17 مارچ ۔۔۔۔ یوم وفات _ حضرت داغ دہلوی

مومن فرحین

لائبریرین
آج - 17؍مارچ 1905

بلبل ہند ، دبیر الدولہ ،فصیح الملک اور اردو کے سب سے مقبول ترین شاعر” حضرتِ داغؔ دہلوی صاحب “ کا یومِ وفات...

نام محمّد ابراہیم تھا، تخلص داغؔ لیکن وہ نواب مرزا خان کے نام سے جانے گئے۔ وہ ٢٥؍مئی ١٨٣١ء کو دہلی میں پیدا ہوئے، ان کے والد نواب شمس الدین والیٔ فیروز پور جھرکہ کے تھے

داغؔ کی ذہنی اور علمی تربیت قلعہ کے ماحول میں ہوئی۔ان کو اپنے وقت کی بہترین تعلیم دی گئی جو شہزادوں اور امراء کے لڑکوں کے لئے مخصوص تھی۔قلعہ کے رنگین اور ادبی ماحول میں داغؔ کو شاعری کا شوق پیدا ہوا اور انہوں نے ذوقؔ کی شاگردی اختیار کرلی ۔نوعمری سی ہی داغؔ کی شاعری میں نیا بانکپں تھا۔ان کے نئے انداز کو امام بخشؔ، صہبائی،غالبؔ اور شیفتہؔ سمیت تمام اہل علم نے سراہا اور ان کی حوصلہ افزائی کی۔١٥ سال کی ہی عمر میں انہوں نے اپنی خالہ عمدہ خانم کی بیٹی فاطمہ بیگم سے شادی کر لی۔

داغؔ ہی ایسے خوش قسمت شاعر تھے جس کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ان کے شاگردوں میں فقیر سے لے کر بادشاہ تک اور عالم سے لے کر جاہل تک ہر طرح کے لوگ تھے۔پنجاب میں علامہ اقبالؔ ، مولانا ظفر علی،مولوی محمد الدین فوقؔ اور یو پی میں سیمابؔ صدیقی ،اطہر ہاپوڑی،بیخودؔ دہلوی،نوحؔ ناروی اور آغا شاعرؔ وغیرہ سب ان کےے شاگرد تھے۔ داغ کو جو مقبولت اپنی زندگی میں ملی وہ کسی شاعر کو نہیں ملی۔

بقو ل غالب
” داغ کی اردو اتنی عمدہ ہے کہ کسی کی کیا ہوگی!ذوق نے اردو کواپنی گو دمیں پالا تھا۔ داغ اس کو نہ صرف پال رہا ہے بلکہ اس کو تعلیم بھی دے رہا ہے۔“
بقول نفیس سندیلوی، ” داغ فطر ی شاعر تھے وہ غزل کے لیے پیدا ہوئے اور غز ل اُن کے لیے ان کی زبان غزل کی جان ہے۔“

داغ کے زمانے میں زبان کی دو سطحیں تھیں ایک علمی اور دوسری عوامی غالب علمی زبان کے نمائندے تھے۔ اور ان کی شاعری خواص تک محدود تھی۔ اس کے برعکس داغ کی شاعری عوامی تھی وہ عوام سے گفتگو کرتے تھے۔ لیکن ان کے اشعار خواص بھی پسند کرتے تھے۔ کیونکہ ان کے اشعارمعاملات عشق کے تھے اور اُن موضوعات میں عوام و خواص دونوں کی دلچسپی زیاد ہ ہوتی ہے۔ بقول عطا ” محبت کی گھاتیں اور حسن و عشق کی ادائیں داغ کے کلام کا طرہ امتیاز ہیں وہ عملی عاشق تھا اس کے اشعار اس کی عشقیہ وارداتوں کی ڈائری کے رنگین اور مصور اوراق ہیں۔“
داغ صاف صاف بات کرنے کے عادی ہیں اپنے دل کی بات واضح طورپر سامنے لاتے ہیں اور سادگی اختیار کرتے ہیں۔ اس سادگی اور اور صاف گوئی کی مثالیں جابجا داغ کی شاعر ی میں نظرآتی ہے
داغ کی شاعر ی میں مکالمہ نگاری کو اہمیت حاصل ہے۔ وہ اشعار اس طرح کہتے ہیں جیسے کسی کو سامنے بٹھا کر باتیں کرتے ہوں او ر یہ ان کی بہت بڑی خوبی ہے
 

سیما علی

لائبریرین
ایک تو وعدہ اور اُس پہ قسم
یہ یقیں ہے کہ اب ملیں گے آپ
داغ اک آدمی ہے گرما گرم
خوش بہت ہوں گے جب ملیں گے آپ
 

سیما علی

لائبریرین
کہتے ہیں کب تک کوئی گھبرا نہ جائے
دل میں رہتے رہتے مدت ہو گئی
نقشہ بگڑا رہتے رہتے غصّہ ناک
کٹ کھنی قاتل کی صورت ہو گئی
داغ کا دم ہے غنیمت بزم میں
دو گھڑی کو گرم محبت ہو گئی
 

سیما علی

لائبریرین
دم رکتے ہی سینہ سے نکل پڑتے ہیں آنسو
بارش کی علامت ہے جو ہوتی ہے ہوا بند
کہتے تھے ہم ۔ اے داغ وہ کوچہ ہے خطرناک
چھپ چھپ کے مگر آپ کا جانا نہ ہوا بند
 

سیما علی

لائبریرین
ہو چکا قطع تعلق تو جفائیں کیوں ہوں
جن کو مطلب نہیں رہتا وہ ستاتے بھی نہیں

زیست سے تنگ ہو اے داغؔ تو جیتے کیوں ہو
جان پیاری بھی نہیں جان سے جاتے بھی نہیں
 

سیما علی

لائبریرین
یوں تو کیا آئے گا تو فرط نزاکت سے یہاں
سخت دشوار ہے دھوکے میں بھی آنا تیرا

داغؔ کو یوں وہ مٹاتے ہیں یہ فرماتے ہیں
تو بدل ڈال ہوا نام پرانا تیرا!!!!!!!!!!!!!
 

سیما علی

لائبریرین
ابھی تو فتنے ہی برپا کئے ہیں عالم میں
اٹھائیں گے وہ قیامت کسی کو کیا معلوم

جناب داغؔ کے مشرب کو ہم سے تو پوچھو
چھپے ہوئے ہیں یہ حضرت کسی کو کیا معلوم
 

سیما علی

لائبریرین
مجھے مانتے سب ایسا کہ عدو بھی سجدے کرتے
در یار کعبہ بنتا جو مرا مزار ہوتا

تمہیں ناز ہو نہ کیونکر کہ لیا ہے داغؔ کا دل
یہ رقم نہ ہاتھ لگتی نہ یہ افتخار ہوتا
 

مومن فرحین

لائبریرین
ہمارے پیارے انکل اور سوہنی اپیا کے انتخاب نے تو چار چاند لگا دیے ۔۔۔ شکر ہے اس طرح میری مدد کر دی آپ دونوں نے ۔۔۔۔ :)
 

سیما علی

لائبریرین
عدم کی جو حقیقت ہے وہ پوچھو اہل ہستی سے
مسافر کو تو منزل کا پتا منزل سے ملتا ہے

غضب ہے داغؔ کے دل سے تمہارا دل نہیں ملتا
تمہارا چاند سا چہرہ مہ کامل سے ملتا ہے
 

سیما علی

لائبریرین
ایک روز داغؔ نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک صاحب ان سے ملنے آئے اور انہیں نماز میں مشغول دیکھ کر لوٹ گئے ۔اسی وقت داغؔ نے سلام پھیرا۔ملازم نے کہا ’’فلاں صاحب آئے تھے واپس چلے گئے ۔‘‘فرمانے لگے ۔’’دوڑ کر جا،ابھی راستے میں ہوں گے ۔‘‘ وہ بھاگا بھاگا گیا اور ان صاحب کو بلا لایا ۔داغؔ نے ان سے پوچھا کہ ’’آپ آکر چلے کیوں گئے ؟ ‘‘وہ کہنے لگے ۔’’آپ نماز پڑھ رہے تھے ، اس لیے میں چلا گیا ۔‘‘داغؔ نے فوراً کہا۔’’حضرت! میں نماز پڑھ رہا تھا ، لاحول تو نہیں پڑھ رہا تھا جو آپ بھاگے۔‘
 
Top