”اردو محفل “ کے شاعرسے مکالمہ (نیاسلسلہ)

السلام علیکم۔​
پہلے تو مجھے سخت شکایت ہے محترم محمد خلیل الرحمٰن صاحب سے کہ انہوں نے مجھ ایسے نا چیز کو استادوں میں شمار کر ڈالا۔ یہ بات محض ان کے حسن ظن اور محبت کے سوا یقیناً کچھ نہیں۔​
وقت کی کمی کی وجہ سے سوالات کے جوابات حصوں میں ارسال کر سکوں گا جس کے لئے احباب سے معذرت۔​
اردو محفل : آپ کا بنیادی حوالہ شعر ہے ،آپ فرمائیے کہ آپ سالیبِ شعری کے علاوہ ادب کی دیگر اصناف سے بھی رغبت رکھتے ہیں ؟

جواب : سچ کہوں تو شعر کے علاوہ کسی چیز سے رغبت نہیں۔ البتہ شعر ہی سے متعلق مضامین تنقیدی و تعمیری مضامین کی طرف میری خاصی رغبت ہے۔ ادب تحقیق میرا مشغلہ اور شوق بھی ہے لیکن میں ان سب کو شعر ہی کی ذیلی اصناف سمجھتا ہوں۔ باقی افسانے یا دیگر اصناف میں نہ کبھی ہاتھ ڈالا نہ ایسا کوئی ارادہ ہے۔

اردو محفل : آپ شعر کیوں لکھتے ہیں ؟ ادب کی دیگر اصاف بھی تو ہیں ان کی طرف میلان و رغبت کیوں نہیں ہوئی ؟ اگر ہوئی ہے زیادہ مطمعن کس اظہار میں ہیں شعر یا نثر ؟
جواب : میں شعر کیوں کہتا ہوں اس کے لئے تھوڑا منظم جواب دینا چاہونگا جو چند ایک وجوہات پر مبنی ہے۔
پہلی وجہ: میرے خیال میں مَیں شعر اس لئے کہتا ہوں کہ یہ مجھی سے پیدا ہونے والی ایک مخلوق ہے (جس کا تخلیق کار میں خود ہوں اگر چہ مطلق تخلیق کار نہ سہی)
دوسری وجہ: شعرکہنا میرے اختیار میں نہیں۔ مگر میں اس وقت سے شعر کہتا ہوا ہوں جب مجھے شعر میں ردیف و قافیہ کا علم بھی نہ تھا اس سے یہ ثابت ہوا کہ شعر سے میرا تعلق میرے شعور کے دور سے بھی پہلے کا ہے۔​
تیسری وجہ: شعر کہنا مجھے وراثت سے ملا ہے۔ لیکن افسوس شعر و سخن کی محافل نہیں ہیں نصیب میں۔​
اب میلان و رغبت کی بات ہے اس حوالے سے سیدھا سا جواب یہ ہے کہ جب شعر شعور سے بھی پہلے میرے ساتھ ہے(لفظی طور پر محال) تو دوسری طرف رغبت کیونکر ہو؟ میں نے ایک طویل عرصے تک شعر کو فن نہیں سمجھا تھا بلکہ اپنی ذات کی ضرورت سمجھ کر شعر کہنا شروع کیا۔ تو نثر سے کہاں وہ پیاس بجھے گی؟​
شعر می گویم بہ از آب حیات​
من نہ دانم، نہ دانم، نہ دانم فاعلاتن فاعلات​
 
اردو محفل: شاعری کو روح کا خلجان کہاں جاتا ہے ۔۔ ناآسودگی کا نوحہ کہا جاتا ہے۔۔ ؟؟ کیا آپ کے نزدیک یہ بات درست ہے ؟ اور کیوں ؟
جواب:اس سوال کو میں کائناتی فکر و تردد کی حیثیت سے دیکھتا ہوں۔ ”Cosmic Notion“ او ر پھر ہر تخلیق کسی نا آسودگی کے نتیجے میں ہی منظر عام پر آتی ہے۔ اس لئے شاعری اور محض شاعری پر ہی اس بات کا انحصار غلط ہے۔ باقی یہ ہے کہ شاعری اور محبت کے بارے میں رسمی اور رواجی باتوں کا تو نہ سر ہے نہ پیر۔ ان معاملات میں مفکرین کی طرف رجوع کرنا عقلمندی جانتا ہوں۔

اردو محفل:ہمارے گردو پیش میں ایک سوال بازگشت کرتا نظر آتا ہے کہ ”شاعری کیا ہے“ ۔۔ آپ کیا کہتے ہیں ا س بارے میں کہ اس سوال سے”شاعری“ کی کوئی جہت دریافت ہوسکتی ہے یا محض وقت گزاری ہے؟

جواب : اوپر جیسا کہ عرض کیا کہ رسمی رواجی سوالات مثلاً محبت کیا ہے؟ یا شاعری کیا ہے؟ اور اس قسم کی باتیں، ان کی میرے نزدیک کوئی حیثیت نہیں۔ کیونکہ میری عقل یہ کہتی ہے کہ نہ کوئی شاعر شاعری کی مکمل اور جامع تعریف بیان کر سکتا ہے نہ کوئی عاشق اپنی عاشقی کا حال بتا سکتا ہے۔ ان معاملات کو میں عاقلین و مفکرین اور فلسفی حضرات پر چھوڑتا ہوں اور نظر اٹھا کر دیکھیں تو اندازہ ہو جائے کہ محبت اور شاعری کی تعریف عوام کو سمجھانے والے یقیناً شعرا یا عاشق حضرات نہیں ہیں اور ادب میں جن لوگوں نے شاعری کی تعریف کو مرتب کیا بھی ہے ان کی تعریف سے خود شعرا خاصے نالاں نظر آتے ہیں (یہ بات اور ہے کہ عوام نے ان سوالات کے خود ساختہ بہت سے جوابات پہیلا دئے ہیں)۔ یہ بات درست ہے کہ قبر کا حال مردہ ہی جانے مگر مردہ بیچارہ معذور ہے بیان کیسے کرے؟ میرا دماغ یہی کہتا ہے کہ کیچڑ میں لت پت انسان اپنے آپ کو نہیں دیکھ سکتا مگر اس کے سامنے کھڑا ہوا انسان ضرور دیکھ سکتا ہے حالانکہ اس پر کیچڑ کی چھینٹ بھی نہیں آئی ہوتی۔ میں ایسے معاملات میں کافی کٹر اور یک طرفہ سوچ کا مالک ہوں۔

اردو محفل :کیا اس سوال کا اسالیبِ ادب میں کوئی مقام ہے ؟ اگر ہے تو اس سے کیا فائدہ ممکن ہوسکا ہے اب تک ؟؟

جواب : جب یہ ثابت ہی ہوگیا کہ شاعری اور اسی طرح کی دیگر تخلیقات روح کے خلجان اور نا آسودگی کی وجہ سے وجود میں آتی ہیں تو اس سوال کا اسالیب سے تعلق؟ میری عقل میں نہیں آتا۔ میری طرف سے صرف وقت گزاری ہی کو جواب مانا جائے۔
 
اردو محفل : سنجیدہ ادبی حلقوں میں یہ نعرہ بڑے زور و شور سے بلند کیا جاتا ہے کہ ادب روبہ زوال ہے کیا یہ بات درست ہے ؟ بادی النظرمیں عام مشاہدہ یہ ہے کہ لکھنے والوں کی تعداد خاصی ہے ، کتابیں رسائل جرائد بھرے پڑے رہتے ہیں تخلیقات سے اور طباعتی ادارے خوب پھل پھول رہے ہیں۔۔۔

جواب : ادب رو بہ زوال ہونا میرے نزدیک درست نہیں۔ میں یہ کہتا ہوں کہ ادب کی تخلیق جاری ہے۔ جاری تھی۔ جاری رہے گی۔ مسئلہ در اصل یہ ہے کہ ادب کی تصویروں میں وقت کے ساتھ فرق آتا رہا ہے۔ تاریخی حیثیت سے بھی دیکھیں تو ہر پچاس ساٹھ سال میں ادب میں بدلاؤ آتا ہے۔ قطب شاہوں کے زمانے کا ادب کچھ تھا، پھر ولی دکنی کے وقت میں ادب کی کچھ اور شکل ہوگئی، سودا اور میر کا وقت الگ تھا۔ پھر ناسخ کے دور میں اور جدت آئی، پھر غالب کا دور بالکل الگ تھا ادب کی تاریخ میں ۔ اسی طرح آج کا ادب آج کے ماحول، حالات و واقعات کی مناسبت سے گزرے ہوئے ادوار سےالگ ہے۔ ایسے میں یہ کہنا کہ ادب رو بہ زوال ہے درست نہ ہوگا۔ میرے نزدیک اس مصروف دور میں بھی ہر طرف جتنا ادب تخلیق ہو رہا ہے، جتنی شاعری لکھی جارہی ہے، جتنے ناول اور افسانے لکھے جا رہے ہیں کل ملا کر اردو لٹریچر جس مقدار میں جمع ہو رہا ہے ۱۸۶۰ ء سے پہلے کہاں تھا؟ نثر کی جتنی تعداد بیسوی صدی کے بعد وجود میں آئی اس سے پہلے یہ تعداد کہاں تھی؟ ہاں اگر ادب رو بہ زوال سے مراد صرف شاعری رو بہ زوال ہے تو میں اس معاملے سے کسی حد تک اتفاق کر سکتا ہوں۔ لیکن مکمل اتفاق نہیں کرتا ۔کیونکہ معیاری شاعری کی تعداد میں کمی بیشک آئی ہے مگر زبان کا نکھار جو آج ہے وہ پہلے نہ تھا۔ اردو آج مکمل زبان ہے جو آج سے ڈیرھ صدی پہلے تک بھی نہیں تھی۔ اس بحث کے لئے با قاعدہ مضمون درکار ہے۔
 
اردو محفل :نئے لکھنے والے اس بات سے شاکی رہتے ہیں ہے کہ ان کے ”سینئرز“ ان کی نہ رہنمائی کرتے ہیں اور نہ انہیں قبول کرتے ہیں ۔۔کیا یہ شکوہ جائز ہے ؟ اور یہ فضا کیسے تحلیل ہوسکتی ہے ۔
جواب : قابلیت کو قبول نہیں کیا جاتا بلکہ مقبول ہو جاتی ہے۔ میرے نزدیک یہ شکوہ جائز نہیں ہے۔ اب اسکی بھی دو صورتیں ہیں۔ مقبولیت کا ذمہ دار میں قابلیت سے زیادہ قسمت کو جانتا ہوں۔ قابلیت کسی کی میراث نہیں نہ ہی شہرت اور مقبولیت کسی کی میراث ہے۔ یہ خدا کے معاملے ہیں۔ جسے چاہے قابلیت دے دے مگر مقبولیت نہ دے۔جسے چاہے مقبولیت دے گو کہ قابلیت میں اس سے زیادہ اہل لوگ موجود ہوں۔ تو یہ شکوہ ایسا ہے جس کا کوئی حل نہیں ا سلئے اس شکوے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ورنہ بڑھتے سیلاب کو روکنا کسی کے بس میں کہاں ہے؟
اس کے ساتھ ہی لکھاریوں کا متحمل ہونا بہت ضروری ہے۔ نہ تو استاد آسانی سے میسر آتا ہے، نہ ہنر پلک جھپکتے ہی مل جاتا ہے۔ یہ صرف شاعری کے نہیں بلکہ اور معاملات میں بھی ہے ۔ مثلاً میں سنار ہوں اور ہمارے شعبے میں بھی کام کو سیکھنے کے لئے شروع کے دو یا تین سال تک تو استاد کے لئے صرف چائے اور پان ہی لانے پڑتے ہیں۔ برتن دھونے پڑتے ہیں۔ پھر کہیں جا کر کام سکھانا شرع کروایا جاتا ہے ۔ اور یہ بات بھی استاد کے موڈ پر منحصر ہے کہ اس سے زیادہ عرصہ بھی گزار دے۔ تحمل اور خود اپنی اصلاح کے واسطے استاد سے محبت رکھنا ضروری ہے۔ کچھ اغلاط ہمیں نو آموز کو سمجھ نہیں آتی مگر استاد کو علم ہوتا ہے تو بے جا الزام دینا غلط ہے۔​
اردو محفل :ادب میں حلقہ بندیوں کے باوصف گروہ بندیوں کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں کیا اس سے ادب کو کوئی فائدہ یا نقصان پہنچ سکتا ہے ؟
جواب : فائدہ اور نقصان دونوں ہی ممکن ہیں۔ گروہ بندی کا معاملہ تو یہ ہے کے اگر آپس میں مقابلہ کی نیت سے گروہ بندی ہے تو مثبت ہے۔ یعنی کونسا گروہ کتنا اچھا لکھ سکتا ہے۔ فیصلہ قواعد و ضوابط کے ذریعے ہوگا جو تنقید و فن کے آئمہ نے ترتیب دئے ہیں۔
اس کے بر عکس اگر فیصلہ صرف اپنی رائے اور اپنے گروہ کے حق میں ہی دینا ہے تو ادب کے لئے سخت نقصان اور خسارے کا سبب ہے۔
 
اردو محفل :آپ کیا کہتے ہیں کہ کسی شاعر کے ہاں اسلوب کیسے ترتیب پاسکتا ہے ؟
جواب : عبارت سے جو اُسلوب کے معانی میں نے اخذ کیے اس کے جواب میں یہ کہونگا کہ اُسلوب کا ترتیب پانا مقبولیت سے بھی علاقہ رکھتا ہے۔ دیکھو ہر پختہ شاعر کا اپنا ایک رنگ ہوتا ہے۔ میر تقی میر کوپڑھو، مرزا غالب کو پڑھو، رفیع سودا کو پڑھو۔ شاعری کرتے کرتے ایک وقت ایسا آتا ہے جب الفاظ، بدل لینے پر بھی انداز نہیں بدلا جاسکتا۔ مگر یہ اسلوب کی اصطلاح صرف پختہ شعرا کے لئے قابل قبول ہے جن کی عمر کے ساتھ انکی شاعری بھی بُڈھی ہوگئی ہے۔
پھر اُ سلوب مکمل لہجے یا اندازِ بیان تک ہی موقوف نہیں اسلوب کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ یہ کسی لفظ، کسی صفت، یا کسی نام سے بھی قرار میں آتا ہے۔ مثلاً میر تقی میر کا مکمل مجموعۂکلام اٹھائیں۔ اور دیکھیں کہ میر لفظ بلبل کو کس طور استعمال کرتے ہیں؟
میر بلبل کا لفظ اکثر مایوسی کی حالت میں استعمال کرتے ہیں۔ کہیں آپ انہیں فریادی پائینگے، کہیں پھبتیاں کستے ہوئے۔ کہیں مرگ کا ذکر کرتے ہوئے۔
اسی طرح غالب کو دیکھیں تو وہ یہ کام قیس و مجنوں سے لیتے ہیں اپنے انداز میں۔
ابن انشا کے چاند سے کون نا آشنا ہے؟ وہ ان کا انداز ہے۔ میرے نزدیک یہ دونوں باتیں اسلوب کے ذیل میں آتی ہیں۔
 
اردو محفل : ہم عصر شعراءاور نوواردانِ شعر میں معیارِ شعر کا فرق ؟ یہ فرق کیسے ختم ہوسکتا ہے ؟ اچھے شعر کا معیار کیا ہے ؟
جواب: اچھے شعر کا صرف ایک ہی معیار ہے۔ اور اس معیار کا دار و مدار مضمون پر ہے۔​
جانتا ہوں کہ اساتذہ اس بات سے اتفاق نہیں کرینگے مگر حقیقت یہی ہے۔ جتنا اچھا مضمون ہوگا اتنی ہی مقبولیت ہوگی۔ میں یہاں اچھے شعر کو زبان و بیان، صنائع بدائع کی قید میں نہیں رکھ سکتا کیونکہ زبان و بیان اور ابلاغ پر پورا اترتا ہوا شعر اکثر مضامین سے خالی ہوتا ہے۔ تو ان سب قیود کے بعد اگر کوئی شعر مضمون کے لحاظ سے بڑا ہے تو یقیناً وہ اچھا شعر ہے۔ نو واردان کا شعر اگر ان دونوں میں سے کسی ایک بھی قید پر پورا نہ اترے تو وہ شعر اچھا نہیں ہے۔ یہی تو فرق ہے نو وارد اور پختہ شاعر میں۔ اگر نو وارد بھی پختہ شاعری کر سکے تو نو وارد کیسا؟​
اردو محفل : مملکت ِ ادب میں چلن عام ہے کہ لکھنے والے بالخصوص نئی نسل اپنے کام کو ” ادب کی خدمت“ کے منصب پر فائز دیکھتی ہے ۔۔ کیا ایسا دعویٰ قبل از وقت نہیں ؟
جواب: اگر خدمت کا نام دیتی ہے تو اس میں حرج ہی کیا ہے؟ جہاں ادب رو بہ زوال کے اتنے نالے ہوں وہاں کوئی لکھنے والا اپنے آپ کو ادب کا خادم کہہ دے تو اس سے نقصان ہی کیا ہے؟
 
اردو محفل :ادب کی حقیقی معنوں میں خدمت کیا ہے ؟
جواب: زبان کو سیکھنا سب سے بڑی خدمت ہے میرے نزدیک۔​
اس کے بعد پہلے سے موجود لٹریچر میں حسب شوق موضوع کا مطالعہ۔ اور صرف مطالعہ نہیں بلکہ اس موضوع پر چھوٹی بڑی، مستند اور غیر مستند لکھی گئی کتابوں پر تحقیق کرنا۔ وغیرہ وغیرہ۔ میں شاعری کو خاص اس دور میں زبان کےچوتھے یا پانچوے درجے کی خدمت گردانتا ہوں۔( شعرا سے معذرت کے ساتھ)​
اسکے ساتھ ساتھ لکھنے والوں کی عزت افزائی، اور انہیں منظر عام پر آنے کا موقع دینا بھی ایک خدمت ہے۔​
اس جدید دور میں جب لوگوں نے سائنس کو ہی ادب بنا لیا ہو اس میں اس اردو محفل کو وجود میں لانا بھی ایک خدمت ہے۔ اشاعت و بلاغت کے لئے، اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے لئے، شعرا اور اردو بولنے والوں کے لئے ایک پلیٹ فارم مہیا کرنا بھی ادب کی خدمت ہی تو ہے۔​
میں اور آپ تو مر جانے والے ہیں مگر یہاں ہماری گفتگو جو جمع ہو رہی ہے کیا یہ لٹریچر نہیں ہے؟ میں تو ان گفتگو کی نشستوں اور مباحث اور اردو میں ہونے والے ان لڑائی جھگڑوں کو بھی لٹریچر گردانتا ہوں۔ بات وہی ہے وقت کے ساتھ ادب کی تصویر بھی بدل گئی ہے۔​
 
اس جدید دور میں جب لوگوں نے سائنس کو ہی ادب بنا لیا ہو اس میں اس اردو محفل کو وجود میں لانا بھی ایک خدمت ہے۔ اشاعت و بلاغت کے لئے، اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے لئے، شعرا اور اردو بولنے والوں کے لئے ایک پلیٹ فارم مہیا کرنا بھی ادب کی خدمت ہی تو ہے۔​
میں اور آپ تو مر جانے والے ہیں مگر یہاں ہماری گفتگو جو جمع ہو رہی ہے کیا یہ لٹریچر نہیں ہے؟ میں تو ان گفتگو کی نشستوں اور مباحث اور اردو میں ہونے والے ان لڑائی جھگڑوں کو بھی لٹریچر گردانتا ہوں۔ بات وہی ہے وقت کے ساتھ ادب کی تصویر بھی بدل گئی ہے۔

متفق، جناب!
 
اردو محفل :نظم کی بات الگ مگراسالیب ِ غزل میں”لسانیاتی تداخل“ کے نام پرعلاقائی بولیوں، زبانوں بالعموم و بالخصوص انگریزی زبان کے الفاظ زبردستی ٹھونسے جارہے ہیں، کیا غزل اس کی متحمل ہوسکتی ہے؟
جواب: ایسے الفاظ جن کے بغیر ابلاغ ممکن نہ ہو ایسے الفاظ استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ مگر غزل کا اصرار اب بھی ہندی، فارسی اور عربی زبانوں کا استعمال کرنا ہے۔​
انگریزی کے ایسے الفاظ جن کا متبادل ابلاغ کو مجروح کردے انکو اردو میں شمار کرنا کوئی غلط نہیں۔ لیکن مجھے ایسا نہیں لگتا کہ غزل کا کوئی ایک مضمون بھی ایسا ہوگا جو ان الفاظ کے بنا ادا نہیں ہو سکتا۔ اس لئے ان الفاظ کو غزل کا حصہ بنانا نا جائز تصور کرتا ہوں۔​
اردو محفل : لسانیاتی تشکیل اور اس کے عوامل کے جواز کے طور پر تہذیب و ثقافت سے یکسر متضاد نظریات کے حامل بدیسی ادیبوں کے حوالے پیش کیے جاتے ہیں ۔۔ کیا زبانِ اردو اوراصنافِ ادب مزید کسی لسانیاتی تمسخر کی متحمل ہوسکتی ہیں ؟؟
جواب: اس سلسلے میں کہنے یا کرنے سے تو کچھ ہوگا نہیں۔ جس چیز کو غلبہ ملتا ہے وہ قسمت سے ملتا ہے۔ اس معاملے میں انصاف تو یہی ہے کہ جن تصرفات کو فارسی اور عربی زبانوں نے قبول کیا اردو کو بھی کر لینا چاہئے۔ کب تک لڑینگے؟ کب تک سمجھائینگے؟ آگے جا کر ہونا تو وہی ہے جو ہم نہیں چاہتے۔ تو تبصرہ بے سود۔​
اردو محفل :پاکستان کے تناظر میں بات کی جائے پورے ملک بالخصوص دبستانِ لاہور سے پنجاب بھر میں رمزیات سے قطعِ نظر اسالیبِ غزل میں مذہبی علامتوں تشبیہات کا دخول نظر آتا ہے ۔۔ کیا ایسا کرنا درست ہے ؟ دیکھا جائے تو غزل میں حمد و نعت، سلام، مناقب کے اشعار کا رجحان تیزی سے ترتیب پا رہا ہے کیا ایسا کرنے سے خود غزل اور دیگر اصناف کی حیثیت مجروح نہیں ہوتی ؟
جواب: غزل کو فی زمانہ کسی خاص موضوع کا پابند تو کیا جا نہیں سکتا۔​
جدید غزل کیا ہے یہ میں اور آپ اچھی طرح جانتے ہی ہیں۔ جب وعظ و نصیحت ، سیاست، حتی کہ بیہودگی، اور بے حیائی کو غزل کا حصہ بناتے ہوئے کوئی عار محسوس نہیں ہوتی تو ایک آدھ حمدیہ یا نعتیہ شعر یا کوئی ایک آدھ مذہبی علامت کا دخول ہونا میں نہیں سمجھتا غلط ہے۔ غزل از خود اب وہ غزل نہیں رہی جو کبھی تھی۔ تو ہمیں بھی وقت کے ساتھ ان چند ایک تصرفات کو قبول کر لینا چاہئے ۔​
 
اردو محفل :محدود مشاہدے کے مطابق ۰۸ کی دہائی کی نسل اور نسل ِ نوکے ہاں عام طور پر اسے تصوف کی شاعری پر محمول کیا اور جتایا جاتا ہے اسالیبِ شعری میں تصوف اور عرفیت کا غلغلہ چہ معنی دارد ؟
جواب: غزل کے موضوعات کیا ہیں؟ عشق، وصلت، فرقت اور محبوب۔ یہی تین چار چیزیں ہیں جن کا کلیدی کردار ہمیشہ سے غزل میں رہا ہے۔ اب تصوف کیا ہے؟ عشق ہی تو ہے ۔ پھر ایک اور بات سمجھنے کی یہ ہے کہ تصوف کے بالمقابل اگر دیکھا جائے تو فارسی اور اردو ادب میں مجاز کی کیا حیثیت ہے؟ میرے نزدیک مجاز کی حیثیت دس فیصد بھی نہیں۔ بلکہ تصوف سے ہٹ کر بھی مضامین میں اہل فن آئمہ کہتے ہیں کہ محبوب کو راز رکھو۔ ورنہ بتاؤ کہ یہ دوپٹہ، چوڑی، کنگن اور مہندی کا غلغلہ شاعری میں کب اٹھا؟ کیا ان سب کا وجود ۱۹۳۰ ء تک کی اردو غزل کی تاریخ میں بھی تھا؟ غزل میں محبوب تو تھا ہی۔ مگر تصوف نے اسے اس مقام تک پہنچایا جہاں یہ نہ پہنچ سکتا تھا۔​
 
اردو محفل :کیا مجازکی راہ سے گزرے بغیریہ نعرہ درست ہے؟ کیا محض تراکیب وضع کرنے اور مضمون باندھنے سے تصوف در آتا ہے ؟ اور کیا ایسا ہونا لاشعوری طور پر زمیں سےرشتہ توڑنے کا اشاریہ نہیں ؟
جواب: ”مجاز کی راہ سے گزرنا“ یہ جملہ بھی اب رسمی ہو گیا ہے۔ پہلی تو بات یہ ہے کہ تصوف تک پہنچنے کے لئے مجاز کا سہارا یا اس کی قید کوئی شرط نہیں۔

محض تراکیب وضع کرنے کے حوالے سے میں یہ بات کہونگا کہ بھئی شعر کو روح کا خلجان ہی سمجھ لینا اور اس قید کو عائد کردینا بھی درست نہیں ہے میرے نزدیک۔ اتنے غزل گو گزرے ہیں۔ اتنے خیالات رکھنے والے گزرے ہیں۔ اتنے مضامین باندھے گئے ہیں۔ لیکن یہ کب ثابت کیا جا سکتا ہے کہ ہر وہ شاعر جس نے ہجر پر لکھا اس نے ہجر کا ”درد“ اصل میں جھیلا ہوگا؟ جس نے عاشقی پر لکھا اس نے عشق کیا ہوگا؟ شاعری کو روح کے خلجان سے نکل کر فنی سطح پر کھڑے ہو کر دیکھیں تو بہت سی راہیں کھل جائینگی۔ بیشک تراکیب وضع کرنے سے تصوف در نہیں آتا لیکن اس سے شاعری کی فنی سطح کو فرق بھی نہیں پڑتا ۔ چناچہ خدائے سخن کہتے ہیں :​
یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالبؔ​
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا​
اب بتاؤ کہ غالب ؔ جیسا شاعر تصوف جیسے مضامین کو موزوں کرے تو اس کا تعلق فن سے ہے یا غالب صوفی؟​
تو بات یہ ہے کہ یہ بات ضروری نہیں کہ اگر کسی شاعر نے کوئی مضمون موزوں کر دیا ہے تو وہ اس مرحلے سے گزرا بھی ہوگا۔ شاعر تو شعور کی اس سطح پر مضمون نگاری کرتا ہے جہاں عوام نہیں پہنچتے۔ اس لئے محاکات اور تخیل کو پابند کرنا مشکل کام ہے۔​
 
اردو محفل :تقسیمِ ہند کے بعداردو ادب میں مختلف تحاریک کا ورود ہوا،اس سے کلاسیکیت کے نام بوسیدگی کو ادب گرداننے جیسے نظریات کو خاصی حد تک کم کیا گیا۔ مگر بعد ازاں اخلاق، سماج ،ثقافت اور روایت سے باغی میلانات نرسل کی طرح اگنے لگے اور بے سروپا تخلیقات انبار لگ گئے ۔۔کیا آپ سمجھتے ہیں کہ موجود دور میں ادب کومزیدکسی تحریک کی ضرورت ہے ۔۔ ؟؟
جواب: میرا ذاتی نظریہ یہ ہے کہ ادب کو کسی تحریک سے زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسکول کالج اور یونیورسٹی کے ماسٹر صاحبان اور ادبی حلقے وغیرہ نئے شاگردان کی رہنمائی درست سمت میں کریں۔ ہماری رسمی تعلیم کے نظام سے ادب نکل گیا ہے۔ ماسٹر اردو یا پی ایچ ڈی اردو کئے ہوئے اکثر حضرات و خواتین صرف وقت گزاری کے لئے آج کل ڈگریاں حاصل کر تو لیتے ہیں مگر بعد میں اس سے حاصل کیا آتا ہے؟ ایسے کئی نمونے میرے خاندان اور ارد گرد میں دیکھ بھی چکا ہوں اور سب ہی دیکھتے ہیں۔ اور ماسٹر کرنے کے بعد کل حاصل یہ ہوتا ہے کہ دیوان غالب کے اشعار کی تشریح کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آتا۔

اگر کسی منظم اور خاص تحریک کی جگہ رسمی تعلیم ہی درست ہو جائے تو بہت تبدیلی ممکن ہے۔​
اردو محفل :نئے لکھنے والوں کے لیے فرمائیے کہ انہیں کیا کرنا چاہیے اور کن باتوں سے اجتناب کرنا چاہیے ؟؟


جواب: زبان کو اپنی زبان سمجھ کر سیکھیں۔ بہت زیادہ نہیں تو اتنا سیکھ لیں کہ خود ہی اپنی اصلاح کے قابل ہوجائیں۔ ادب کی کتابوں میں ایسی کتابوں کی بھی بھرمار ہے جن سے زبان و بیان ، معائب و محاسن سخن کی بہت سی باتیں اور بہت سے اصول ایسے جن کو صرف مطالعے سے دماغ میں کشادگی پیدا ہو جاتی ہے۔ ان سب کے باوجود یہ بات ضروری ہے کہ اصلاح کے لئے کوئی ”ایک“ استاد چن لیں (خود ساختہ استاد نہیں) اسی سے اپنی تمام پریشانیاں، دشواریاں اور ایسے سبھی معاملات میں اسی سے مشورۂ سخن کریں۔ ساتھ ہی اپنے شاہکار کو مختلف موقعوں پر پرکھا جانے کا موقع دیجئے۔ اس سے اگلی مرتبہ درست تر لکھنا ممکن ہوجاتا ہے۔ ہم عصر شعرا کا مطالعہ کریں کہ زمانے کے ساتھ ہی آپ نے بھی چلنا ہے۔ انداز اپنا ہی رکھیں مگر ہم عصروں کے مطالعے سے مضامین، اور روز بروز بڑھتی ہوئی جدتوں کا اندازہ رہتا ہے۔​
آخری بات یہ کہ بدعت سے پرہیز کریں جدت کو اختیار کریں۔ کیونکہ بدعت ہر جگہ نا جائز ہے اور جدت ہر جگہ جائز ہے۔ ادب بہت وسیع میدان ہے اس میں ایسی بہت سی چیزیں بہت سی اجازتیں ہیں جنہیں ہم نہیں جانتے یہ ہماری خرابی ہے ہماری کم علمی ہے۔ اور اسی کم علمی کی وجہ سے ایسی بدعتیں اختیار کرتے ہیں جو ادب میں موجود ہی نہیں جبکہ متبادل آسان ہوتا۔​
بہت آداب۔​
 

منیر انور

محفلین
آئے بھی وہ گئے بھی وہ، ختم فسانہ ہوگیا​
گفتگو تو ختم ہوگئی ، منیر انور صاحب اس زمرے میں آندھی اور طوفان کی طرح آئے اور اپنی خوبصورت باتوں سے ہمارے دل موہ لیے، لیکن تشنگی رہ گئی۔ ہم العطش العطش پکارتے رہ گئے۔ منیر انور بھائی سے درخواست ہے کہ اپنے شعری مجموعے ’’روپ کا کندن‘‘ کا پیش لفظ اردو محفل کے ان زمروں میں شیئر کریں۔ امید ہے ہماری اس درخواست پر ہمدردی کے ساتھ غور ہوگا۔​
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم محمد خلیل الرحمٰن کے حکم کی تعمیل میں " روپ کا کندن " کا پیش لفظ احباب کی خدمت میں پیش ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پیش لفظ

میں نے شعر کب کہنا شروع کیا ۔۔ معلوم نہیں ۔۔ شعری ذوق کب اور کیسے مجھ میں جڑیں پکڑ گیا ۔۔ یہ بھی علم نہیں ۔۔ میں شعر کیوں کہتا ہوں ۔۔ اس پر بھی کبھی غور نہیں کیا ۔۔ شعر بس ہو جاتے ہیں مجھ سے ۔۔ کہیں بہت گہرائی میں کوئی ہلچل ، کوئی تحریک اپنا ظہور شعر کی صورت کرتی ہے ۔۔۔موزونیت طبع پرور دگار کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک ہے جو اس نے مجھے عطا کر رکھی ہیں ۔۔ اور اس کا شکر ، اس کی باتیں بیان کرنا بندے کی قدرت سے باہر ہے ۔۔
محبت مجھے ورثے میں ملی ہے ۔ مجھے نہیں یاد کہ میرے باپ نے کبھی کسی سے نفرت کی ہو ۔ وہ ایک نفیس ، برد بار اور دوسروں کی مجبوریوں کو سمجھنے والے اعلیٰ ظرف انسان تھے ۔۔ میری ماں کو اگر کچھ ناپسند تھا تو صرف جھوٹ ۔۔
میں اپنے ماحول اور اپنے رشتوں سے خوشیاں کشید کرنے کا قائل ہوں ۔ ناگوار روّیے اور تکلیف دہ لہجے یاد رکھنے کی چیزیں ہیں ہی نہیں ۔۔ کسی سے کوئی مسرت حاصل ہوئی تو میں نے اسے یاد رکھا ، اوڑھا ، برتا ، لوٹایا اور تقسیم کیا ۔۔ کوئی دکھ ملا تو میرے اندر کہیں موجود خود کار نظام نے اسے میرے خون میں تحلیل کر دیا ۔۔ مسرت کی دمک ، خون کے ساتھ رگوں میں گردش کرتے ان کہے دکھوں کی مسلسل اور تیز آنچ ہمارا روپ نکھارتی ہے ، کندن کر دیتی ہے۔۔ لفظ اور لہجے میرے محسوسات میں ہیجانی تبدیلیوں کا موجب بنتے ہیں ۔۔ میں نے جو سوچا ، جو سمجھا ، جیسے محسوس کیا ، لکھ دیا۔
کچھ ایسی محبتیں ہیں جن کے بغیر اس کتاب کا شائع ہونا ممکن نہیں تھا۔۔ میں ان پر خلوص چاہتوں اور حوصلہ افزایوں کے لئے شکریہ نہیں کہوں گا کہ یہ مجھے بہت چھوٹا لفظ لگتا ہے ۔۔۔
ایک منظر میں کبھی فراموش نہیں کر سکا ۔۔ میں گھر کے لان میں کچھ کام کر رہا ہوں ۔۔ ایک معصوم سی چڑیا کی چہکار بلند ہوتی ہے ۔۔
” پاپا آپ تھک گئے ہوں گے ، میں آپ کو کہانی سناتی ہوں “
” روپ کا کندن “ اسی محبت ، اسی معصومیت ، اسی چہکار ، سمن منیر کے نام کرتا ہوں جو کہانیاں بُنتی ہوئی ایک حادثے میں خودکہانی بن گئی ۔۔۔

منیر انور
لیاقت پور ۔۔ 2013 - 01 - 10
فون: 7471917 0333
muniranwar117@yahoo.com
 
Top