” کئی چاند تھے سرِ آسماں “:ایک تہذیبی و ثقافتی جائزہ۔۔۔ محمد خرم یاسین

” کئی چاند تھے سرِ آسماں “:ایک تہذیبی و ثقافتی جائزہ۔۔۔ محمد خرم یاسین

عصرِ حاضرمیں اردو کی ہمہ جہت شخصیات کا ذکر کیا جائے تو شمس الرحمن فاروقی ان میں سرِ فہرست دکھائی دیتے ہیں۔ وہ نہ صرف تحقیق و تنقید کا معتبر حوالہ ہیں بل کہ شاعری ،افسانہ نگار ی، ناول نگاری، ترجمہ نگاری اور لغت نویسی کے حوالے سے بھی اہم مقام رکھتے ہیں۔ انھوں نے اردو ادب پرتحقیق و تنقید، غالبیات، فکشن، تراجم ، عروض اور لغات کے حوالے سے متعددمتنوع الجہات کتب تحریر کیں،جن میں سے“ تفہیمِ غالب” (۱۹۸۹ء)” شعر شو رانگیز” اور“کئی چاند تھے سرِ آسماں” (۶ ۰۰ ۲ ء) نے انھیں شہرتِ دوام بخشی ۔ اسی سبب انھیں ان کی زندگی ہی میں اردو ادب کی خدمت اورترویج و اشاعت کے سلسلے میں جن اعزازات سے نوازا گیا ان میں اردو اکیڈمی (اتر پردیش)، کل ہند کریمیہ سوسائٹی ، جمشید پو، دہلی اردو اکیڈمی لکھنو، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی ، بھارتی فن کار سوسائٹی ،آل انڈیا میر اکیڈمی ، پالیمر سٹی زن سوسائٹی امریکہ ، ساہتیہ اکیڈمی نئی ،مولانا آزاد نیشنل ایوارڈ آل انڈیا میر اکیڈمی ،سر سوتی سمان برلہ فاؤنڈیشن ، نئی دہلی کی جانب سے بر صغیر کا اعلیٰ ادبی ایوارڈ، مغربی بنگال اردو اکیڈمی کلکتہ ، الہ آبادیو نی ورسٹی ایسو سی ایشن ایوارڈ اوراردو اکیڈمی کا سب سے بڑا اعزاز بہادر شاہ ظفر ایوارڈ وغیرہ شامل ہیں ۔ ان کی ادبی خدمات نے عصرِ حاضر کے ڈاکٹر علیم الدین ، رحیل صدیقی اورڈاکٹر پروفیسر رفیع الدین ہاشمی ایسے اہم ناقدین و محققین کو بھی خوب متاثر کیااور وہ انھیں اپنے مضامین میں سراہتے نظرآتے ہیں۔ ڈاکٹر علیم الدین کے مطابق :

”وہ بیک وقت ایک بلند پایہ ادیب، جید نقاد، معتبر شاعر، اعلیٰ درجے کا افسانہ نگار، مستند محقق ، ماہر عروضی و قواعد اور لغت شناس ہیں اور ہرجگہ انھوں نے ایسا کمال دکھایا اور لاجواب فن کاری کا مظاہر ہ کیا ہے کہ دوسرا کوئی ان کا ہم قامت نظر نہیں آتا۔(۱)​

جب کہ ڈاکٹر رشید اشرف ان کی خدمات کو ہدیہ تحسین پیش کرتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں :

"یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ شمس الرحمن فاروقی ایک نابغہ روزگار یا جینئس ہیں۔ یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ عبقری، نابغے اور جینئس بنا نہیں کرتے بل کہ پیدا ہوتے ہیں اور یہ کام دستِ مشیت میں ہوتا ہے۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ قسمت، حالات، ماحول اور ذاتی کوشش کو بھی بڑی حد تک اس میں دخل ہے۔"(۲)​

"کئی چاند تھے سرِ آسماں "ایک تاریخی ناول ہے اور ۸۱۱ ۱ءسے ۱۸۵۶ءکا درمیانی عہد گرفت میں لیتا ہے۔یہ وہ عہد تھا جس میں برصغیر میں ہزاروں سال میں پنپنے والی قدیم تہذیب و ثقافت زندہ تھی ۔اس میں گنگا جمنی کے ساتھ ساتھ ، ایرانی اور افغانستانی بادشاہوں ، حملہ آوروں کا بھی حصہ شامل تھا، برصغیر کے پہلے باقاعدہ مسلمان حکمران قطب الدین ایبک کی صورت میں ترکی ثقافت کے نشانات بھی موجود تھے، محمد بن قاسم کی صورت میں عراق و بغدادکی مسلم ثقافت کی بھی کچھ کچھ علامات باقی تھیں ، جدید ترین ہند مغل جمالیات کا نیا روپ بھی موجود تھا اور اور یورپ سے آنے والے نئے حاکمین بھی اس میں اپنا حصہ ڈال رہے تھے۔ بہرحال ناول میں زیادہ تر مغلیہ عہد اور ہند اسلامی تہذیب و ثقافت کو بیان کیا گیا ہے۔گرچہ یہ تاریخی ناول ہے لیکن تاریخ اور فکشن کے حقیقی بُعد کے تناظر کو سامنے رکھتے ہوئے شمس الرحمٰن فاروقی نے اسے مکمل تاریخی ناول کی غرض سے پڑھنے کے بجائے تہذیبی مطالعے کو پیشِ نظر رکھنے کو ترجیح دی ہے۔لکھتے ہیں:

”یہ بات واضح کردوں کہ اگرچہ میں نے اس کتاب میں منددرج تمام اہم تاریخی واقعات کی صحت کا حتیٰ الامکان مکمل اہتمام کیا ہے ، لیکن یہ تاریخی ناول نہیں ہے۔ اسے اٹھارھویں اور انیسویں صدی کی ہند اسلامی تہذیب اور انسانی اور تہذیبی و ادبی سروکاروں کا مرقع سمجھ کر پڑھاجائے تو بہتر ہوگا۔ “(۳)

ناول بنیادی طور پر نواب مرزا خان داغ دہلوی کی والدہ ”وزیر خانم “کے گرد گھومتا ہے اورا س کا آغاز اس کے دادامیاں مخصوص اللہ کے خاندان سے ہوتا ہے۔ جس میں کشن گڑھ کے راجہ کی طرف سے ان کے خاندان کی جلا وطنی،نئے وطن میں مختلف پیشے اختیار کرنا،تین بیٹوں داؤد ، یعقوب اور یحییٰ کی پیدائش ، پھر آگے نسل میں سے محمد یوسف کی پیدائش اور اس کا طوائف اکبری کی بیٹی سے شادی ہونا جس کے نتیجے میں اولاد میں تین بیٹیوں انوری خانم عرف بڑی بیگم ، عمدہ خانم عرف منجھلی بیگم اور وزیر خانم عرف چھوٹی بیگم کی پیدائش شامل ہے۔ ان تینوں میں سب سے چھوٹی وزیر خانم تھی جس سے در حقیقت اصل کہانی کا آغاز ہوتاہے لیکن اس سے قبل اس کے خاندان کے آباؤاجداد کا ذکر اور دادا کی وفات بھی نہایت خوبصورتی اور چابک دستی کے ساتھ ناول بیان کی گئی ہے ۔ ناول میں وزیر بیگم کی زندگی کو مشکلات سے عبارت دکھایا گیا ہے جس کا سبب اس کا وہ ملکوتی حسن و رعنائی ہے جس پر امیر اور صاحبِ اقتدار فریفتہ رہے۔ وزیر خانم ایک ایسی لڑکی ہے جسے اپنی خوبصورتی کا احساس بچپن ہی سے تھا۔وہ اس خوبصورتی کو استعمال میں لا کر کسی امیر زادے کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتی تھی۔ پندرہ برس کی عمر میں اس کی حادثاتی ملاقات حضرت نظام الدین اولیا کے مزارپر حاضری دینے کے بعد آتے ہوئے پولیٹیکل سروس کے ملازم مارسٹن بلیک سے ہوئی جس نے انھیں آندھی طوفان میں بھی بحفاظت گھر پہنچادیا اوریہیں سے ان دونوں کی محبت پروان چڑھی۔اس محبت میں وزیر خانم اسی کی ہوکر رہ گئی لیکن مارسٹن بلیک کے قتل کے ساتھ ہی نہ صرف اس کی عیش و عشرت ختم ہوگئی بل کہ انگریز خاندان نے اس سے اس کے بچے صوفیہ اورمارٹن کو بھی چھین لیا۔اس کے بعد اس پر ایک اور انگریز افسر ولیم فریز فریفتہ ہوا لیکن وزیر خانم نہ صرف اسے منھ نہ لگایابل کہ ایک معروف نواب شمس الدین سے بھی محبت بڑھا لی۔یوں ان دونوں مردوں کی چپقلش بڑھنے پر نواب شمس الدین نے ولیم کو قتل کردیا ۔ جرم ثابت ہونے پر نواب کو انگریز سرکار نے پھانسی کا حکم دے دیا۔ نواب کی طرف سے وزیر خانم کے ہاں مرزا خان داغ دہلوی کی پیدائش ہوئی پھر اس کا نکاح تراب علی رام پوری داروغہ ِفیل خانہ سے ہوا لیکن قسمت ایک بار پھر سے وزیر خانم کو دھوکا دے گئی اور تراب علی بھی ٹھگوں کے ہاتھوںقتل کردیا گیا ۔ وزیر بیگم سب کچھ چھوڑ کر دلبرداشتہ ہو کر واپس دلی چلی آئی اور یہاں اس کا نکاح بہادر شاہ ظفر کے تیسرے بیٹے مرزا فتح الملک بہادرسے ہوگیا البتہ شاہی ولی عہدوں کے انتقال کے بعد انھیں پھر سے محل سے نکال دیا گیا۔یوں تاریخی اور تہذیبی حوالے سے اس ناول میں ہند مغل جمالیات اورہند مسلم ثقافت کا تہذیبی و تاریخی شعور بدرجہ اتم دکھائی دیتا ہے ۔ ناول کی کتابیات سے پتہ چلتا ہے کہ اس ۸۲۱ صفحات کے ناول کی تیاری میں شمس الرحمن فاروقی نے ۳۰اردواور۱۴ انگریزی کتب کا سہارا لیا ہے ۔

یہ ناول متنوع اور کثیر الجہت تہازیب کاایک گلدستہ دکھائی دیتا ہے جس میں کہیں مغلیہ دربار سے منسلک رسوم رواج، نشست و برخاست کے نمونے دکھائی دیتے ہیں، کہیں دہلی اورلکھنو کی تہذیب کے آثار نظر آتے ہیں ،کہیں مختلف پیشوں اور اور ان سے منسلک لوگوں کے حالات و واقعات جزئیات نگاری کے سانچے میں ڈھلتے ہیں تو کہیں محلاتی سازشیں ،فنونِ لطیفہ میں موسیقی ، رقص ، شاعری اور شبیہ سازی کے نمونے نظر آتے ہیں۔شمس الرحمن فاروقی چوں کہ قدیم اردو ،اس کے مختلف لہجے ، فارسی روزمرہ، اور تہذیب و ثقافت سے مکمل واقف تھے ، اس لیے انھوں نے منظر کشی اور مکالمہ نگاری کرتے ہوئے ، ان سب کا بہترین استعمال کیا ہے۔ کئی الفاظ اور تراکیب ایسی ہیں جنھیں سمجھنے کے لیے لغات کا سہارا لینا پڑتا ہے جب کہ کئی مقامات پر فارسی سے ناواقفیت کی بنا پر متن کے ابلاغ سے بھی دو چار ہونا پڑتا ہے۔ مثلاًوزیر خانم کے سفر کا ایک حوالہ ملاحظہ کیجیے :

”وزیر خانم کی بہلی کا ایک دھراگھستے گھستے ذرا مخدوش ہوگیا تھا اور خوف تھا کہ بیلوں کو اگر تیز دوڑایا گیا تو دھرا ٹوٹ سکتا ہے ۔ ان کی بہلی آہستہ آہستہ چل رہی تھی، یہاں تک کہ ساتھ کے تمام مسافر، خواہ وہ بہلیوں پر تھے یا تام جھام یا پالکیوں پر ، آگے نکل گئے۔فیل نشین، شہسوار، سانڈنی سوا ورو بگھی سوار تو پہلے ہی یہ جا وہ جا نظروں سے اوجھل ہوچکے تھے۔“(۴)

درج بالا پیرا گراف میں دھرا، جتے ہوئے بیلوں پر سواری کرنا، بہلی،تام جھام، پالکیاں ، فیل نشین، شہسوار، سانڈ نی سوار اور روبگھی سوار تمام ذرائع سفرکا جزو لا ینفک اور اس تہذیب کے لوازمات میں سے تھے ، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ سب ختم ہوچکے ہیں۔ دوسری جانب انگریز سرکارکے افسرمارسٹن بلیک کی سواری کا احوال ملاحظہ کیجیے جس سے اس کے”رتھ“ کے شان و شوکت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں رہتاجو کہ اس وقت کی تہذیب کا اہم حصہ تھی۔

”مارسٹن بلیک کے قافلے میں، جو عازم جے پور تھا، آرائش اور گوٹے ٹھپے سے جگمگاتا ہوا اور تازہ پھولوں کے گجروں سے گمکتا ہوا اور تازہ ہری ترہات سے ہریالا بنا ہوا ایک رتھ بھی تھا وزیر خانم عرف چھوٹی بیگم زرق برق حجلۂ عروسی میں محل اس میں سوار تھیں۔ (۵)

شمس الرحمن فاروقی نے ناول میں تہذیبی استعاروں کے استعمال کی غرض سے مختلف مناظر میں جزئیات نگاری سے کام لیا ہے جسے وہ روایت سے جوڑتے چلے جاتے ہیں۔اسی لیے ناول کا کوئی بھی منظرتہذیبی جزئیات کے بنا مکمل دکھائی نہیں دیتا۔ ادب سے جڑا ایک منظر ملاحظہ کیجیے جس میں ان کے اپنے جذبات بھی شامل ہیں تاکہ منظر کی سحر انگیزی مزید بڑھ جائے:

” کیسی کششیں ہیں اور کیسے جوڑ۔ صرف ایک دو دوارے اور نہ جانے کتنی کششیں۔ مر گ، نیست، شبے اور بے خوابیم کو بھی یوں لکھا تھا کہ ”بے“ اور ”خوابیم“ میں بھی کشش ڈال دی تھی۔ اور علم کی طرح دل میں کھبتے ہوئے”ایں “ اور”آں“اور ”افسانہ“ کے الف۔ این نیست آن شبے کہ بہ افسانہ بگزردد کیا پراسرار بات ہے اور اس موقعے پر تو اوربھی رمز ناک معلوم ہوتی ہے۔ “ (۶)

عہدِ گزشتہ میں کسی بھی راجہ مہاراجہ کی اپنے محکوم دیہات آمد پر اسے خوش آمدید کہنے کے لیے مخصوص رسوم و رواج موجود تھے۔ لوگ دل و جان سے اس کے استقبال کے لیے جمع ہوتے اور گھرہی نہیں سارے گاوؤں کو دلہن بنا دیا جاتا ۔ ایک ایسے ہی ”مہار اول“ کی گاؤں میں آمد کو بیان کرتے ہوئے اس کا جاہ و جلال، دروازے کی دہلیزوں کی صفائی، گھروں کے باہرپانی کا چھڑکاؤ، دیواروں پر تصویروں کا آویزاں کرنا، چوکھٹ کے آگے رنگولیاں بنانااور جگہ جگہ مور پنکھیاں لٹکانا شامل ہے۔ اس کی بیٹی کی اس کے ساتھ آمد کا احوال بھی کسی قیدی اور مجبور خاتون کی بے بسی کی نمائندگی کرتا نظر آتا ہے اور یہ بھی بتاتا ہے کہ اس وقت خواتین کے پردے کے اہتمام کے لیے کیا کچھ ضروری تھا اور ان کا اوڑھنا بچھونا کیسا تھا۔ ملاحظہ کیجیے:

”مہار اول کی سواری کے پیچھے ایک محافہ، بے پردہ۔ بے پردہ محافہ۔۔۔اور من موہنی اس میں بے چادر اور جوتی ۔ناک ہاتھ پاؤں زیوروں سے عاری۔ منھ پر سرکی کا نشان نہیں، لیکن سر اٹھائے ہوئے ۔ “(۷)

ناول میں تاریخ و تہذیب ہم قدم دکھائی دیتے ہیں ۔برصغیر کی تہذیب و ثقافت کے ایسے بہت سے ایسے الفاظ اس میں موجود ہیں جو نا پید ہوچکے ہیں ۔ بیٹی پربے پردگی کے الزام کے بعدباپ کا اسے غیرت کے نام پر قتل کرنا آج بھی برصغیر کا رواج ہے۔ مہا ر اول کا اپنی بیٹی کو قتل کاکرنے کا اندز ملاحظہ کیجیے جس کی جزئیات نگاری میں شمس الرحمن فاروقی نے پوری چابک دستی سے کام لیا ہے۔

”گجندر پتی مرزا عربی مشکی پر سوار پیچھے ہٹتا گیا، یہاں تک کہ وہ من موہنی سے کوئی دو سو قدم کی دوری پر جا کر ٹھہرا۔ اس نے نیزے کو گھوڑے کی پشت و شکم کے متوازی کرکے دوسرے ہاتھ میں ڈالا، اس طرح کہ نیزے کی انی کا سرا گھوڑے کی کنوتیوں کے بیچوں بیچ آگیا۔ پھر اس نے میان سے تلوار نکالی، ہتھوانس کر اس نے بازو پھیلادیا۔دیکھنے والوں کو لگا جیسے کسی آسمانی عقاب کا شہپر اس کے پنجے میں اگ آیا ہو۔ گھوڑے کو ہلکی مہمیز لگی، تلوار اور بازو ساکت اور سخت تھے۔“ (۸)

ناول کو چوں کہ واقعاتی انداز میں آگے بڑھایا گیا ہے اس لیے اس میں کئی پیراگرافوں میں پرزور مکالمے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ مکالمہ بنیادی طور پرکسی بھی شخص کی تاریخ و تہذیب کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ ذیل میں ایک پیراگراف ملاحظہ کیجیے جس میں ایک مرد اور عورت کی رشتے کے سلسلے میں چپقلش جاری ہے۔ مرد عورت کی جانب ملتفت ہے اور عورت اس سے سوال و جواب کر رہی ہے۔ اس ایک مکالمے میں اس دور کے بہت سے پیشوں ، رسوم و رواج اور تہذیب و ثقافت کا اندازہ ہوتا ہے جس میں متصدی، احدی نفری، کشتی بانی، ہاتوکا بھی ذکر ہے اور عورت سے لیے کھیتی باڑی میں لیے جانے والے کام کا بھی ۔ ملاحظہ کیجیے:

”لکھے پڑھے تو ہو نہیں کہ کچہری دربار میں متصدی ہی لگ جاتے۔ دھان پان ہو، احدی نفری کا کام کر نہیں سکتے۔ہاتو بننا یا کشتی بانی تمھارا خاندانی کام نہیں۔ ۔۔میںکوئی تیرا کشمیری مربھکا نہیں ہوں۔ کشن گڈھ کا چتیرا ہوں۔ بس ہاتھ اٹھا نے کی دیر ہے اور تیرا یہ گورا رنگ ، یہ نازک ہاتھ پاؤں میرے کس کام آئیں گے۔ میرے گھر کی ہوتی تو تیرے ہاتھ میں ایک کلہاڑی پکڑا دیتا، سر پر پلاس کی بڑی سی جھابی اور دس گز کا رسا رکھ دیتا ۔ دن بھر میں ایک دو سانپ بچھوتجھے کاٹتے لیکن تو ہفتے بھر کا سوختہ تو بٹور لاتی ۔ اب یہاں کی بھیگی پھسلواں پہاڑیوں پر تو اونچے اونچے پیڑ کیا کاٹے گی کہ گھر میں چولھا جلے۔ یہاں تو جھڑ بیری نہ جنگلی جلیبی نہ مہندی نہ مولسری۔“(۹)

ناول میں جا بجا مسلم تہذیب کے نمونے بھی دکھائی دیتے ہیں اور یہ دیگر تہازیب میں مدغم ہوتی بھی دکھائی دیتی ہے۔ مثلاً مخصوص اللہ کا مسجد میں جانا، وضو خانے، استنجا خانے کا استعمال، نماز کی ادائیگی ،قرآن خوانی، نعت خوانی اور ایک نماز سے دوسری تک کا انتظارکرنا وغیرہ کو بخوبی بیان کیا گیا ہے۔ مخصوص اللہ کا مسجد سے بزرگ کے ساتھ قالین بافی کے کارخانے کی جانب جانا اور وہاں کا منظر ملاحظہ کیجیے جس میں شمس الرحمن فاروقی کی جزئیات کو محفوظ کرنے کی شعوری کاوش نظر آتی ہے۔

”مسجد کی گلی سے نکلیں تو ایک بڑی سی حویلی ملتی تھی۔ حویلی تھی کہ کہ خانقاہ تھی، کہ کارخانہ تھی، سب کچھ یک جا لگ رہا تھا۔دونوں ایک کمرے میں داخل ہوئے جس کے چوبی فرش کا زیادہ تر حصہ قیمتی قالینوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ فضا میں عطر، زعفران کی خفیف سی مہک تھی۔ اوپر شمعوں کے بجائے چیر اور سفیدے کی شاخوں کو کہیں مشعل، کہیں شمع کی صورت دے کر روشن کردیا گیا تھا۔چوبی شمعوں اور مشعلوں کی مہک، ان کا ہلکا سا دھواں ، ان کے چٹک کر جلنے کی آوازیں، موسیقی سے لبریز، مگر دھیمی ، دس دس بارہ بارہ کے جتھوں میں فرش پر بیٹھے ہوئے لوگوں کی آہستہ گفتگو کی ریشمی لہراہٹ، ان سب نے ماحول پر ایک ناقابل بیان لیکن شدت سے محسوس کیفیت کی چادر ڈال دی تھی۔“(۱۰)

درج بالا پیراگراف میں مسجد ، حویلی، خانقاہ، کارخانہ ، چوبی فرش، قالینیں، عطر، زعفران، شمعیں،مشعلیں، موسیقی وغیرہ کا بیان درحقیقت اس تہذیب و ثقافت ہی کا بیان ہے جس میں قالین بافی کی صنعت کو سیکھااور سکھایا جاتا تھا اور استاد کو ایسا روحانی درجہ دیا جاتا تھا گویا نہ صرف استادبل کہ باپ اور پیر و مرشدتک ہوتا تھا۔ استاد اپنے شاگردوں کو قالین بافی کے لیے خصوصی ”تعلیم“ دیتا جس کا مخصوص انداز ہوتا جس میں وہ سوال کرتا اور شاگرد ہم زبان ہو کر جواب دیتے۔ یہ سوا ل و جوا ب وہ ”تعلیم“ تھی جس نے برصغیر کو قالین بافی کی صنعت میں دنیا بھر میں ممتاز کیا۔شمس الرحمن فاروقی نے اس قالین بافی کے بنیادی نمونے (ڈئزائن) تک کو ہندسوںاور انگریزی الفاظ کی مدد سے بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ ”تعلیم “ کا ایک نمونہ ملاحظہ کیجیے جس میں استاد شاگردوں سے مخاطب ہے:

”ناگ پھنی کا دودھ پینے اور سوسمار کا گوشت کھانے سے یہ فن نہیں آتا، سمجھے میرے راجپوتی گنوار؟ پھر استاد تم م حاضرین سے مخاطب ہو کر کہتا، ”سنو اے احمق ہنگولوں کی اولادو، ایک راجا تھا پرانے وقتوں میں۔ بڑا احمق لیکن فن کا دلدادہ، اور اس ک وزیر تھا بے حل عقل مند۔ سنتے ہو تبتی بدھ پنتی عورتوں کی یادگارو؟“(۱۱)

اسی طرح ایک بچے کی پیدائش کے وقت جو مخصوص ماحول بر صغیر کی تہذیب کا حصہ رہا ہے اس کی منظر کشی کرتے ہوئے بھی اس میںزچہ و بچہ کے حالات، زچہ خانہ، دردِ زہ،دائی جنائی، مبارک باد، گانے بجانے کا شور، کان میں اذان، ماں کا دودھ اترنا ، چھٹی نہانا، در بار پر منتیں کرنا، تعویز لکھوانا، رسم بسم اللہ وغیرہ کاذکر کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول میں ایسے الفاظ کی بھر مار ہے جن کا تعلق برصغیر کی تہذیب و ثقافت سے جڑا رہا ہے ان میں بلوہ، برچھیت، تکفین و تدفین،مزبلے، مغلانی، ازکار رفتہ،داروغہ، شنجرفی، سنگت، مربھکا، چتیرا،ہنگولا،ہم چشم، لولاب،ڈوم ، پراگ، پاپیادہ، زنا شوئی،نگچی،مشکی،مرافعہ، تطاول، دُھن ، ٹھگ ،لونڈی، قحبہ، بنسبلوچن، حرف شناس،قرطاس،پھرن، منڈکری، بنسلوچن،یوس،خطاط،بیساکھی،ہیرامن، کنٹھے،بارہ دری ، چھاگل تقطیع، انگول،اوڑھنی، خطاط، شہنشاہ،ڈانڈی،مدھ ماتیاں، طومار، سنگھاسن،تبرک، ، مہندس، وزیر، مغنی،الچ ،چھچھلی، سادہ کار، نچنی، تام جھام، طاق،طاؤس،گانجا،مقیش،اوڑھنی،پلو،نقش نگار،دہلیز،انگول، تقطیع، کوس، چخاخچی، سمور، قلیج،دانگ، تاجبوشی،تخت نشینی،نقار خانہ،پنجہ کش،دیوان عام،لوح نویسی،داروغہ، کلس،مائیکہ، سیتلا ماں، بھٹیاری،پن بھرنیاں،ایڑ،گاگر،لعبتان،فال،جراح،مشک،خیلا،گاتیاں،جگت،ہیزم،نوروز، انگرگھا، کلاونت، مہنال، کیو ڑ ہ ،تارکشی،قلماقنی،مورچھل،طائفہ،انترا، پیچوان وغیرہ شامل ہیں ۔ اسی ضمن میں مہاداجی سندھیا کی شاہی قلعے میں آمداور انعام و اکرام کا منظر ملاحظہ کیجیے :

پیشوا نے سندھیا کو بادشاہ کی طرف سے پانچ بے بہارقوم جواہر اور نو پارچوں پر مشتمل خلعت پہا یا، پھر اس کے ہاتھ میں مرصع تلوار دی ،د وسرے میں آبنوسی قلمدان مع مہر شاہی رکھا۔ سندھیا نے باہر آکر تخت کے پائے کو بوسہ دیا، پھر مادھوراؤںکا ہاتھ چوما۔ نقیب نے اعلان کیا کہ قلم دان و شمشیر و مہر کے علاوہ بادزن طاؤسی، ایک صندلی زریں، چھ ہاتی مع عماری و نشان، ایک فرس جنگی بھی اعلیٰ حضرت خلافت پناہی ظل الٰہی، فخر دو دمان بابری ، اخلف من اخلاف نیاگان تیموری، خاقان ابن خاقان، سلطان ابن سلطان ، حضرت گہر شاہ عالم بہادر نے شاہ ذانی خلد اللہ ملکی، وادام اللہ سلطانہ نے اپنے فرزند دلبند وکیل السلطنت عالی جاہ مادھو راؤں سندھیا کو مرحمت فرمائے ہیں۔ مبارک سلامت کا غلغلہ پھر بلند ہوا ، نقاروں پر چوب پڑی، حاضرین پر گلاب، عطر عبیر کی ہلکی بوچھاڑ ہوئی۔پھر سندھیا نے اپنے سامنے کھڑے کاتب کو ہلکا سا اشارہ کیا۔ اس نے اپنے سر سے تانبے کا ایک بھاری خوان اتارا جس میں مخملی زرکار خوان پوش کے اوپر دوفرمان شاہی رکھے ہوئے تھے۔ سندھیا نے جھک کر فرمانوں کو تین سلام کیے، پھر بڑھ کر انھیں لیا، بوسہ دیا، آنکھوں سے لگایا اور سر پر رکھا۔“ (۱۲)

اسی ناول کے حوالے سے ایک تحقیقی مقالے میں ڈاکٹر سہیل عباس خان اور ڈاکٹر تنویر حسین بھی اس میں تہذیبی بازگشت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس ناول میں گنگا جمنی تہذیب کے عمدہ نمونے ملتے ہیں ۔اس دور میں ہر ڈیوڑھی پر چوبدار ،لٹھیت ،برچھیت اور دربان ہوتے تھے ۔جب بھی کوئی ملنے آتا تو وہ آنے والے کو روک کر آواز لگاتے۔ہر گھر میں مامائیں ،اصیلیں ،کنیزیں ،باندیاں اور مختلف کاموں کے لیے ملازمائیں رکھی جاتی تھی ۔خصوصیت کے ساتھ یہ سب اہتمام رئیسوں اور افسروں کے گھروں میں ہوتے تھے۔ملازم اپنے آقا ،خاتون خانہ اور مہمانوں کو بات بات میں تین سلام اور سات سلام کرتے اور خاص مہمانوں کو وہی جوتیاں پہناتے تھے۔مہمانوں کی تواضح شربت ، پان ،عطر، گلاب اور بھنڈے(حقے)سے کی جاتی تھی ۔جب کہیں کوئی ہرکارہ یا پیغامبر آتاتھا تو اسے انعام دیے بغیر واپس کرنا معیوب سمجھا جاتاتھا۔شب میں مالک یا مالکن سے شب بخیر اور صبح کو ”صبا حکم خیر“کہا جاتاتھا۔خواتین بگھی یانالکی میں آتی جاتی تھیں ۔(۱۳)

محرم کے آغاز و احترام کا ذکر کرتے ہوئے بھی اس میں امام بارگاہ ، محرم کا چاند، ماتم، مینا بازاروں کا اختتام، ہیرا منڈی(طوائف خانے)کے بالا خانوں سے بھی ماتمی دھنوں کا اہتمام، عزاداری،نوحہ خوانی، تبرک، تعزیہ، مسجد، خانقاہ، خطیبوں اور واعظوں کا فضائل و مصائب اہل بیت کا بیان وغیرہ شامل کیا گیا ہے۔ اس میں مرثیہ خوانی کا انداز بھی ان مکمل جزئیات کے ساتھ بیان کیا ہے کہ قاری کے سامنے سارا منظر گھوم جاتا ہے۔ حضرت عیسیٰ ؑ کے یومِ پیدائش پر بھی اس وقت کی وہ تہذیب و روایت بیان کی گئی ہے جو عیسائی گھرانوں میں آج بھی زندہ ہے اس میں ہر طرف خوشیاں ، گرجا گھر میں گھنٹاں بجنا،تحفوں اور مٹھائیوں کا تبادلہ وغیرہ شامل ہے۔یوں ناول میں ” مسلم تہذیب“کے ساتھ ساتھ ”مشرقی تہذیب“ ،”مغربی تہذیب“، ”مغل تہذیب“اور ”گنگا جمنی تہذیب“ کے عناصر بھی بہت واضح دکھائی دیتے ہیں جن میں عمارات اور ان کا طرزِ تعمیر، اوزارو ہتھیار ،مشینیں ، ادارے ،عقائد ، رسوم و رواج، میل جول کے طریقے اور رویے جن میں طرز زندگی، پہننا اوڑھنا وغیرہ شامل ہیں خوبصورتی سے نمائندگی کی گئی ہے۔ مثلاً جب وہ ایک جھگڑے کا بیان کرتے ہیں تو اس میں مشکیں کسنا، پاؤں میں بیڑیاں ڈالنا، محافظ ، تلوار، کپتان ، کرنل ، طمنچے، گھڑ سوار، قلعہ، تہہ خانے، باز پرس ، جیغہ، طرہ اتالیقی، پوجا پاٹ، مہورت، مسند نیشنی ،چوبدار، برچھیت ، کوتوالی، سپاہی، تھانہ ، فیر (گولی چلانا )اور بلوائیوں کا ذکر اس انداز میں کرتے ہیں کہ اس دور کی تہذیب و ثقافت کے خدوخال واضح ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔اس دور کے آلات و اندازِ موسیقی کا بیان ملاحظہ کیجیے:

دونوں بھائیوں کے ہاتھ میں طاؤس ، ایک ایک سنتور نواز اور دف نواز دائیں اور بائیں، تین نوجوان سمرقندی سہ تار لیے ہوئے پیچھے کچھ الگ کھڑے تھے۔ سنتور نواز کے پیچھے ایک بزرگ نے نواز کے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی نے ، لیکن بید کی نہیں بل کہ پیتل کی۔ طاؤس اور سہ تار کو ہم آہنگ کرنے کی مشقیں جاری تھیں۔نے کی آواز کبھی کبھی بلند ہوجاتی ۔۔۔چار بخور دان کمرے کے چاروں کونوں میں طاق پر رکھے تھے لیکن بہت آہستہ جل رہے تھے، سوزگی کو شاید کسی ترکیب سے ایسا بنیا گیا تھا کہ دیر تک اور آہستہ جلے۔بہت باریک دھوئیں کی لکیروں کے ساتھ عود اور عنبر کی خوشبو کی لپٹیں کبھی کبھی مہمانوں کو چھو جاتیں۔(۱۴)

گو کہ کئی مقامات پر تاریخ و تہذیب سے نا آشنائی تفہیمی مشکلات کا سبب بنتی ہے لیکن شمس الرحمن فاروقی نے تاریخی واقعات کو اس خوبصورتی سے ایک دوسرے کے ساتھ منسلک کیا ہے کہ نہ تو قاری کی توجہ موضوع سے ہٹنے پاتی ہے اور نہ ہی بین السطور تک رسائی کے مراحل میں کوئی خیال مانع ثابت ہوتا ہے۔ کئی جگہوں پر وہ گویا قاری کا ہاتھ تھامے ان تمام مناظر میں لے جاتے ہیں جو اب عہدِ پارینہ کا حصہ بن چکے ہیں۔ دعوتِ طعام سے قبل مہمان کی پسند، مزاج پرسی ، اور بعد از طعام دل بہلانے کے لیے موسیقی کے شغف کے بارے میں جو تہذیبی روایات تھیں، ان کا بیان ملاحظہ کیجیے:

”وزیر نے مورچھل ہلانے والی خواص کو اشارہ کیا ۔ آن کی آن میں سازاور سازندے آموجود ہوئے اور تین سلام کرکے اپنی اپنی جگہوں پر بیٹھ گئے۔ سب سے آخر میں نسیم جالندھری آئیں ،دوہرا بدن ، شباب ڈھل چکا تھا لیکن چال ڈھال، نشست و بر خاست میں سہج سبھاؤں تھاگویا اسم بامسمیٰ تھیں۔ انھوںنے سات سلام کیے پھر آگے بڑھ کر نواب کے داہنے ہاتھ کو بوستی دیا اور کہا”کیا سناؤں ، جناب عالی کی مرضی کیا ہے ، فارسی کا کچھ عارفانہ کلام، یا ریختہ کی کوئی غزل؟“ (۱۵)

ناول کا مجموعی طور پر جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس میں نہ صرف بر صغیر کے عہد کی تہذیبی و ثقافتی سطح پر ترجمانی کی گئی ہے ، تہذیبی عناصر سے ترتیب دیا گیا ہے، تہذیبی کشمکش موجود ہےبل کہاس کے میں متنوع تہازیب ایک دوسرے میں مدغم ہوتی بھی نظر آتی ہیں ۔ اس لیے اس ناول کو برصغیر کی متنوع تہازیب کا گلدستہ قرار دیا جاسکتا ہے۔

٭٭٭

حوالہ جات
۱۔ علیم الدین بیگ، مضمون: " ڈاکٹر، شمس الرحمن فاروقی کی شخصیت کے نمایاں پہلو"،مشمولہ: سہ ماہی روشنائی، کراچی، شمارہ ۱۴، جولائی تا ستمبر ، ۲۰۰۳ء، ص: ۴۱
۲۔ رشید اشرف، ڈاکٹر ، "کئی چاند تھے سرِ آسماں ایک تجزیاتی مطالعہ " نئی دہلی: براؤن پبلی کیشنز، 2007، ص:34
۳۔شمس الرحمن فاروقی "کئی چاند تھے سرِ آسماں"، کراچی: شہر زاد ،، ۶ ۲۰۰ء ، ص:847۔
۴۔ ایضاً، ص: ۱۲۔
۵۔ ایضاً، ص:۵ ۱
۶۔ایضاً، ص: ۵۱
۷۔ایضاً، ص: ۵ ۶
۸۔ایضاً، ص:۶۶
۹۔ ایضاً، ص:۱ ۷

۱۰۔ایضاً، ص:۶ ۷
۱۱۔ایضاً، ص:۲ ۸
۱۲۔ایضاً، ص: ۷ ۹
۱۳- سہیل عباس خان،ڈاکٹر,تنویر حسین، ڈاکٹر، مضمون :"کئی چاند تھے سر آسماں : ایک مطالعہ "مشمولہ: نور ِتحقیق(جلد:۳،شمارہ : ۲ ۱) ، لاہور گیریژن یونیورسٹی، لاہور،ص۳۹
۱۴- شمس الرحمن فاروقی "کئی چاند تھے سرِ آسماں"، کراچی: شہر زاد ،، ۶ ۲۰۰ء ، ص: ۱۱۷

۱۵-ایضاً، ص: ۲۶۶

٭٭٭

REFERENCES:

  • Aleem ud Din Baig, Mazmoon: “dr. Shams Ur Rehman Farooqi Ki Shakhsiyat Kay Numayan Pahlu” Mashmoola: Sah Mahi Roshnai, Karachi, Shumara No. 14, July-Sep 2003, P No. 41
  • Rasheed Ashraf, Dr. ,Kai Chand They Sar-e-Asman, Aik Tajzeeyati Mutala, New Dehli, Brwon Publications, 2007, P. No. 34
  • Shams Ur Rehman Farooqi, Kai Chand They Sar-e-Asman, Karachi, Shaharzad, 2006, P No. 847
  • Ibid, P No. 12
  • Ibid, P No. 15
  • Ibid, P No. 65
  • Ibid, P No. 66
  • Ibid, P No. 71
  • Ibid, P No. 72
  • Ibid, P No. 82
  • Ibid, P No. 97
  • Suhail Abbas Khan, Dr. and Tanveer Hussain, Dr., Mazmoon, “Kai Chand They Sar-e-Asman: Aik Mutala”, Noor-e-Tahqeeq, Vol.3, No. 12, Lahore: Garrison Univeristy, Lahore. P:39
  • Shams Ur Rehman Farooqi, Kai Chand They Sar-e-Asman, Karachi, Shaharzad, 2006, P No. 847
  • Ibid, P No. 177
  • Ibid, P No. 266
 

جاسمن

لائبریرین
آپ نے بہت جامع تبصرہ فرمایا ہے اور تقریباً تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا ہے۔ یہ ناول میں نے بھی پڑھا ہے اور واقعی اپنی طرز کا واحد ناول ہے۔ لگتا تھا جیسے ہم برصغیر کے اسی دور میں موجود ہیں۔ مجھے یقین نہیں تھا کہ مجھے پرانے ادوار کے پس منظر میں لکھا ناول اس قدر پسند آئے گا۔ لیکن چند باتیں بڑی عجیب محسوس ہوئیں۔
 

ارشد رشید

محفلین
آپ نے بہت جامع تبصرہ فرمایا ہے اور تقریباً تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا ہے۔ یہ ناول میں نے بھی پڑھا ہے اور واقعی اپنی طرز کا واحد ناول ہے۔ لگتا تھا جیسے ہم برصغیر کے اسی دور میں موجود ہیں۔ مجھے یقین نہیں تھا کہ مجھے پرانے ادوار کے پس منظر میں لکھا ناول اس قدر پسند آئے گا۔ لیکن چند باتیں بڑی عجیب محسوس ہوئیں۔
بہت
” کئی چاند تھے سرِ آسماں “:ایک تہذیبی و ثقافتی جائزہ۔۔۔ محمد خرم یاسین

عصرِ حاضرمیں اردو کی ہمہ جہت شخصیات کا ذکر کیا جائے تو شمس الرحمن فاروقی ان میں سرِ فہرست دکھائی دیتے ہیں۔ وہ نہ صرف تحقیق و تنقید کا معتبر حوالہ ہیں بل کہ شاعری ،افسانہ نگار ی، ناول نگاری، ترجمہ نگاری اور لغت نویسی کے حوالے سے بھی اہم مقام رکھتے ہیں۔ انھوں نے اردو ادب پرتحقیق و تنقید، غالبیات، فکشن، تراجم ، عروض اور لغات کے حوالے سے متعددمتنوع الجہات کتب تحریر کیں،جن میں سے“ تفہیمِ غالب” (۱۹۸۹ء)” شعر شو رانگیز” اور“کئی چاند تھے سرِ آسماں” (۶ ۰۰ ۲ ء) نے انھیں شہرتِ دوام بخشی ۔ اسی سبب انھیں ان کی زندگی ہی میں اردو ادب کی خدمت اورترویج و اشاعت کے سلسلے میں جن اعزازات سے نوازا گیا ان میں اردو اکیڈمی (اتر پردیش)، کل ہند کریمیہ سوسائٹی ، جمشید پو، دہلی اردو اکیڈمی لکھنو، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی ، بھارتی فن کار سوسائٹی ،آل انڈیا میر اکیڈمی ، پالیمر سٹی زن سوسائٹی امریکہ ، ساہتیہ اکیڈمی نئی ،مولانا آزاد نیشنل ایوارڈ آل انڈیا میر اکیڈمی ،سر سوتی سمان برلہ فاؤنڈیشن ، نئی دہلی کی جانب سے بر صغیر کا اعلیٰ ادبی ایوارڈ، مغربی بنگال اردو اکیڈمی کلکتہ ، الہ آبادیو نی ورسٹی ایسو سی ایشن ایوارڈ اوراردو اکیڈمی کا سب سے بڑا اعزاز بہادر شاہ ظفر ایوارڈ وغیرہ شامل ہیں ۔ ان کی ادبی خدمات نے عصرِ حاضر کے ڈاکٹر علیم الدین ، رحیل صدیقی اورڈاکٹر پروفیسر رفیع الدین ہاشمی ایسے اہم ناقدین و محققین کو بھی خوب متاثر کیااور وہ انھیں اپنے مضامین میں سراہتے نظرآتے ہیں۔ ڈاکٹر علیم الدین کے مطابق :

”وہ بیک وقت ایک بلند پایہ ادیب، جید نقاد، معتبر شاعر، اعلیٰ درجے کا افسانہ نگار، مستند محقق ، ماہر عروضی و قواعد اور لغت شناس ہیں اور ہرجگہ انھوں نے ایسا کمال دکھایا اور لاجواب فن کاری کا مظاہر ہ کیا ہے کہ دوسرا کوئی ان کا ہم قامت نظر نہیں آتا۔(۱)​

جب کہ ڈاکٹر رشید اشرف ان کی خدمات کو ہدیہ تحسین پیش کرتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں :

"یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ شمس الرحمن فاروقی ایک نابغہ روزگار یا جینئس ہیں۔ یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ عبقری، نابغے اور جینئس بنا نہیں کرتے بل کہ پیدا ہوتے ہیں اور یہ کام دستِ مشیت میں ہوتا ہے۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ قسمت، حالات، ماحول اور ذاتی کوشش کو بھی بڑی حد تک اس میں دخل ہے۔"(۲)​

"کئی چاند تھے سرِ آسماں "ایک تاریخی ناول ہے اور ۸۱۱ ۱ءسے ۱۸۵۶ءکا درمیانی عہد گرفت میں لیتا ہے۔یہ وہ عہد تھا جس میں برصغیر میں ہزاروں سال میں پنپنے والی قدیم تہذیب و ثقافت زندہ تھی ۔اس میں گنگا جمنی کے ساتھ ساتھ ، ایرانی اور افغانستانی بادشاہوں ، حملہ آوروں کا بھی حصہ شامل تھا، برصغیر کے پہلے باقاعدہ مسلمان حکمران قطب الدین ایبک کی صورت میں ترکی ثقافت کے نشانات بھی موجود تھے، محمد بن قاسم کی صورت میں عراق و بغدادکی مسلم ثقافت کی بھی کچھ کچھ علامات باقی تھیں ، جدید ترین ہند مغل جمالیات کا نیا روپ بھی موجود تھا اور اور یورپ سے آنے والے نئے حاکمین بھی اس میں اپنا حصہ ڈال رہے تھے۔ بہرحال ناول میں زیادہ تر مغلیہ عہد اور ہند اسلامی تہذیب و ثقافت کو بیان کیا گیا ہے۔گرچہ یہ تاریخی ناول ہے لیکن تاریخ اور فکشن کے حقیقی بُعد کے تناظر کو سامنے رکھتے ہوئے شمس الرحمٰن فاروقی نے اسے مکمل تاریخی ناول کی غرض سے پڑھنے کے بجائے تہذیبی مطالعے کو پیشِ نظر رکھنے کو ترجیح دی ہے۔لکھتے ہیں:

”یہ بات واضح کردوں کہ اگرچہ میں نے اس کتاب میں منددرج تمام اہم تاریخی واقعات کی صحت کا حتیٰ الامکان مکمل اہتمام کیا ہے ، لیکن یہ تاریخی ناول نہیں ہے۔ اسے اٹھارھویں اور انیسویں صدی کی ہند اسلامی تہذیب اور انسانی اور تہذیبی و ادبی سروکاروں کا مرقع سمجھ کر پڑھاجائے تو بہتر ہوگا۔ “(۳)

ناول بنیادی طور پر نواب مرزا خان داغ دہلوی کی والدہ ”وزیر خانم “کے گرد گھومتا ہے اورا س کا آغاز اس کے دادامیاں مخصوص اللہ کے خاندان سے ہوتا ہے۔ جس میں کشن گڑھ کے راجہ کی طرف سے ان کے خاندان کی جلا وطنی،نئے وطن میں مختلف پیشے اختیار کرنا،تین بیٹوں داؤد ، یعقوب اور یحییٰ کی پیدائش ، پھر آگے نسل میں سے محمد یوسف کی پیدائش اور اس کا طوائف اکبری کی بیٹی سے شادی ہونا جس کے نتیجے میں اولاد میں تین بیٹیوں انوری خانم عرف بڑی بیگم ، عمدہ خانم عرف منجھلی بیگم اور وزیر خانم عرف چھوٹی بیگم کی پیدائش شامل ہے۔ ان تینوں میں سب سے چھوٹی وزیر خانم تھی جس سے در حقیقت اصل کہانی کا آغاز ہوتاہے لیکن اس سے قبل اس کے خاندان کے آباؤاجداد کا ذکر اور دادا کی وفات بھی نہایت خوبصورتی اور چابک دستی کے ساتھ ناول بیان کی گئی ہے ۔ ناول میں وزیر بیگم کی زندگی کو مشکلات سے عبارت دکھایا گیا ہے جس کا سبب اس کا وہ ملکوتی حسن و رعنائی ہے جس پر امیر اور صاحبِ اقتدار فریفتہ رہے۔ وزیر خانم ایک ایسی لڑکی ہے جسے اپنی خوبصورتی کا احساس بچپن ہی سے تھا۔وہ اس خوبصورتی کو استعمال میں لا کر کسی امیر زادے کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتی تھی۔ پندرہ برس کی عمر میں اس کی حادثاتی ملاقات حضرت نظام الدین اولیا کے مزارپر حاضری دینے کے بعد آتے ہوئے پولیٹیکل سروس کے ملازم مارسٹن بلیک سے ہوئی جس نے انھیں آندھی طوفان میں بھی بحفاظت گھر پہنچادیا اوریہیں سے ان دونوں کی محبت پروان چڑھی۔اس محبت میں وزیر خانم اسی کی ہوکر رہ گئی لیکن مارسٹن بلیک کے قتل کے ساتھ ہی نہ صرف اس کی عیش و عشرت ختم ہوگئی بل کہ انگریز خاندان نے اس سے اس کے بچے صوفیہ اورمارٹن کو بھی چھین لیا۔اس کے بعد اس پر ایک اور انگریز افسر ولیم فریز فریفتہ ہوا لیکن وزیر خانم نہ صرف اسے منھ نہ لگایابل کہ ایک معروف نواب شمس الدین سے بھی محبت بڑھا لی۔یوں ان دونوں مردوں کی چپقلش بڑھنے پر نواب شمس الدین نے ولیم کو قتل کردیا ۔ جرم ثابت ہونے پر نواب کو انگریز سرکار نے پھانسی کا حکم دے دیا۔ نواب کی طرف سے وزیر خانم کے ہاں مرزا خان داغ دہلوی کی پیدائش ہوئی پھر اس کا نکاح تراب علی رام پوری داروغہ ِفیل خانہ سے ہوا لیکن قسمت ایک بار پھر سے وزیر خانم کو دھوکا دے گئی اور تراب علی بھی ٹھگوں کے ہاتھوںقتل کردیا گیا ۔ وزیر بیگم سب کچھ چھوڑ کر دلبرداشتہ ہو کر واپس دلی چلی آئی اور یہاں اس کا نکاح بہادر شاہ ظفر کے تیسرے بیٹے مرزا فتح الملک بہادرسے ہوگیا البتہ شاہی ولی عہدوں کے انتقال کے بعد انھیں پھر سے محل سے نکال دیا گیا۔یوں تاریخی اور تہذیبی حوالے سے اس ناول میں ہند مغل جمالیات اورہند مسلم ثقافت کا تہذیبی و تاریخی شعور بدرجہ اتم دکھائی دیتا ہے ۔ ناول کی کتابیات سے پتہ چلتا ہے کہ اس ۸۲۱ صفحات کے ناول کی تیاری میں شمس الرحمن فاروقی نے ۳۰اردواور۱۴ انگریزی کتب کا سہارا لیا ہے ۔

یہ ناول متنوع اور کثیر الجہت تہازیب کاایک گلدستہ دکھائی دیتا ہے جس میں کہیں مغلیہ دربار سے منسلک رسوم رواج، نشست و برخاست کے نمونے دکھائی دیتے ہیں، کہیں دہلی اورلکھنو کی تہذیب کے آثار نظر آتے ہیں ،کہیں مختلف پیشوں اور اور ان سے منسلک لوگوں کے حالات و واقعات جزئیات نگاری کے سانچے میں ڈھلتے ہیں تو کہیں محلاتی سازشیں ،فنونِ لطیفہ میں موسیقی ، رقص ، شاعری اور شبیہ سازی کے نمونے نظر آتے ہیں۔شمس الرحمن فاروقی چوں کہ قدیم اردو ،اس کے مختلف لہجے ، فارسی روزمرہ، اور تہذیب و ثقافت سے مکمل واقف تھے ، اس لیے انھوں نے منظر کشی اور مکالمہ نگاری کرتے ہوئے ، ان سب کا بہترین استعمال کیا ہے۔ کئی الفاظ اور تراکیب ایسی ہیں جنھیں سمجھنے کے لیے لغات کا سہارا لینا پڑتا ہے جب کہ کئی مقامات پر فارسی سے ناواقفیت کی بنا پر متن کے ابلاغ سے بھی دو چار ہونا پڑتا ہے۔ مثلاًوزیر خانم کے سفر کا ایک حوالہ ملاحظہ کیجیے :

”وزیر خانم کی بہلی کا ایک دھراگھستے گھستے ذرا مخدوش ہوگیا تھا اور خوف تھا کہ بیلوں کو اگر تیز دوڑایا گیا تو دھرا ٹوٹ سکتا ہے ۔ ان کی بہلی آہستہ آہستہ چل رہی تھی، یہاں تک کہ ساتھ کے تمام مسافر، خواہ وہ بہلیوں پر تھے یا تام جھام یا پالکیوں پر ، آگے نکل گئے۔فیل نشین، شہسوار، سانڈنی سوا ورو بگھی سوار تو پہلے ہی یہ جا وہ جا نظروں سے اوجھل ہوچکے تھے۔“(۴)

درج بالا پیرا گراف میں دھرا، جتے ہوئے بیلوں پر سواری کرنا، بہلی،تام جھام، پالکیاں ، فیل نشین، شہسوار، سانڈ نی سوار اور روبگھی سوار تمام ذرائع سفرکا جزو لا ینفک اور اس تہذیب کے لوازمات میں سے تھے ، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ سب ختم ہوچکے ہیں۔ دوسری جانب انگریز سرکارکے افسرمارسٹن بلیک کی سواری کا احوال ملاحظہ کیجیے جس سے اس کے”رتھ“ کے شان و شوکت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں رہتاجو کہ اس وقت کی تہذیب کا اہم حصہ تھی۔

”مارسٹن بلیک کے قافلے میں، جو عازم جے پور تھا، آرائش اور گوٹے ٹھپے سے جگمگاتا ہوا اور تازہ پھولوں کے گجروں سے گمکتا ہوا اور تازہ ہری ترہات سے ہریالا بنا ہوا ایک رتھ بھی تھا وزیر خانم عرف چھوٹی بیگم زرق برق حجلۂ عروسی میں محل اس میں سوار تھیں۔ (۵)

شمس الرحمن فاروقی نے ناول میں تہذیبی استعاروں کے استعمال کی غرض سے مختلف مناظر میں جزئیات نگاری سے کام لیا ہے جسے وہ روایت سے جوڑتے چلے جاتے ہیں۔اسی لیے ناول کا کوئی بھی منظرتہذیبی جزئیات کے بنا مکمل دکھائی نہیں دیتا۔ ادب سے جڑا ایک منظر ملاحظہ کیجیے جس میں ان کے اپنے جذبات بھی شامل ہیں تاکہ منظر کی سحر انگیزی مزید بڑھ جائے:

” کیسی کششیں ہیں اور کیسے جوڑ۔ صرف ایک دو دوارے اور نہ جانے کتنی کششیں۔ مر گ، نیست، شبے اور بے خوابیم کو بھی یوں لکھا تھا کہ ”بے“ اور ”خوابیم“ میں بھی کشش ڈال دی تھی۔ اور علم کی طرح دل میں کھبتے ہوئے”ایں “ اور”آں“اور ”افسانہ“ کے الف۔ این نیست آن شبے کہ بہ افسانہ بگزردد کیا پراسرار بات ہے اور اس موقعے پر تو اوربھی رمز ناک معلوم ہوتی ہے۔ “ (۶)

عہدِ گزشتہ میں کسی بھی راجہ مہاراجہ کی اپنے محکوم دیہات آمد پر اسے خوش آمدید کہنے کے لیے مخصوص رسوم و رواج موجود تھے۔ لوگ دل و جان سے اس کے استقبال کے لیے جمع ہوتے اور گھرہی نہیں سارے گاوؤں کو دلہن بنا دیا جاتا ۔ ایک ایسے ہی ”مہار اول“ کی گاؤں میں آمد کو بیان کرتے ہوئے اس کا جاہ و جلال، دروازے کی دہلیزوں کی صفائی، گھروں کے باہرپانی کا چھڑکاؤ، دیواروں پر تصویروں کا آویزاں کرنا، چوکھٹ کے آگے رنگولیاں بنانااور جگہ جگہ مور پنکھیاں لٹکانا شامل ہے۔ اس کی بیٹی کی اس کے ساتھ آمد کا احوال بھی کسی قیدی اور مجبور خاتون کی بے بسی کی نمائندگی کرتا نظر آتا ہے اور یہ بھی بتاتا ہے کہ اس وقت خواتین کے پردے کے اہتمام کے لیے کیا کچھ ضروری تھا اور ان کا اوڑھنا بچھونا کیسا تھا۔ ملاحظہ کیجیے:

”مہار اول کی سواری کے پیچھے ایک محافہ، بے پردہ۔ بے پردہ محافہ۔۔۔اور من موہنی اس میں بے چادر اور جوتی ۔ناک ہاتھ پاؤں زیوروں سے عاری۔ منھ پر سرکی کا نشان نہیں، لیکن سر اٹھائے ہوئے ۔ “(۷)

ناول میں تاریخ و تہذیب ہم قدم دکھائی دیتے ہیں ۔برصغیر کی تہذیب و ثقافت کے ایسے بہت سے ایسے الفاظ اس میں موجود ہیں جو نا پید ہوچکے ہیں ۔ بیٹی پربے پردگی کے الزام کے بعدباپ کا اسے غیرت کے نام پر قتل کرنا آج بھی برصغیر کا رواج ہے۔ مہا ر اول کا اپنی بیٹی کو قتل کاکرنے کا اندز ملاحظہ کیجیے جس کی جزئیات نگاری میں شمس الرحمن فاروقی نے پوری چابک دستی سے کام لیا ہے۔

”گجندر پتی مرزا عربی مشکی پر سوار پیچھے ہٹتا گیا، یہاں تک کہ وہ من موہنی سے کوئی دو سو قدم کی دوری پر جا کر ٹھہرا۔ اس نے نیزے کو گھوڑے کی پشت و شکم کے متوازی کرکے دوسرے ہاتھ میں ڈالا، اس طرح کہ نیزے کی انی کا سرا گھوڑے کی کنوتیوں کے بیچوں بیچ آگیا۔ پھر اس نے میان سے تلوار نکالی، ہتھوانس کر اس نے بازو پھیلادیا۔دیکھنے والوں کو لگا جیسے کسی آسمانی عقاب کا شہپر اس کے پنجے میں اگ آیا ہو۔ گھوڑے کو ہلکی مہمیز لگی، تلوار اور بازو ساکت اور سخت تھے۔“ (۸)

ناول کو چوں کہ واقعاتی انداز میں آگے بڑھایا گیا ہے اس لیے اس میں کئی پیراگرافوں میں پرزور مکالمے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ مکالمہ بنیادی طور پرکسی بھی شخص کی تاریخ و تہذیب کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ ذیل میں ایک پیراگراف ملاحظہ کیجیے جس میں ایک مرد اور عورت کی رشتے کے سلسلے میں چپقلش جاری ہے۔ مرد عورت کی جانب ملتفت ہے اور عورت اس سے سوال و جواب کر رہی ہے۔ اس ایک مکالمے میں اس دور کے بہت سے پیشوں ، رسوم و رواج اور تہذیب و ثقافت کا اندازہ ہوتا ہے جس میں متصدی، احدی نفری، کشتی بانی، ہاتوکا بھی ذکر ہے اور عورت سے لیے کھیتی باڑی میں لیے جانے والے کام کا بھی ۔ ملاحظہ کیجیے:

”لکھے پڑھے تو ہو نہیں کہ کچہری دربار میں متصدی ہی لگ جاتے۔ دھان پان ہو، احدی نفری کا کام کر نہیں سکتے۔ہاتو بننا یا کشتی بانی تمھارا خاندانی کام نہیں۔ ۔۔میںکوئی تیرا کشمیری مربھکا نہیں ہوں۔ کشن گڈھ کا چتیرا ہوں۔ بس ہاتھ اٹھا نے کی دیر ہے اور تیرا یہ گورا رنگ ، یہ نازک ہاتھ پاؤں میرے کس کام آئیں گے۔ میرے گھر کی ہوتی تو تیرے ہاتھ میں ایک کلہاڑی پکڑا دیتا، سر پر پلاس کی بڑی سی جھابی اور دس گز کا رسا رکھ دیتا ۔ دن بھر میں ایک دو سانپ بچھوتجھے کاٹتے لیکن تو ہفتے بھر کا سوختہ تو بٹور لاتی ۔ اب یہاں کی بھیگی پھسلواں پہاڑیوں پر تو اونچے اونچے پیڑ کیا کاٹے گی کہ گھر میں چولھا جلے۔ یہاں تو جھڑ بیری نہ جنگلی جلیبی نہ مہندی نہ مولسری۔“(۹)

ناول میں جا بجا مسلم تہذیب کے نمونے بھی دکھائی دیتے ہیں اور یہ دیگر تہازیب میں مدغم ہوتی بھی دکھائی دیتی ہے۔ مثلاً مخصوص اللہ کا مسجد میں جانا، وضو خانے، استنجا خانے کا استعمال، نماز کی ادائیگی ،قرآن خوانی، نعت خوانی اور ایک نماز سے دوسری تک کا انتظارکرنا وغیرہ کو بخوبی بیان کیا گیا ہے۔ مخصوص اللہ کا مسجد سے بزرگ کے ساتھ قالین بافی کے کارخانے کی جانب جانا اور وہاں کا منظر ملاحظہ کیجیے جس میں شمس الرحمن فاروقی کی جزئیات کو محفوظ کرنے کی شعوری کاوش نظر آتی ہے۔

”مسجد کی گلی سے نکلیں تو ایک بڑی سی حویلی ملتی تھی۔ حویلی تھی کہ کہ خانقاہ تھی، کہ کارخانہ تھی، سب کچھ یک جا لگ رہا تھا۔دونوں ایک کمرے میں داخل ہوئے جس کے چوبی فرش کا زیادہ تر حصہ قیمتی قالینوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ فضا میں عطر، زعفران کی خفیف سی مہک تھی۔ اوپر شمعوں کے بجائے چیر اور سفیدے کی شاخوں کو کہیں مشعل، کہیں شمع کی صورت دے کر روشن کردیا گیا تھا۔چوبی شمعوں اور مشعلوں کی مہک، ان کا ہلکا سا دھواں ، ان کے چٹک کر جلنے کی آوازیں، موسیقی سے لبریز، مگر دھیمی ، دس دس بارہ بارہ کے جتھوں میں فرش پر بیٹھے ہوئے لوگوں کی آہستہ گفتگو کی ریشمی لہراہٹ، ان سب نے ماحول پر ایک ناقابل بیان لیکن شدت سے محسوس کیفیت کی چادر ڈال دی تھی۔“(۱۰)

درج بالا پیراگراف میں مسجد ، حویلی، خانقاہ، کارخانہ ، چوبی فرش، قالینیں، عطر، زعفران، شمعیں،مشعلیں، موسیقی وغیرہ کا بیان درحقیقت اس تہذیب و ثقافت ہی کا بیان ہے جس میں قالین بافی کی صنعت کو سیکھااور سکھایا جاتا تھا اور استاد کو ایسا روحانی درجہ دیا جاتا تھا گویا نہ صرف استادبل کہ باپ اور پیر و مرشدتک ہوتا تھا۔ استاد اپنے شاگردوں کو قالین بافی کے لیے خصوصی ”تعلیم“ دیتا جس کا مخصوص انداز ہوتا جس میں وہ سوال کرتا اور شاگرد ہم زبان ہو کر جواب دیتے۔ یہ سوا ل و جوا ب وہ ”تعلیم“ تھی جس نے برصغیر کو قالین بافی کی صنعت میں دنیا بھر میں ممتاز کیا۔شمس الرحمن فاروقی نے اس قالین بافی کے بنیادی نمونے (ڈئزائن) تک کو ہندسوںاور انگریزی الفاظ کی مدد سے بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ ”تعلیم “ کا ایک نمونہ ملاحظہ کیجیے جس میں استاد شاگردوں سے مخاطب ہے:

”ناگ پھنی کا دودھ پینے اور سوسمار کا گوشت کھانے سے یہ فن نہیں آتا، سمجھے میرے راجپوتی گنوار؟ پھر استاد تم م حاضرین سے مخاطب ہو کر کہتا، ”سنو اے احمق ہنگولوں کی اولادو، ایک راجا تھا پرانے وقتوں میں۔ بڑا احمق لیکن فن کا دلدادہ، اور اس ک وزیر تھا بے حل عقل مند۔ سنتے ہو تبتی بدھ پنتی عورتوں کی یادگارو؟“(۱۱)

اسی طرح ایک بچے کی پیدائش کے وقت جو مخصوص ماحول بر صغیر کی تہذیب کا حصہ رہا ہے اس کی منظر کشی کرتے ہوئے بھی اس میںزچہ و بچہ کے حالات، زچہ خانہ، دردِ زہ،دائی جنائی، مبارک باد، گانے بجانے کا شور، کان میں اذان، ماں کا دودھ اترنا ، چھٹی نہانا، در بار پر منتیں کرنا، تعویز لکھوانا، رسم بسم اللہ وغیرہ کاذکر کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول میں ایسے الفاظ کی بھر مار ہے جن کا تعلق برصغیر کی تہذیب و ثقافت سے جڑا رہا ہے ان میں بلوہ، برچھیت، تکفین و تدفین،مزبلے، مغلانی، ازکار رفتہ،داروغہ، شنجرفی، سنگت، مربھکا، چتیرا،ہنگولا،ہم چشم، لولاب،ڈوم ، پراگ، پاپیادہ، زنا شوئی،نگچی،مشکی،مرافعہ، تطاول، دُھن ، ٹھگ ،لونڈی، قحبہ، بنسبلوچن، حرف شناس،قرطاس،پھرن، منڈکری، بنسلوچن،یوس،خطاط،بیساکھی،ہیرامن، کنٹھے،بارہ دری ، چھاگل تقطیع، انگول،اوڑھنی، خطاط، شہنشاہ،ڈانڈی،مدھ ماتیاں، طومار، سنگھاسن،تبرک، ، مہندس، وزیر، مغنی،الچ ،چھچھلی، سادہ کار، نچنی، تام جھام، طاق،طاؤس،گانجا،مقیش،اوڑھنی،پلو،نقش نگار،دہلیز،انگول، تقطیع، کوس، چخاخچی، سمور، قلیج،دانگ، تاجبوشی،تخت نشینی،نقار خانہ،پنجہ کش،دیوان عام،لوح نویسی،داروغہ، کلس،مائیکہ، سیتلا ماں، بھٹیاری،پن بھرنیاں،ایڑ،گاگر،لعبتان،فال،جراح،مشک،خیلا،گاتیاں،جگت،ہیزم،نوروز، انگرگھا، کلاونت، مہنال، کیو ڑ ہ ،تارکشی،قلماقنی،مورچھل،طائفہ،انترا، پیچوان وغیرہ شامل ہیں ۔ اسی ضمن میں مہاداجی سندھیا کی شاہی قلعے میں آمداور انعام و اکرام کا منظر ملاحظہ کیجیے :

پیشوا نے سندھیا کو بادشاہ کی طرف سے پانچ بے بہارقوم جواہر اور نو پارچوں پر مشتمل خلعت پہا یا، پھر اس کے ہاتھ میں مرصع تلوار دی ،د وسرے میں آبنوسی قلمدان مع مہر شاہی رکھا۔ سندھیا نے باہر آکر تخت کے پائے کو بوسہ دیا، پھر مادھوراؤںکا ہاتھ چوما۔ نقیب نے اعلان کیا کہ قلم دان و شمشیر و مہر کے علاوہ بادزن طاؤسی، ایک صندلی زریں، چھ ہاتی مع عماری و نشان، ایک فرس جنگی بھی اعلیٰ حضرت خلافت پناہی ظل الٰہی، فخر دو دمان بابری ، اخلف من اخلاف نیاگان تیموری، خاقان ابن خاقان، سلطان ابن سلطان ، حضرت گہر شاہ عالم بہادر نے شاہ ذانی خلد اللہ ملکی، وادام اللہ سلطانہ نے اپنے فرزند دلبند وکیل السلطنت عالی جاہ مادھو راؤں سندھیا کو مرحمت فرمائے ہیں۔ مبارک سلامت کا غلغلہ پھر بلند ہوا ، نقاروں پر چوب پڑی، حاضرین پر گلاب، عطر عبیر کی ہلکی بوچھاڑ ہوئی۔پھر سندھیا نے اپنے سامنے کھڑے کاتب کو ہلکا سا اشارہ کیا۔ اس نے اپنے سر سے تانبے کا ایک بھاری خوان اتارا جس میں مخملی زرکار خوان پوش کے اوپر دوفرمان شاہی رکھے ہوئے تھے۔ سندھیا نے جھک کر فرمانوں کو تین سلام کیے، پھر بڑھ کر انھیں لیا، بوسہ دیا، آنکھوں سے لگایا اور سر پر رکھا۔“ (۱۲)

اسی ناول کے حوالے سے ایک تحقیقی مقالے میں ڈاکٹر سہیل عباس خان اور ڈاکٹر تنویر حسین بھی اس میں تہذیبی بازگشت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس ناول میں گنگا جمنی تہذیب کے عمدہ نمونے ملتے ہیں ۔اس دور میں ہر ڈیوڑھی پر چوبدار ،لٹھیت ،برچھیت اور دربان ہوتے تھے ۔جب بھی کوئی ملنے آتا تو وہ آنے والے کو روک کر آواز لگاتے۔ہر گھر میں مامائیں ،اصیلیں ،کنیزیں ،باندیاں اور مختلف کاموں کے لیے ملازمائیں رکھی جاتی تھی ۔خصوصیت کے ساتھ یہ سب اہتمام رئیسوں اور افسروں کے گھروں میں ہوتے تھے۔ملازم اپنے آقا ،خاتون خانہ اور مہمانوں کو بات بات میں تین سلام اور سات سلام کرتے اور خاص مہمانوں کو وہی جوتیاں پہناتے تھے۔مہمانوں کی تواضح شربت ، پان ،عطر، گلاب اور بھنڈے(حقے)سے کی جاتی تھی ۔جب کہیں کوئی ہرکارہ یا پیغامبر آتاتھا تو اسے انعام دیے بغیر واپس کرنا معیوب سمجھا جاتاتھا۔شب میں مالک یا مالکن سے شب بخیر اور صبح کو ”صبا حکم خیر“کہا جاتاتھا۔خواتین بگھی یانالکی میں آتی جاتی تھیں ۔(۱۳)

محرم کے آغاز و احترام کا ذکر کرتے ہوئے بھی اس میں امام بارگاہ ، محرم کا چاند، ماتم، مینا بازاروں کا اختتام، ہیرا منڈی(طوائف خانے)کے بالا خانوں سے بھی ماتمی دھنوں کا اہتمام، عزاداری،نوحہ خوانی، تبرک، تعزیہ، مسجد، خانقاہ، خطیبوں اور واعظوں کا فضائل و مصائب اہل بیت کا بیان وغیرہ شامل کیا گیا ہے۔ اس میں مرثیہ خوانی کا انداز بھی ان مکمل جزئیات کے ساتھ بیان کیا ہے کہ قاری کے سامنے سارا منظر گھوم جاتا ہے۔ حضرت عیسیٰ ؑ کے یومِ پیدائش پر بھی اس وقت کی وہ تہذیب و روایت بیان کی گئی ہے جو عیسائی گھرانوں میں آج بھی زندہ ہے اس میں ہر طرف خوشیاں ، گرجا گھر میں گھنٹاں بجنا،تحفوں اور مٹھائیوں کا تبادلہ وغیرہ شامل ہے۔یوں ناول میں ” مسلم تہذیب“کے ساتھ ساتھ ”مشرقی تہذیب“ ،”مغربی تہذیب“، ”مغل تہذیب“اور ”گنگا جمنی تہذیب“ کے عناصر بھی بہت واضح دکھائی دیتے ہیں جن میں عمارات اور ان کا طرزِ تعمیر، اوزارو ہتھیار ،مشینیں ، ادارے ،عقائد ، رسوم و رواج، میل جول کے طریقے اور رویے جن میں طرز زندگی، پہننا اوڑھنا وغیرہ شامل ہیں خوبصورتی سے نمائندگی کی گئی ہے۔ مثلاً جب وہ ایک جھگڑے کا بیان کرتے ہیں تو اس میں مشکیں کسنا، پاؤں میں بیڑیاں ڈالنا، محافظ ، تلوار، کپتان ، کرنل ، طمنچے، گھڑ سوار، قلعہ، تہہ خانے، باز پرس ، جیغہ، طرہ اتالیقی، پوجا پاٹ، مہورت، مسند نیشنی ،چوبدار، برچھیت ، کوتوالی، سپاہی، تھانہ ، فیر (گولی چلانا )اور بلوائیوں کا ذکر اس انداز میں کرتے ہیں کہ اس دور کی تہذیب و ثقافت کے خدوخال واضح ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔اس دور کے آلات و اندازِ موسیقی کا بیان ملاحظہ کیجیے:

دونوں بھائیوں کے ہاتھ میں طاؤس ، ایک ایک سنتور نواز اور دف نواز دائیں اور بائیں، تین نوجوان سمرقندی سہ تار لیے ہوئے پیچھے کچھ الگ کھڑے تھے۔ سنتور نواز کے پیچھے ایک بزرگ نے نواز کے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی نے ، لیکن بید کی نہیں بل کہ پیتل کی۔ طاؤس اور سہ تار کو ہم آہنگ کرنے کی مشقیں جاری تھیں۔نے کی آواز کبھی کبھی بلند ہوجاتی ۔۔۔چار بخور دان کمرے کے چاروں کونوں میں طاق پر رکھے تھے لیکن بہت آہستہ جل رہے تھے، سوزگی کو شاید کسی ترکیب سے ایسا بنیا گیا تھا کہ دیر تک اور آہستہ جلے۔بہت باریک دھوئیں کی لکیروں کے ساتھ عود اور عنبر کی خوشبو کی لپٹیں کبھی کبھی مہمانوں کو چھو جاتیں۔(۱۴)

گو کہ کئی مقامات پر تاریخ و تہذیب سے نا آشنائی تفہیمی مشکلات کا سبب بنتی ہے لیکن شمس الرحمن فاروقی نے تاریخی واقعات کو اس خوبصورتی سے ایک دوسرے کے ساتھ منسلک کیا ہے کہ نہ تو قاری کی توجہ موضوع سے ہٹنے پاتی ہے اور نہ ہی بین السطور تک رسائی کے مراحل میں کوئی خیال مانع ثابت ہوتا ہے۔ کئی جگہوں پر وہ گویا قاری کا ہاتھ تھامے ان تمام مناظر میں لے جاتے ہیں جو اب عہدِ پارینہ کا حصہ بن چکے ہیں۔ دعوتِ طعام سے قبل مہمان کی پسند، مزاج پرسی ، اور بعد از طعام دل بہلانے کے لیے موسیقی کے شغف کے بارے میں جو تہذیبی روایات تھیں، ان کا بیان ملاحظہ کیجیے:

”وزیر نے مورچھل ہلانے والی خواص کو اشارہ کیا ۔ آن کی آن میں سازاور سازندے آموجود ہوئے اور تین سلام کرکے اپنی اپنی جگہوں پر بیٹھ گئے۔ سب سے آخر میں نسیم جالندھری آئیں ،دوہرا بدن ، شباب ڈھل چکا تھا لیکن چال ڈھال، نشست و بر خاست میں سہج سبھاؤں تھاگویا اسم بامسمیٰ تھیں۔ انھوںنے سات سلام کیے پھر آگے بڑھ کر نواب کے داہنے ہاتھ کو بوستی دیا اور کہا”کیا سناؤں ، جناب عالی کی مرضی کیا ہے ، فارسی کا کچھ عارفانہ کلام، یا ریختہ کی کوئی غزل؟“ (۱۵)

ناول کا مجموعی طور پر جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس میں نہ صرف بر صغیر کے عہد کی تہذیبی و ثقافتی سطح پر ترجمانی کی گئی ہے ، تہذیبی عناصر سے ترتیب دیا گیا ہے، تہذیبی کشمکش موجود ہےبل کہاس کے میں متنوع تہازیب ایک دوسرے میں مدغم ہوتی بھی نظر آتی ہیں ۔ اس لیے اس ناول کو برصغیر کی متنوع تہازیب کا گلدستہ قرار دیا جاسکتا ہے۔

٭٭٭

حوالہ جات
۱۔ علیم الدین بیگ، مضمون: " ڈاکٹر، شمس الرحمن فاروقی کی شخصیت کے نمایاں پہلو"،مشمولہ: سہ ماہی روشنائی، کراچی، شمارہ ۱۴، جولائی تا ستمبر ، ۲۰۰۳ء، ص: ۴۱
۲۔ رشید اشرف، ڈاکٹر ، "کئی چاند تھے سرِ آسماں ایک تجزیاتی مطالعہ " نئی دہلی: براؤن پبلی کیشنز، 2007، ص:34
۳۔شمس الرحمن فاروقی "کئی چاند تھے سرِ آسماں"، کراچی: شہر زاد ،، ۶ ۲۰۰ء ، ص:847۔
۴۔ ایضاً، ص: ۱۲۔
۵۔ ایضاً، ص:۵ ۱
۶۔ایضاً، ص: ۵۱
۷۔ایضاً، ص: ۵ ۶
۸۔ایضاً، ص:۶۶
۹۔ ایضاً، ص:۱ ۷

۱۰۔ایضاً، ص:۶ ۷
۱۱۔ایضاً، ص:۲ ۸
۱۲۔ایضاً، ص: ۷ ۹
۱۳- سہیل عباس خان،ڈاکٹر,تنویر حسین، ڈاکٹر، مضمون :"کئی چاند تھے سر آسماں : ایک مطالعہ "مشمولہ: نور ِتحقیق(جلد:۳،شمارہ : ۲ ۱) ، لاہور گیریژن یونیورسٹی، لاہور،ص۳۹
۱۴- شمس الرحمن فاروقی "کئی چاند تھے سرِ آسماں"، کراچی: شہر زاد ،، ۶ ۲۰۰ء ، ص: ۱۱۷

۱۵-ایضاً، ص: ۲۶۶

٭٭٭

REFERENCES:

  • Aleem ud Din Baig, Mazmoon: “dr. Shams Ur Rehman Farooqi Ki Shakhsiyat Kay Numayan Pahlu” Mashmoola: Sah Mahi Roshnai, Karachi, Shumara No. 14, July-Sep 2003, P No. 41
  • Rasheed Ashraf, Dr. ,Kai Chand They Sar-e-Asman, Aik Tajzeeyati Mutala, New Dehli, Brwon Publications, 2007, P. No. 34
  • Shams Ur Rehman Farooqi, Kai Chand They Sar-e-Asman, Karachi, Shaharzad, 2006, P No. 847
  • Ibid, P No. 12
  • Ibid, P No. 15
  • Ibid, P No. 65
  • Ibid, P No. 66
  • Ibid, P No. 71
  • Ibid, P No. 72
  • Ibid, P No. 82
  • Ibid, P No. 97
  • Suhail Abbas Khan, Dr. and Tanveer Hussain, Dr., Mazmoon, “Kai Chand They Sar-e-Asman: Aik Mutala”, Noor-e-Tahqeeq, Vol.3, No. 12, Lahore: Garrison Univeristy, Lahore. P:39
  • Shams Ur Rehman Farooqi, Kai Chand They Sar-e-Asman, Karachi, Shaharzad, 2006, P No. 847
  • Ibid, P No. 177
  • Ibid, P No. 266
بہت اعلیٰ
 

الف عین

لائبریرین
اچھا مضمون ہے، سَمت کے لئے تو ایسے مضامین کبھی بھیجے ہی نہیں!
حوالہ جات انگریزی میں کیوں؟
 
اچھا مضمون ہے، سَمت کے لئے تو ایسے مضامین کبھی بھیجے ہی نہیں!
حوالہ جات انگریزی میں کیوں؟
السلام علیکم سر۔ سر آپ مجھے براہِ کرم ای میل عنایت فرمائیے میں ارسال کردوں گا۔ اور یہ اجازت دیجیے کہ کیا پہلے سے کہیں اشاعت شدہ مضمون ارسال کیا جاسکتا ہے؟؟؟
 
آپ نے بہت جامع تبصرہ فرمایا ہے اور تقریباً تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا ہے۔ یہ ناول میں نے بھی پڑھا ہے اور واقعی اپنی طرز کا واحد ناول ہے۔ لگتا تھا جیسے ہم برصغیر کے اسی دور میں موجود ہیں۔ مجھے یقین نہیں تھا کہ مجھے پرانے ادوار کے پس منظر میں لکھا ناول اس قدر پسند آئے گا۔ لیکن چند باتیں بڑی عجیب محسوس ہوئیں۔
ذرہ نوازی کے لیے ممنون ہوں۔ جزاک اللہ خیرا۔
ناول کی پسندیدگی کے حوالے سے گویا آپ نے میرے دل کی بات کہہ دی۔ واقعتاً خوبصورت ناول ہے۔ بڑے ناولوں میں کچھ نہ کچھ عجیب ضرور ہوتا ہے۔ آپ بتائیے کونسے پہلو عجیب محسوس ہوئے۔
 

جاسمن

لائبریرین
ذرہ نوازی کے لیے ممنون ہوں۔ جزاک اللہ خیرا۔
ناول کی پسندیدگی کے حوالے سے گویا آپ نے میرے دل کی بات کہہ دی۔ واقعتاً خوبصورت ناول ہے۔ بڑے ناولوں میں کچھ نہ کچھ عجیب ضرور ہوتا ہے۔ آپ بتائیے کونسے پہلو عجیب محسوس ہوئے۔
ہم آج کے ان ممالک میں جو کبھی برصغیر کا حصہ تھے، دیکھتے ہیں کہ بغیر نکاح کے کسی جوڑے کا تصور درمیانے طبقے میں انتہائی محال ہے۔ اور اگر فرض بھی کیا جائے تو بھی کوئی جوڑا علی اعلان کسی درمیانہ طبقے کی آبادی میں رہ بھی نہیں رہ سکتا۔ ناول کے زمانے کے حساب سے، اس وقت تو قدریں آج سے کہیں زیادہ طاقت رکھتی تھیں۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
خرم ، بہت عرصے بعد محفل میں نظر آئے ۔ امید ہے سب خیریت رہی ہوگی ۔
آپ نے بہت اچھا تبصرہ لکھا ہے ۔ پسند آیا ۔اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ! تحقیق پر مبنی اس قسم کی تحریریں اب کم ہی نظر آتی ہیں ۔
کیا یہ تبصرہ کسی تعلیمی اسائنمنٹ وغیرہ سے متعلق تھا یا آپ نے خود ہی اس ناول کو تبصرے کے لیے منتخب کیا ؟!
 

سید عمران

محفلین
بہت لطف آگیں تبصرہ ...
ناول کے اقتباس جس عہد کا پتا دیتے ہیں اس تہذیب کے بارے میں جب پڑھو جتنا پڑھو تشنگی نہیں جاتی. وہ عہد خود تو برا بھلا جیسا ہو پر اس کے انداز تحریر کی مثال نہیں. گویا لفظ لفظ سنگ سنگ مدھر سنگیت گائے!!!
 
آخری تدوین:
ہم آج کے ان ممالک میں جو کبھی برصغیر کا حصہ تھے، دیکھتے ہیں کہ بغیر نکاح کے کسی جوڑے کا تصور درمیانے طبقے میں انتہائی محال ہے۔ اور اگر فرض بھی کیا جائے تو بھی کوئی جوڑا علی اعلان کسی درمیانہ طبقے کی آبادی میں رہ بھی نہیں رہ سکتا۔ ناول کے زمانے کے حساب سے، اس وقت تو قدریں آج سے کہیں زیادہ طاقت رکھتی تھیں۔
آپ درست فرمارہی ہیں اور عموماً یہ مشرقی روایات کے بالکل خلاف ہے ، لیکن یہ ناول تاریخی بنیاد پر ہے اور وزیر بیگم کا مزاج یہ دکھایا گیا ہے کہ اولا ً انھیں ایک پرکشش اور امیر شوہر درکار تھا۔۔۔ دوسرا یہ کہ انگریز کے ساتھ بے نکاحے رشتے پر ان کے گھر والوں کو اعتراض نہ تھا۔ اس رشتے کا انجام عبرت ناک تھا اور پھر یہ سلسلسہ عمر بھر ان کے ساتھ چلا ۔ داغ دہلوی بھی متعی (متعہ) اولاد میں سے تھے۔۔۔ یہ سب ہمیں ناول کے ذریعے معلوم ہوتا ہے۔ میں نے ناول سے متاثر ہو کر وزیر بیگم کی تصویر ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی لیکن نہ مل سکی۔ ایک بات جس کی جانب زیک نے اشارہ کیا کہ بہرحال یہ ناول ہے :)
 
بہت لطف آگیں تبصرہ ...
ناول کے اقتباس جس عہد کا پتا دیتے ہیں اس تہذیب کے بارے میں جب پڑھو جتنا پڑھو تشنگی نہیں جاتی. وہ عہد خود تو برا بھلا جیسا ہو پر اس کے انداز تحریر کی مثال نہیں. گویا لفظ لفظ سنگ سنگ مدھر سنگیت گائیں!!!
بے شک شاہ صاحب آپ نے درست فرمایا۔۔۔ ا س میں :کسی: والا باب تو بال خصوص ، جب ٹھگوں سے سامنا ہوتا ہے، بالکل ہی قاری کو جذب کرلیتا ہے۔ اور بھی بہت سے مقامات ایسے ہی ہیں۔
 
خرم ، بہت عرصے بعد محفل میں نظر آئے ۔ امید ہے سب خیریت رہی ہوگی ۔
آپ نے بہت اچھا تبصرہ لکھا ہے ۔ پسند آیا ۔اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ! تحقیق پر مبنی اس قسم کی تحریریں اب کم ہی نظر آتی ہیں ۔
کیا یہ تبصرہ کسی تعلیمی اسائنمنٹ وغیرہ سے متعلق تھا یا آپ نے خود ہی اس ناول کو تبصرے کے لیے منتخب کیا ؟!
سر بہت شکریہ ، آپ نے تا حال یاد رکھا۔ مجھے لگا محفل والے بھول گئے ہوں گے اور بہرحال یہاں حالات کچھ ایسے تھے کہ حاضر نہ ہونے میں ہی عافیت تھی ۔
دعاؤں کے لیے بہت شکریہ، ممنون ہوں۔ آمین۔ جزاک اللہ خیرا۔
میں نے یہ ناول پڑھایا تھا اور اس کے بہت سے پہلوؤں پر بات کی تھی، جن میں سے ایک پہلو یہ بھی ہے۔ اسے میں نے لکھ لیا تھا اور بعد ازا ں ایک تحقیقی رسالے تصدیق میں شایع ہوا تھا۔مضمون طویل تھا، رسالے نے اس کی ضخامت کم کرنے کے لیے کہا، جتنا وہاں شائع ہوا ، اتنا ہی یہاں اشتراک کیا۔ اس کا انتخاب میں نے خود کیا تھا۔
 
میری درخواست ہے کہ اس طویل تحقیقی مضمون کو من وعن یہاں شریک کیا جائے۔ :):):)
جی ان شا اللہ۔ کوشش کروں گا۔ اگر مل گیا تو ضرور۔ میں نے ایک طالب علم سے اس کی مکمل تہذیبی فرہنگ بھی تیار کروائی تھی۔ وہ اس کا مقالہ تھا۔ ملا تو اشتراک کروں گا۔ ان شا اللہ۔
ایک ایم ایس کی طالبہ اس کے ترجمے پر بھی تحقیقی مقالہ لکھ رہی ہے۔
 

زیک

مسافر
ہم آج کے ان ممالک میں جو کبھی برصغیر کا حصہ تھے، دیکھتے ہیں کہ بغیر نکاح کے کسی جوڑے کا تصور درمیانے طبقے میں انتہائی محال ہے۔ اور اگر فرض بھی کیا جائے تو بھی کوئی جوڑا علی اعلان کسی درمیانہ طبقے کی آبادی میں رہ بھی نہیں رہ سکتا۔ ناول کے زمانے کے حساب سے، اس وقت تو قدریں آج سے کہیں زیادہ طاقت رکھتی تھیں۔
ڈالرمپل کی کتاب وائٹ مغلز کا مطالعہ بھی آپ کے لئے مفید رہے گا۔

 
Top