15 جنوری یومِ شہادت شہید محسن نقوی

سیما علی

لائبریرین
یہ کس نے ہم سے لہو کا خراج پھر مانگا
ابھی تو سوئے تھے ہم مقتل کو سرخرو کر کے

آج اردو کے عظیم شاعر محسن نقوی کا یوم شہادت ھے
محسن نقوی اردو کے مشہور شاعر تھے۔ ان کا مکمل نام سید غلام عباس تھا۔ لفظ محسن اُن کا تخلص تھا اور لفظ نقوی کو وہ تخلص کے ساتھ استعمال کرتے تھے۔ لہذا بحیثیت ایک شاعر انہوں نے اپنے نام کو محسن نقوی میں تبدیل کر لیا اور اِسی نام سے مشہور ہو گئے۔ محسن نقوی 5، مئی 1947ء کو محلہ سادات، ڈیرہ غازی خان میں پیدا ہوئے- محسن نقوی کا شجرہ نسب پیر شاہ جیونہ سے جا ملتا ہے حضرت سید پیر شاہ جیونہ کروڑیہ کا نسب نامہ

محسن نقوی
پیدائش
سید غلام عباس نقوی
5 مئی 1947ء
ڈیرہ غازی خان، برطانوی ہند
وفات
15 جنوری 1996ء
سادات گاؤں، ڈیرہ غازی خان
پیشہ
شاعر
قومیت
پاکستانی
اصناف
غزل
موضوع
عشق، فلسفہ، اہل بیت

حضرت سید جلال الدین نقوی البخاری سے ہوتا ہوا امام علی نقی علیہ السلام سے جا ملتا ہے اسی وجہ سے آپ نقوی سید کہلائے انہوں نے گورنمنٹ کالج بوسن روڈ ملتان سے گریجویشن اور پھر جامعہ پنجاب سے ایم اے اردو کیا تھا۔ گورنمنٹ کالج بوسن روڈ ملتان سے گریجویشن کرنے کے بعد جب یہ نوجوان جامعہ پنجاب کے اردو ڈیپارٹمنت میں داخل ہوا تو دنیا نے اسے محسنؔ نقوی کے نام سے جانا۔ اس دوران ان کا پہلا مجموعۂ کلام چھپا۔ بعد میں وہ لاہور منتقل ہو گئے۔ اور لاہور کی ادبی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے جہاں انہیں بے پناہ شہرت حاصل ہوئی۔ بعد میں محسن نقوی ایک خطیب کے روپ میں سامنے آئے مجالس میں ذکرِ اہل بیت اور واقعاتِ کربلا کے ساتھ ساتھ اہلبیت پہ لکھی ہوئی شاعری بیان کیا کرتے تھے۔۔۔۔

محسنؔ نے بے انتہا شاعری کی جس میں حقیقی اور مجازی دونوں پہلو شامل تھے۔ ان کی پہچان اہلبیتِ محمدؐکی شان میں کی گئی شاعری بنی۔ 15جنوری 1996میں لبرٹیمارکیٹ کے چوک پر اس 49 سال کے جوان بزرگ شاعرکو گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے مطابق 45 گولیاں محسنؔ کے جسم میں لگیں۔ محسن نقوی اسی وقت جائے شہادت پاکر خدا سےجا ملے اور دشمن ان کو مار کر بھی ہار گیا اوروہ سنت حسینؑ ادا کر گئے۔۔//۔۔​

وہ اپنے عہد کے ایک منفرد اور اپنی مثال آپ رکھنے والے شاعر اور عاشق آل عبا ؑ ہیں انکی اپنے مولاعلیؑ سے والہانہ عقیدت اور ان کا ایمان کامل ان کے اس کلام سے ظاہر ہوتا ہے جو کہ وقت شہادت زندگی کےآخری لمحات میں انکے لبوں کی زینت تھا ،کہتے ہیں۔۔۔۔۔
؀
لےزندگی کا خمس علیؑ کےغلام سے
اے موت آ ضرور مگر احترام سے
تکلیف جو پہنچی ذرا سی بھی
شکوا کروں گا تیرا میں اپنےامامؑ سے

ان کے کئی مجموعہ کلام چھپ چکے ہیں جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں
بندِ قبا۔ 1969ء
برگِ صحرا۔ 1978ء
ریزہ حرف۔ 1985ء
عذابِ دید۔ 1990ء
طلوعِ اشک۔ 1992ء
رختِ شب۔ 1994ء
خیمہ جاں۔ 1996ء
موجِ ادراک
فراتِ فکر
محسن نقوی نے اہل بیتؑ کے لیے جو جو کلام لکھا اس سے ان کو ایک نئی پہنچان ملی۔ وہ ایک خطیب کی طرح مجالس میں ذکرِ اہل بیت اور واقعاتِ کربلا کے حوالے سے شاعری بیان کیا کرتے تھے۔ مرثیہ نگاری میں بھی آپ کافی مہارت رکھتے تھے۔۔
اگرچہ مقتل اور قتل سے متعلق ان کے بے انتہا خوبصورت اشعار ملتے ہیں، مگر اس کلام میں جو پیغام ہے وہ اپنی مثال آپ ہے
———-
یہ رونقیں، یہ لوگ، یہ گھر چھوڑ جاؤں گا
اک دن میں روشنی کا نگر چھوڑ جاؤں گا
اور قاتل مرا نشاں مٹانے پہ ہے بضد
میں بھی سناں کی نوک پہ سر چھوڑ جاؤں گا
———-
شاعری کے علاوہ محسن نقوی ایک اعلی پائے کے مقرر اور ذاکر کے طور پر بھی جانے جاتے تھے اور اہل بیعت کی محفلوں میں اپنے انداز خطابت اور مرثیوں سے ایک رقت آمیز ماحول طاری کر دیتے تھے۔
محسن نقوی آج بھی اپنی شاعری کی صورت میں ہم میں موجود ہیں اور اس امر کا ثبوت بھی کہ امن و محبت کے نام لیواوں کو نفرت یا جہالت کے اندھیرے کبھی بھی نہیں مٹا سکتے۔۔۔۔۔

ہم تھے تو اجالوں کا بھرم بھی تھا ہمیں سے
کہتے ہیں کہ پھر چاند نہ ابھرا سر مقتل
قاتل کی جبیں شرم سے پیوستِ زمیں ہے
کس دھج سے میرا قافلہ اترا سر مقتل
 
Top