصف صدی بعد لوگ ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔

orwell_quote_politics_large.jpg
 
آخری تدوین:

نمرہ

محفلین
انیس سو چوراسی اچھی ہے مگر مجھے اینیمل فارم زیادہ پسند آئی۔
ڈسٹوپئن فکشن کی صنف میں بریو نیو ورلڈ بہت اچھی کہانی ہےہکسلے کی۔
 

محمد وارث

لائبریرین
1984 میں نے نہیں پڑھی، اینیمل فارم پڑھی ہے اور اس کو پڑھ کر سوچا تھا کہ اس سے بہتر کتاب کوئی کیا بھی لکھے گا، کئی بار پڑھ چکا ہوں، ہر بار نئے انداز سے دل چھو لیتی ہے :)
 
Top